امام جواد علیہ السلامپی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریںامام جواد، ابو جعفر محمد بن علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابیطالب علیھمالسلام، بارہ آئمہؑ میں سے نویں امام اور چہاردہ معصومینؑ میں سے ایک ہیں۔ آپؑ پہلے امامؑ ہیں جنہوں نے بچپن میں امامت کی ذمہ داری کو سنبھالا کہ جس کی وجہ سے اپنے پرائے شکوک و شبہات کا بھی شکار ہوئے؛ تاہم امامؑ کے علم لدنی کے مظاہر کو دیکھ کر شیعہ مسرور اور دشمن مایوس ہوئے۔ آپؑ نے اپنے والد گرامی حضرت امام رضاؑ کے مشن کو آگے بڑھایا اور انتہائی کٹھن اور مشکل حالات میں اسلام کے تصور سیاست کے خدوخال واضح کیے نیز وکلا کے نظام کا جال پورے عالم اسلام میں پھیلا دیا۔ درحقیقت امام جوادؑ کی جدوجہد اہل تشیع کو غیبت کبریٰ کیلئے آمادہ کرنے کے حوالے سے نہایت اہم ہے۔ آپؑ نے اہل تشیع کو یہ تربیت دی کہ کس طرح امامؑ کی غیر موجودگی میں اپنے شرعی واجبات کو ادا بھی کرنا ہے اور اپنے امامؑ سے مربوط بھی رہنا ہے۔ فہرست مندرجات۲ - القاب ۳ - فضائل ۴ - حضرتؑ کی انگشتر کا نقش ۵ - نسب ۶ - ولادت و شہادت ۷ - واقعہ شہادت ۸ - زندگی کے واقعات ۹ - سفر ۱۰ - امام جوادؑ کا ازدواج ۱۱ - امّ فضل کے زہر دینے کی وجہ ۱۲ - امامؑ کی اولاد ۱۳ - امامؑ کی اخلاقی خصوصیات ۱۴ - آپؑ کی امامت ۱۵ - امام جوادؑ کی امامت کے بارے میں شبہات کا ازالہ ۱۶ - امام محمّد تقیؑ کی امامت کے دلائل ۱۷ - امام جوادؑ کی امامت پر اختلاف کا اصل سبب ۱۸ - امامت کے قائلین کا استدلال ۱۹ - علمِ امام کے منشا و کیفیت پر استدلال ۲۰ - امام محمّد تقیؑ کی بچپن میں امامت ۲۱ - امام محمد تقیؑ کی امامت پر دلائل ۲۲ - امامؑ کی کرامات ۲۳ - امامؑ کے زمانے میں سیاسی حالات ۲۴ - وکالت کا نظام ۲۵ - امام جوادؑ سے مربوط بعض وکلا ۲۶ - وکلائے امام کی سیاسی سرگرمیاں ۲۷ - امام جوادؑ کی امامت کے آخری سالوں میں وکلا کی سرگرمیاں ۲۸ - امامؑ کا علمی مقام ۲۹ - امام جوادؑ کی روایات میں تنوّع ۳۰ - حضرتؑ سے منقول تفسیری احادیث ۳۱ - امامؑ کے مناظرات و احتجاجات ۳۲ - حضرتؑ کے اخلاقی نصائح ۳۳ - امامؑ کے راوی اور انصار ۳۴ - کچھ افراد کی مذمت ۳۵ - کچھ فرقوں کی مذمت ۳۶ - متعلقہ عناوین ۳۷ - منابع ۳۸ - حوالہ جات ۳۹ - ماخذ امام جوادؑ کی کنیت[ترمیم]اہل تشیع کے رجالی و حدیثی منابع میں حضرتؑ کی کنیت کے امام محمد باقرؑ کی کنیت ساتھ اشتراک کی وجہ سے آپؑ کو ابو جعفر ثانی کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ [۱]
مصنّفات الشّیخ المفید، ج۱۱، ص۲۷۳۔
[۴]
ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج۴، ص۳۷۹، چاپهاشم رسولی محلاتی، قم۔
[۵]
محمد بن طلحه نعیبی، مطالب السؤول فی مناقب الالرسول، ج۲، ص۱۴۰، چاپ ماجد بن احمد عطیه، بیروت۱۴۲۰۔
حضرتؑ کی خاص کنیت ابو علی ہے۔ [۸]
ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج۴، ص۳۷۹، چاپهاشم رسولی محلاتی، قم۔
[۹]
سبط ابن جوزی، تذکرهالخواص، ج۱، ص۳۲۱، بیروت۱۴۰۱/۱۹۸۱۔
القاب[ترمیم]معتبر کتب میں معروف لقب جواد [۱۰]
محمد بن احمد ذهبی، تاریخالاسلام و وفیات المشاهیر و الاعلام، ج۵، ص۴۴۷، چاپ بشارعوّاد معروف، بیروت ۱۴۲۴/ ۲۰۰۳۔
[۱۱]
ابن صباغ، الفصول المهمه فی معرفه احوال الائمه علیهمالسلام، ج۱، ص۲۶۲، بیروت۱۴۰۸/۱۹۸۸۔
[۱۲]
ابن طولون، الائمه الاثناعشر، ج۱، ص۱۰۳، چاپ صلاحالدینمنجد، بیروت ۱۳۷۷/ ۱۹۵۸۔
کے علاوہ متعدد دیگر القاب بھی حضرتؑ سے منسوب ہیں؛ منجملہ تقی، زکی، مرتضیٰ، قانع، رضی، مختار، متوکل، مرضی، متقی، منتجب، عالم ربّانی و ہادی۔ [۱۳]
منسوب به محمد بن جریر طبری آملی، قم: مؤسسه البعثه، ۱۴۱۳۔
[۱۵]
ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج۴، ص۳۷۹، چاپهاشم رسولی محلاتی، قم۔
ایک روایت [۱۶]
ابن بابویه، عیون اخبارالرضا، ج۲، ص۲۵۰، چاپ مهدیلاجوردی، قم۱۳۶۳ شمسی۔
کے مطابق امام رضاؑ نے آپؑ کو صادق، صابر، فاضل، قرۃ اعین المؤمنین اور غیظ الملحدین کے القاب سے یاد کیا ہے۔کتاب القاب الرسول و عترته کے نامعلوم مؤلف، [۱۷]
کتاب القاب الرسول و عترته، در مجموعه نفیسه فی تاریخ الائمه، ج۱، ص۲۷۲، همان محمد بن عمرکشی، اختیار معرفهالرجال، تلخیص محمد بن حسن طوسی، چاپ حسن مصطفوی، مشهد ۱۳۴۸ شمسی۔
کے نزدیک امام جوادؑ لوگوں کے مابین اہل بیتؑ کے عجائب روزگار، نادرۃ الدھر، بدیع الزمان، عیسیٰ ثانی اور ذوالکرامات کے القاب سے مشہور تھے۔فضائل[ترمیم]امام محمّدتقی دیگر آئمہ معصومینؑ کی مانند نیک خصائل اور پسندیدہ اخلاقیات میں اپنے جد رسول خداؐ کی مثل تھے۔ عبادت و زہد میں پوری طرح شہرت رکھتے تھے۔ اکثر و بشتر روزے سے رہتے اور راتوں کو عبادت و راز و نیاز میں مشغول رہتے۔ اکثر اوقات رسول گرامیؑ کی یہ حدیث آپؑ کی زبان مبارک پر ہوتی: جو شخص نماز شب ادا کرے اس کا چہرہ دن بھر زیبا و نورانی رہتا ہے۔ امام محمّد تقیؑ کی تواضع، آپؑ کی برجستہ صفت ہے۔ لوگوں کے ساتھ نہایت تواضع اور مہربانی سے پیش آتے تھے اور فرماتے تھے: تواضع زینت اور حسب و نسب کی شرافت ہے۔ [۱۹]
بحارالانوار، ج۷۷، ص۱۳۳۔
آپؑ کے جود و سخا کا تذکرہ سب لوگ کرتے تھے۔ آج بھی امامؑ کو اس صفت سے جانا جاتا ہے اور اسی وجہ سے ’’جواد الآئمہؑ‘‘ آپؑ کا مشہور لقب ہے۔ جس کو آپؑ کی ضرورت پڑتی وہ حاجت لے کر واپس آتا تھا۔ [۲۰]
بحارالانوار، ج۵۰، ص۱۰۲۔
[۲۱]
بحارالانوار، ج۵۰، ص۱۰۳۔
بنو ہاشم اور آپؑ کے معصوم اجداد کے موقوفات میں سے جو کچھ آتا، آپؑ اسے ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔حضرتؑ کی انگشتر کا نقش[ترمیم]آپؑ کی انگشتر کا نقش اپنے والد بزرگوار کی مانند «العزۃ للّه» تھا اگرچہ آپؑ کی انگوٹھی کا نقش «حسبی اللّه حافظی» اور «نِعْمَ الْقادِرُ اللّهُ» [۲۴]
ابن صباغ، الفصول المهمه فی معرفه احوال الائمه علیهمالسلام، ج۱، ص۲۶۲، بیروت۱۴۰۸/۱۹۸۸۔
بھی ذکر کیا گیا ہے۔نسب[ترمیم]امام جواد،امام رضاؑ کے اکلوتے فرزند ہیں۔ [۲۵]
کشّی، ص۵۹۶۔
آپؑ کی والدہ گرامی امام رضاؑ کی ( امّ ولد ) کنیز تھیں کہ جن کے معتبر کتب میں مختلف نام مذکور ہیں۔ شیخ مفید [۲۹]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۴۹۲۔
[۳۰]
علی بن حسین مسعودی ، اثباتالوصیه للامام علی بن ابیطالب، ج۱، ص ۲۱۶، قم۱۳۸۲ شمسی۔
نے ان کا نام سبیکہ اور ان کے وطن کا نام ’’نوبہ‘‘ لکھا ہے، بعض دیگر کتب میں سکینہ نام شاید اسی سبیکہ کی غیر صحیح قرائت و کتابت ہے۔۔ [۳۳]
ابن ابیالثلج، تاریخالائمه، ج۱، ص۲۵، در مجموعه نفیسه فی تاریخالائمه، چاپ محمود مرعشی، قم: کتابخانه آیهاللّه مرعشینجفی، ۱۴۰۶۔
[۳۴]
محمد بن طلحه نعیبی، مطالب السؤول فی مناقب الالرسول، ج۲، ص۱۴۰، چاپ ماجد بن احمد عطیه، بیروت۱۴۲۰۔
اسی طرح کہا گیا ہے کہ آپ کا نام’’دُرّه‘‘ تھا اور امام رضاؑ نے آپ کو ’’خیزران‘‘ کا نام دیا؛ [۳۶]
ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج۴، ص۳۷۹، چاپهاشم رسولی محلاتی، قم۔
[۳۷]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۴۹۲۔
[۳۸]
حسن بن موسینوبختی، فرقالشیعه، ج۱، ص۹۱، چاپ محمدصادق آلبحرالعلوم، نجف۱۳۵۵/۱۹۳۶۔
[۳۹]
سعد بن عبداللّهاشعری، کتاب المقالات و الفرق، ج۱، ص۹۹، چاپ محمدجواد مشکور، تهران۱۳۴۱شمسی۔
[۴۰]
ابن ابیالثلج، تاریخالائمه، ج۱، ص۲۵، در مجموعه نفیسه فی تاریخالائمه، چاپ محمود مرعشی، قم: کتابخانه آیهاللّه مرعشینجفی، ۱۴۰۶۔
[۴۱]
، ابن خشاب، ج۱، ص۱۹۶، تاریخ موالید الائمه و وفیاتهم، در مجموعه نفیسه فی تاریخالائمه۔
(کہ سب نے خیزران و درہ کی غلط قرائت کو نقل کیا ہے) آپ کو ام المومنین ماریہ قبطیہ کے خاندان سے بھی قرار دیا گیا ہے۔ [۴۲]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۴۹۲۔
[۴۳]
فضل بن حسنطبرسی، اعلام الوری باعلامالهدی، ج۱، ص۱۲۸، قم۱۴۱۷۔
[۴۴]
ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج۴، ص۳۷۹، چاپهاشم رسولی محلاتی، قم۔
دلائل الامامۃ میں آپ کا نام ریحانہ اور کنیت ام الحسن ذکر کی گئی ہے۔ ناموں میں تعدد کی بسا اوقات وجہ یہ ہوتی ہے کہ کنیزوں کو ان کے مالک بوجوہ مختلف اسما اور کنیات سے پکارا کرتے تھے۔ [۴۶]
حسین شاکری، الجواد محمد علیهالسلام، ج۱، ص۲۷، قم ۱۴۱۹۔
ولادت و شہادت[ترمیم]تمام معتبر کتب کے مطابق حضرتؑ کی ولادت مدینہ میں ہوئی۔ [۴۹]
فضل بن حسنطبرسی، اعلام الوری باعلامالهدی، ج۱، ص۱۲۸، قم۱۴۱۷۔
آپؑ کی ولادت کا سال ۱۹۵ ہجری ہے۔ [۵۰]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۴۹۲۔
[۵۱]
سعد بن عبداللّهاشعری، کتاب المقالات و الفرق، ج۱، ص۹۹، چاپ محمدجواد مشکور، تهران۱۳۴۱شمسی۔
[۵۲]
حسن بن موسینوبختی، فرقالشیعه، ج۱، ص۹۱، چاپ محمدصادق آلبحرالعلوم، نجف۱۳۵۵/۱۹۳۶۔
تاہم ولادت کی تاریخ میں اختلاف رائے ہے۔ مشہور قول کے مطابق آپؑ دس رجب کو پیدا ہوئے جیسا کہ شیخ طوسیؒ نے مصباح المتھجد [۵۵]
محمد بن حسن طوسی، مصباح المتهجد، ج۱، ص۸۰۴ ـ ۸۰۵، بیروت۱۴۱۱ /۱۹۹۱۔
[۵۷]
ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج۴، ص۳۷۹، چاپهاشم رسولی محلاتی، قم۔
[۵۸]
محمد بن طلحه نعیبی، مطالب السؤول فی مناقب الالرسول، ج۲، ص۱۴۰، چاپ ماجد بن احمد عطیه، بیروت۱۴۲۰۔
میں نقل کیا ہے، مگر زیادہ تر معتبر کتب نے امام کی تاریخ ولادت کو نیمہ رمضان میں قرار دیا ہے۔ [۵۹]
سعد بن عبداللّهاشعری، کتاب المقالات و الفرق، ج۱، ص۹۹، چاپ محمدجواد مشکور، تهران۱۳۴۱شمسی۔
[۶۰]
حسن بن موسینوبختی، فرقالشیعه، ج۱، ص۹۱، چاپ محمدصادق آلبحرالعلوم، نجف۱۳۵۵/۱۹۳۶۔
[۶۲]
محمد بن محمد مفید، کتاب الامالی، ج۱، ص۴۳، چاپ حسناستاد ولی و علیاکبر غفاری، قم۱۴۰۳۔
حضرت جوادؑ کی شہادت بغداد میں ہوئی۔ [۶۳]
سعد بن عبداللّهاشعری، کتاب المقالات و الفرق، ج۱، ص۹۹، چاپ محمدجواد مشکور، تهران۱۳۴۱شمسی۔
[۶۴]
حسن بن موسینوبختی، فرقالشیعه، ج۱، ص۹۱، چاپ محمدصادق آلبحرالعلوم، نجف۱۳۵۵/۱۹۳۶۔
[۶۵]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۴۹۲۔
زیادہ تر کتابوں کے مطابق آپ کی شہادت ۲۲۰ہجری کے آخر میں ہوئی۔ [۶۶]
سعد بن عبداللّهاشعری، کتاب المقالات و الفرق، ج۱، ص۹۹، چاپ محمدجواد مشکور، تهران۱۳۴۱شمسی۔
[۶۷]
حسن بن موسینوبختی، فرقالشیعه، ج۱، ص۹۱، چاپ محمدصادق آلبحرالعلوم، نجف۱۳۵۵/۱۹۳۶۔
مسعودی [۶۸]
علی بن حسین مسعودی، مروجالذهب و معادنالجوهر، ج۴، ص۳۴۹، چاپ شارلپلاّ، بیروت ۱۹۶۵ـ۱۹۷۹۔
[۶۹]
ابن خلّکان، وفیات الاعیان وأنباء ابناء الزمان، ج۴، ص۱۷۵۔
[۷۰]
محمد بن احمد ذهبی، تاریخالاسلام و وفیات المشاهیر و الاعلام، ج۵، ص۴۴۷، چاپ بشارعوّاد معروف، بیروت ۱۴۲۴/ ۲۰۰۳۔
نے سنہ شہادت ۲۱۹ ذکر کیا ہے مگر تستری [۷۱]
محمدتقی تستری، رساله فی تواریخ النبی و الا´ل علیهمالسلام، ج۱، ص۴۴، قم ۱۴۲۳۔
نے یہ قول نادرست قرار دیا ہے۔ امام کی شہادت کا دن کچھ کتب میں پانچ یا چھ ذی الحج [۷۲]
ابن ابیالثلج، تاریخالائمه، ج۱، ص۱۳، در مجموعه نفیسه فی تاریخالائمه، چاپ محمود مرعشی، قم: کتابخانه آیهاللّه مرعشینجفی، ۱۴۰۶۔
[۷۳]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۴۹۷۔
[۷۴]
علی بن حسین مسعودی، مروجالذهب و معادنالجوهر، ج۴، ص۳۴۹، چاپ شارلپلاّ، بیروت ۱۹۶۵ـ ۱۹۷۹۔
[۷۵]
خطیب بغدادی، تاریخ بغدادی ، ج۴، ص۹۰۔
[۷۶]
ابن خشاب، تاریخ موالید الائمه و وفیاتهم، ج۱، ص۱۹۶، در مجموعه نفیسه فی تاریخالائمه۔
اور بعض میں ذی القعد [۷۷]
سعد بن عبداللّهاشعری، کتاب المقالات و الفرق، ج۱، ص۹۹، چاپ محمدجواد مشکور، تهران۱۳۴۱شمسی۔
[۷۸]
حسن بن موسینوبختی، فرقالشیعه، ج۱، ص۹۱، چاپ محمدصادق آلبحرالعلوم، نجف۱۳۵۵/۱۹۳۶۔
[۷۹]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۴۹۲۔
مذکور ہے۔ اس طرح حضرتؑ کا سن مبارک ۲۵ سال سے کچھ زیادہ تھا۔ [۸۴]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۴۹۷۔
[۸۶]
ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج۴، ص۳۷۹، چاپهاشم رسولی محلاتی، قم۔
واقعہ شہادت[ترمیم]اکثر قدیم کتب میں امام جوادؑ کی شہادت کو بصراحت بیان نہیں کیا گیا۔ [۸۷]
سعد بن عبداللّهاشعری، کتاب المقالات و الفرق، ج۱، ص۹۹، چاپ محمدجواد مشکور، تهران۱۳۴۱شمسی۔
[۸۸]
حسن بن موسینوبختی، فرقالشیعه، ج۱، ص۹۱، چاپ محمدصادق آلبحرالعلوم، نجف۱۳۵۵/۱۹۳۶۔
[۸۹]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۴۹۲۔
[۹۰]
علی بن حسین مسعودی، مروجالذهب و معادنالجوهر، ج۴، ص۳۴۹، چاپ شارلپلاّ، بیروت ۱۹۶۵ـ۱۹۷۹۔
[۹۳]
خطیب بغدادی، تاریخ بغدادی ، ج۴، ص۹۰۔
تاہم مسعودی سے منسوب کتاب اثبات الوصیہ [۹۵]
علی بن حسین مسعودی ، اثباتالوصیه للامام علی بن ابیطالب، ج۱، ص۲۲۷، قم۱۳۸۲ شمسی۔
، میں امامؑ کے اپنی زوجہ ام فضل کے ہاتھوں مسموم ہونے کی مفصل روایت منقول ہے۔ اس کے مطابق ام فضل نے اپنے بھائیوں معتصم عباسی اور جعفر کے ورغلانے اور امامؑ کی دوسری زوجہ سے حسد کی وجہ سے امامؑ کو زہر دیا مگر بعد میں پشیمان ہوئی۔ [۹۶]
ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج۴، ص۳۹۱، چاپهاشم رسولی محلاتی، قم۔
دیگر روایات کے مطابق معتصم کے ایک وزیر نے خلیفہ کے حکم پر امام جوادؑ کو زہر دیا۔ [۹۷]
محمد بن مسعود عیاشی، کتاب التفسیر، ج۱، ص۳۱۹، چاپ هاشم رسولی محلاتی، قم۱۳۸۰ـ۱۳۸۱، چاپ افست تهران۔
[۹۸]
ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج۴، ص۳۸۴، چاپهاشم رسولی محلاتی، قم۔
بعض نے امام کی مسمومیت کا واقعہ قول مرجوح کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔ [۹۹]
علی بن حسین مسعودی، مروجالذهب و معادنالجوهر، ج۱، ص ۲۱۶، چاپ شارلپلاّ، بیروت ۱۹۶۵ـ۱۹۷۹۔
[۱۰۰]
محمد بن محمد مفید، الارشاد فی معرفه حججاللّه علی العباد، ج۲، ص۲۷۳، بیروت۱۴۱۴/۱۹۹۳۔
تاہم شیخ مفیدؒ [۱۰۲]
محمد بن محمد مفید، الارشاد فی معرفه حججاللّه علی العباد، ج۲، ص۲۷۳، بیروت۱۴۱۴/۱۹۹۳۔
و طبرسی [۱۰۳]
احمد بن علی طبرسی، الاحتجاج، ص۱۳۴ـ۱۳۵، چاپ محمدباقر موسویخرسان، نجف۱۳۸۶/ ۱۹۶۶ چاپ افست قم۔
نے واضح لکھا ہے کہ یہ بات ان کے نزدیک ثابت نہیں ہوئی ہے۔ اگرچہ کلینیؒ ، مفیدؒ اور طوسیؒ کے امامؑ کی طبعی رحلت پر مبنی اقوال کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا مگر بہت سے قرائن منجملہ امامؑ کی جوانی، بغداد میں امامؑ کی معتصم کے دربار میں طلبی اور وہیں اچانک رحلت سے امامؑ کی شہادت کے احتمال کو تقویت ملتی ہے۔ [۱۰۴]
رسولجعفریان، حیات فکری و سیاسی امامانشیعه علیهمالسلام، ج۱، ص۴۸۰ـ۴۸۱، قم۱۳۸۴ شمسی۔
[۱۰۵]
حسین شاکری، الجواد محمد علیهالسلام، ج۱، ص۵۰ ـ۵۲، قم ۱۴۱۹۔
تاریخی کتب کے مطابق معتصم کے بیٹے واثق نے امامؑ کے جنازے پر نماز ادا کی۔ [۱۰۶]
علی بن حسین مسعودی ، اثباتالوصیه للامام علی بن ابیطالب، ج۱، ص ۲۱۶، قم۱۳۸۲ شمسی۔
[۱۰۷]
خطیب بغدادی، تاریخ بغدادی ، ج۴، ص۹۰۔
[۱۰۸]
سبط ابن جوزی، تذکرهالخواص، ج۱۱، ص۶۲، بیروت۱۴۰۱/۱۹۸۱۔
امام جوادؑ کا مزار بغداد میں اپنے جد موسیٰ بن جعفر کی قبر کے نزدیک بغداد کے مقابرِ قریش میں واقع ہے۔ [۱۰۹]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۴۹۲۔
[۱۱۰]
علی بن حسین مسعودی ، اثباتالوصیه للامام علی بن ابیطالب، ج۱، ص ۲۱۶، قم۱۳۸۲ شمسی۔
[۱۱۱]
محمد بن محمد مفید، الارشاد فی معرفه حججاللّه علی العباد، ج۲، ص۲۷۳، بیروت۱۴۱۴/۱۹۹۳۔
آج اس مقام کو کاظمین کہا جاتا ہے۔ [۱۱۳]
محمدحسین حسینیجلالی، مزارات اهلالبیت «ع» و تأریخها، ج۱، ص۱۱۴، بیروت۱۴۱۵/ ۱۹۹۵۔
[۱۱۴]
محمدحسین حسینیجلالی، مزارات اهلالبیت «ع» و تأریخها، ج۱، ص۱۱۴ ـ۱۱۹، بیروت۱۴۱۵/ ۱۹۹۵۔
زندگی کے واقعات[ترمیم]امام جوادؑ نے سات سال سے کچھ زیادہ عرصے تک امام رضاؑ کو درک کیا۔ [۱۱۶]
فضل بن حسنطبرسی، اعلام الوری باعلامالهدی، ج۱، ص۱۳۴ـ۱۳۵، قم۱۴۱۷۔
[۱۱۷]
ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج۴، ص۳۷۹، چاپهاشم رسولی محلاتی، قم۔
آپؑ دو عباسی خلفا، مأمون اور معتصم کے معاصر تھے۔ اس بنا پر، بعض کتب کی یہ روایت کہ واثق عباسی (خلافت: ۲۲۷ـ۲۳۲) کے زمانے میں آپؑ کی رحلت ہوئی تھی، [۱۲۰]
علی بن حسین مسعودی، مروجالذهب و معادنالجوهر، ج۴، ص۳۷۴، چاپ شارلپلاّ، بیروت ۱۹۶۵ـ۱۹۷۹۔
[۱۲۱]
ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج۴، ص۳۷۹، چاپهاشم رسولی محلاتی، قم۔
درست نہیں ہے؛ چونکہ واثق ۲۲۷ہجری یعنی معتصم کی وفات کے وقت خلیفہ بنا۔ [۱۲۲]
محمدتقی تستری، رساله فی تواریخ النبی و الا´ل علیهمالسلام، ج۱، ص۴۴، قم ۱۴۲۳۔
شاید حضرتؑ کی نماز جنازہ واثق کی جانب سے پڑھائے جانے کی روایت اس اشتباہ کا منشا ہے۔ [۱۲۳]
مجلسی، بحارالانوار، ج۵۰، ص۱۳۔
امام جوادؑ کی زندگی کے واقعات سے متعلق تاریخی روایات کم ہیں۔ سیاسی پابندیاں بھی آئمہؑ کے بارے میں معلومات کی نشر و اشاعت کا راستہ روکتی تھیں، اس کے علاوہ حضرتؑ کی مختصر زندگی بھی تاریخی منابع میں روایات کے فقدان کی ایک وجہ ہے۔ اس کے علاوہ حضرت نے اپنی زیادہ تر زندگی مدینہ سے دور مرکزِ خلافت میں بسر کی ہے۔ سنہ ۲۰۰ھ میں مامون کے ایک امیر رجا بن ابیضحاک نے مامون کے حکم سے امام رضاؑ کو مدینہ سے مرو کی طرف روانہ کر دیا۔ [۱۲۴]
طبری، تاریخ طبری، ج۸، ص۵۴۴، (بیروت)۔
[۱۲۵]
ابن بابویه، عیون اخبارالرضا، ج۱، ص۱۹۴، چاپ مهدیلاجوردی، قم۱۳۶۳ شمسی۔
[۱۲۶]
ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۶، ص۳۱۹۔
بیہقی کی تاریخ بیھق ، [۱۲۷]
علی بن زید بیهقی، تاریخ بیهق، ج۱، ص۷۹، چاپاحمد بهمنیار، تهران۱۳۶۱ شمسی۔
کے مطابق امام جواد سنہ ۲۰۲ھ، میں اپنے والد بزرگوار کی زیارت کیلئے بیھق سے طوس تشریف لے گئے۔ بعض تاریخی کتب میں یہ روایت ہے کہ مامون نے اسی سال اپنی بیٹی ام حبیب کو امام رضاؑ کے عقد میں اور دوسری بیٹی ام فضل کو امام جوادؑ کے عقد میں دے دیا؛ یہ امر بیقہی کی روایت کی درستگی پر قرینہ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح کچھ شیعہ روایات کے مطابق امام جوادؑ اپنے والد بزرگوار کی شہادت کے وقت سنہ ۲۰۳ھ میں مدینہ میں ہی رہائش پذیر تھے اور امام رضاؑ کو غسل و کفن دینے اور ان کی نماز جنازہ کی ادائیگی کیلئے طوس تشریف لے گئے تھے۔ [۱۲۸]
ابن بابویه، الامالی، ج۱، ص۷۵۹ـ۷۶۲، قم۱۴۱۷۔
[۱۲۹]
ابن بابویه، عیون اخبارالرضا، ج۲، ص۲۴۲ـ۲۴۵، چاپ مهدیلاجوردی، قم۱۳۶۳ شمسی۔
سفر[ترمیم]بظاہر امامؑ نے تین مرتبہ بغداد کا سفر کیا۔ جعفر مرتضیٰ عاملی، ( [۱۳۱]
جعفرمرتضیعاملی، الحیاه السیاسیه للامامالجواد علیهالسلام: نبذه یسیره، ج۱، ص۶۵، بیروت۱۴۰۵/۱۹۸۵۔
کے مطابق پہلا سفر مامون کے بغداد آمد کے فوری بعد سنہ ۲۰۴ھ میں انجام پایا کہ جب اس نے امام جوادؑ کو مدینہ سے بغداد طلب کر لیا۔ اس کی تائید نعیبی [۱۳۲]
محمد بن طلحه نعیبی، مطالب السؤول فی مناقب الالرسول، ج۲، ص۱۴۱ـ۱۴۲، چاپ ماجد بن احمد عطیه، بیروت۱۴۲۰۔
[۱۳۳]
ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج۴، ص۳۸۸ـ ۳۸۹، چاپهاشم رسولی محلاتی، قم۔
[۱۳۴]
علی بن عیسیبهاءالدیناربلی، کشفالغمه فی معرفهالائمه، ج۳، ص۱۳۴، چاپ هاشم رسولیمحلاتی، بیروت ۱۴۰۱/ ۱۹۸۱۔
[۱۳۵]
ابن صباغ، الفصول المهمه فی معرفه احوال الائمه علیهمالسلام، ج۱، ص۲۶۲ـ۲۶۳، بیروت۱۴۰۸/۱۹۸۸۔
کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ جس کے مطابق امامؑ بچپن میں بغداد کے اندر موجود تھے اور آپؑ نے مامون کے ساتھ گفتگو کی۔اگرچہ اس روایت پر تنقید کی گئی ہے، جعفر مرتضی عاملی [۱۳۶]
جعفرمرتضیعاملی، الحیاه السیاسیه للامامالجواد علیهالسلام: نبذه یسیره، ج۱، ص۶۸ ـ ۷۵، بیروت۱۴۰۵/۱۹۸۵۔
نے سعی کی ہے کہ اس کی تائید کریں اور اس پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دیں۔ دوسرا شاہد شیخ مفیدؒ کی روایت ہے جس کے مطابق امام جوادؑ کے ام فضل کے ساتھ ازدواج کے وقت آپؑ کا سن مبارک نو برس تھا۔دلائل الامامۃ میں اس سے ملتی جلتی روایت منقول ہے مگر مذکور ہے کہ امامؑ کا سن مبارک سولہ برس تھا کہ جو بظاہر اشتباہ ہے؛ [۱۳۹]
علی بن حسین مسعودی ، اثباتالوصیه للامام علی بن ابیطالب، ج۱، ص۲۲۳، قم۱۳۸۲ شمسی۔
(چونکہ اس وقت امامؑ کا سن مبارک دس برس ہے اور یہ شیخ مفیدؒ کی روایت پر قابل تطبیق ہے)امامؑ کا بغداد کی جانب ایک اور سفر سنہ ۲۱۵ھ میں ہے۔ جب مامون روم کے خلاف جنگ پر جا رہا تھا تو امام جوادؑ مدینہ سے بغداد پہنچے۔ آپؑ مامون سے ملاقات کیلئے تکریت شہر گئے اور وہاں سے ام فضل مامون کی اجازت سے امامؑ کے ساتھ ملحق ہو گئی۔ ایام حج کی آمد تک امامؑ بغداد میں رہائش پذیر رہے، پھر اپنی زوجہ کے ہمراہ حج کی ادائیگی کیلئے مکہ گئے اور وہاں سے مدینہ اپنے گھر واپس آ گئے۔ [۱۴۰]
ابن ابیطاهر، کتاببغداد، ج۱، ص۱۴۲ـ۱۴۳، چاپ محمد زاهد بن حسن کوثری، قاهره ۱۳۶۸/ ۱۹۴۹۔
[۱۴۱]
طبری، تاریخ طبری، ج۸، ص۶۲۳، (بیروت)۔
[۱۴۲]
ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۶، ص۴۱۷۔
آخری مرتبہ ماہ محرّم سنہ ۲۲۰ھ میں معتصم عباسی نے امام کو مدینہ طلب کیا اور آپؑ نے ام فضل کے ہمراہ بغداد کا سفر کیا اور اپنی رحلت تک وہیں پر رہائش پذیر رہے۔ [۱۴۴]
خطیب بغدادی، تاریخ بغدادی ، ج۴، ص۸۸ ـ ۸۹۔
[۱۴۵]
ابن شهرآشوب، مناقب آل ابیطالب، ج۴، ص۳۸۴، چاپهاشم رسولی محلاتی، قم۔
[۱۴۶]
ابن صباغ، الفصول المهمه فی معرفه احوال الائمه علیهمالسلام، ج۱، ص۲۷۲، بیروت۱۴۰۸/۱۹۸۸۔
امام جوادؑ کا ازدواج[ترمیم]ولایت عہدی کے بعد مامون نے امام رضاؑ سے اپنی بیٹی ام حبیب کا عقد کیا اور اپنی دوسری بیٹی ام فضل کو امام جوادؑ کی زوجیت میں دے دیا۔ [۱۴۷]
طبری، تاریخ طبری، ج۸، ص۵۶۶، (بیروت)۔
[۱۴۸]
علی بن حسین مسعودی، مروجالذهب و معادنالجوهر، ج۴، ص۳۲۴ـ۳۲۵، چاپ شارلپلاّ، بیروت ۱۹۶۵ـ۱۹۷۹۔
آیا حضرتؑ کی ام فضل سے تزویج امام رضاؑ کی شہادت سے پہلے تھی یا بعد میں؟! اس میں اختلاف ہے۔ [۱۴۹]
سبط ابن جوزی، تذکرهالخواص، ج۱، ص۳۲۱، بیروت۱۴۰۱/۱۹۸۱۔
شیعہ منابع میں مفصل روایت موجود ہے جسے شیخ مفیدؒ نے الارشاد میں نقل کیا ہے؛ م [۱۵۲]
علی بن حسین مسعودی ، اثباتالوصیه للامام علی بن ابیطالب، ج۱، ص۲۲۳ـ ۲۲۶، قم۱۳۸۲ شمسی۔
[۱۵۳]
ابن شعبه، تحف العقول عن آلالرسول، ج۱، ص۴۵۱ـ۴۵۴، چاپعلیاکبر غفاری، قم۱۳۶۳ شمسی۔
جو امامؑ کے اپنے والد گرامی کی شہادت کے بعد ام فضل سے ازدواج کی حکایت کرتی ہے۔ اس روایت کے مطابق حضرت جوادؑ کے ساتھ بہت محبت کی وجہ سے مامون نے اپنی بیٹی ام فضل کا آپؑ سے عقد کیا، مگر عباسی اس بات پر ناخوش تھے اور وہ امامؑ کی کم سنی کے بہانے اسے اس کام سے منع کر رہے تھے۔ مامون نے انہیں مطمئن کرنے کیلئے تجویز دی کہ حضرتؑ کا امتحان کیا جائے۔ امتحان کے دن عباسیوں نے قاضی یحییٰ بن اکثم کو حاضر کیا تاکہ امامؑ کے ساتھ فقہی بحث کرے۔ مامون نے امام جوادؑ کے یحییٰ بن اکثم پر غالب آنے کے بعد اسی محفل میں اپنی بیٹی کا امامؑ سے عقد کر دیا اور عظیم الشان تقریب منعقد کی۔ سنہ ۲۰۴ھ میں منعقد ہونے والی اس تقریب میں فقط عقد پڑھا گیا جبکہ ام فضل کو ۲۱۵ھ میں رخصتی کر کے مدینہ لے جایا گیا۔ [۱۵۴]
جعفرمرتضیعاملی، الحیاه السیاسیه للامامالجواد علیهالسلام: نبذه یسیره، ج۱، ص۷۹، بیروت۱۴۰۵/۱۹۸۵۔
امّ فضل کے زہر دینے کی وجہ[ترمیم]امام جوادؑ سے ام فضل کا سلوک بظاہر ناروا تھا؛ یہاں تک کہ ام فضل نے ایک خط میں اپنے باپ کو شکایت کی کہ امامؑ نے اپنی کنیز سے ازدواج کر لیا ہے مگر مامون نے اس کی شکایت پر توجہ نہیں دی اور اسے دوبارہ شکایت کرنے سے منع کر دیا۔ [۱۵۶]
محمد بن حسن فتال نیشابوری ، روضه الواعظین، ج۱، ص۲۴۱، چاپ محمدمهدی خرسان، قم: منشوراتالرضی۔
[۱۵۷]
ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج۴، ص۳۸۲، چاپهاشم رسولی محلاتی، قم۔
پہلے کہا جا چکا ہے کہ بعض نے حضرتؑ کے ام فضل کے ہاتھوں مسموم ہونے کی وجہ یہی بیان کی ہے۔امفضل، امامؑ کی شہادت کے بعد معتصم عباسی کی زوجیت میں چلی گئی۔ [۱۵۹]
خطیب بغدادی، تاریخ بغدادی ، ج۴، ص۸۹۔
[۱۶۰]
ابن خلّکان، وفیات الاعیان وأنباء ابناء الزمان، ج۴، ص۱۷۵۔
[۱۶۱]
علی بن عیسیبهاءالدیناربلی، کشفالغمه فی معرفهالائمه، ج۳، ص۱۳۵، چاپ هاشم رسولیمحلاتی، بیروت ۱۴۰۱/ ۱۹۸۱۔
[۱۶۲]
ابن صباغ، الفصول المهمه فی معرفه احوال الائمه علیهمالسلام، ج۱، ص۲۷۲، بیروت۱۴۰۸/۱۹۸۸۔
حضرتؑ کی ام فضل سے اولاد نہیں تھی اور سمانہ نامی کنیز (ام ولد) سے آپؑ کے ہاں اولاد ہوئی۔امامؑ کی اولاد[ترمیم]تمام تاریخی کتب میں امامؑ کے دو بیٹوں علی الہادی (اہل تشیع کے دسویں امام) اور موسی مُبَرقَع کا نام مذکور ہے؛ [۱۶۳]
محمد بن حسن صفار قمی، بصائر الدرجات الکبری فی فضائل آلمحمد (ع)، ج۱، ص۲۰۱، چاپ محسن کوچه باغی تبریزی، تهران ۱۳۶۲ شمسی۔
امامؑ کی نسل مبارک انہی دو سے آگے چلی۔ [۱۶۷]
ابن عنبه، عمدهالطالب فی انساب آلابیطالب، ج۱، ص۲۴۲، چاپ مهدی رجائی، قم۱۳۸۳ شمسی۔
[۱۶۸]
ضامن بن شدقم، تحفه الازهار و زلال الانهار فی نسب ابن اء الائمه الاطهار، ج۲، قسم۲، ص۴۲۹، چاپ کامل سلمان جبوری، تهران۱۳۷۸ شمسی۔
انساب کی بعض کتب میں اختلاف کے ساتھ چند اور بیٹوں کی بھی امامؑ سے نسبت دی گئی ہے۔ [۱۶۹]
علی بن محمد عمری، المجدی فی انساب الطالبیین، ج۱، ص۱۲۸، چاپ احمد مهدوی دامغانی، قم۱۴۰۹۔
[۱۷۰]
محمد بن عمر فخررازی، الشجره المبارکه فی انساب الطالبیه، ج۱، ص۷۸، چاپ مهدی رجائی، قم۱۴۰۹۔
[۱۷۱]
ضامن بن شدقم، تحفه الازهار و زلال الانهار فی نسب ابن اء الائمه الاطهار، ج۲، قسم۲، ص۴۲۹، چاپ کامل سلمان جبوری، تهران۱۳۷۸ شمسی۔
مگر قدیم منابع میں ان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ امامؑ کی بیٹیوں کے مختلف نام ذکر کیے گئے ہیں؛ شیخ مفیدؒ [۱۷۲]
محمد بن محمد مفید، الارشاد فی معرفه حججاللّه علی العباد، ج۲، ص۲۸۸، بیروت۱۴۱۴/۱۹۹۳۔
[۱۷۴]
ابن شهرآشوب، مناقب آل ابیطالب، ج۴، ص۳۸۰، چاپهاشم رسولی محلاتی، قم۔
، [۱۷۵]
ابن صباغ، الفصول المهمه فی معرفه احوال الائمه علیهمالسلام، ج۱، ص۲۷۲، بیروت۱۴۰۸/۱۹۸۸۔
نے فاطمہ اور اَمامه دو نام لکھے ہیں۔ تاہم دلائل الامامۃ [۱۷۷]
محمد بن حسن صفار قمی، بصائر الدرجات الکبری فی فضائل آلمحمد (ع)، ج۱، ص۲۰۱، چاپ محسن کوچه باغی تبریزی، تهران ۱۳۶۲ شمسی۔
[۱۷۸]
احمد بن علی طبرسی، الاحتجاج، ج۱، ص۱۳۰، چاپ محمدباقر موسویخرسان، نجف۱۳۸۶/ ۱۹۶۶ چاپ افست قم۔
[۱۷۹]
ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج۴، ص۳۸۰، چاپهاشم رسولی محلاتی، قم۔
میں امام کی بیٹیوں کے نام خدیجہ، حکیمہ اور ام کلثوم مذکور ہیں۔ فخر رازی [۱۸۰]
محمد بن عمر فخررازی، الشجره المبارکه فی انساب الطالبیه، ج۱، ص۷۸، چاپ مهدی رجائی، قم۱۴۰۹۔
نے بہجت اور بریھہ کے ناموں کا اضافہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ ان بیٹیوں کی نسل سے کوئی باقی نہیں رہا ہے۔ بظاہر امامؑ کی سب اولاد کی ماں سمانہ ہیں۔ [۱۸۱]
محمد بن حسن صفار قمی، بصائر الدرجات الکبری فی فضائل آلمحمد (ع)، ج۱، ص۲۰۱، چاپ محسن کوچه باغی تبریزی، تهران ۱۳۶۲ شمسی۔
[۱۸۲]
ضامن بن شدقم، تحفه الازهار و زلال الانهار فی نسب ابن اء الائمه الاطهار، ج۲، قسم۲، ص۴۲۹، چاپ کامل سلمان جبوری، تهران۱۳۷۸ شمسی۔
امامؑ کی اخلاقی خصوصیات[ترمیم]منابع میں امامؑ کے ظاہری اوصاف کے بارے میں روایات نقل ہوئی ہیں، تاہم سب سے پہلے آپؑ کی اخلاقی صفات و کردار پر زور دیا گیا ہے؛ جیسا کہ جواد لقب اس امر کا حاکی ہے کہ حضرتؑ جود و سخا کے عنوان سے معروف تھے۔ [۱۸۳]
محمد بن احمد ذهبی، تاریخالاسلام و وفیات المشاهیر و الاعلام، ج۵، ص۴۴۶، چاپ بشارعوّاد معروف، بیروت ۱۴۲۴/ ۲۰۰۳۔
[۱۸۴]
حسین بن حمدانخصیبی، الهدایهالکبری، ج۱، ص۳۰۲، بیروت ۱۴۰۶/۱۹۸۶۔
[۱۸۵]
ابن شعبه، تحف العقول عن آلالرسول، ج۱، ص۴۵۷، چاپعلیاکبر غفاری، قم۱۳۶۳ شمسی۔
آپؑ ہر ماہ کی ابتدا میں صدقہ دیتے تھے، [۱۸۶]
ابن طاووس، الدروع الواقیه، ج۱، ص۴۳، چاپجواد قیومیاصفهانی، قم۱۴۱۴الف۔
لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے تھے اور انہیں سلام کرتے تھے، [۱۸۷]
ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج۴، ص۳۸۲، چاپهاشم رسولی محلاتی، قم۔
لوگوں کی مشکلات کو برطرف کرنے کیلئے حکام کے سامنے ان کی سفارش کرتے تھے۔ [۱۸۸]
کلینی، اصول کافی، ج۵، ص۱۱ـ ۱۱۲۔
خطاؤں سے درگزر کرتے تھے [۱۸۹]
دلائلالامامه، منسوب به محمد بن جریر طبری آملی، ج۱، ص۴۰۱، قم: مؤسسه البعثه، ۱۴۱۳۔
اور اپنے اصحاب کیلئے دعا فرماتے تھے [۱۹۰]
حسین بن حمدانخصیبی، الهدایهالکبری، ج۱، ص۳۰۶ـ ۳۰۷، بیروت ۱۴۰۶/۱۹۸۶۔
. لوگ بھی آپؑ کا احترام کرتے تھے اور آپ سے محبت کرتے تھے۔ [۱۹۱]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۳۲۲۔
[۱۹۲]
حسین بن حمدانخصیبی، الهدایهالکبری، ج۱، ص۳۰۸، بیروت ۱۴۰۶/۱۹۸۶۔
.امام جوادؑ ہر روز مسجد النبی میں تشریف لے جاتے تھے اور پیغمبر اکرمؐ کو سلام کرتے تھے اور حضرت فاطمہؑ کے گھر میں جا کر نماز ادا کرتے تھے۔ [۱۹۳]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۴۹۳۔
آپ کو نماز و دعا اور عبادت میں بہت رغبت تھی؛ حضرتؑ سے منسوب ایک مخصوص نماز ہے۔ [۱۹۴]
سعید بن هبهاللّه قطبراوندی، سلوه الحزین، ج۱، ص۸۹، المعروف به الدعوات، قم: مدرسه الامام المهدی۔
[۱۹۵]
ابن طاووس، جمال الاسبوع بکمال العمل المشروع، ج۱، ص۱۷۹، چاپجواد قیومیاصفهانی، مؤسسهالا´فاق، ۱۳۷۱ شمسی۔
آپ سے منقول بڑی مقدار میں دعاؤں اور مناجات سے آپ کی دعاؤں میں رغبت کا اندازہ ہوتا ہے۔ [۱۹۶]
کلینی، اصول کافی، ج۲، ص۴۵۷۔
[۱۹۷]
کلینی، اصول کافی، ج۲، ص۵۳۴۔
[۱۹۸]
کلینی، اصول کافی، ج۲، ص۵۴۷۔
[۱۹۹]
کلینی، اصول کافی، ج۲، ص۵۶۰۔
[۲۰۰]
کلینی، اصول کافی، ج۳، ص۱۶۷۔
[۲۰۱]
مصباح المتهجد، ص۳۵۹، محمد بن حسن طوسی، مصباح المتهجد، بیروت۱۴۱۱ /۱۹۹۱۔
[۲۰۲]
مصباح المتهجد، ص ۵۶۶ ـ ۵۶۷، محمد بن حسن طوسی، مصباح المتهجد، بیروت۱۴۱۱ /۱۹۹۱۔
[۲۰۳]
محمد بن حسن طوسی، مصباح المتهجد، ج۱، ص۶۷۶، بیروت۱۴۱۱ /۱۹۹۱۔
[۲۰۴]
محمد بن حسن طوسی، مصباح المتهجد،ص ۷۹۸، بیروت۱۴۱۱ /۱۹۹۱۔
ایام ہفتہ کے تعویذات [۲۰۵]
سعید بن هبهاللّه قطبراوندی، سلوه الحزین، ج۱، ص۹۹ـ ۱۰۵، المعروف به الدعوات، قم: مدرسه الامام المهدی۔
اور مشہور حرز [۲۰۶]
ابن طاووس، مهجالدعوات و منهجالعبادات، ص۵۲ ـ۶۰، قدم له و علق علیه حسیناعلمی، بیروت۱۴۱۴ب۔
[۲۰۷]
مجلسی، بحارالانوار، ج۹۱، ص۳۵۴ـ۳۶۱۔
امامؑ سے منقول ہیں۔آپؑ کی امامت[ترمیم]امام جوادؑ کی امامت کے دلائل دیگر آئمہ کی طرح نصوصِ عام [۲۰۸]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۲۸۶ـ ۲۹۲۔
اور نصوصِ خاص پر مشتمل ہیں۔ یہ نصوص پیغمبر اکرمؐ بالخصوص امام رضاؑ سے اس باب میں وارد ہوئی ہیں۔ شیعہ حدیثی کتب میں صریح نصوص و احادیث امام رضاؑ کی زبانی اس عنوان سے وارد ہوئی ہیں کہ میرے بعد امام یہ ہوں گے۔ اس نص کے راویوں میں علی بن جعفر ، صفوان بن یحییٰ ، معمر بن خالد ، حسین بن یسار اور امام رضاؑ کے دیگر معتبر و معتمد اصحاب شامل ہیں۔کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۳۲۰ـ۳۲۳۔ امام رضاؑ کے ہاں بہت تاخیر سے اولاد نرینہ ہوئی تھی، اس لیے شیعوں کے درمیان تشویش پائی جاتی تھی حتی واقفیہ نے اس امر کے بہانے حضرت رضاؑ کی امامت کا بھی انکار کر دیا تھا۔ اسی وجہ سے آپؑ نے امام جوادؑ کی ولادت کے موقع پر فرمایا کہ اس فرزند نے حق کو باطل سے جدا کر دیا ہے۔ [۲۱۰]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۳۲۰ـ۳۲۱۔
[۲۱۱]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۳۵۴۔
[۲۱۲]
علی بن حسین مسعودی ، اثباتالوصیه للامام علی بن ابیطالب، ج۱، ص۲۱۷، قم۱۳۸۲ شمسی۔
[۲۱۳]
علی بن حسین مسعودی ، اثباتالوصیه للامام علی بن ابیطالب، ج۱، ص۲۱۹، قم۱۳۸۲ شمسی۔
[۲۱۴]
محمد بن محمد مفید، الارشاد فی معرفه حججاللّه علی العباد، ج۲، ص۲۷۷ـ ۲۷۸، بیروت۱۴۱۴/۱۹۹۳۔
امام جوادؑ کی امامت کے بارے میں شبہات کا ازالہ[ترمیم]امام جوادؑ کی ولادت کے بعد حضرت رضاؑ نے مختلف طریقوں سے آپؑ کی امامت کو ثابت کیا۔ لوگوں کو مطمئن کرنے کیلئے آپ نے اپنے اصحاب کو نومولود کے بدن پر مہرِ امامت کا نشان بھی دکھایا نیز یہ فرمایا کہ یہ انتہائی بابرکت فرزند ہے کیونکہ اس نے واقفیہ کے شبہات کو زائل کر دیا ہے۔ [۲۱۵]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۳۲۱۔
[۲۱۶]
مسعودی، ۱۴۱۴، ص۲۱۸۔
امام رضاؑ، نے کم سنی میں امامت پر مبنی واقفیہ کے شبہات کو حضرت عیسیٰ کے ساتھ آپؑ کا موازنہ کر کے برطرف کیا اور واضح کیا کہ کم سنی الہٰی امامت کے مقام پر فائز ہونے سے مانع نہیں ہوتی۔ [۲۱۸]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۳۲۱ـ۳۲۲۔
[۲۱۹]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۳۸۲ـ۳۸۴۔
[۲۲۰]
علی بن حسین مسعودی ، اثباتالوصیه للامام علی بن ابیطالب، ج۱، ص۲۱۹ـ۲۲۰، قم۱۳۸۲ شمسی۔
[۲۲۱]
محمد بن محمد مفید، الارشاد فی معرفه حججاللّه علی العباد، ج۲، ص۲۷۶، بیروت۱۴۱۴/۱۹۹۳۔
امام محمّد تقیؑ کی امامت کے دلائل[ترمیم]شیخ مفیدؒ نے لکھا ہے کہ حضرت رضاؑ دنیا سے تشریف لے گئے اور ہمیں ابو جعفر محمدؑ کے علاوہ ان کے کسی فرزند کا علم نہیں ہے۔ ابو جعفر محمدؑ نے اپنے والد بزرگوار کے بعد امامت کے فرائض کو سنبھالا۔ [۲۲۳]
مصنّفات الشّیخ المفید، ج۱۱، ص۲۷۱۔
اسی طرح، امام رضاؑ سے منقول ہے کہ آپؑ نے بصراحت اپنے فرزند ارجمند کو وصی و امام کے عنوان سے یاد کیا تھا۔ اس کے علاوہ امام محمد تقیؑ کی اپنے اہل زمان پر آشکار برتری آپؑ کی امامت پر ایک اور دلیل ہے۔امام جوادؑ کی امامت پر اختلاف کا اصل سبب[ترمیم]ان روشن دلیلوں کے باوجود امام رضاؑ کی رحلت کے بعد شیعوں میں امامؑ کی امامت کے حوالے سے اختلاف پیدا ہوا۔ [۲۲۶]
طبری، تاریخ طبری، ج۱، ص۳۸۸، (بیروت)۔
اس اختلاف کا بنیادی سبب امام جوادؑ کا بچپن تھا۔ اس حوالے سے جب امام جوادؑ سے سوال ہوا تو حضرتؑ نے اپنے حالات کا امام علیؑ کے ساتھ موازنہ کیا کہ آپؑ نے بھی نو سال کے سن میں قبولِ اسلام کا اعلان کیا تھا یا حضرت سلیمانؑ سے موازنہ کیا کہ داؤدؑ نے بچپن میں ہی انہیں اپنا جانشین بنایا تھا۔ [۲۲۷]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۳۸۳-۳۸۴۔
افواہیں پھیلانے والے یہ کہتے پھرتے تھے کہ بلوغ، امامت کی شرط ہے اور بچہ احکام و عقائد کے دقیق مسائل کے ادراک پر قادر نہیں ہے کہ جن کی امت کو ضرورت ہے۔ [۲۲۸]
سعد بن عبداللّهاشعری، کتاب المقالات و الفرق، ج۱، ص۹۵، چاپ محمدجواد مشکور، تهران۱۳۴۱شمسی۔
[۲۲۹]
حسن بن موسینوبختی، فرقالشیعه، ج۱، ص۸۷ ـ ۸۸، چاپ محمدصادق آلبحرالعلوم، نجف۱۳۵۵/۱۹۳۶۔
[۲۳۰]
محمد بن محمد مفید، الفصول المختاره من العیون و المحاسن، ص ۲۵۶، بیروت۱۴۰۵/ ۱۹۸۵۔
امامت کے قائلین کا استدلال[ترمیم]اس کے مقابلے میں امام جوادؑ کی امامت کے قائلین کا استدلال یہ تھا کہ آئمہؑ زمین پر خدا کا برہان اور اس کی حجت ہیں اور ان کے ظاہری سن و سال کو معیار نہیں بنایا جا سکتا۔ [۲۳۱]
سعد بن عبداللّهاشعری، کتاب المقالات و الفرق، ج۱، ص۹۵ـ۹۶، چاپ محمدجواد مشکور، تهران۱۳۴۱شمسی۔
علمِ امام کے منشا و کیفیت پر استدلال[ترمیم]یہ جماعت علمِ امام کی کیفیت و منشا کے حوالے سے چند نظریات رکھتی تھی۔ کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ آپؑ نے اپنے والد سے علم لیا ہے۔ کچھ نے کہا ہے امامت کے بالفعل آغاز کو بلوغ کے بعد تک موخر کر دیا تھا اور ان کا خیال تھا کہ امام بلوغ کے بعد مختلف راہوں؛ مثلا الہام و خواب کے ذریعے امامت کے علوم تک دسترس حاصل کرتا ہے؛ اگرچہ بلوغ سے پہلے بھی امامت ان کا حق ہے؛ کیونکہ امام رضاؑ کی آپؑ کی امامت پر نص موجود ہے اور آپؑ امامؑ کے اکلوتے فرزند ہیں۔ [۲۳۲]
سعد بن عبداللّهاشعری، کتاب المقالات و الفرق، ج۱، ص۹۷، چاپ محمدجواد مشکور، تهران۱۳۴۱شمسی۔
بعض کا یہ خیال بھی تھا کہ بلوغ سے قبل امام کے اوامر و نواہی کی اطاعت واجب نہیں ہے اور ضروری ہے کہ علوم دین اور امت کی مصلحت سے آگاہ کوئی اور شخص امور کو اپنے ہاتھ میں لے جب تک امام ضروری شرائط کو کسب کر لیں۔ [۲۳۳]
سعد بن عبداللّهاشعری، کتاب المقالات و الفرق، ج۱، ص۹۷ـ ۹۸، چاپ محمدجواد مشکور، تهران۱۳۴۱شمسی۔
[۲۳۴]
علی بن اسماعیلاشعری، کتابمقالاتالاسلامیین و اختلافالمصلّین، ج۱، ص۳۱، چاپ هلموت ریتر، ویسبادن۱۴۰۰/ ۱۹۸۰۔
ان کے نزدیک علمِ امام کا منشا بلوغ کے بعد الہام یا کوئی مخصوص طریقہ نہیں ہے بلکہ ان کے آباؤ اجداد سے پہنچنے والی کتب اور علمی میراث ہی ان کے علم کا منشا ہے؛ حتی بعض نے علم نہ رکھنے کی صورت میں گمان کیا ہے کہ آئمہؑ کیلئے قیاس بھی روا ہے، اگرچہ وہ اشتباہ و خطا سے محفوظ ہیں۔ [۲۳۵]
سعد بن عبداللّهاشعری، کتاب المقالات و الفرق، ج۱، ص۹۸، چاپ محمدجواد مشکور، تهران۱۳۴۱شمسی۔
[۲۳۶]
حسن بن موسینوبختی، فرقالشیعه، ج۱، ص۹۰، چاپ محمدصادق آلبحرالعلوم، نجف۱۳۵۵/۱۹۳۶۔
کچھ اور لوگوں کے نزدیک امام کے بچپن میں علمِ الہٰی سے برخوردار ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، کیونکہ وہ خدا کی حجت ہیں؛ ان کیلئے تمام قدرتی اسباب و عوامل فراہم ہیں اور اس بارے میں چند انبیائے سابق جیسے یحییؑ ، عیسیؑ ، یوسفؑ اور سلیمانؑ کو بطور دلیل پیش کرتے تھے کہ اس بنیاد پر علمِ لدنّی حجت خدا کو حاصل ہو سکتا ہے خواہ وہ نابالغ ہی کیوں نہ ہو! [۲۳۷]
سعد بن عبداللّهاشعری، کتاب المقالات و الفرق، ج۱، ص۹۸ـ۹۹، چاپ محمدجواد مشکور، تهران۱۳۴۱شمسی۔
[۲۳۸]
حسن بن موسینوبختی، فرقالشیعه، ج۱، ص۹۰، چاپ محمدصادق آلبحرالعلوم، نجف۱۳۵۵/۱۹۳۶۔
شیعہ، مسئلہ امامت کا الہٰی جنبے کے تناظر میں جائزہ لیتے ہیں۔ ان کے عقیدے میں امامؑ کے کم سن ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، مگر اس کے باوجود ان کا اس بات پر اصرار تھا کہ اس الہٰی علم کے اظہار کیلئے ضروری ہے کہ سوالات پیش کر کے آپؑ کو آزمایا جائے؛ [۲۳۹]
رسولجعفریان، حیات فکری و سیاسی امامانشیعه علیهمالسلام، ج۱، ص۴۷۴، قم۱۳۸۴ شمسی۔
چنانچہ ایام حج میں فقہا نے یہ کام انجام دیا۔ [۲۴۱]
علی بن حسین مسعودی ، اثباتالوصیه للامام علی بن ابیطالب، ج۱، ص۲۲۰ـ۲۲۱، قم۱۳۸۲ شمسی۔
[۲۴۲]
حسین بن عبدالوهاب، عیون المعجزات، ج۱، ص۱۰۹، نجف ۱۳۶۹/ ۱۹۵۰۔
اس کے علاوہ مختلف اوقات اور مواقع پر امام جوادؑ سے متعدد سوالات پوچھے گئے اور حضرتؑ نے کم سنی کے باوجود ان سب کا جواب دیا۔ [۲۴۳]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۴۹۶۔
[۲۴۴]
ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج۴، ص۳۸۲ـ۳۸۳، چاپهاشم رسولی محلاتی، قم۔
[۲۴۵]
ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج۴، ص۳۸۴، چاپهاشم رسولی محلاتی، قم۔
[۲۴۶]
الاختصاص، منسوب به محمد بن محمد مفید، ج۱، ص۱۰۲، چاپعلیاکبر غفاری، قم: جامعه مدرسین حوزه علمیه قم۔
اس زمانے میں اختلافات اور شکوک و شبہات کے باوجود شیعہ قوم کے اندر کوئی بحرانی کیفیت پیدا نہیں ہوئی۔ [۲۴۷]
حسینمدرسی طباطبائی، مکتب در فرآیند تکامل: نظری بر نظور مبانی فکری تشیع در سه قرن نخستین، ج۱، ص۸۸، ترجمه هاشمایزدپناه، نیوجرسی۱۳۷۵ شمسی۔
نظریاتی مسائل کا امام رضاؑ کی وفات کے بعد مناسب جواب ملنے کے بعد تمام اہل تشیع نے امام جوادؑ کی امامت کو قبول کر لیا؛ [۲۴۸]
حسینمدرسی طباطبائی، مکتب در فرآیند تکامل: نظری بر نظور مبانی فکری تشیع در سه قرن نخستین، ج۱، ص۸۹، ترجمه هاشمایزدپناه، نیوجرسی۱۳۷۵ شمسی۔
[۲۴۹]
جعفرمرتضیعاملی، الحیاه السیاسیه للامامالجواد علیهالسلام: نبذه یسیره، ج۱، ص۲۶، بیروت۱۴۰۵/۱۹۸۵۔
اگرچہ کچھ گروہوں جیسے زیدیہ و اسماعیلیہ ، بعض اوقات امام جوادؑ کی امامت پر تنقید بھی کرتے تھے۔ [۲۵۰]
قاسم بن ابراهیم رسی، الرد علی الرافضه، ج۱، ص۹۹، چاپ حنفیعبداللّه، قاهره۱۴۲۰/۲۰۰۰۔
[۲۵۱]
یمنی، ص ۲۵۲ـ۲۵۳)۔
امام محمّد تقیؑ کی بچپن میں امامت[ترمیم]امام جوادؑ شیعہ کے بارہ آئمہؑ میں سے پہلے فرد تھے جو بچپن میں امامت کے منصب پر فائز ہوئے۔ آپؑ کے بعد امام ہادیؑ اور امام مہدیؑ بھی بچپن میں ہی امامت پر فائز ہوئے۔ کچھ لوگ اس مسئلے کو بہانہ بنا کر شبہہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور سعی کرتے ہیں کہ امام جوادؑ کی امامت کو تردید کا نشانہ بنائیں۔ اگرچہ بشر کی تاریخ میں ایسے لوگوں کو دیکھا جا سکتا ہے جو بچپن میں ہی غیر معمولی خداداد ذہانت و فطانت سے بہرہ مند ہوتے تھے؛ اس رو سے امامؑ کی کم سنی کو امامت کے رد پر دلیل شمار نہیں کیا جا سکتا؛ تاہم شیعوں کے پاس اس حوالے سے مزید دلائل بھی موجود ہیں: امام محمد تقیؑ کی امامت پر دلائل[ترمیم]۱۔ خدا پر ایمان کا لازمہ یہ ہے کہ انسان اس امر پر بھی ایمان لائے کہ اللہ کے تمام افعال مصلحت کے تحت ہیں اور بلا چون و چرا ان کے سامنے سر تسلیم خم کیا جائے۔ خدا، قادر و حکیم ہے اور مصلحت کی بنیاد پر اپنے منتخب بندے کو کم سنی میں امامت عطا کر دیتا ہے، یہ بات نہ ہی محال ہے اور نہ ہی اس سے کوئی تناقض پیش آتا ہے۔ ۲۔ نصّ قرآن، کی بنیاد پر حضرت عیسیؑ اور یحییؑ کم سنی میں نبوت کے منصب پر فائز ہوئے۔ ۳۔ اسلامی تاریخ میں ایسے نمونے موجود ہیں کہ عظیم اور اہم کام کم سن افراد کے سپرد کیے گئے؛ جیسے امام علیؑ کی جانب سے پیغمبرؐ کی بچپن میں بیعت، مباہلے میں امام حسنؑ، امام حسینؑ کا کردار نیز فدک کے معاملے میں ان کی خلیفہ اول کے سامنے گواہی! ۴۔ حضرت جوادؑ کی کم سنی میں امامت نے مسلمانوں کے ذہن کو حضرت مہدیؑ کی امامت اور بچپن میں غیبت کو قبول کرنے پر آمادہ کیا۔ ۵۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جوادؑ کی کم سنی میں امامت شیعوں کا ایک سخت امتحان تھا تاکہ حقیقی مومنین کا پتہ چل سکے اور وہ ایمان کے بلند مقام پر فائز ہو سکیں۔ اس واقعے میں کچھ ایسے لوگ راستے سے ہٹ گئے جن کا ایمان کمزور تھا یا وہ شک و تردید کا شکار تھے۔ [۲۵۳]
الملل و النّحل، ج۱، ص۱۶۹۔
امامؑ کی کرامات[ترمیم]شیعہ منابع میں امام جوادؑ کی طرف بعض کرامات اور غیر معمولی افعال کی نسبت دی گئی ہے، منجملہ ولادت کے وقت بات کرنا، [۲۵۵]
ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج۴، ص۳۹۴، چاپهاشم رسولی محلاتی، قم۔
مدینہ سے خراسان طیالارض کر کے امام رضاؑ کے غسل و کفن کیلئے پہنچنا، [۲۵۶]
علی بن حسین مسعودی ، اثباتالوصیه للامام علی بن ابیطالب، ج۱، ص۲۱۵ـ ۲۱۶، قم۱۳۸۲ شمسی۔
[۲۵۷]
ابن بابویه، عیون اخبارالرضا، ج۲، ص۲۴۲ـ ۲۴۵، چاپ مهدیلاجوردی، قم۱۳۶۳ شمسی۔
مریضوں کو شفا دینا، [۲۵۸]
کتاب القاب الرسول و عترته، در مجموعه نفیسه فی تاریخ الائمه، ج۱، ص۵۸۲، همان محمد بن عمرکشی، اختیار معرفهالرجال، تلخیص محمد بن حسن طوسی، چاپ حسن مصطفوی، مشهد ۱۳۴۸ شمسی۔
[۲۵۹]
سعید بن هبهاللّه قطبراوندی، الخرائج و الجرائح، ج۱، ص۳۸۶ـ ۳۸۷، قم: مؤسسه الامامالمهدی (ع)۔
[۲۶۰]
ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج۴، ص۳۹۰، چاپهاشم رسولی محلاتی، قم۔
اپنے دوستوں کے حق میں دعاؤں کا قبول ہونا اور دشمنوں کے خلاف بددعا کا قبول ہونا، [۲۶۱]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۴۹۶۔
[۲۶۲]
محمد بن محمد مفید، کتاب الامالی، ج۱، ص۱۹۱، چاپ حسناستاد ولی و علیاکبر غفاری، قم۱۴۰۳۔
[۲۶۳]
ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج۴، ص۳۹۱، چاپهاشم رسولی محلاتی، قم۔
لوگوں کے باطن اور اندرونی حالات کی خبر دینا، [۲۶۴]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۳۵۳۔
[۲۶۵]
کتاب القاب الرسول و عترته، در مجموعه نفیسه فی تاریخ الائمه، ج۱، ص۵۹۶، همان محمد بن عمرکشی، اختیار معرفهالرجال، تلخیص محمد بن حسن طوسی، چاپ حسن مصطفوی، مشهد ۱۳۴۸ شمسی۔
[۲۶۶]
حسین بن حمدانخصیبی، الهدایهالکبری، ج۱، ص۳۰۳، بیروت ۱۴۰۶/۱۹۸۶۔
[۲۶۷]
سعید بن هبهاللّه قطبراوندی، الخرائج و الجرائح، ج۱، ص۳۸۳، قم: مؤسسه الامامالمهدی (ع)۔
[۲۶۸]
سعید بن هبهاللّه قطبراوندی، الخرائج و الجرائح، ج۲، ص۶۶۸، قم: مؤسسه الامامالمهدی (ع)۔
مستقبل کے واقعات کی خبر دینا [۲۶۹]
ابن بابویه، عیون اخبارالرضا، ج۲، ص۲۴۵، چاپ مهدیلاجوردی، قم۱۳۶۳شمسی۔
[۲۷۰]
کتاب القاب الرسول و عترته، در مجموعه نفیسه فی تاریخ الائمه، ج۱، ص۵۸۱ ، همان محمد بن عمرکشی، اختیار معرفهالرجال، تلخیص محمد بن حسن طوسی، چاپ حسن مصطفوی، مشهد ۱۳۴۸ شمسی۔
؛ [۲۷۱]
ابن حمزه، الثاقب فی المناقب، ج۱، ص۵۱۸، چاپ نبیل رضا علوان، قم ۱۴۱۲۔
اپنی شہادت کے وقت سے آگاہی [۲۷۲]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۳۲۳۔
[۲۷۳]
علی بن عیسیبهاءالدیناربلی، کشفالغمه فی معرفهالائمه، ج۳، ص۱۵۳، چاپ هاشم رسولیمحلاتی، بیروت ۱۴۰۱/ ۱۹۸۱۔
یہ کرامات اور بالخصوص جو بیانات آپؑ کے علم لدنی کی نشانی ہیں؛ حتی حضرتؑ کے مخالفین و منکرین کے دلوں پر بھی ان کا اثر ہوتا تھا اور وہ آپؑ کی امامت کی تصدیق کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ [۲۷۵]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۴۹۵۔
[۲۷۷]
ابن حمزه، الثاقب فی المناقب، ج۱، ص۵۱۸، چاپ نبیل رضا علوان، قم ۱۴۱۲۔
امامؑ کے زمانے میں سیاسی حالات[ترمیم]عباسی خلفا نے امام موسیٰ کاظمؑ کی امامت کے زمانے سے یہ طے کر رکھا تھا کہ علویوں اور آئمہؑ کے محبین کی مزاحمت اور آزادی پسند تحریکوں کو کچلنے کیلئے شیعہ ائمہؑ کو نظر بند رکھا جائے۔ اسی وجہ سے ساتویں امام کو اسیر کیا گیا۔ [۲۷۸]
جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدهم، ج۱، ص۳۴ـ ۳۹۔
[۲۷۹]
رسولجعفریان، حیات فکری و سیاسی امامانشیعه علیهمالسلام، ج۱، ص۳۸۴ـ۳۸۵، قم۱۳۸۴ شمسی۔
[۲۸۰]
رسولجعفریان، حیات فکری و سیاسی امامانشیعه علیهمالسلام، ج۱، ص۳۹۳ـ ۴۰۵، قم۱۳۸۴ شمسی۔
مأمون نے امام رضاؑ کے خلاف مختلف نوعیت کی سیاسی چال کھیلی۔اس نے حضرتؑ کی ولایت عہدی پر نامزدگی اور اپنی بیٹی کی امامؑ سے تزویج کر کے یہ کوشش کی کہ امامؑ کے ساتھ اپنا رابطہ مضبوط کر کے علویوں کے درمیان پھوٹ ڈال دے کہ جو مسلح مزاحمت کا ارادہ رکھتے تھے اور امامؑ کو عباسیوں کے محل میں محصور کر دے۔ [۲۸۱]
جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدهم، ج۱، ص۲۸۔
[۲۸۲]
جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدهم، ج۱، ص۴۲۔
[۲۸۳]
جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدهم، ج۱، ص۴۴۔
[۲۸۴]
رسولجعفریان، حیات فکری و سیاسی امامانشیعه علیهمالسلام، ج۱، ص۴۳۱ـ۴۳۶، قم۱۳۸۴ شمسی۔
اس نے امام جوادؑ کے خلاف بھی اسی سیاست سے کام لیا اور ام فضل کو حضرتؑ کے عقد میں دے دیا تاکہ اس طرح انہیں زیر نگرانی رکھا جا سکے۔ [۲۸۵]
جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدهم، ج۱، ص۲۸۔
یہ فیصلہ عباسیوں کیلئے خوش آئند نہ تھا اور انہوں نے اسے خبردار کیا کہ امام جوادؑ کے ساتھ بھی آخر کار تمہارا وہی معاملہ ہو سکتا ہے جو امام رضاؑ کے ساتھ پیش آیا تھا۔ اس کے باوجود مامون، امام جوادؑ سے بہت اظہار محبت کرتا تھا اور آپؑ کی تعظیم و تکریم کرتا تھا۔وکالت کا نظام[ترمیم]امام صادقؑ کے زمانے سے ہی آئمہؑ اپنے شیعوں سے شرعی وجوہات اور ہدایا قبول کرتے تھے؛ [۲۹۰]
محمد بن حسن صفار قمی، بصائر الدرجات الکبری فی فضائل آلمحمد (ع)، ج۱، ص۱۱۹، چاپ محسن کوچه باغی تبریزی، تهران ۱۳۶۲ شمسی۔
[۲۹۱]
کلینی، اصول کافی، ج۲، ص۵۱۲۔
[۲۹۲]
حسین بن عبدالوهاب، عیون المعجزات، ج۱، ص۷۸، نجف ۱۳۶۹/ ۱۹۵۰۔
[۲۹۳]
سعید بن هبهاللّه قطبراوندی، الخرائج و الجرائح، ج۲، ص۷۷۷، قم: مؤسسه الامامالمهدی (ع)۔
مگر امام صادقؑ نے کسی کو اموال کی وصولی پر وکیل نہیں بنایا تھا۔ نظامِ وکالت کی بنیاد امام کاظمؑ نے رکھی۔ امامؑ کے وکلا مختلف شہروں میں زندگی بسر کرتے تھے۔ [۲۹۴]
کتاب القاب الرسول و عترته، در مجموعه نفیسه فی تاریخ الائمه، ج۱، ص۴۴۶ـ۴۴۷، همان محمد بن عمرکشی، اختیار معرفهالرجال، تلخیص محمد بن حسن طوسی، چاپ حسن مصطفوی، مشهد ۱۳۴۸ شمسی۔
[۲۹۵]
کتاب القاب الرسول و عترته، در مجموعه نفیسه فی تاریخ الائمه، ج۱، ص۴۵۹، همان محمد بن عمرکشی، اختیار معرفهالرجال، تلخیص محمد بن حسن طوسی، چاپ حسن مصطفوی، مشهد ۱۳۴۸ شمسی۔
[۲۹۶]
کتاب القاب الرسول و عترته، در مجموعه نفیسه فی تاریخ الائمه، ج۱، ص۵۹۷ ـ ۵۹۸، همان محمد بن عمرکشی، اختیار معرفهالرجال، تلخیص محمد بن حسن طوسی، چاپ حسن مصطفوی، مشهد ۱۳۴۸ شمسی۔
امام رضاؑ نے اپنے والد گرامی کے قائم کردہ منظم سلسلے کو باقی رکھا اور اپنی جانب سے تمام مقامات پر وکیل منصوب فرمائے۔ [۲۹۷]
کتاب القاب الرسول و عترته، در مجموعه نفیسه فی تاریخ الائمه، ج۱، ص۵۰۶، همان محمد بن عمرکشی، اختیار معرفهالرجال، تلخیص محمد بن حسن طوسی، چاپ حسن مصطفوی، مشهد ۱۳۴۸ شمسی۔
[۲۹۸]
احمد بن علی نجاشی، فهرست اسماء مصنّفی الشیعه المشتهر ب رجال النجاشی، ج۱، ص۱۹۷، چاپ موسی شبیری زنجانی، قم۱۴۰۷۔
[۲۹۹]
احمد بن علی نجاشی، فهرست اسماء مصنّفی الشیعه المشتهر ب رجال النجاشی، ج۱، ص۴۴۷، چاپ موسی شبیری زنجانی، قم۱۴۰۷۔
امام رضاؑ کے وکلا نے بھی ایام حج میں حضرت جوادؑ کا امتحان لینے اور آپؑ کی حقانیت پر یقین کرنے کے بعد اپنا کام پہلے کی طرح جاری رکھا۔ [۳۰۰]
جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدهم، ج۱، ص۴۵۔
امام جوادؑ سے مربوط بعض وکلا[ترمیم]شیعہ امامیہ سارے اسلامی ممالک میں بکھرے ہوئے تھے، [۳۰۱]
رسولجعفریان، حیات فکری و سیاسی امامانشیعه علیهمالسلام، ج۱، ص۴۹۲ـ۴۹۴، قم۱۳۸۴ شمسی۔
ایام حج، میں ان کی امام جوادؑ سے براہ راست ملاقات ہوا کرتی تھی جبکہ عام دنوں میں دیگر شہروں میں موجود وکلا کے ذریعے وہ امامؑ سے مربوط رہتے تھے۔ ان میں سے بعض یہ ہیں: علی بن مَہزیار اہواز میں، [۳۰۲]
احمد بن علی نجاشی، فهرست اسماء مصنّفی الشیعه المشتهر ب رجال النجاشی، ج۱، ص۲۵۳، چاپ موسی شبیری زنجانی، قم۱۴۰۷۔
ابراہیم بن محمد ہمدانی ہمدان میں، [۳۰۳]
کتاب القاب الرسول و عترته، در مجموعه نفیسه فی تاریخ الائمه، ج۱، ص۶۱۱ـ۶۱۲، همان محمد بن عمرکشی، اختیار معرفهالرجال، تلخیص محمد بن حسن طوسی، چاپ حسن مصطفوی، مشهد ۱۳۴۸ شمسی۔
یحییٰ بن ابی عمران ری میں، [۳۰۴]
سعید بن هبهاللّه قطبراوندی، الخرائج و الجرائح، ج۲، ص۶۶۹، قم: مؤسسه الامامالمهدی (ع)۔
[۳۰۵]
ابن شهرآشوب، مناقب آل ابیطالب، ج۴، ص۳۹۷، چاپهاشم رسولی محلاتی، قم۔
یونس بن عبدالرحمٰن اور ابوعمرو حَذّاء بصره میں، [۳۰۶]
کلینی، اصول کافی، ج۵، ص۳۱۶۔
[۳۰۷]
کتاب القاب الرسول و عترته، در مجموعه نفیسه فی تاریخ الائمه، ج۱، ص۴۸۷ـ ۴۸۸، همان محمد بن عمرکشی، اختیار معرفهالرجال، تلخیص محمد بن حسن طوسی، چاپ حسن مصطفوی، مشهد ۱۳۴۸ شمسی۔
علی بن حسان واسطی بغداد میں، [۳۰۸]
علی بن حسین مسعودی ، اثباتالوصیه للامام علی بن ابیطالب، ج۱، ص۲۲۳، قم۱۳۸۲ شمسی۔
علی بن اسباط، مصر میں، [۳۰۹]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۴۹۴۔
صفوان بن یحییٰ، کوفہ میں، [۳۱۰]
کتاب القاب الرسول و عترته، در مجموعه نفیسه فی تاریخ الائمه، ج۱، ص۵۰۸، همان محمد بن عمرکشی، اختیار معرفهالرجال، تلخیص محمد بن حسن طوسی، چاپ حسن مصطفوی، مشهد ۱۳۴۸ شمسی۔
[۳۱۱]
احمد بن علی نجاشی، فهرست اسماء مصنّفی الشیعه المشتهر ب رجال النجاشی، ج۱، ص۱۹۷، چاپ موسی شبیری زنجانی، قم۱۴۰۷۔
صالح بن محمد بن سہل اور زکریا بن آدم ، قم میں۔ [۳۱۲]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۵۴۸۔
[۳۱۳]
کتاب القاب الرسول و عترته، در مجموعه نفیسه فی تاریخ الائمه، ج۱، ص۵۰۳، همان محمد بن عمرکشی، اختیار معرفهالرجال، تلخیص محمد بن حسن طوسی، چاپ حسن مصطفوی، مشهد ۱۳۴۸ شمسی۔
[۳۱۴]
محمدرضا جباری، سازمان وکالت و نقش آن در عصر ائمه (علیهمالسلام)، ج۱، ص۴۷ـ۳۴۱، قم۱۳۸۲ شمسی۔
حضرت جوادؑ کے مستقل نمائندگان کے علاوہ خصوصی نمائندے بھی ہوا کرتے تھے جنہیں امامؑ مختلف شہروں میں روانہ کیا کرتے تھے تاکہ مستقل نمائندگان کے پاس جمع شدہ شرعی وجوہات کو جمع کر کے لائیں۔ [۳۱۵]
کتاب القاب الرسول و عترته، در مجموعه نفیسه فی تاریخ الائمه، ج۱، ص۵۹۶، همان محمد بن عمرکشی، اختیار معرفهالرجال، تلخیص محمد بن حسن طوسی، چاپ حسن مصطفوی، مشهد ۱۳۴۸ شمسی۔
امامؑ کے چند شیعوں کو یہ اجازت بھی ملی کہ حکومت میں شامل ہو جائیں اور ان میں سے بعض افراد اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز ہوئے، [۳۱۶]
جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدهم، ج۱، ص۴۶۔
منجملہ محمد بن اسماعیل بن بَزِیع ، وزیر تھے۔ [۳۱۷]
احمد بن علی نجاشی، فهرست اسماء مصنّفی الشیعه المشتهر ب رجال النجاشی، ج۱، ص۳۳۱، چاپ موسی شبیری زنجانی، قم۱۴۰۷۔
[۳۱۸]
ابن بسطام (حسین بن بسطام) و ابن بسطام (عبداللّه بن بسطام)، طب الائمه علیهمالسلام، نجف) ۱۳۸۵ (، چاپ افستبیروت)۔
[۳۱۹]
کلینی، اصول کافی، ج۵، ص۱۱۱۔
[۳۲۰]
محمد بن حسن طوسی، الاستبصار، ج۲، ص۵۸، چاپ حسن موسویخرسان، نجف ۱۳۷۵ ـ۱۳۷۶/ ۱۹۵۶ـ۱۹۵۷، چاپ افست تهران ۱۳۶۳ شمسی۔
یہ سب امور مخفیانہ نظام وکالت کی سرگرمیوں کا حصہ تھے کہ جس کا ہدف، شیعہ امامیہ کے مالی و مذہبی فرائض کی ادائیگی کا سامان فراہم کرنا تھا۔وکلائے امام کی سیاسی سرگرمیاں[ترمیم]امامیه کی معتبر کتب میں نظام وکالت کے تحت کسی قسم کے فوجی اقدامات کا ذکر نہیں ملتا، تاہم جاسم حسین [۳۲۱]
جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدهم۔
نے اہل قم کی مسلح مزاحمت کو امام جوادؑ سے مربوط قرار دیا ہے؛ قابل ذکر ہے کہ اس مزاحمت کو مامون کے حکم پر سنہ ۲۱۰ھ میں کچل دیا گیا اور اس میں امام جوادؑ کے ایک وکیل یحییٰ بن عمران کو قتل کیا گیا۔ [۳۲۲]
یزید بن محمد ازدی، تاریخ الموصل، ج۱، ص۳۶۸، چاپ علی حبیبه، قاهره۱۳۸۷/ ۱۹۶۷۔
ان کے نزدیک [۳۲۳]
جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدهم۔
مأمون، امام جوادؑ کو اس مسلح مزاحمت سے مربوط سمجھتا تھا؛ اس لیے سنہ ۲۱۵ھ میں اس نے امامؑ کو مدینہ سے بلا بھیجا اور ان پر دباؤ ڈالا کہ اپنی زوجہ ام فضل جو ابھی باپ کے گھر میں تھی؛ کو اپنے ساتھ مدینہ لے جائیں۔ یہ ازدواج نہ امامیہ کی مامون کیلئے ہمدردی کا سبب بنا اور نہ ہی اس سے اہل قم کی مزاحمت میں کوئی فرق آیا۔اس مسلح مزاحمت کے ایک رہنما جعفر بن داؤد قمی، کو مصر جلا وطن کر دیا گیا تھا مگر سنہ ۲۱۶ھ میں وہ ایک مرتبہ پھر مصر سے فرار ہو کر قم پہنچے اور مامون کی فوج کو شکست سے دوچار کیا۔ سنہ ۲۱۷ھ میں عباسیوں نے ان کے قیام کو کچل کر انہیں قتل کر دیا؛ [۳۲۴]
طبری، تاریخ طبری، ج۸، ص۶۲۶، (بیروت)۔
[۳۲۵]
طبری، تاریخ طبری، ج۸، ص۶۳۰، (بیروت)۔
[۳۲۶]
ابن اثیر، ج۶، ص ۴۲۲ ، الکامل فی التاریخ۔
مگر اس کے بعد علویوں کے مخفی قیام زیادہ وسیع ہو گئے اور معتصم نے ناچار امام جوادؑ اور امام زین العابدینؑ کے ایک پوتے محمد بن قاسم کو بغداد طلب کر لیا تاکہ شیعہ کی مخفی مزاحمت پر ان کے اثر و رسوخ کا جائزہ لے سکے۔ [۳۲۷]
جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدهم، ج۱، ص۴۷۔
[۳۲۸]
علی بن حسین مسعودی، مروجالذهب و معادنالجوهر، ج۴، ص۳۴۹ـ۳۵۰، چاپ شارلپلاّ، بیروت ۱۹۶۵ـ۱۹۷۹۔
امام جوادؑ کی امامت کے آخری سالوں میں وکلا کی سرگرمیاں[ترمیم]امام جوادؑ کی امامت کے آخری سالوں میں آپؑ کے وکلا کی سرگرمیاں مزید پھیل چکی تھیں؛ [۳۲۹]
جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدهم، ج۱، ص۴۷۔
یہاں تک کہ امام جوادؑ نے ’’جنگ خرمیہ‘‘ میں شرکت کرنے والے خراسان کے شیعوں کو حکم دیا کہ اپنا خمس وکلا کے ذریعے انہیں ادا کریں۔ [۳۳۰]
محمد بن حسن طوسی، الاستبصار، ج۲، ص۶۰ـ۶۲، چاپ حسن موسویخرسان، نجف ۱۳۷۵ ـ۱۳۷۶/ ۱۹۵۶ـ۱۹۵۷، چاپ افست تهران ۱۳۶۳ شمسی۔
اسی طرح امامؑ نے معتصم کی جانب سے بغداد طلبی کا حکم نامہ سنے کے بعد اپنے نمائندے محمد بن فرج سے کہا کہ خمس ان کے سپرد کر دیں۔ [۳۳۲]
ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج۴، ص۳۸۹، چاپهاشم رسولی محلاتی، قم۔
امامؑ کا علمی مقام[ترمیم]اگرچہ امام جوادؑ بچپن میں امامت کے منصب پر فائز ہو گئے تھے اور آپ کی امامت کا دورانیہ بھی مختصر تھا، مگر اس کے باوجود شیعہ اور بہت سے اہل سنت منابع میں آپؑ سے منسوب دو سو احادیث منقول ہیں؛ جن سے آپ کے علمی مقام اور فقہی، تفسیری، عقائدی اور اخلاقی مسائل پر احاطے کا اندازہ ہوتا ہے۔ مشکل سیاسی حالات کے باعث کچھ عرصے تک حضرتؑ نے اپنی امامت کو مخفی رکھا؛ [۳۳۳]
دلائلالامامه، منسوب به محمد بن جریر طبری آملی، ج۱، ص۲۹۱، قم: مؤسسه البعثه، ۱۴۱۳۔
[۳۳۴]
علی بن حسین مسعودی ، اثباتالوصیه للامام علی بن ابیطالب، ج۱، ص۲۲۳، قم۱۳۸۲ شمسی۔
؛ اس اعتبار سے شیعوں کے امام سے ارتباط کا سادہ ترین راستہ نامہ نگاری تھا۔حضرتؑ سے منقول بہت سے معارف و مطالب آپؑ کے اپنے شیعوں کی طرف ارسال کردہ خطوط میں درج ہیں۔ [۳۳۵]
رسولجعفریان، حیات فکری و سیاسی امامانشیعه علیهمالسلام، ج۱، ص۴۸۹، قم۱۳۸۴ شمسی۔
شیعہ، بذریعہ خطوط اپنے سوالات جو زیادہ تر فقہی نوعیت کے ہوتے تھے؛ امامؑ کو ارسال کرتے تھے اور امامؑ ان کا جواب دیتے تھے۔امامؑ جن افراد کو نامہ لکھا کرتے تھے، ان کے نام اکثر مقامات پر مشخص ہیں۔ [۳۳۶]
کلینی، اصول کافی، ج۳، ص۳۹۹۔
[۳۳۷]
کلینی، اصول کافی، ج۴، ص۲۷۵۔
[۳۳۸]
کلینی، اصول کافی، ج۴، ص۵۲۴۔
[۳۳۹]
کلینی، اصول کافی، ج۵، ص۳۴۷۔
[۳۴۰]
کتاب القاب الرسول و عترته، در مجموعه نفیسه فی تاریخ الائمه، ج۱، ص۶۱۰- ۶۱۱، همان محمد بن عمرکشی، اختیار معرفهالرجال، تلخیص محمد بن حسن طوسی، چاپ حسن مصطفوی، مشهد ۱۳۴۸ شمسی۔
[۳۴۱]
محمد بن حسن طوسی، تهذیبالاحکام، ج۳، ص۲۷۶، چاپ حسن موسویخرسان، تهران۱۳۹۰۔
[۳۴۲]
محمد بن حسن طوسی، تهذیبالاحکام، ج۴، ص۸۷، چاپ حسن موسویخرسان، تهران۱۳۹۰۔
[۳۴۳]
محمد بن حسن طوسی، تهذیبالاحکام، ج۵، ص۴۱۱، چاپ حسن موسویخرسان، تهران۱۳۹۰۔
موسوعۃ الامام الجواد ، [۳۴۵]
موسوعه الامامالجواد علیهالسلام، قم: مؤسسه ولیالعصر علیهالسلام للدراساتالاسلامیه، ج۲، ص۴۱۶ـ ۵۰۸، ۱۴۱۹۔
میں تمام حدیثی اور رجالی منابع سے تریسٹھ افراد کے نام جمع کیے گئے ہیں کہ جن کے ساتھ امامؑ، خط و کتابت کیا کرتے تھے، تاہم کچھ خطوط شیعوں کے کسی گروہ کے جواب میں تحریر کیے جاتے تھے۔ [۳۴۶]
کلینی، اصول کافی، ج۳، ص۳۳۱۔
[۳۴۷]
کلینی، اصول کافی، ج۳، ص۳۹۸۔
[۳۴۸]
کلینی، اصول کافی، ج۵، ص۳۹۴۔
[۳۴۹]
کلینی، اصول کافی، ج۷، ص۱۶۳۔
[۳۵۰]
کتاب القاب الرسول و عترته، در مجموعه نفیسه فی تاریخ الائمه، ج۱، ص۶۰۶، همان محمد بن عمرکشی، اختیار معرفهالرجال، تلخیص محمد بن حسن طوسی، چاپ حسن مصطفوی، مشهد ۱۳۴۸ شمسی۔
[۳۵۱]
کتاب القاب الرسول و عترته، در مجموعه نفیسه فی تاریخ الائمه، ج۱، ص۶۱۱، همان محمد بن عمرکشی، اختیار معرفهالرجال، تلخیص محمد بن حسن طوسی، چاپ حسن مصطفوی، مشهد ۱۳۴۸ شمسی۔
[۳۵۲]
محمد بن حسن طوسی، تهذیبالاحکام، ج۹، ص۲۴۲، چاپ حسن موسویخرسان، تهران۱۳۹۰۔
[۳۵۳]
محمد بن حسن طوسی، تهذیبالاحکام، ج۹، ص۲۷۳، چاپ حسن موسویخرسان، تهران۱۳۹۰۔
اور کچھ مقامات پر خط لکھنے والے کا نام معلوم نہیں ہے۔ [۳۵۴]
موسوعه الامامالجواد علیهالسلام، قم: مؤسسه ولیالعصر علیهالسلام للدراساتالاسلامیه، ج۲، ص۵۱۵ ـ ۵۲۱، ۱۴۱۹۔
امام جوادؑ کی روایات میں تنوّع[ترمیم]حدیثی منابع کے مطابق، امام جوادؑ نے بہت سی احادیث کی روایت پیغمبرؐ یا سابق آئمہؑ سے کی ہے۔ [۳۵۵]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۲۵۰۔
[۳۵۶]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۵۳۲۔
[۳۵۷]
کلینی، اصول کافی، ج۴، ص۵۰۴۔
[۳۵۸]
ابن بابویه، معانیالاخبار، ج۱، ص۲۸۸، چاپ علیاکبر غفاری، قم۱۳۶۱ شمسی۔
[۳۵۹]
موسوعه الامامالجواد علیهالسلام، قم: مؤسسه ولیالعصر علیهالسلام للدراساتالاسلامیه، ج۲، ص۵۳۱ ـ ۶۵۹، ۱۴۱۹۔
شیعہ کی چار حدیثی کتب اور دیگر روائی کتب میں حضرت جوادؑ سے متعدد فقہی احادیث منقول ہیں کہ جن کے موضوعات میں تنوّع قابل توجہ ہے۔ تقریبا آدھے سے زیادہ فقہی ابواب و موضوعات میں آپؑ سے احادیث منقول ہوئی ہیں۔ [۳۶۰]
موسوعه الامامالجواد علیهالسلام، قم: مؤسسه ولیالعصر علیهالسلام للدراساتالاسلامیه، ج۲، ص۵ ـ۲۱۴، ۱۴۱۹۔
[۳۶۱]
عزیزاللّه عطاردیقوچانی، مسند الامامالجواد ابیجعفر محمد بن علیالرضا علیهماالسلام، ج۱، ص۱۹۱ـ۲۳۹، قم ۱۴۱۰۔
[۳۶۲]
محمدباقر موحدی ابطحی، مستدرک عوالمالعلوم و المعارف و الاحوال من الایات و الاخبار و الاقوال، ج۲۳، ص۳۷۱ـ ۵۰۸، ج۲۳، قم ۱۴۱۳۔
اسی طرح عقائد جیسے توحید، صفاتِ خدا اور نبوت و امامت کے بارے میں امام جوادؑ سے احادیث مرویّ ہیں۔ [۳۶۳]
احمد بن محمد برقی، کتابالمحاسن، ج۱، ص۲۳۹، چاپ جلالالدین محدثارموی، تهران ۱۳۳۰ شمسی۔
[۳۶۴]
ابن بابویه، التوحید، ج۱، ص۱۰۴، چاپ هاشم حسینیطهرانی، قم۱۳۸۷۔
[۳۶۵]
ابن بابویه، التوحید، ج۱، ص۱۰۷، چاپ هاشم حسینیطهرانی، قم۱۳۸۷۔
[۳۶۶]
محمد بن حسن صفار قمی، بصائر الدرجات الکبری فی فضائل آلمحمد (ع)، ج۱، ص۲۴۶، چاپ محسن کوچه باغی تبریزی، تهران ۱۳۶۲ شمسی۔
[۳۶۷]
ابن شعبه، تحف العقول عن آلالرسول، ج۱، ص۴۵۶، چاپعلیاکبر غفاری، قم۱۳۶۳ شمسی۔
حضرتؑ سے منقول تفسیری احادیث[ترمیم]حضرتؑ سے منقول احادیث کا ایک حصہ تفسیری روایات پر مشتمل ہے۔ یہ احادیث زیادہ تر فقہی [۳۶۸]
محمد بن مسعود عیاشی، کتاب التفسیر، ج۱، ص۳۱۹ـ۳۲۰، چاپ هاشم رسولی محلاتی، قم۱۳۸۰ـ۱۳۸۱، چاپ افست تهران۔
[۳۶۹]
کلینی، اصول کافی، ج۶، ص۱۱۳۔
[۳۷۰]
محمد بن حسن طوسی، تهذیبالاحکام، ج۹، ص۸۳، چاپ حسن موسویخرسان، تهران۱۳۹۰۔
و کلامی [۳۷۱]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۹۹۔
[۳۷۲]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۲۴۲۔
[۳۷۳]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۳۸۴۔
[۳۷۴]
علی بن ابراهیم قمی، تفسیر القمی، ج۱، ص۳۵۸، چاپ طیب موسوی جزائری، قم ۱۴۰۴۔
[۳۷۵]
کتاب القاب الرسول و عترته، در مجموعه نفیسه فی تاریخ الائمه، ج۱، ص۱۹۹، همان محمد بن عمرکشی، اختیار معرفهالرجال، تلخیص محمد بن حسن طوسی، چاپ حسن مصطفوی، مشهد ۱۳۴۸ شمسی۔
[۳۷۶]
الاختصاص، منسوب به محمد بن محمد مفید، ج۱، ص۲۶۳، چاپعلیاکبر غفاری، قم: جامعه مدرسین حوزه علمیه قم۔
انداز کی حامل ہیں اور بعض اوقات ان میں بعض آیات کی تاویل بھی کی گئی ہے۔ [۳۷۷]
محمد بن حسن صفار قمی، بصائر الدرجات الکبری فی فضائل آلمحمد (ع)، ج۱، ص۵۲۰، چاپ محسن کوچه باغی تبریزی، تهران ۱۳۶۲ شمسی۔
[۳۷۸]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۲۴۸۔
[۳۷۹]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۴۱۴۔
[۳۸۰]
علی بن ابراهیم قمی، تفسیر القمی، ج۲، ص۳۳۴، ج۱، ص۱۶۰، چاپ طیب موسوی جزائری، قم ۱۴۰۴۔
[۳۸۱]
محمدباقر موحدی ابطحی، مستدرک عوالمالعلوم و المعارف و الاحوال من الایات و الاخبار و الاقوال، ج۲۳، ص۱۶۲ـ۲۱۰، ج۲۳، قم ۱۴۱۳۔
[۳۸۲]
موسوعه الامامالجواد علیهالسلام، قم: مؤسسه ولیالعصر علیهالسلام للدراساتالاسلامیه، ج۲، ص۲۱۹ـ۲۶۷، ۱۴۱۹۔
امامؑ کے مناظرات و احتجاجات[ترمیم]حضرتؑ سے مروی احادیث کا ایک حصہ فقہی و کلامی مسائل میں آپؑ کے مناظرات و احتجاجات پر مبنی ہے۔ امام جوادؑ کو دو گروہوں کی طرف سے مناظرے کی دعوت دی گئی: بعض شیعوں کی جانب سے کم سنی کے باعث اور مامون و معتصم کی جانب سے جو بظاہر آئمہؑ سے محبت اور علم دوستی کے دعویدار تھے مگر درحقیقت آئمہؑ کے علم لدنی کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔ [۳۸۳]
رسولجعفریان، حیات فکری و سیاسی امامانشیعه علیهمالسلام، ج۱، ص۴۸۲ـ۴۸۳، قم۱۳۸۴ شمسی۔
ان میں امام جوادؑ کا یحییٰ بن اکثم کے ساتھ مناظرہ مشہور ہے جو صید اور حرم کے احکام سے متعلق تھا۔ اس مناظرے میں پہلے امامؑ نے مسئلے کی شقیں بیان کیں جنہیں سن کر یحییٰ حیران و پریشان ہو گیا اور مامون نے خوشی کا اظہار کیا۔ابن تیمیہ ، [۳۸۵]
ابن تیمیه، منهاج السنه النبویه، ج۱، ص۶۸ـ۷۲، چاپ محمدرشاد سالم، حجاز ۱۴۰۶/۱۹۸۶۔
نے امام جوادؑ، کی تعریف و تمجید کے ضمن میں اس روایت کی صحت پر اظہار تردید کیا ہے اور اس کے مضمون پر تنقید کی ہے۔ حسینیمیلانی [۳۸۶]
علیحسینی میلانی، شرح منهاج الکرامه فی معرفهالامامه، ج۱، ص۲۰۸، قم۱۳۷۶ شمسی۔
نے اس کی تنقید کو بے جا قرار دیا ہے کیونکہ ابن تیمیہ کی تنقید اس کی تلخیص پر ہے جسے علامہ حلیؒ نے منہاج الکرامۃ [۳۸۷]
حسن بن یوسف علامهحلّی، منهاج الکرامه فی معرفه الامامه، ج۱، ص۶۰ـ۶۲، چاپ عبدالرحیم مبارک، مشهد ۱۳۷۹ شمسی۔
میں روایت کیا ہے، مگر مکمل روایت کو شیخ مفیدؒ نے نقل کیا ہے؛ [۳۹۰]
احمد بن علیطبرسی، الاحتجاج، ج۲، ص۲۴۲ـ۲۴۳، چاپ محمدباقر موسویخرسان، نجف۱۳۸۶/ ۱۹۶۶ چاپ افست قم۔
جس کے مطابق، امامؑ نے مامون کی خواہش پر ان فروض میں سے ہر ایک کا جواب بھی دیا اور پھر یحییٰ بن اکثم سے ایک سوال کیا کہ جس کا جواب دینے سے وہ قاصر رہا اور پھر امامؑ نے اس کا جواب بھی دیا۔ [۳۹۱]
احمد بن علیطبرسی، الاحتجاج، ج۲، ص۲۴۵ـ۲۴۹، چاپ محمدباقر موسویخرسان، نجف۱۳۸۶/ ۱۹۶۶ چاپ افست قم۔
ایک اور مناظرہ معتصم کی موجودگی میں سارق کی حد کے بارے میں انجام پایا کہ جس میں امامؑ کے جواب نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ [۳۹۲]
محمد بن مسعود عیاشی، کتاب التفسیر، ج۱، ص۳۱۹ـ۳۲۰، چاپ هاشم رسولی محلاتی، قم۱۳۸۰ـ۱۳۸۱، چاپ افست تهران۔
اس روایت میں آیا ہے کہ اسی مناظرے کے نتیجے میں معتصم نے امامؑ کو زہر دینے کا ارادہ کیا۔حضرتؑ کے اخلاقی نصائح[ترمیم]حضرتؑ کے اخلاقی مواعظ اور حکمت آمیز کلماتِ قصار حدیث و ادب کی کتب میں مذکور ہیں۔ [۳۹۳]
ابن شعبه، تحف العقول عن آلالرسول، ج۱، ص۴۵۵ـ ۴۵۷، چاپعلیاکبر غفاری، قم۱۳۶۳ شمسی۔
[۳۹۴]
حسین بن محمد حلوانی، نزهه الناظر و تنبیه الخاطر، ج۱، ص۱۳۴ـ۱۳۷، قم ۱۴۰۸۔
[۳۹۵]
علی بن عیسیبهاءالدیناربلی، کشفالغمه فی معرفهالائمه، ج۳، ص۱۳۶ـ ۱۴۰، چاپ هاشم رسولیمحلاتی، بیروت ۱۴۰۱/ ۱۹۸۱۔
[۳۹۶]
محمد بن حسن دیلمی، اعلام الدین فی صفات المؤمنین، ج۱، ص۳۰۹ـ۳۱۰، قم ۱۴۰۸۔
آپؑ کے کچھ حکیمانہ کلمات ابن حمدون کی کتاب التذکرۃ الحمدونیۃ [۳۹۷]
ابن حمدون، التذکرهالحمدونیه، ج۱، ص۱۱۲، چاپ احسان عباس، بیروت۱۹۸۳ـ ۱۹۸۴۔
[۳۹۸]
ابن حمدون، التذکرهالحمدونیه، ج۱، ص۲۶۹ـ۲۷۰، چاپ احسان عباس، بیروت۱۹۸۳ـ ۱۹۸۴۔
[۳۹۹]
ابن حمدون، التذکرهالحمدونیه، ج۱، ص۳۷۱ـ۳۷۲، چاپ احسان عباس، بیروت۱۹۸۳ـ ۱۹۸۴۔
[۴۰۰]
ابن حمدون، التذکرهالحمدونیه، ج۲، ص۱۸۰، چاپ احسان عباس، بیروت۱۹۸۳ـ ۱۹۸۴۔
میں بھی منقول ہیں۔ ان اقوال کے زیادہ تر موضوعات اخلاقی ہیں؛ از قبیل تقویٰ ، [۴۰۱]
علی بن عیسیبهاءالدیناربلی، کشفالغمه فی معرفهالائمه، ج۳، ص۱۳۷، چاپ هاشم رسولیمحلاتی، بیروت ۱۴۰۱/ ۱۹۸۱۔
اخلاص ، [۴۰۲]
کلینی، اصول کافی، ج۲، ص۲۶۱۔
توکل ، [۴۰۳]
محمد بن حسن دیلمی، اعلام الدین فی صفات المؤمنین، ج۱، ص۳۰۹، قم ۱۴۰۸۔
شکر نعمت ، [۴۰۴]
حسین بن محمد حلوانی، نزهه الناظر و تنبیه الخاطر، ج۱، ص۱۳۷، قم ۱۴۰۸۔
[۴۰۵]
علی بن عیسیبهاءالدیناربلی، کشفالغمه فی معرفهالائمه، ج۳، ص۱۳۹، چاپ هاشم رسولیمحلاتی، بیروت ۱۴۰۱/ ۱۹۸۱۔
توبہ ، [۴۰۶]
ابن شعبه، تحف العقول عن آلالرسول، ج۱، ص۴۵۶، چاپعلیاکبر غفاری، قم۱۳۶۳ شمسی۔
حصولِ علم کی تلقین، [۴۰۷]
علی بن عیسیبهاءالدیناربلی، کشفالغمه فی معرفهالائمه، ج۳، ص۱۳۷، چاپ هاشم رسولیمحلاتی، بیروت ۱۴۰۱/ ۱۹۸۱۔
ہوائے نفس [۴۰۸]
علی بن عیسیبهاءالدیناربلی، کشفالغمه فی معرفهالائمه، ج۳، ص۱۳۸، چاپ هاشم رسولیمحلاتی، بیروت ۱۴۰۱/ ۱۹۸۱۔
و اور نفاق جیسے رذائل سے پرہیز۔ [۴۰۹]
محمد بن حسن دیلمی، اعلام الدین فی صفات المؤمنین، ج۱، ص۳۰۹، قم ۱۴۰۸۔
[۴۱۰]
موسوعه الامامالجواد علیهالسلام، قم: مؤسسه ولیالعصر علیهالسلام للدراساتالاسلامیه، ج۲، ص۳۲۹ـ ۳۸۱، ۱۴۱۹۔
ان میں سے کچھ احادیث [[طب]] کے حوالے سے ہیں کہ جن میں بعض بیماریوں کا علاج امامؑ سے منقول ہے۔ [۴۱۱]
کلینی، اصول کافی، ج۶، ص۳۰۷۔
[۴۱۲]
کلینی، اصول کافی، ج۶، ص۳۱۲۔
[۴۱۳]
کلینی، اصول کافی، ج۶، ص۳۶۸۔
[۴۱۴]
کلینی، اصول کافی، ج۶، ص۵۲۲۔
[۴۱۵]
کلینی، اصول کافی، ج۸، ص۱۶۵۔
[۴۱۶]
ابن بسطام (حسین بن بسطام) و ابن بسطام (عبداللّه بن بسطام)، طب الائمه علیهمالسلام، ج۱، ص۷۰، نجف) ۱۳۸۵ (، چاپ افستبیروت)۔
[۴۱۷]
ابن بسطام (حسین بن بسطام) و ابن بسطام (عبداللّه بن بسطام)، طب الائمه علیهمالسلام، ج۱، ص۸۹، نجف) ۱۳۸۵ (، چاپ افستبیروت)۔
[۴۱۸]
ابن بسطام (حسین بن بسطام) و ابن بسطام (عبداللّه بن بسطام)، طب الائمه علیهمالسلام، ج۱، ص۹۰ـ۹۱، نجف) ۱۳۸۵ (، چاپ افستبیروت)۔
امامؑ کے راوی اور انصار[ترمیم]حضرت جوادؑ کی احادیث کے راوی بہت زیادہ ہیں۔ شیخ طوسیؒ [۴۱۹]
محمد بن حسن طوسی، رجال الطوسی، ج۱، ص۳۷۳ـ۳۸۰، چاپ جواد قیومیاصفهانی، قم۱۴۱۵۔
نے ان میں سے ایک سو سولہ اشخاص کو شمار کیا ہے؛ اگرچہ ان میں سے خاص اور بااعتماد اصحاب کی تعداد قلیل ہے۔ [۴۲۰]
عزیزاللّه عطاردیقوچانی، مسند الامامالجواد ابیجعفر محمد بن علیالرضا علیهماالسلام، ج۱، ص۲۵۰ـ ۳۳۳، قم ۱۴۱۰۔
علی بن مہزیار اہوازی ، ابو ہاشم داؤد بن قاسم جعفری، عبد العظیم حسنی، احمد بن محمد بَزَنطی اور علی بن اسباط کوفی؛ امامؑ کے بااعتماد اور ثقہ اصحاب میں سے ہیں اور انہوں نے دوسروں کی نسبت آپؑ سے زیادہ احادیث نقل کی ہیں۔ [۴۲۱]
عزیزاللّه عطاردیقوچانی، مسند الامامالجواد ابیجعفر محمد بن علیالرضا علیهماالسلام، ج۱، ص۲۶۲ـ۲۶۴، قم ۱۴۱۰۔
[۴۲۲]
عزیزاللّه عطاردیقوچانی، مسند الامامالجواد ابیجعفر محمد بن علیالرضا علیهماالسلام، ج۱، ص۲۷۵ـ۲۷۶، قم ۱۴۱۰۔
[۴۲۳]
عزیزاللّه عطاردیقوچانی، مسند الامامالجواد ابیجعفر محمد بن علیالرضا علیهماالسلام، ج۱، ص۲۹۸ـ ۳۰۸، قم ۱۴۱۰۔
[۴۲۴]
عزیزاللّه عطاردیقوچانی، مسند الامامالجواد ابیجعفر محمد بن علیالرضا علیهماالسلام، ج۱، ص۳۱۱، قم ۱۴۱۰۔
[۴۲۵]
عزیزاللّه عطاردیقوچانی، مسند الامامالجواد ابیجعفر محمد بن علیالرضا علیهماالسلام، ج۱، ص۳۱۴ـ۳۱۶، قم ۱۴۱۰۔
اسی طرح احمد بن ابی خالد [۴۲۶]
کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۳۲۵۔
اور موفق بن ہارون [۴۲۷]
حسن بن فضلطبرسی، مکارمالاخلاق، ج۱، ص۹۲، قم۱۳۹۲/۱۹۷۲۔
، دونوں امامؑ کے خادم ہیں جبکہ عثمان بن سعید عَمْری [۴۲۸]
ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج۴، ص۳۸۰، چاپهاشم رسولی محلاتی، قم۔
اور عمرو بن فرات ، [۴۲۹]
ابن صباغ، الفصول المهمه فی معرفه احوال الائمه علیهمالسلام، ج۱، ص۲۶۲، بیروت۱۴۰۸/۱۹۸۸۔
حضرتؑ کے علم کے ابواب تھے اور انہوں نے آپؑ سے روایات نقل کی ہیں۔کچھ افراد کی مذمت[ترمیم]امامؑ نے کچھ افراد پر طعن بھی کیا ہے اور ان کی مذمت کی ہے؛ منجملہ غالی کہ جن کا شیعوں کو بدنام کرنے میں بڑا حصہ ہے اور آئمہؑ ان سے متنفر تھے، وہ غلو آمیز روایات وضع کرتے اور انہیں آئمہؑ سے منسوب کرتے تھے جبکہ خود کو آئمہؑ کے نمائندے ظاہر کرتے تھے۔ [۴۳۰]
مجلسی، بحارالانوار، ج۲۵، ص۲۶۱ـ۳۵۰۔
علی بن مہزیار سے منقول ایک روایت میں امام جوادؑ نے غالیوں کے سرغنہ ابو الخطاب محمد بن ابی زینب اور اس کے ساتھیوں ( ابو الغمر ، جعفر بن واقد اور ہاشم بن ابی ہاشم ) پر لعنت کی ہے۔ [۴۳۱]
کتاب القاب الرسول و عترته، در مجموعه نفیسه فی تاریخ الائمه، ج۱، ص۵۲۸، همان محمد بن عمرکشی، اختیار معرفهالرجال، تلخیص محمد بن حسن طوسی، چاپ حسن مصطفوی، مشهد ۱۳۴۸ شمسی۔
ایک اور روایت کے مطابق، امامؑ نے اپنے ایک صحابی کو حکم دیا کہ دو غالیوں ابو السمہری اور ابن ابی الزرقاء ، کو قتل کر دے۔ [۴۳۲]
کتاب القاب الرسول و عترته، در مجموعه نفیسه فی تاریخ الائمه، ج۱، ص۵۲۹، همان محمد بن عمرکشی، اختیار معرفهالرجال، تلخیص محمد بن حسن طوسی، چاپ حسن مصطفوی، مشهد ۱۳۴۸ شمسی۔
کچھ فرقوں کی مذمت[ترمیم]امام جوادؑ، واقفہ / واقفیہ اور زیدیہ کی مذمت کرتے تھے۔ [۴۳۳]
کتاب القاب الرسول و عترته، در مجموعه نفیسه فی تاریخ الائمه، ج۱، ص۲۲۹، همان محمد بن عمرکشی، اختیار معرفهالرجال، تلخیص محمد بن حسن طوسی، چاپ حسن مصطفوی، مشهد ۱۳۴۸ شمسی۔
[۴۳۴]
کتاب القاب الرسول و عترته، در مجموعه نفیسه فی تاریخ الائمه، ج۱، ص۴۶۰، همان محمد بن عمرکشی، اختیار معرفهالرجال، تلخیص محمد بن حسن طوسی، چاپ حسن مصطفوی، مشهد ۱۳۴۸ شمسی۔
[۴۳۵]
محمد بن حسن طوسی، تهذیبالاحکام، ج۳، ص۲۸، چاپ حسن موسویخرسان، تهران۱۳۹۰۔
متعلقہ عناوین[ترمیم]•امام علی علیہ السلام• امام حسن علیہ السلام• امام حسین علیہ السلام• امام سجاد علیہ السلام•امام محمد باقر علیہ السلام•امام صادق علیہ السلام•امام کاظم علیہ السلام• امام رضا علیہ السلام• امام علی النقی علیہ السلام•امام حسن عسکری علیہ السلام• امام مہدی علیہ السلام•منابع[ترمیم](۱) ابن ابیالثلج، تاریخالائمه، در مجموعه نفیسه فی تاریخالائمه، چاپ محمود مرعشی، قم: کتابخانه آیهاللّه مرعشینجفی، ۱۴۰۶۔ (۲) ابن ابیطاهر، کتاببغداد، چاپ محمد زاهد بن حسن کوثری، قاهره ۱۳۶۸/ ۱۹۴۹۔ (۳) ابن اثیر، الکامل فی التاریخ۔ (۴) ابن بابویه، الامالی، قم۱۴۱۷۔ (۵) ابن بابویه، التوحید، چاپ هاشم حسینیطهرانی، قم۱۳۸۷۔ (۶) ابن بابویه، عیون اخبارالرضا، چاپ مهدی لاجوردی، قم۱۳۶۳ شمسی۔ (۷) ابن بابویه، کتاب من لایحضره الفقیه، چاپ علیاکبر غفاری، قم ۱۴۰۴۔ (۸) ابن بابویه، معانیالاخبار، چاپ علیاکبر غفاری، قم۱۳۶۱ شمسی۔ (۹) ابن بسطام (حسین بن بسطام) و ابن بسطام (عبداللّه بن بسطام)، طب الائمه علیهمالسلام، نجف) ۱۳۸۵ (، چاپ افستبیروت)۔ (۱۰) ابن تیمیه، منهاج السنه النبویه، چاپ محمدرشاد سالم، حجاز ۱۴۰۶/۱۹۸۶۔ (۱۱) ابن جوزی، المنتظم فی تاریخالملوک و الامم، چاپمحمد عبدالقادر عطا و مصطفیعبدالقادر عطا، بیروت۱۴۱۲/۱۹۹۲۔ (۱۲) ابن حمدون، التذکرهالحمدونیه، چاپ احسان عباس، بیروت۱۹۸۳ـ ۱۹۸۴۔ (۱۳) ابن حمزه، الثاقب فی المناقب، چاپ نبیل رضا علوان، قم ۱۴۱۲۔ (۱۴) ابن خشاب، تاریخ موالید الائمه و وفیاتهم، در مجموعه نفیسه فی تاریخالائمه۔ (۱۵) ابن خلّکان، وفیات الاعیان وأنباء ابناء الزمان۔ (۱۶) ابن شعبه، تحف العقول عن آلالرسول، چاپعلیاکبر غفاری، قم۱۳۶۳ شمسی۔ (۱۷) ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، چاپهاشم رسولی محلاتی، قم۔ (۱۸) ابن صباغ، الفصول المهمه فی معرفه احوال الائمه علیهمالسلام، بیروت۱۴۰۸/۱۹۸۸۔ (۱۹) ابن طاووس، جمال الاسبوع بکمال العمل المشروع، چاپجواد قیومیاصفهانی، مؤسسهالا´فاق، ۱۳۷۱ شمسی۔ (۲۰) ابن طاووس، الدروع الواقیه، چاپجواد قیومیاصفهانی، قم۱۴۱۴الف۔ (۲۱) ابن طاووس، مهجالدعوات و منهجالعبادات، قدم له و علق علیه حسیناعلمی، بیروت۱۴۱۴ھ۔ (۲۲) ابن طولون، الائمه الاثناعشر، چاپ صلاحالدینمنجد، بیروت ۱۳۷۷/ ۱۹۵۸۔ (۲۳) ابن عنبه، عمدهالطالب فی انساب آلابیطالب، چاپ مهدی رجائی، قم۱۳۸۳ شمسی۔ (۲۴) الاختصاص، منسوب به محمد بن محمد مفید، چاپعلیاکبر غفاری، قم: جامعه مدرسین حوزه علمیه قم۔ (۲۵) یزید بن محمد ازدی، تاریخ الموصل، چاپ علی حبیبه، قاهره۱۳۸۷/ ۱۹۶۷۔ (۲۶) سعد بن عبداللّهاشعری، کتاب المقالات و الفرق، چاپ محمدجواد مشکور، تهران۱۳۴۱شمسی۔ (۲۷) علی بن اسماعیلاشعری، کتابمقالاتالاسلامیین و اختلافالمصلّین، چاپ هلموت ریتر، ویسبادن۱۴۰۰/ ۱۹۸۰۔ (۲۸) احمد بن محمدبرقی، کتابالمحاسن، چاپ جلالالدین محدثارموی، تهران ۱۳۳۰ شمسی۔ (۲۹) علی بن عیسیبهاءالدیناربلی، کشفالغمه فی معرفهالائمه، چاپ هاشم رسولیمحلاتی، بیروت ۱۴۰۱/ ۱۹۸۱۔ (۳۰) علی بن زید بیهقی، تاریخ بیهق، چاپاحمد بهمنیار، تهران۱۳۶۱ شمسی۔ (۳۱) محمدتقی تستری، رساله فی تواریخ النبی و الا´ل علیهمالسلام، قم ۱۴۲۳۔ (۳۲) محمدرضا جباری، سازمان وکالت و نقش آن در عصر ائمه (علیهمالسلام)، قم۱۳۸۲ شمسی۔ (۳۳) رسولجعفریان، حیات فکری و سیاسی امامانشیعه علیهمالسلام، قم۱۳۸۴ شمسی۔ (۳۴) حسین بن عبدالوهاب، عیون المعجزات، نجف ۱۳۶۹/ ۱۹۵۰۔ (۳۵) محمدحسین حسینیجلالی، مزارات اهلالبیت «ع» و تأریخها، بیروت۱۴۱۵/ ۱۹۹۵۔ (۳۶) علیحسینی میلانی، شرح منهاج الکرامه فی معرفهالامامه، قم۱۳۷۶ شمسی۔ (۳۷) حسین بن محمد حلوانی، نزهه الناظر و تنبیه الخاطر، قم ۱۴۰۸۔ (۳۸) حسین بن حمدانخصیبی، الهدایهالکبری، بیروت ۱۴۰۶/۱۹۸۶۔ (۳۹) خطیب بغدادی، تاریخ بغدادی ۔ (۴۰) دلائلالامامه، منسوب به محمد بن جریر طبری آملی، قم: مؤسسه البعثه، ۱۴۱۳۔ (۴۱) محمد بن حسن دیلمی، اعلام الدین فی صفات المؤمنین، قم ۱۴۰۸۔ (۴۲) محمد بن احمد ذهبی، تاریخالاسلام و وفیات المشاهیر و الاعلام، چاپ بشارعوّاد معروف، بیروت ۱۴۲۴/ ۲۰۰۳۔ (۴۳) قاسم بن ابراهیم رسی، الرد علی الرافضه، چاپ حنفیعبداللّه، قاهره۱۴۲۰/۲۰۰۰۔ (۴۴) سبط ابن جوزی، تذکرهالخواص، بیروت۱۴۰۱/۱۹۸۱۔ (۴۵) حسین شاکری، الجواد محمد علیهالسلام، قم ۱۴۱۹۔ (۴۶) جلاء العیون، چاپ علی بن محمد، نجف۱۳۷۴/۱۹۵۴۔ (۴۷) محمد بن حسن صفار قمی، بصائر الدرجات الکبری فی فضائل آلمحمد (ع)، چاپ محسن کوچه باغی تبریزی، تهران ۱۳۶۲ شمسی۔ (۴۸) ضامن بن شدقم، تحفه الازهار و زلال الانهار فی نسب ابناء الائمه الاطهار، چاپ کامل سلمان جبوری، تهران۱۳۷۸ شمسی۔ (۴۹) احمد بن علیطبرسی، الاحتجاج، چاپ محمدباقر موسویخرسان، نجف۱۳۸۶/ ۱۹۶۶ چاپ افست قم۔ (۵۰) حسن بن فضلطبرسی، مکارمالاخلاق، قم۱۳۹۲/۱۹۷۲۔ (۵۱) فضل بن حسنطبرسی، اعلام الوری باعلامالهدی، قم۱۴۱۷۔ (۵۲) فضل بن حسنطبرسی، تاج الموالید فی موالید الائمه و وفیاتهم، در مجموعه نفیسه فی تاریخ الائمه۔ (۵۳) طبری، تاریخ طبری، (بیروت)۔ (۵۴) محمد بن حسن طوسی، الاستبصار، چاپ حسن موسویخرسان، نجف ۱۳۷۵ ـ۱۳۷۶/ ۱۹۵۶ـ۱۹۵۷، چاپ افست تهران ۱۳۶۳ شمسی۔ (۵۵) محمد بن حسن طوسی، تهذیبالاحکام، چاپ حسن موسویخرسان، تهران۱۳۹۰۔ (۵۶) محمد بن حسن طوسی، رجال الطوسی، چاپ جواد قیومیاصفهانی، قم۱۴۱۵۔ (۵۷) محمد بن حسن طوسی، مصباح المتهجد، بیروت۱۴۱۱ /۱۹۹۱۔ (۵۸) جعفرمرتضیعاملی، الحیاه السیاسیه للامامالجواد علیهالسلام: نبذه یسیره، بیروت۱۴۰۵/۱۹۸۵۔ (۵۹) عزیزاللّه عطاردیقوچانی، مسند الامامالجواد ابیجعفر محمد بن علیالرضا علیهماالسلام، قم ۱۴۱۰۔ (۶۰) حسن بن یوسف علامهحلّی، منهاج الکرامه فی معرفه الامامه، چاپ عبدالرحیم مبارک، مشهد ۱۳۷۹ شمسی۔ (۶۱) علی بن محمد عمری، المجدی فی انساب الطالبیین، چاپ احمد مهدوی دامغانی، قم۱۴۰۹۔ (۶۲) محمد بن مسعود عیاشی، کتاب التفسیر، چاپ هاشم رسولی محلاتی، قم۱۳۸۰ـ۱۳۸۱، چاپ افست تهران۔ (۶۳) محمد بن حسن فتال نیشابوری ، روضه الواعظین، چاپ محمدمهدی خرسان، قم: منشوراتالرضی۔ (۶۴) محمد بن عمر فخررازی، الشجره المبارکه فی انساب الطالبیه، چاپ مهدی رجائی، قم۱۴۰۹۔ (۶۵) سعید بن هبهاللّه قطبراوندی، الخرائج و الجرائح، قم: مؤسسه الامامالمهدی (ع)۔ (۶۶) سعید بن هبهاللّه قطبراوندی، سلوه الحزین، المعروف به الدعوات، قم: مدرسه الامام المهدی۔ (۶۷) حسن بن محمدتقی، کتاب تاریخ قم، ترجمه حسن بن علی قمی، چاپ جلالالدین طهرانی، تهران۱۳۶۱ شمسی۔ (۶۸) علی بن ابراهیم قمی، تفسیر القمی، چاپ طیب موسوی جزائری، قم ۱۴۰۴۔ (۶۹) کتاب القاب الرسول و عترته، در مجموعه نفیسه فی تاریخ الائمه، همان محمد بن عمرکشی، اختیار معرفهالرجال، تلخیص محمد بن حسن طوسی، چاپ حسن مصطفوی، مشهد ۱۳۴۸ شمسی۔ (۷۰) کلینی، اصول کافی۔ (۷۱) مجلسی، بحارالانوار۔ (۷۲) حسینمدرسی طباطبائی، مکتب در فرآیند تکامل: نظری بر نظور مبانی فکری تشیع در سه قرن نخستین، ترجمه هاشمایزدپناه، نیوجرسی۱۳۷۵ شمسی۔ (۷۳) علی بن حسین مسعودی ، اثباتالوصیه للامام علی بن ابیطالب، قم۱۳۸۲ شمسی۔ (۷۴) علی بن حسین مسعودی، مروجالذهب و معادنالجوهر، چاپ شارلپلاّ، بیروت ۱۹۶۵ـ ۱۹۷۹۔ (۷۵) محمد بن محمد مفید، الارشاد فی معرفه حججاللّه علی العباد، بیروت۱۴۱۴/۱۹۹۳۔ (۷۶) محمد بن محمد مفید، الفصول المختاره من العیون و المحاسن، بیروت۱۴۰۵/ ۱۹۸۵۔ (۷۷) محمد بن محمد مفید، کتاب الامالی، چاپ حسناستاد ولی و علیاکبر غفاری، قم۱۴۰۳۔ (۷۸) محمد بن محمد مفید، مسارّ الشیعه، در مجموعه نفیسه فی تاریخالائمه، همان۔ (۷۹) محمد بن محمد مفید، المقنعه، قم۱۴۱۰۔ (۸۰) محمدباقر موحدی ابطحی، مستدرک عوالمالعلوم و المعارف و الاحوال من الایات و الاخبار و الاقوال، ج۲۳، قم ۱۴۱۳۔ (۸۱) موسوعه الامامالجواد علیهالسلام، قم: مؤسسه ولیالعصر علیهالسلام للدراساتالاسلامیه، ۱۴۱۹۔ (۸۲) احمد بن علی نجاشی، فهرست اسماء مصنّفی الشیعه المشتهر ب رجال النجاشی، چاپ موسی شبیری زنجانی، قم۱۴۰۷۔ (۸۳) محمد بن طلحه نعیبی، مطالب السؤول فی مناقب الالرسول، چاپ ماجد بن احمد عطیه، بیروت۱۴۲۰۔ (۸۴) حسن بن موسینوبختی، فرقالشیعه، چاپ محمدصادق آلبحرالعلوم، نجف۱۳۵۵/۱۹۳۶۔ (۸۵) جعفر بن منصوریمنی، سرائر و اسرارالنطقاء، چاپ مصطفی غالب، بیروت۱۴۰۴/۱۹۸۴۔ (۸۶) جاسم حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدهم۔ حوالہ جات[ترمیم]
ماخذ[ترمیم]دانشنامه جهان اسلام، بنیاد دائرة المعارف اسلامی، ماخوذ از مقالہ «امام محمد تقی»، شماره ۔ اس صفحے کے زمرہ جات : امام جوادؑ | امام جوادؑ کی امامت | امام جوادؑ کی سیرت | امام جوادؑ کی شہادت | امام جوادؑ کے وکلا | معصومینؑ کی تاریخ
|