پیغمبر اکرمؐ اور مزدوری
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
زمانہ جاہلیت کے مشرک عرب اور ان کے حامی نبی کریمؐ کی شخصیت کشی کیلئے طرح طرح کی گھناؤنی چالیں چلتے تھے تاکہ اس طرح آنحضرتؐ کی دعوت
توحید کا راستہ روکا جا سکے؛ چنانچہ قرآن کریم کی تصریح کے مطابق وہ آنحضرتؐ کو
ساحر مجنون،
کذاب،
سفیہ کہتے تھے۔
رسول اعظمؐ کی زندگی کے اہم ترین اور قابل توجہ نکات میں سے ایک یہ ہے کہ پیغمبرؐ کی سوانح حیات بالخصوص بعثت سے پہلے کی زندگی کے حوالے سے تاریخی منابع متضاد اور
ضعیف روایات پر مشتمل ہیں۔
سیرت نگاروں نے مختلف اوقات زندگی میں پیغمبر اکرمؐ کی جانب سے
محنت مزدوری انجام دینے کا تذکرہ کیا ہے۔ ان کے مطابق
جوانی اور
نوجوانی کے دوران اور
بعثت سے پہلے آںحضرتؐ محنت مزدوری کیا کرتے تھے اور اس کے بارے میں انہوں نے مختلف واقعات ذکر کیے ہیں جبکہ آپؐ کی بعثت کے بعد کی زندگی میں ایسی کوئی روایت نہیں ملتی؛ جس سے یہ احتمال تقویت پکڑتا ہے کہ آنحضرتؐ کے حالات زندگی میں تحریف اور جعل سازی کی گئی ہے۔
اکثر تاریخی منابع میں نبی کریمؐ کے اجیر ہونے کا موضوع دو حوالوں سے ذکر ہوا ہے۔
اول: نبی کریمؐ کا قریش کیلئے گلہ بانی کرنا۔
دوم: نبی کریمؐ کا جناب خدیجہؑ کے کاروان کیلئے اجیر ہونا۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ پیغمبرؐ کا مکہ کے اشراف کیلئے بہت کم اجرت پر گلہ بانی کرنے کا ماجرا اور جناب خدیجہؑ کے تجارتی کاروان میں اجیر ہونے کی داستان؛ دشمنوں کی جانب سے آپؐ کی شخصیت کشی اور کسر شانی کی غرض سے گھڑی گئی ہے۔
ایک بنیادی سوال جو
ذہن میں پیدا ہوتا ہے؛ یہ ہے کہ پیغمبرؐ کا اجیر ہونا، آپؐ کی شخصیت اور مقام کے ساتھ کیونکر متضاد ہے؟! موضوع کے صحیح ادراک، آپؐ کے معاشرتی مقام کی شناخت اور اس قبیل کی روایات کی تصدیق یا تکذیب کیلئے ضروری ہے کہ اس زمانے کے زمانی و مکانی حالات کو سمجھا جائے۔
[ترمیم]
ایک غلط نسبت جو
وضع و
جعل میں مشہور افراد نے رسول اکرمؐ کی طرف دی ہے، وہ آپؐ کا مشرکین مکہ کیلئے گلہ بانی کرنا ہے۔ محدثین اور تاریخ نویسوں نے ان روایات کو تسلیم کر کے یہ قاعدہ کلیہ ہی فرض کر لیا کہ جس کی بنا پر تمام پیغمبر اور رسول اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے میں گلہ بانی کریں تاکہ ان میں
رسالت کی بھاری ذمہ داری قبول کرنے کی اہلیت پیدا ہو سکے!
پیغمبر اکرمؐ کی محنت مزدوری اور گلہ بانی کی داستان اہل سنت کی حدیثی و تاریخی کتب کی متعدد
روایات میں نقل ہوئی ہیں اور یہ کچھ حد تک
شیعہ کتب میں بھی موجود ہیں۔
۱۔ بخاری نے
ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول خداؐ نے فرمایا: ما بعث الله عزوجل نبیا الا راعی غنم... ؛ خدائے عزوجل نے کسی کو پیغمبر نہیں بنایا مگر یہ کہ وہ چرواہا تھا!
۲۔ ایک اور حدیث میں ہے: ما من نبی الا قد رعاها؛ کوئی پیغمبر نہیں تھا مگر یہ کہ چرواہا!
۳۔ ایک اور
حدیث میں آیا ہے: بعث موسیٰ و هو راعی غنم و... بعثت و انا ارعی غنم اهلی باجیاد؛ موسیٰ مبعوث ہوئے اس حال میں کہ بھیڑ بکریاں چراتے تھے اور میں اس حال میں مبعوث ہوا کہ اجیاد میں اپنے خاندان کی بکریاں چراتا تھا۔
۴۔
شیخ صدوقؒ کی کتاب
علل الشرائع میں منقول ہے کہ
امام صادقؑ نے فرمایا: ما بعث الله نبیا قط حتی یسترعیه الغنم یعلمه بذلک رعیه الناس؛ خدا نے کبھی کوئی پیغمبرؐ نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہ بھیڑ بکریاں چراتا تھا تاکہ اس کے ذریعے انہیں لوگوں کی دیکھ بھال کا طریقہ سکھائے۔
[ترمیم]
ادیان اور
انبیائے الٰہی بالخصوص
اسلام کی تعلیمات کے مطابق اور تاریخ میں آئمہ معصومینؑ کی
سیرت کے پیش نظر ہم اس حقیقت تک پہنچتے ہیں کہ بشر کے ہادی،
ہدایت کے عظیم فریضے کے علاوہ کوئی نہ کوئی کام بھی کرتے تھے تاکہ اپنے
خاندان اور
معاشرے کے معاشی امور کو چلا سکیں۔
حضرت علیؑ اور آپ کی پاکیزہ اولاد کی زندگی ایسی مثالوں سے مملو و پر ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے کام اور محنت کی بہت اہمیت اور احترام ہے کہ اسے افضل ترین عبادت کہا گیا ہے؛ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: العبادة سبعون جزاً افضلها طلب الحلال»
اور اس کا ثواب
جہاد اور
دشمن سے مقابلے کے برابر؛ الکاد لعیاله کالمجاهد فی سبیلالله»
قرار دیا گیا ہے؛ چنانچہ امام صادقؑ محنت اور کام کو عزت و بزرگی کا موجب (اعذ الی عزک)
قرار دیتے ہیں۔
تاہم طرح طرح کی
اخلاقی گراوٹوں کے شکار عصر جاہلیت کے عرب زیادہ تر تجارت پیشہ تھے یا پھر
فقیر و
تنگ دست۔
مکہ شہر میں مقیم بیشتر تاجر
رباخواری میں گرفتار تھے اور اس طرح کسی مشقت کے بغیر مال و
دولت حاصل کر لیتے تھے اور کام کرنے کو اپنی شان کے منافی سمجھتے تھے۔ مگر محتاج لوگ کہ جن میں زیادہ تر صحرائی تھے؛
چوری اور کاروانوں کی لوٹ مار کر کے اپنا گزر بسر کرتے تھے؛ یا پھر اجرت کے بدلے انفرادی تجارتی کاروانوں کی حفاظت کا ذمہ لیتے تھے۔ لہٰذا وہ احترام اور اہمیت جو ہم اسلام میں
محنت اور
مزدور کیلئے دیکھتے ہیں؛ وہ
جاہلی عرب کے ذہن میں نہیں تھا۔
[ترمیم]
اہل سنت کے روائی اور تاریخی منابع کے مطابق گویا اللہ تعالیٰ کے سب پیغمبروں اور رسولوں کو اپنی زندگی کا کچھ حصہ گلہ بانی میں گزارنا ہوتا ہے تاکہ رسالت کے امر خطیر کی شائستگی پیدا کر سکیں! یعنی گلہ بانی کا پیشہ، انبیاء کی رسالت کا ایک مقدمہ قرار دیا گیا ہے۔ جیسے: ما من نبی الا قد رعاها»
اور ما بعث الله عزوجل نبیا الا راعی غنم
لہٰذا پیغمبر اکرمؐ کے حوالے سے بھی اس روائی ضابطے کے تحت آنحضرتؐ کو قریش کا گلہ بان قرار دیا گیا۔ پیغمبر اکرمؐ کی گلہ بانی کی حکایت کرنے والی روایات ضعیف ہیں۔ اس کے علاوہ قابل توجہ بات یہ ہے کہ گلہ بانی ہرگز
نبوت و
رسالت اور اعلیٰ اخلاقی درجات تک پہنچنے کا مقدمہ نہیں ہے۔ اگرچہ بعض شیعہ و سنی تاریخ نگاروں نے گلہ بانی کو کسی نہ کسی طرح انسانوں کی تربیت اور
تہذیب نفس کے ساتھ مربوط کیا ہے،
تاہم اس نکتے سے غفلت نہیں برتنی چاہئیے کہ اگر
انبیاء اور بالخصوص نبی کریمؐ خلق عظیم،
صبر اور
استقامت کے مالک تھے تو یہ سب کمالات
وحی اور آسمانی
تعلیم و
تربیت کے زیر سایہ تھے اور ہرگز ان میں سے کوئی بھی کمال گلہ بانی سے مربوط نہیں تھا۔ جیسا کہ قرآنی آیات میں نبوی کمالات کا سرچشمہ
رحمت الٰہی کو قرار دیا گیا ہے نہ کہ گلہ بانی کو۔ فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُم...؛
رحمت الٰہی کی برکت سے لوگوں کیلئے نرم خو اور مہربان ہو ۔۔۔ ۔
امیر المومنینؑ نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں: اور اللہ نے دودھ بڑھائی کے دور ہی سے ان کے ساتھ ایک عظیم ترین ملک(فرشتے) کو کردیا تھا جو ان کے ساتھ بزرگیوں کے راستوں اور بہترین اخلاق کے طور طریق پر چلتا رہتا تھا اورشب و روز یہی سلسلہ رہا کرتا تھا۔
خلاصہ یہ کہ اس طرح کی روایات کو قرآن کریم اور نہج البلاغہ کے سامنے پیش کر کے یہ قطعی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کی تعلیم و تربیت اور خلق عظیم پر فائز ہونے کی بازگشت اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم اور آسمانی فرشتے کی طرف تھی نہ کہ گلہ بانی اور بھیڑ بکریوں کے ماحول کی طرف۔ دراصل اسلامی تعلیمات میں گلہ بانی کی حیثیت ایک پیشے سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور یہ کسی بھی پیغمبر کی نبوت و رسالت کے ضروری مقدمات میں سے نہیں ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]