ولادت زہراؑ کے اسرار

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



نبی اکرمؐ کی عادت یہ تھی کہ افطار کے وقت گھر کا دروازہ کھول دیتے تھے تاکہ جو چاہے ان کے ساتھ کھانا کھائے۔ مگر اس رات امیر المومنینؑ کو حکم دیا کہ دروازہ بند کر دیں کیونکہ وہ خاص کھانا آنحضرتؐ کے غیر پر حرام تھا۔


آسمانی کھانے کا نزول

[ترمیم]

جبرئیل نے طبق سے کپڑا ہٹایا۔ کھجور کی شاخ اور انگور کا خوشہ ظاہر ہوا۔ پیغمبر نے اس سے تناول کیا اور پانی بھی نوش فرمایا۔ پھر ہاتھ دھونے کیلئے آگے بڑھائے اور جبرئیل نے ہاتھ پر پانی ڈالا جبکہ بچا ہوا کھانا ظرف سمیت آسمان کی طرف چلا گیا۔
پھر جبرئیل نے رسول اکرمؐ سے عرض کیا کہ اب خدیجہؑ کے حجرے میں تشریف لے جائیں؛ کیونکہ اللہ کی مشیت یہ ہے کہ آپؐ کے صلب سے پاک و پاکیزہ اولاد کو خلق کرے ۔۔۔ ۔
اس خاص اہتمام کے بعد خدیجہؑ کو فاطمہؑ کا حمل ٹھہرا۔
[۱] بحار الانوار، ج ۶، طبع کمپانی، ص۱۰۱۹، باب التزویج من خدیجۃؑ ۔


← خاص اہتمام کے اسرار


اس امر ربوبی کے اسرار میں سے ایک یہ ہے کہ خدائے متعال نے زہرائے اطہر کی قداست کا امر و ارادہ فرمایا ۔ رسول اکرمؐ خود ہر عیب سے پاک و پاکیزہ ہیں؛ مگر خدا نے چاہا کہ حضرتؐ کے تجرد کو آخری حد تک پہنچا دے تاکہ وہ بطور کلی عالم ملک کی حیثیتوں سے منقطع ہو جائیں اور ذات کبریائی کے انوار میں محو ہو جائیں پھر وہ نور زہراؑ آنحضرت کے ’’مشکاۃ‘‘ میں ضو فشاں ہو۔
اس تجرد و قداست کا مرحلہ گزرنے بعد خدا کا امرِ مطاع آن پہنچا کہ فاطمہؑ کا نطفہ کریمہ جو بظاہر بہشتی میوے سے تشکیل پایا تھا، اس جہان میں منعقد ہو جائے۔
یہ عنایت مخصوص ہے زہرائے مرضیہ اور کائنات کی خواتین کی سردار کیلئے۔

امام صادقؑ کی حدیث

[ترمیم]

امام صادقؑ سے ایک حدیث منقول ہے کہ رسول خداؐ ماہ شعبان میں بنی ہاشم کی ایک جماعت کے ساتھ ابطح (بظاہر مکہ) میں تشریف فرما تھے کہ جبرئیل امین اترے اور کہا: خدا آپ کو سلام پہنچاتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ چالیس دن خدیجہؑ سے دوری اختیار کریں۔
پس رسول اکرمؐ نے عمار کو خدیجہ کے پاس بھیجا تاکہ خدا کے حکم سے انہیں مطلع کریں اور انہیں بتائیں کہ اس امر سے ان کا دل بوجھل نہ ہو اور یہ جان لیں کہ خدا ان کے وجود پر اپنے مقرب ملائکہ میں مباہات کرتا ہے۔
پیغمبرؐ اس دوران (امیر المومنینؑ کی والدہ) فاطمہ بنت اسد کے گھر رہے، (دن کو روزہ داری اور رات کو عبادت میں بسر کرتے) پھر جبرئیل و میکائیل ایک ڈھکا ہوا طبق لے کر نازل ہوئے۔ جبرئیل نے عرض کیا کہ حضورؐ اس طعام سے افطار کریں۔
رسول خداؐ کی باقی اولاد کی ولادت سے قبل ایسے اہتمام کی مثال نہیں ملتی۔ لہٰذا یہ فاطمہ اطہرؑ کی اعلیٰ طہارت ، پاکیزگی اور فضیلت کی دلیل ہے۔

طلوع نور

[ترمیم]

شیخ صدوقؒ کتاب امالی میں اپنی سند کے ساتھ امام صادقؑ سے نقل کرتے ہیں کہ فرمایا:
إِنَّ خَدِيجَةَ لَمَّا تَزَوَّجَ بِهَا رَسُولُ اَللَّهِ هَجَرَتْهَا نِسْوَةُ مَكَّةَ فَكُنَّ لاَ يَدْخُلْنَ عَلَيْهَا وَ لاَ يُسَلِّمْنَ عَلَيْهَا وَ لاَ يَتْرُكْنَ اِمْرَأَةً تَدْخُلُ عَلَيْهَا فَاسْتَوْحَشَتْ خَدِيجَةُ لِذَلِكَ وَ كَانَ جَزَعُهَا وَ غَمُّهَا حَذَراً عَلَيْهِ.
فَلَمَّا حَمَلَتْ بِفَاطِمَةَ كَانَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلاَمُ تُحَدِّثُهَا مِنْ بَطْنِهَا وَ تُصَبِّرُهَا وَ كَانَتْ تَكْتُمُ ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ فَدَخَلَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ يَوْماً فَسَمِعَ خَدِيجَةُ تُحَدِّثُ فَاطِمَةَ فَقَالَ لَهَا يَا خَدِيجَةُ مَنْ تُحَدِّثِينَ.
قَالَتِ اَلْجَنِينَ اَلَّذِي فِي بَطْنِي يُحَدِّثُنِي وَ يُؤْنِسُنِي.
فَقَالَ لَھَا: يَا خَدِيجَةُ هَذَا جَبْرَئِيلُ يُخْبِرُنِي أَنَّهَا أُنْثَى وَ أَنَّهَا اَلنَّسْلَةُ اَلطَّاهِرَةُ اَلْمَيْمُونَةُ وَ أَنَّ اَللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى سَيَجْعَلُ نَسْلِي مِنْهَا وَ سَيَجْعَلُ مِنْ نَسْلِهَا أَئِمَّةً وَ يَجْعَلُهُمْ خُلَفَاءَهُ فِي أَرْضِهِ بَعْدَ اِنْقِضَاءِ وَحْيِهِ.
فَلَمْ تَزَلْ خَدِيجَةُ عَلَى ذَلِكَ إِلَى أَنْ حَضَرَتْ وِلاَدَتُهَا فَوَجَّهَتْ إِلَى نِسَاءِ قُرَيْشٍ وَ بَنِي هَاشِمٍ أَنْ تَعَالَيْنَ لِتَلِينَ مِنِّي مَا تَلِي اَلنِّسَاءُ مِنَ اَلنِّسَاءِ فَأَرْسَلْنَ إِلَيْهَا أَنْتِ عَصَيْتِنَا وَ لَمْ تَقْبَلِي قَوْلَنَا وَ تَزَوَّجْتِ مُحَمَّداً يَتِيمَ أَبِي طَالِبٍ فَقِيراً لاَ مَالَ لَهُ فَلَسْنَا نَجِيءُ وَ لاَ نَلِي مِنْ أَمْرِكِ شَيْئاً.
فَاغْتَمَّتْ خَدِيجَةُ عَلَيْهَا اَلسَّلاَمُ لِذَلِكَ فَبَيْنَا هِيَ كَذَلِكَ إِذْ دَخَلَ عَلَيْهَا أَرْبَعُ نِسْوَةٍ سُمْرٍ طِوَالٍ كَأَنَّهُنَّ مِنْ نِسَاءِ بَنِي هَاشِمٍ فَفَزِعَتْ مِنْهُنَّ لَمَّا رَأَتْهُنَّ فَقَالَتْ إِحْدَاهُنَّ لاَ تَحْزَنِي يَا خَدِيجَةُ فَأَرْسَلَنَا رَبُّكِ إِلَيْكِ وَ نَحْنُ أَخَوَاتُكِ أَنَا سَارَةُ وَ هَذِهِ آسِيَةُ بِنْتُ مُزَاحِمٍ وَ هِيَ رَفِيقَتُكِ فِي اَلْجَنَّةِ وَ هَذِهِ مَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَ هَذِهِ كُلْثُومُ أُخْتُ مُوسَى بْنِ عِمْرَانَ بَعَثَنَا اَللَّهُ إِلَيْكِ لِنَلِيَ مِنْكِ مَا تَلِي اَلنِّسَاءُ فَجَلَسَتْ وَاحِدَةٌ عَنْ يَمِينِهَا وَ أُخْرَى عَنْ يَسَارِهَا وَ اَلثَّالِثَةُ بَيْنَ يَدَيْهَا وَ اَلرَّابِعَةُ مِنْ خَلْفِهَا فَوَضَعَتْ فَاطِمَةَ طَاهِرَةً مُطَهَّرَةً.
فَلَمَّا سَقَطَتْ إِلَى اَلْأَرْضِ أَشْرَقَ مِنْهَا اَلنُّورُ حَتَّى دَخَلَ بُيُوتَاتِ مَكَّةَ وَ لَمْ يَبْقَ فِي شَرْقِ اَلْأَرْضِ وَ لاَ غَرْبِهَا مَوْضِعٌ إِلاَّ أَشْرَقَ فِيهِ ذَلِكَ اَلنُّورُ وَ دَخَلَ عَشْرٌ مِنَ اَلْحُورِ اَلْعِينِ كُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ مَعَهَا طَسْتٌ مِنَ اَلْجَنَّةِ وَ إِبْرِيقٌ مِنَ اَلْجَنَّةِ وَ فِي اَلْإِبْرِيقِ مَاءٌ مِنَ اَلْكَوْثَرِ فَتَنَاوَلَتْهَا اَلْمَرْأَةُ اَلَّتِي كَانَتْ بَيْنَ يَدَيْهَا فَغَسَلَتْهَا بِمَاءِ اَلْكَوْثَرِ وَ أَخْرَجَتْ خِرْقَتَيْنِ بَيْضَاوَيْنِ أَشَدَّ بَيَاضاً مِنَ اَللَّبَنِ وَ أَطْيَبَ رِيحاً مِنَ اَلْمِسْكِ وَ اَلْعَنْبَرِ فَلَفَّتْهَا بِوَاحِدَةٍ وَ قَنَّعَتْهَا بِالثَّانِيَةِ ثُمَّ اِسْتَنْطَقَتْهَا فَنَطَقَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلاَمُ بِالشَّهَادَتَيْنِ وَ قَالَتْ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اَللَّهُ وَ أَنَّ أَبِي رَسُولُ اَللَّهِ سَيِّدُ اَلْأَنْبِيَاءِ وَ أَنَّ بَعْلِي سَيِّدُ اَلْأَوْصِيَاءِ - وَ وُلْدِي سَادَةُ اَلْأَسْبَاطِ ثُمَّ سَلَّمَتْ عَلَيْهِنَّ وَ سَمَّتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ بِاسْمِهَا وَ أَقْبَلْنَ يَضْحَكْنَ إِلَيْهَا وَ تَبَاشَرَتِ اَلْحُورُ اَلْعِينُ وَ بَشَّرَ أَهْلُ اَلسَّمَاءِ بَعْضُهُمْ بَعْضاً بِوِلاَدَةِ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ وَ حَدَثَ فِي اَلسَّمَاءِ نُورٌ زَاهِرٌ لَمْ تَرَهُ اَلْمَلاَئِكَةُ قَبْلَ ذَلِكَ.
وَ قَالَتِ اَلنِّسْوَةُ خُذِيهَا يَا خَدِيجَةُ طَاهِرَةً مُطَهَّرَةً زَكِيَّةً مَيْمُونَةً بُورِكَ فِيهَا وَ فِي نَسْلِهَا فَتَنَاوَلَتْهَا فَرِحَةً مُسْتَبْشِرَةً وَ أَلْقَمَتْهَا ثَدْيَهَا فَدَرَّ عَلَيْهَا فَكَانَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلاَمُ تَنْمِي فِي اَلْيَوْمِ كَمَا يَنْمِي اَلصَّبِيُّ فِي اَلشَّهْرِ وَ تَنْمِي فِي اَلشَّهْرِ كَمَا يَنْمِي اَلصَّبِيُّ فِي اَلسَّنَةِ
[۲] امالی شیخ صدوق، ص ۳۵۳؛ دلائل الامامہ، ص۹؛ روضۃ الواعظین، ص۱۲۴؛ بحار الانوار، ج ۴۳،ص۲ و۳؛ مدینۃ المعاجز، ص۱۳۵۔
.
جب حضرت خدیجہؑ نے حضورؐ سے عقد کیا تو زنان مکہ نے (از راہِ حسد و عناد) ان سے کنارہ کشی کر لی تھی۔ وہ حضرت خدیجہؑ کے گھر نہیں جاتی تھیں، انہیں سلام نہیں کرتی تھیں اور کسی دوسری عورت کو بھی حضرت خدیجہؑ سے ملاقات نہ کرنے دیتی تھیں۔ حضرت خدیجہؑ ان کے اس رویے سے پریشان رہتی تھیں اور انہیں ہر وقت رسول خداؐ کی فکر ستائے رہتی تھی کہ لوگ انہیں کہیں گزند نہ پہنچائیں۔ جب حضرت فاطمہؑ نے رحم مادر میں قرار پکڑا تو آپ رحم میں ہونے کے باوجود اپنی والدہ سے باتیں کرتی تھیں اور انہیں تسلی دیا کرتی تھیں۔ خدیجہؑ اس بات کو پیغمبرؐ سے مخفی رکھتی تھیں کہ ایک دن رسول خداؐ گھر میں داخل ہوئے تو آپؐ نے سنا کہ خدیجہ، فاطمہ سے محو گفتگو تھیں۔ رسول خداؐ نے فرمایا کہ تم کس سے باتیں کر رہی تھیں؟! خدیجہ نے عرض کیا کہ جو بچہ میرے رحم میں ہے وہ مجھ سے باتیں کرتا ہے اور وہ میرا مونس ہے۔
پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا کہ یہ جبرئیل ہے اور وہ مجھے خبر دے رہا ہے کہ تمہارے رحم میں بیٹا نہیں، بیٹی ہے اور بڑی بابرکت ہے۔ عنقریب خداوند عالم میری نسل اسی سے بڑھائے گا، اس کی نسل سے امام پیدا ہوں گے اور وحی کا دروازہ بند ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ انہیں خلفاء اور میرے جانشین قرار دے گا۔
حضرت خدیجہؑ اسی طرح ایام حمل بسر کرتی رہیں یہاں تک کہ حضرت فاطمہؑ کی ولادت باسعادت کا وقت نزدیک آ گیا۔ حضرت خدیجہؑ نے زنان قریش و زنان بنی ہاشم کی طرف پیغام بھیجا کہ آپ آئیں اور وضع حمل کیلئے میری مدد کریں جیسا کہ عورتیں ان لمحات میں ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں۔
اس کے جواب میں قریش اور بنی ہاشم کی عورتوں نے پیغام بھیجا کہ تم نے ہماری بات نہیں مانی تھی اور ہماری بات کو ٹھکرا کر ابوطالب کے یتیم بھتیجے محمدؐ سے شادی کر لی تھی جو کہ غریب شخص تھا۔ (ہمیں اس بات کا دکھ ہے) اسی لیے ہم تمہارے پاس آنے اور تمہاری مدد کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔
زنان قریش کا یہ جواب سن کر خدیجہ بہت غمگین ہوئیں کہ اسی اثنا میں اچانک دیکھا کہ چار خواتین ان کے گھر میں داخل ہوئیں جن کی رنگت گندمی تھی اور بنی ہاشم کی عورتوں جیسی دکھائی دے رہی تھیں۔ ان عورتوں کو دیکھ کر خدیجہ گھبرائیں تو ان میں سے ایک خاتون نے کہا: خدیجہ پریشان نہ ہو۔ ہم خدا کی طرف سے تمہارے پاس آئی ہیں اور ہم تمہاری بہنیں ہیں۔ میں سارہ (زوجہ ابراہیم خلیل) ہوں اور یہ آسیہ بنت مزاحم ہیں جو کہ جنت میں تمہاری ہم نشین ہوں گی اور ایک مریم بنت عمران ہیں اور ایک حضرت موسیٰ کی بہن کلثوم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں تمہارے پاس بھیجا ہے تاکہ وضع حمل کیلئے ہم تمہاری مدد کریں۔ پھر ان میں سے ایک خاتون خدیجہ کے دائیں طرف بیٹھ گئیں، دوسری ان کے بائیں طرف، تیسری سامنے اور چوتھی پشت کی طرف سے بیٹھ گئیں۔ پھر حضرت فاطمہؑ پاک و پاکیزہ صورت میں پیدا ہوئیں۔
جیسے ہی آپؑ کا قدم مبارک زمین پر آیا تو آپؑ کے وجود سے عظیم الشان نور ظاہر ہوا جس سے مکہ کے تمام گھر چمک اٹھے اور مشرق و مغرب میں کوئی جگہ ایسی نہ تھی کہ جہاں ان کا نور نہ چمکا ہو۔ اس موقع پر جنت سے دس حوریں آئیں کہ ہر حور کے ہاتھ میں جنت کا ایک طشت اور آب کوثر سے بھرا ہوا آفتابہ تھا۔ جو خاتون حضرت خدیجہؑ کے سامنے بیٹھی تھیں انہوں نے حضرت فاطمہؑ کو اٹھایا اور آب کوثر سے انہیں غسل دیا اور پھر دو سفید کپڑے نکالے جو کہ دودھ سے زیادہ سفید اور مشک و عنبر سے زیادہ خوشبودار تھے۔ ایک کپڑا حضرت فاطمہؑ کے جسم پر لپیٹ دیا اور دوسرے کپڑے کو آپؑ کا مقنعہ اور دوپٹہ بنایا۔ پھر فاطمہؑ سے بات کرنے کا تقاضا کیا۔ حضرت فاطمہؑ نے زبان کو جنبش دی اور خدا کی توحید اور رسالت کی گواہی دیتے ہوئے کہا: أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اَللَّهُ وَ أَنَّ أَبِي رَسُولُ اَللَّهِ سَيِّدُ اَلْأَنْبِيَاءِ وَ أَنَّ بَعْلِي سَيِّدُ اَلْأَوْصِيَاءِ - وَ وُلْدِي سَادَةُ اَلْأَسْبَاطِ.
میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، میرے والد رسول خداؐ تمام انبیاء کے سردار ہیں، میرے شوہر تمام اوصیاء کے سردار ہیں اور میری اولاد تمام اولاد انبیاء کی سردار ہے۔ پھر انہوں نے ان چاروں خواتین کو نام بنام سلام کیا اور ان خواتین نے بھی خوشی خوشی سلام کا جواب دیا۔ بی بی کی ولادت پر جو نور ظاہر ہوا، حوران اہل جنت اور اہل آسمان نے اس سے قبل ایسا نور کبھی نہیں دیکھا تھا۔
ان خواتین نے حضرت خدیجہ سے کہا: اپنی پاک و پاکیزہ اور بابرکت نسل کی والدہ کو اب تم اپنی گود میں لو۔ حضرت خدیجہ نے بڑی خوشی سے اپنی بیٹی کو آغوش میں لیا اور انہیں اپنے سینے سے لگا کر سیراب کرنا شروع کر دیا۔ فاطمہؑ ایک دن میں ایک ماہ کے برابر اور ایک ماہ میں ایک سال کے برابر نشوونما پاتی رہیں۔

یوم ولادت

[ترمیم]

حضرت زہراؑ کی ولادت بیس جمادی الثانی
[۳] مسار الشیعہ، شیخ مفید؛ دلائل الامامۃ، ابن جریر طبری (شیعی) ص۱۰؛ مصباح المتھجد، شیخ طوسی، ص۵۵۴، طبع ھند؛ مناقب ابن شہر آشوب، ج۲، ص۱۱۲؛ مصباح کفعمی، ص۲۷۰، طبع ھند؛ اقبال، سید بن طاؤس؛ مجلد مزار بحار الانوار، ص۲۹؛ تقویم المحسنین، فیض کاشانی۔
بعثت کے پانچویں سال
[۴] اکثر علمائے امامیہ کی رائے یہی ہے، منجملہ شیخ مفید، مسار الشیعہ میں؛ شیخ کلینی، اصول کافی میں بحوالہ مرآۃ العقول (شرح اصول کافی تالیف علامہ مجلسی) ج ۱ص۳۸۱؛ ابن شھر آشوب مناقب میں، ج۲، ص۱۱۲؛ ابن جریر دلائل الامامۃ میں ص۱۰؛ طبرسی، اعلام الوریٰ میں، ص۹۰؛ ابن فتال روضۃ الواعظین، ص۱۲۴ میں، اربلی کشف الغمہ، ص۱۳۵؛ تاہم شیخ طوسیؒ کی مصباح المتھجد اور فیض کی تقویم المحسنین میں حضرت فاطمہ علیھا السلام کی ولادت بعثت کے دوسرے سال اور مستدرک حاکم میں پہلے سال میں بیان ہوئی ہے۔
رسول اکرمؐ کی معراج کے تین سال بعد ہوئی ہے
[۵] روضۃ الواعظین۱۲۴؛ مناقب ابن شھر آشوب، ج۲، ص۱۱۲۔
۔
اس مبارک دن لطفِ الہٰی کے سرمدی انوار عالم وجود پر جلوہ گر ہوئے اور مکہ اس ملکوتی نور کی ضوفشانی کیلئے شائستہ ہو گیا تاکہ یہ ضو افشانی کفر، شرک اور جاہلیت کی پلیدی کو زائل کر دے اور خرافاتی رسوم و رواج کی بساط لپیٹ دے۔

ولادت کی برکات

[ترمیم]

آفتاب رسالت کی وسعتوں میں قمرِ امامت جلوہ گر ہوا، بے نظیر جواہر کی کان آشکار ہوئی۔ خالق متعال کے روشن و تاباں نور نے انسانوں پر لطف و رحمت کے انوار کو سایہ فگن کر دیا۔ فردوس کی خوشبو زمین سے اہل آسمان کے مشام تک پہنچی۔ احقاق حق اور ابطال باطل کرنے والی ذات نے دنیا میں قدم رکھا۔ واجب الوجود اور عالم امکان کے مابین رابط کا رشتہ ظاہر ہوا۔ فیضِ فیّاض، فسانہ طہارت ، دریائے عصمت ، اساس جلالت اور معدنِ شرف نے روئے زمین کا رخ کیا۔ زمین پر نشانِ فضیلت نصب کر دیا گیا۔ عالم ملک مسرور ہوا اور سرائے قدس میں سراپا اشتیاق کی کیفیت طاری ہو گئی۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. بحار الانوار، ج ۶، طبع کمپانی، ص۱۰۱۹، باب التزویج من خدیجۃؑ ۔
۲. امالی شیخ صدوق، ص ۳۵۳؛ دلائل الامامہ، ص۹؛ روضۃ الواعظین، ص۱۲۴؛ بحار الانوار، ج ۴۳،ص۲ و۳؛ مدینۃ المعاجز، ص۱۳۵۔
۳. مسار الشیعہ، شیخ مفید؛ دلائل الامامۃ، ابن جریر طبری (شیعی) ص۱۰؛ مصباح المتھجد، شیخ طوسی، ص۵۵۴، طبع ھند؛ مناقب ابن شہر آشوب، ج۲، ص۱۱۲؛ مصباح کفعمی، ص۲۷۰، طبع ھند؛ اقبال، سید بن طاؤس؛ مجلد مزار بحار الانوار، ص۲۹؛ تقویم المحسنین، فیض کاشانی۔
۴. اکثر علمائے امامیہ کی رائے یہی ہے، منجملہ شیخ مفید، مسار الشیعہ میں؛ شیخ کلینی، اصول کافی میں بحوالہ مرآۃ العقول (شرح اصول کافی تالیف علامہ مجلسی) ج ۱ص۳۸۱؛ ابن شھر آشوب مناقب میں، ج۲، ص۱۱۲؛ ابن جریر دلائل الامامۃ میں ص۱۰؛ طبرسی، اعلام الوریٰ میں، ص۹۰؛ ابن فتال روضۃ الواعظین، ص۱۲۴ میں، اربلی کشف الغمہ، ص۱۳۵؛ تاہم شیخ طوسیؒ کی مصباح المتھجد اور فیض کی تقویم المحسنین میں حضرت فاطمہ علیھا السلام کی ولادت بعثت کے دوسرے سال اور مستدرک حاکم میں پہلے سال میں بیان ہوئی ہے۔
۵. روضۃ الواعظین۱۲۴؛ مناقب ابن شھر آشوب، ج۲، ص۱۱۲۔


ماخذ

[ترمیم]

ماخوذ از کتاب ’’وفاة الصدیقة الزهراء علیها السلام‘‘، عبد الرزاق المقرم، صفحہ ۱۵ تا ۱۸۔    






جعبه ابزار