حضرت عباسؑ
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
جناب ابو الفضل حضرت عباس بن علیؑ
حضرت سید الشہداءؑ کے بھائی ہیں اور آپؑ اپنے دیگر بھائیوں کے ہمراہ
یوم عاشور کربلا میں شہادت پر فائز ہوئے۔
[ترمیم]
عباس بن علی بن ابیطالب، کی کنیت ابو الفضل ہے۔
امام حسنؑ اور
امام حسینؑ کے بھائی چار
شعبان سنہ ۲۶ ہجری کو
مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور سنہ ۶۱ ہجری کو
شہید ہوئے۔
شہادت کے وقت سنہ شہادت ۳۴ برس رقم کیا گیا ہے۔ زندگی کے چودہ سال اپنے والد
امیر المومنینؑ، نو سال اپنے بھائی امام مجتبیؑ اور گیارہ برس امام حسینؑ کے ساتھ بسر کیے۔
[ترمیم]
حضرت ابو الفضل کی کنیت ابوالقریۃ،
ابو القاسم۔
اور القاب قمر بنی ہاشم،
سقّاء،
علمدار،
العبد الصالح،
المواسی الصابر،
المحتسب
ذکر کیے گئے ہیں۔
[ترمیم]
آپؑ کی والدہ فاطمہ بنت حزام
بنی کلاب سے ہیں، آپ کی کنیت
ام البنین ہے کہ
حضرت فاطمہؑ کی شہادت کے بعد
عقیل کی تجویز پر امیر المومنینؑ نے انہیں اپنی زوجیت کیلئے منتخب کیا؛ کیونکہ حضرتؑ نے عقیل سے یہ خواہش کی تھی کہ شجاع نسل سے تعلق رکھنے والی خاتون کو اختیار کریں تاکہ ایک دلیر اور
شجاع فرزند پیدا ہو، اس کے بعد عقیل نے ام البنین کا نام تجویز کیا۔
اس
ازدواج کا ثمر چار بیٹوں عباس، عبد اللہ، جعفر اور عثمان کی صورت میں ظاہر ہوا۔
[ترمیم]
امام سجادؑ اپنے چچا کی ان الفاظ میں توصیف کرتے ہیں: «رَحِمَ اللَّهُ عَمِىَّ الْعَبَّاسَ فَلَقَدْ آثَرَ وأَبْلی وفَدی أَخاهُ بِنَفْسِهِ حَتَّی قُطِعَتْ يَداهُ فَأَبْدَلَهُ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ مِنْهُما جِناحَيْن يَطیرُ بِهِما مَعَ الْمَلائِكَةِ فی الْجَنَّةِ كَما جُعِلَ لِجَعْفَرِ بْنِ أَبی طالِبْ علیه السلام؛ وَإنَّ لِلْعَبّاسِ عِنْدَ اللَّهِ تَبارَكَ وَتَعالی مَنْزِلَةٌ يَغبِطَهُ بِها جَمیعَ الشُّهدَاءِ يَوْمَ القِیامَةِ»
خدا میرے چچا عباس پر
رحمت کرے کہ انہوں نے
ایثار کیا، خود کو سختی میں ڈالا اور اپنے بھائی کی راہ میں جانبازی کی۔ یہاں تک کہ آپ کے ہاتھ بدن سے جدا ہو گئے۔ پھر
خدا نے انہیں اس کی جگہ دو پر عنایت فرمائے کہ
بہشت میں
فرشتوں کے ہمراہ پرواز کریں؛ جس طرح
جعفر طیار کیلئے قرار دئیے۔
عباس کا خدا کے نزدیک مقام ہے کہ جس پر
شہدا قیامت کے دن رشک کریں گے۔
امام صادقؑ نے جناب عباسؑ کی توصیف میں فرمایا: «کانَ عَمُّنَا الْعَبَّاسَ نافِذَ البَصیرَةِ، صَلْبَ الْأیمانِ، جاهَدَ مَعَ أَبی عبد اللهؑ وَأَبْلی بَلاءً حَسَناً وَمَضی شَهیدا»
ہمارے چچا عباسؑ عمیق بصیرت اور مستحکم ایمان کے حامل تھے۔ آپؑ نے حسینؑ کے ہمراہ جہاد کیا اور
امتحان میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے اور آخر کار شہادت پر فائز ہوئے۔
[ترمیم]
حضرت عباسؑ کے بچپن سے متعلق کوئی زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں؛ سوائے یہ کہ منقول ہے کہ ایک دن امیر المومنینؑ کے زانو پر تشریف فرما تھے۔ حضرتؑ نے فرمایا: کہو، ایک۔ ابو الفضلؑ نے کہا: ایک۔ حضرتؑ نے فرمایا: کہو دو۔ عرض کیا کہ جس زبان کے ساتھ ایک کہہ چکا ہوں، شرم کرتا ہوں کہ دو کہوں۔
مرحوم نقدى نے اس واقعہ کی
حضرت زینبؑ کی طرف بھی نسبت دی ہے۔
[ترمیم]
آپ کی جوانی کے بارے میں کہتے ہیں کہ
جنگ صفین میں شرکت کی مگر آپؑ کے پدر نے لڑنے کی اجازت نہیں دی۔
تاہم بعض نے
ابو الشعثاء اور اس کے سات بیٹوں کے قتل کی آپؑ کی طرف نسبت دی ہے۔
ایک روایت میں
خوارزمی کہتا ہے کہ جنگ صفین میں جب کریب
امام علیؑ کے ساتھ جنگ کیلئے نکلا تو حضرت نے اپنے فرزند عباس کہ جو اس وقت بھرپور جوان تھے؛ کا لباس زیب تن کیا اور اس کے خلاف جنگ کیلئے نکلے۔
حضرت عباس کے فضل اور عبید اللَّه نامی دو فرزند لبابہ
بنت عبیداللَّه بن
عباس بن عبدالمطلب سے تھے اور آپ کی نسل عبید اللہ کے ذریعے آگے بڑھی۔
[ترمیم]
حضرت عباسؑ کا عاشورا کے واقعات میں کردار سرنوشت ساز تھا۔ آپ نے
حجت خدا کے دفاع اور امام کی
اطاعت کے حوالے سے
وفاداری اور
جانثاری کا ایسے مناظر پیش کیے جو تا قیامت ماندگار ہو گئے۔ آپ نے ایک طرف میدان جنگ میں ایسی شجاعت اور دلیری کا مظاہرہ کیا کہ
دشمن کے گرد گھیرا تنگ کر دیا اور دوسری طرف سے امام حسینؑ کی نسبت ایسے مطیع اور وفادار تھے کہ طول تاریخ میں آپ کو ایک فداکار مرد میدان اور وفادار بھائی کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
ایسی عظیم شخصیت کی شہادت
روز عاشور کی بڑی مصیبت اور اہم واقعہ تھا۔ اگرچہ عباس بن علیؑ کی جنگ اور شہادت کی تفصیلات کو بعض مورخین اور مقتل نگاروں نے کچھ اختلاف کے ساتھ روایت کیا ہے، مگر ہم یہاں کوشش کریں گے کہ تمام روایات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جنگ کی تفصیلات اور اس اعلیٰ مقام کے حامل شہید کی شہادت کو قدیم مصادر کے ساتھ منطبق کرنے کی کیفیت کے ساتھ حوادث کی ترتیب کے ساتھ پیش کیا جائے۔
حضرت عباسؑ نے واقعہ کربلا میں پہلی ذمہ داری
نو محرم کی عصر کو انجام دی کہ اپنے بھائی کے حکم پر دشمنوں کے پاس گئے اور ان سے یہ خواہش کی کہ انہیں
رات کی مہلت دے دیں تاکہ اپنے خدا کے ساتھ
راز و نیاز کر سکیں۔
آپؑ نے جواب دیا کہ خدا کی امان سمیہ کے بیٹے کی امان سے بہتر ہے۔
ایک روایت کی بنا پر شمر (جو خود قبیلہ بنی کلاب سے تھا) خیموں کے پیچھے آیا اور بلند آواز سے کہنے لگا کہ کہاں ہیں میری بہن کے بیٹے؟! علیؑ کے بیٹوں نے جواب نہیں دیا۔ امامؑ نے فرمایا: اس کو جواب دو، خواہ
فاسق ہی کیوں نہ ہو۔
عباس، جعفر اور عثمان باہر نکلے اور پوچھا: تمہیں کیا ہو گیا ہے؟! اور کیا چاہتے ہو؟! کہنے لگا: میری بہن کے بیٹو! میری طرف آ جاؤ، کیونکہ امان میں ہو اور خود کو حسینؑ کے ساتھ قتل ہونے سے بچاؤ!
انہوں نے اس کو جواب دیا: خدا لعنت کرے تجھ پر اور تیرے امان نامے پر! کیا تو ہمارا دائی ہونے کی وجہ سے ہمیں امان دیتا ہے؟! مگر
رسول خدا کے فرزند
امان میں نہ ہوں؟! کیا ہمیں حکم دیتا ہے کہ ملعون اور ملعون زادوں کی اطاعت کریں؟! شمر غضبناک ہو گیا اور وہاں سے ہٹ گیا۔
ایک اور نقل کی بنا پر جس وقت ابو الفضل نے شمر کو جواب دیا تو
زہیر بن قین آپؑ کے پاس آئے اور کہا: جب آپ کے پدر امیر المومنینؑ نے عقیل سے شجاع مردوں کی نسل سے تعلق رکھنے والی خاتون کے ساتھ ازدواج کی خواہش ظاہر کی تو اس کی وجہ یہ تھی تاکہ وہ ایک دلیر اور غالب بچے کی ماں بنے تاکہ وہ کربلا میں حسین کی نصرت کرے۔ بے شک آپ کے پدر نے آپ کو ایسے دن کیلئے باقی رکھا تھا۔
کہیں ایسا نہ ہو، کہ اپنی بہن اور حسین و حسن کی نصرت سے ہاتھ اٹھا لو! ابو الفضل کو غصے میں آ گئے اور قسم کھائی اور کہ ایسا کام کروں گا جو آپ نے ہرگز نہیں دیکھا ہو گا۔
شب عاشور امامؑ نے اپنی اصحاب کو بلایا اور
خطبہ دیتے ہوئے اپنی
بیعت کو ان سے اٹھا دیا اور فرمایا: تم جاؤ، ان کا میرے ساتھ سروکار ہے۔ اس وقت سب سے پہلے جس شخصیت نے وفاداری کا اظہار کیا، وہ حضرت عباس بن علیؑ تھے۔
آپؑ نے عرض کیا: ہم کیوں ایسا کریں؟! کیا آپؑ کے بعد زندہ رہنے کیلئے؟! خدا کبھی ایسا دن نہ لائے اور ہمیں نہ دکھائے!
کربلا میں حضرت عباسؑ کا ایک کارنامہ سقائی یعنی لشکر حسینی کیلئے پانی کی فراہمی تھا؛ کیونکہ جس طرح ہم نے پہلے کہا کہ ساتویں کے دن سے پانی بند کر دیا گیا۔ اسی مناسبت سے آپ کا ایک لقب «
سقا» ہے۔
(حضرت عباسؑ کے رجز میں سے ایک مصرعہ عنقریب آئے گا۔انی انا العباس اغدو بالسقا سے اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ آپؑ کی شہادت کا بھی سقائی سے تعلق تھا؛ کیونکہ آخرکار پانی فراہم کرتے ہوئے،
فرات کے قریب درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔ عباس بن علیؑ امام حسینؑ کے حکم پر
نافع بن ہلال اور ایک جماعت کے ساتھ پانی لانے کیلئے دشمن کی طرف گئے، عباس بن علیؑ کی شجاعت اور دلیری کی وجہ سے پانی خیموں تک لانے میں کامیاب ہو گئے اور یہ مطلب حضرت عباسؑ کے کربلا میں سقا ہونے کے اثبات کیلئے بہترین دلیل ہے۔
جب امامؑ اور آپؑ کے ساتھیوں پر پیاس کا غلبہ ہوا تو عباسؑ کو بلایا اور تیس سواروں اور بیس پیادہ افراد کو بیس مشکوں کے ساتھ پانی لانے کیلئے بھیجا۔ وہ گئے اور مشکوں کو پر کیا۔ واپسی پر
عمرو بن حجاج زیبدی اور اس کے ساتھیوں نے ان کا راستہ روکا؛ مگر حضرت ابو الفضلؑ اور نافع بن ہلال کے حملے سے وہ پراکندہ ہو ئے اور ابی عبد اللہ کے اصحاب پانی خیمہ گاہ تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔
ایک نقل کے مطابق جب امامؑ اور ان کے اصحاب نے پانی مانگا اور دشمن نے نہیں دیا تو شمر نے بلند آواز سے کہا: ہرگز پانی نہیں پیو گے مگر حمیم (دوزخ) سے۔
اس وقت عباسؑ نے امام سے پوچھا کہ آیا ہم حق پر نہیں ہیں۔ حضرتؑ نے فرمایا: ہاں! پھر ان پر حملہ کر کے انہیں پانی کے کنارے سے دور کر دیا۔ امامؑ اور آپ کے اصحاب نے پانی نوش کیا۔
عاشور کے دن میمنہ و میسرہ کے کمانڈر مقرر کیے گئے اور لشکر کا
پرچم عباس بن علیؑ کو دیا گیا۔ اصحاب یکے بعد دیگرے میدان جنگ میں اترتے گئے۔
اس دوران بعض اصحاب کا لشکر کے درمیان محاصرہ ہو جاتا اور حضرت عباسؑ ان کو نجات دیتے تھے۔ جیسے
عمر بن خالد صیداوی ،
جابر بن حارث سلمانی ، سعد مولی عمر بن خالد صیداوی اور
مجمع بن عبد الله عائذی کہ جن کا
جنگ کے آغاز پر دشمن نے محاصرہ کر لیا تھا اور حضرت عباسؑ نے ایک حملے کے ساتھ انہیں نجات دی۔
جب امامؑ کے تمام اصحاب اور چند
بنی ہاشم شہید ہو گئے تو حضرت ابو الفضلؑ نے اپنے بھائیوں عثمان، عبد اللہ اور جعفر سے فرمایا: میری جان تم پر قربان! آگے بڑھو اور اپنے آقا کی حمایت کرو یہاں تک کہ ان کی راہ میں جام شہادت نوش کر لو۔ وہ سب میدان جنگ میں گئے اور شہید ہو گئے۔
ان کے بعد عباس بن علیؑ میدان جنگ میں اترے۔
حضرت ابو الفضلؑ کی اپنے بھائیوں کے ساتھ میدان جنگ میں روانگی کے وقت گفتگو میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں: عباس نے اپنے پدری و مادری بھائیوں عبد الله ، جعفر ، عثمان، سے کہا: آگے بڑھو تاکہ میں تمہاری وراثت حاصل کر لوں کیونکہ تمہاری کوئی اولاد نہیں ہے، انہوں نے قبول کر لیا اور چلے گئے یہاں تک کہ قتل کر دئیے گئے۔
دوسروں نے اسی مضمون کو ایک دوسری طرح نقل کیا ہے اور کہا ہے: عباس نے اپنے بھائی جعفر کو میدان جنگ میں روانہ کیا تاکہ اس کی وراثت حاصل کر سکیں کیونکہ جعفر کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ پس
هانی بن ثبیت نے انہیں قتل کیا۔
مگر بہت سے مورخین اس کلام کی حضرتؑ کی طرف نسبت کو ایک جھوٹی تہمت قرار دیتے ہیں کہ جسے دشمن نے آپؑ کی ذات والا صفات کی شخصیت کشی کیلئے وضع کیا ہے؛ کیونکہ یہ کام انتہائی پست اور گھٹیا ہے کہ جو عام دنیا دار نہیں کرتے تو ابو الفضل العباسؑ کا مرتبہ تو کہیں بلند ہے!
اس کے علاوہ ابو الفضلؑ اپنی ماں کی موجودگی میں اپنے بھائی سے وراثت بھی نہیں پا سکتے تھے۔
اسی لیے بعض نے کہا ہے: « أَرِثَكُم»، عربی متن میں املائی خطا ہے اور یہ درحقیقت « أُرْثِیكُم» (یعنی تمہارے سوگ میں بیٹھوں) ہے۔
(
الذریعۃ کے مؤلف
آقا بزرگ تہرانی سے نقل کرتے ہوئے بعض نے کہا ہے: «ارثكم» کی بجائے «ارزءبكم» یا «ارزئكم» (تمہاری مصیبت کو دیکھوں) ہے۔
(بحوالہ النقد النزیه)
[ترمیم]
امامؑ کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد اہل حرم کو پانی کی سخت ضرورت ہوئی اور امام حسینؑ کی تشنگی بھی شدید ہو چکی تھی۔ امام اور آپ کے بھائی عباس پانی کی فراہمی کیلئے مل کر میدان جنگ میں وارد ہوئے اور فرات کی طرف چل دئیے۔
(یہ روایت
ابن حمزه طوسی (۵۶۰ ق) نے بھی اسی صورت کربلا کے ایک عینی شاہد کی زبان نقل کی ہے: انّ الحسینؑ لمّا غلب علی عسکره العطش رکب المسناة یرید الفرات...۔
عباسؑ، اسی طرح امامؑ کے سامنے حرکت کر رہے تھے اور جنگ کر رہے تھے، جس طرح سے بھی حسینؑ چلتے، وہ بھی اسی طرف سے ہمراہ تھے۔
اسی دوران امامؑ فرات کے سنگریزوں تک پہنچے گئے اور پانی کی طرف جانا چاہتے تھے۔
عمر بن سعد کے سپاہیوں نے ان کا راستہ روک دیا۔ بنی دارم کے ایک مرد (خوارزمی نے اس کا نام زرعہ لکھا ہے اور مزید کہا ہے کہ
ابن اعثم نے اس روایت کو مختصر طور پر لکھا ہے اور اس کا نام عبد الرحمن ازدی کہا ہے۔
ابن اعثم، نے خود اس شخص کو ابو الحتوف جعفی کے نام سے یاد کیا ہے۔
کہ اس سے مقصود وہی ابو الجنوب ہے کہ
طبری نے اس کا نام عبد الرحمن جعفی لکھا ہے۔
ابن نما حلی نے بھی اس کا نام
زرعہ بن ابان بن دارم قرار دیا ہے۔
نے کہا: او مر جاؤ! اس کے اور پانی کے درمیان حائل ہو جاؤ اور انہیں پانی تک دسترس پیدا نہ کرنے دو۔ (بعض روایات میں آیا ہے کہ بنی کلاب، آپ اور پانی میں حائل ہوئے)
حسین بن علیؑ نے دارمی شخص کو بد دعا دی اور کہا: خدایا! اسے پیاسا کر دے۔
راوی کہتا ہے: خدا کی قسم، کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ خدا نے اس پر
پیاس کو مسلط کر دیا؛ جس قدر پی رہا تھا، سیراب نہیں ہو رہا تھا؛ یوں کہ اس کی تسکین کیلئے پانی ٹھنڈا کر کے اس میں شکر ڈال کر اسے دے رہے تھے، دودھ کے لبریز جام تھے اور پانی سے بھرے پیالے، مگر وہ کہہ رہا تھا: تم مر جاؤ! مجھے پانی دو کہ پیاس نے مجھے مار ڈالا۔ اسے صراحی یا پیالوں میں اتنا پانی دے رہے تھے کہ اس کے اہل خانہ کو بھی سیراب کرنے کیلئے کافی تھا؛ مگر وہ سارا پانی خود پی لیتا اور جب منہ ہٹاتا تو چند لمحوں کے بعد پھر کہتا: تم مر جاؤ، مجھے پانی دو کہ پیاس نے مجھے مار ڈالا؛ کچھ ہی دیر کے بعد اس کا پیٹ مردہ اونٹ کے پیٹ کی طرح پھٹ گیا۔
وہ مرد امامؑ کی بد دعا سے غصے میں آ گیا اور ایک تیر مارا جو حضرت کے گلے پر لگا۔ امام حسینؑ نے تیر کو باہر کھینچا، پھر اپنے ہاتھ گلے کے نیچے رکھے جو
خون سے پر ہو گئے۔ امامؑ نے اسے گرا دیا؛ اور کہا: خدایا، میں تیری بارگاہ میں اس کی شکایت کرتا ہوں جو تیرے پیغمبرؐ کی بیٹی کے بیٹے کے ساتھ یہ لوگ کر رہے ہیں۔ (اللهم انّی اشکو الیک ما یفعل بابن بنت نبیک)
پھر پیاس کی شدت مزید غالب آ گئی اور حضرتؑ واپس آ گئے۔ اس حال میں دشمن کے لشکر نے عباس کا چاروں طرف سے محاصرہ کر لیا اور انہیں امام حسینؑ سے جدا کر دیا۔
حضرت عباسؑ اپنے بھائی سے جدا ہو چکے تھے اور تنہا جنگ کر رہے تھے۔
آپ حملہ کرتے ہوئے یہ رجز پڑھ رہے تھے:
اقسمت بالله الاعز الاعظم وبالحُجُون صادقاً وزمزم
وذوالحَطیم والفناء المُحرم لیخضیّن الیوم جسمی بالدم
امام ذی الفضل وذی التکرمِ ذاک حسین ذو الفخار الاقدم
خدائے بزرگ و برتر کی قسم! حجون و
زمزم کی سچی قسم، حطیم و کعبہ کے آستانہ مقدس کی قسم، آج با فضیلت و باکرامت مرد یعنی حسینؑ کہ جن کے افتخارات قدیمی ہیں؛ کی موجودگی میں میرا پیکر خون سے رنگین ہو گا۔
کتاب
الفتوح اور مقتل خوارزمی میں حجون کی جگہ حجور کا لفظ آیا ہے جو نادرست معلوم ہوتا ہے اور حجون صحیح ہے جو مکہ میں ایک پہاڑ کا نام ہے اور اس میں اسماعیل کی اولادوں اور بہت سے
صحابہ ، تابعین و علما کی قبریں ہیں۔ ان میں سے ایک
قبر حضرت خدیجہ کی ہے۔
(حطیم وہ مقام ہے جو کعبہ و
حجر الاسود کے رکن کے مابین ہے اور
مسجد الحرام کا باشرافت ترین مقام ہے؛ کیونکہ لوگ ہجوم کی وجہ سے
طواف اور
نماز کیلئے ایک دوسرے پر دباؤ ڈالتے ہیں، اس لیے اسے حطیم کا نام دیا گیا ہے)
خوارزمی نے یہ اشعار کچھ فرق کے ساتھ نقل کیے ہیں؛ حضرت عباسؑ جب پانی لانے کیلئے روانہ ہوئے تو اس طرح
رجز پڑھ رہے تھے:
لاارهب الموت اذا الموت زقا حتٰی اُواری فی المصالیت لقا
نفسی لنفس المُصطفی الطهر وقا انّی انا العبّاس اغدو بالسقا
ولا اخاف الشر یوم المُلتقی
جب موت کا پرندہ صدا دے تو میں موت کا خوف نہیں رکھتا یہاں تک کہ چابک اور ہوشیار مردوں کے دریا میں غوطہ ور ہو کر ناپید ہو جاؤں!
میری جان برگزیدہ و پاک حسینؑ پر فدا ہو! میں عباس ہوں اور ہر صبح میرا کام سقائی ہے۔ جس دن جنگ کا سامنا ہو جائے تو میں ہرگز خوفزدہ نہیں ہوتا۔
(میں موت سے خوفزدہ نہیں ہوتا جب آ جائے تو اپنی تلوار کی ضربیں لگاتا ہوں تاکہ اس سے باہر آ جاؤں؛ اپنے حسینؑ پر جان قربان کرتے ہوئے میں عباس پانی لاتا ہوں، اس کا نتیجہ کیا نکلے! اس سے خوفزدہ نہیں ہوں، اگر لشکر بھی آ جائے تو ان سے جنگ کروں گا۔
پھر حملہ کر کے دشمن کو تتر بتر کر دیا۔
اس وقت
زید بن ورقاء جهنی،
(مورخین نے اس شخص کا نام دو دیگر صورتوں میں بھی ضبط کیا ہے۔ منجملہ: الف) زید بن رقاد جنبی۔
ب) یزید بن زیاد حنفی: یہ شخص ایک کھجور کی اوٹ میں چھپ کر کھڑا ہو گیا۔
حکیم بن طفیل سنبسی مراجعہ (دونوں سین اور باء کے کسرہ اور نون کے سکون کیساتھ
تاہم
مامقانی نے باء کے کسرہ کی بجائے اس کے ضمہ کیساتھ لکھا ہے) نے بھی اس کی مدد کی۔ حکیم نے عباسؑ کے دائیں ہاتھ پر ایسی ضربت لگائی کہ عباسؑ نے
شمشیر بائیں ہاتھ میں لے لی اور ان پر حملہ کرتے ہوئے یہ رجز پڑھا:
والله ان قطعتموا یمینی انّی احامی ابداً عن دینی
و عن امام صادق الیقین نجل النبی الطاهر الامین
خدا کی قسم! اگر میرا دایاں ہاتھ قطع کرو گے، تو میں ہمیشہ اپنے دین، یقین کی صداقت کے حامل امام کی حفاظت کروں گا کہ جو پاک و پاکیزہ و امین پیغمبر کے نواسے ہیں، عباس نے اس قدر جنگ کی کہ بے حال و ناتوان ہو گئے۔ اس وقت
حکیم بن طفیل طائی نے ایک کھجور کے پیچھے سے چھپ کر وار کیا اور آپ کے بائیں ہاتھ پر ایک ضربت وارد کی۔ عباسؑ نے یہ رجز پڑھا:
یا نفس لاتخشی من الکفار و ابشری برحمة الجبّار
مع النبی السید المختار قد قطعوا ببغیهم یساری
فاصلهم یا رب حر النار
اے نفس! کفار سے خوف نہ کھا اور سید و برگزیدہ پیغمبر کی معیت میں تجھے خدائے جبار کی رحمت مبارک ہو! انہوں نے ستم کے ساتھ میرا بایاں ہاتھ قطع کیا؛ خدایا! انہیں جہنم کی آگ میں جھونک دے!
پھر وہ ملعون (
ابن شہر آشوب کی تعبیر اس کے بارے میں یہ ہے: فقتله الملعون بعمود من الحدید؛ چونکہ بظاہر الف لام یہاں عہد ذکر ہے، گویا ملعون سے مراد وہی حکیم بن طفیل ہے) حکیم بن طفیل آگے بڑھا اور لوہے کے عمود کے ساتھ آپ کو شہید کیا؛
(
شیخ مفید بھی تصریح کرتے ہیں کہ عباسؑ کے قتل کے ذمہ دار زید بن ورقاء (حنفی) اور حکیم بن طفیل سنبسی تھے۔
حضرت عباسؑ کے قاتلوں کے بارے میں اختلاف ہے:
الف) زید بن رقاد جنبی اور حکیم بن طفیل سنبسی۔
ب)
حرملہ بن کاهل اسدی۔
ج)
یزید بن زیاد حنفید) حکیم بن طفیل
البتہ اسے «حکم بن طفیل» لکھا ہے۔
جب لوہے کا عمود عباسؑ کے سر پر مارا گیا تو عباسؑ تیروں اور زخموں کی وجہ سے حرکت نہیں کر سکتے تھے؛
(
طبرسی اور
ابن طاؤس نے اسی روایت کو اختصار کے ساتھ نقل کیا ہے)
اور یوں آپؑ دشمنوں کی بڑی تعداد کو واصل جہنم کرنے کے بعد شہید ہوئے)
جب امام حسینؑ نے عباسؑ کو فرات کے کنارے
زمین پر دیکھا تو عباسؑ کے مارے جانے پر بہت گریہ کیا ،
اور بہت انکساری سے فرمایا: الآن انکسر ظهری و قلت حیلتی؛
اب میری کمر ٹوٹ گئی ہے اور میری تدبیر کم پڑ گئی ہے اور یہ اشعار کہے:
تعدیتم یا شرّ قوم بفعلکم و خالفتم قول النبی محمد
اما کان خیر الرسل وصّاکم بنا اما نحن من نسل النبیّ المسدّد
اما کانت الزهراء امّی دونکم اما کان من خیر البریّة احمد
لعنتم و اخزیتم بما قد جنیتم فسوف تلاقوا حرّ نار توقّد
بے بدترین لوگو! تم نے اپنے اس کام کے ساتھ تجاوز کیا ہے اور پیغمبر خدا محمد کی مخالفت کی ہے۔ کیا بہترین پیغمبر نے تمہیں ہمارے بارے میں تلقین نہیں کی؟! کیا ہم خدا کے تائید شدہ پیغمبر کی نسل سے نہیں ہیں؟! کیا ایسا نہیں ہے کہ زہراؑ میری ماں ہیں نہ تمہاری؟! کیا احمد لوگوں میں سے بہترین نہیں تھے؟! جس گناہ کا تم نے ارتکاب کیا ہے، اس کی وجہ سے شدید لعنت و خواری اور بڑھکتی ہوئے آگ کی حرارت کا شکار ہو گے!
(جفا کردید بر من قوم بدکار خلاف قول پیغمبر به رفتار
مگر خیر رسل ما را سفارش نکرد و ما نهایم از نسل مختار
مگر زهرا نه مام خاص من هست مگر جدم نه خیرالخلق ابرار
شما ملعون و رسوا زین جنایات به زودی واصل نار شرر بار)
حضرت عباسؑ کے دو ہاتھوں کے بدن سے جدا ہونے کی تائید امام سجادؑ سے منقول ایک روایت سے ہوتی ہے۔ امام اپنے عظیم چچا کی فداکاری کا ان الفاظ میں تذکرہ کرتے ہیں:
رحم الله العباس، یعنی ابن علی، فلقد آثر و ابلی و فدی اخاه بنفسه حتّی قطعت یداه...؛
«خدا عباس بن علی پر رحمت کرے کہ جنہوں نے ایثار کیا اور بہت اچھے طریقے سے امتحان و آزمائش میں سرخرو ہوئے اور اپنی جان کو اپنے بھائی پر فدا کر دیا یہاں تک کہ آپ کے دونوں ہاتھ تن سے جدا ہو گئے۔
بعض روایات کے مطابق حکیم بن طفیل نے حضرت عباسؑ کی شہادت کے بعد ان کا لباس لوٹ لیا۔
=ایک مشہور روایت پر نقد و تبصرہ==
مذکورہ عنوان کے تحت قدیم مصادر کی روشنی میں حضرت ابو الفضل العباسؑ کی شہادت کی کیفیت ذکر کی گئی؛ تاہم بعض متاخر مصادر میں دیگر روایات بھی نقل کی گئی ہیں کہ جن کے راوی بھی مجہول ہیں اور ان کی دلالت و مضمون بھی مخدوش اور ناقابل اعتماد ہے؛ منجملہ وہ روایت جسے
علامہ مجلسیؒ نے نقل کیا ہے اور اسے ان الفاظ سے تعبیر کیا ہے: ہمارے اصحاب کی بعض تالیفات میں یہ نقل ہوا ہے...!
روایت کا متن یہ ہے: وفی بعض تالیفات اصحابنا، ان العباس لما رای وحدتهؑ اتی اخاه وقال: یا اخی هل من رخصة فبکی الحسینؑ بکاء شدیداً ثم قال یا اخی انت صاحب لوائی و اذا مضیت تفرق عسکری، فقال العباس: قد ضاق صدری وسئمت من الحیاة وارید ان اطلب ثاری من هؤلاء المنافقین، فقال الحسین: فاطلب لهؤلاء الاطفال قلیلاً من الماء، فذهب العباس ووعظهم وحذرهم فلم ینفعهم فرجع الی اخیه فاخبره فسمع الاطفال ینادون العطش العطش، فرکب فرسه واخذ رمحه والقربة، وقصد نحو الفرات فاحاط به اریعة آلاف ممن کانوا موکلین بالفرات، ورموه بالنبال فکشفهم وقتل منهم علی ماروی ثمانین رجلاً حتی دخل الماء.فلما اراد ان یشرب غرفة من الماء، ذکر عطش الحسین واهل بیته، فرمی الماء وملا القریة وحملها علی کتفه الایمن وتوجه نحو الخیمة، فقطعوا علیه الطریق واحاطوا به من کل جانب، فحاربهم حتی ضربه نوفل الازرق علی یده الیمنی فقطعها، فحمل القربة علی کتفه الایسر فضربه نوفل فقطع یده الیسری من الزند، فحمل القریة باسنانه فجاءه سهم فاصاب القریة واریق ماؤها ثم جاءه سهم آخر فاصاب صدره، فانقلب عن فرسه وصاح الی اخیه الحسین: ادرکنی، فلما اتاه رآه صریعاً فبکی وحمله الی الخیمة.
تحقیق و تنقیح کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ علامہ مجلسی نے مذکورہ روایت کو قوی احتمال کی بنیاد پر کتاب منتخب
فخرالدین طریحی (۱۰۸۵ق) سے تلخیص و اقتباس کے ساتھ نقل کیا ہے۔
تاہم طریحی کی نقل کے مصدر کے بارے میں کہنا چاہئے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ایک مصدر (اگر نہ کہیں کہ تنہا مصدر) مذکورہ روایت میں
ملا حسین کاشفی (۹۱۰ھ) کی کتاب
روضۃ الشهداء ہے؛ کہ جسے دسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں تالیف کیا گیا ہے اور قوی احتمال کی بنیاد پر طریحی نے یہ روایت اس کتاب سے لی ہے اور اس میں معمولی تغیر و تبدل کر کے اسے نقل کیا ہے۔ اس کے بعد مذکورہ روایت حزن انگیز ، گریہ آور اور جذباتی و احساساتی پہلو کی حامل ہونے کی وجہ سے مصائب کی محافل و مجالس اور بہت سے معاصر مقاتل میں داخل ہو گئی ہے۔
( بعض مقتل نویسوں نے اس واقعے کو مزید پھیلا دیا اور جہاں تک ہو سکا، اس روایت کی تحریف میں اضافہ کر دیا ہے)
اگرچہ یہ روایت آج کے مشہور مضمون کی حامل ہے کہ حضرت عباسؑ نے جب پانی پر قبضہ کیا تو اسے نوش کرنا چاہا، مگر پنے بھائی حسین و
اہل بیتؑ کی تشنگی یاد آ گئی، اسی طرح حضرتؑ مشک اٹھائے ہوئے تھے کہ جب دونوں ہاتھ قطع ہو گئے تو مشک کو دانتوں سے پکڑ لیا؛ مگر یہ روایت پوری طرح مشہور و رائج ہونے کے باوجود معتبر سند سے فاقد ہونے کے علاوہ مضمون و متن پر بھی اشکالات کی حامل ہے (بطور مثال، روایت کے آغاز میں امام حسینؑ کا قول حضرت عباسؑ کی میدان جانے کی درخواست کے جواب میں منقول ہوا ہے کہ امامؑ نے فرمایا: اگر تم چلے جاؤ تو میری سپاہ پراکندہ ہو جائے گی۔ اس روایت کے ناقل کی توجہ نہ ہوئی کہ تمام تاریخی روایات کا اس نکتے پر اتفاق ہے کہ بنی ہاشم کے میدان میں اترنے کا وقت
سوید بن عمرو کے سوا (جو امامؑ کی شہادت کے بعد شہید ہوئے) باقی تمام امام حسینؑ کے اصحاب کی شہادت کے بعد کا ہے؛ اس بنا پر امام کے (غیر ہاشمی) اصحاب میں سے کوئی باقی نہیں بچا تھا کہ حضرت عباسؑ کی شہادت سے پراکندہ ہوتا۔ البتہ حضرت عباسؑ کی میدان روانگی اور شہادت کے وقت کے بارے میں دو طرح کی روایات موجود ہیں۔ بعض روایات کے مطابق جب بنی ہاشم کے چند افراد شہید ہو گئے تو حضرت عباسؑ میدان میں گئے۔
تاہم بعض دیگر روایات کے مطابق آپ بنی ہاشم کے آخری افراد مین سے تھے کہ امام سے پہلے شہید ہوئے ہیں۔
(جیسا کہ شب عاشور کے حوادث اور کربلا کے واقعات میں جگہ جگہ مرقوم ہے) امامؑ کے اصحاب وہ تھے کہ امام کے پاس رہنے کو ہر دوسری چیز پر ترجیح دیتے تھے اور اس بارے میں تمام امتحانات اور آزمائشوں کو کامیابی سے گزار چکے تھے اور کسی طور آمادہ نہیں تھے کہ امامؑ کو تنہا چھوڑ دیں۔
حتی بعض روایات کی بنا پر (مکمل وفاداری کا اظہار کرنے کے بعد) ان کا بہشت میں درجہ و مقام انہیں دکھا دیا گیا، اس اعتبار سے شہادت کیلئے ایک دوسرے پر سبقت کر رہے تھے،
امام حسینؑ کی ہمراہی میں بالکل تردید کا شکار نہیں تھے اور ایک دوسرے کے بارےے میں کہتے تھے: دیکھو، یہ موت سے بے پرواہ ہے!
ایک اور نکتہ یہ کہ روایت کے آخر میں آیا ہے کہ امام حسینؑ، حضرت عباسؑ کا لاشہ خیمہ گاہ میں لائے کہ یہ مطلب بھی شیخ مفید کی آپ کے مقام دفن کے بارے میں روایت اور موجودہ حقیقت سے منافات رکھتا ہے۔ شیخ مفید لکھتے ہیں:
قبیلہ بنی اسد نے عباس بن علیؑ کو مقام شہادت یعنی غاضریہ کے راستے میں کہ جہاں موجودہ قبر ہے، دفن کیا۔
اس روایت پر ایک اور اشکال یہ ہے کہ حضرت عباسؑ کا قاتل نوفل ارزق کے نام کا ایک شخص ہے۔
کاشفی نے بھی اس کا نام
نوفل بن ازرق» لکھا ہے۔
مگر (جیسا کہ تحریر کیا گیا) گزشتہ مصادر میں سے کسی نے حضرت کے قاتل یا قاتلین کا نام درج نہیں کیا ہے۔
[ترمیم]
تاریخ نویسوں نے ابو الفضل کی شہادت کو مختلف انداز میں نقل کیا ہے:
صاحب
اخبارالطُّوال کہتے ہیں: عباسؑ امامؑ کے ہمراہ تھے، جنگ کر رہے تھے اور جس طرف امامؑ جاتے، اسی طرح عباسؑ جاتے یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔
خوارزمی اور ابن اعثم کوفی نے شہادت کی کیفیت کے بارے میں لکھا ہے:
حضرت ابو الفضل میدان اس حال میں گئے کہ یہ رجز پڑھ رہے تھے:
أُقْسِمْتُ بِاللَّهِ الأَعَزُّ الأَعْظَمِ • وَبِالْحُجونِ صادِقاً وَزَمْزَمِ
وَبِالْحَطیمِ وَالْفَنَا الْمُحَرَّمِ • لِيَخْضِبَّنَ الْيَومِ جِسْمی بِدَمی
دُونَ الْحُسَینِ ذِی الفِخارِ الأَقْدَمِ • إِمامِ أَهْلِ الْفَضْلِ وَالتَكُّرمِ
خدائے غالب و عظیم کی قسم اور حجون، زمزم ، حطیم اور بیت الحرام کے آستانے کی قسم؛ بے شک میں اپنے تن کو اپنے خون سے رنگین کروں گا۔ حسینؑ کے دفاع کی راہ میں کہ ہمیشہ با افتخار اور اہل فضل و کرم کے پیشوا ہیں؛ حضرتؑ دشمن کی بڑی تعداد کو واصل جہنم کرنے کے بعد شہادت کے بلند مقام پر فائز ہوئے؛ امامؑ آپ کے سرہانے آئے اور یہ فرمایا:
«الآنَ انْكَسَرَ ظَهْری وَقَلَّتْ حیلَتی» اب میری کمر ٹوٹ گئی ہے اور میری تدبیر ماند پڑ گئی ہے!۔
صاحب ملھوف و
مثیر الاحزان نے ابو الفضل کی شہادت کو ایک اور انداز میں بیان کیا ہے: جب امام حسینؑ پر پیاس کا غلبہ ہوا، اپنے بھائی کے ہمراہ عباس کو فرات کی طرف روانہ کیا، دشمن نے ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا اور حضرت عباسؑ شہید ہو گئے۔
ابن شہر آشوب نے آپؑ کی شہادت کے بارے میں کہا ہے: سقا، قمر بنی ہاشم اور امام حسینؑ کے علمدار جو اپنے دوسرے مادری بھائیوں سے بڑے تھے، پانی کی فراہمی کیلئے نکلے۔ دشمن نے آپ پر حملہ کیا اور آپ نے بھی ان پر حملہ کیا اور یہ رجز کہا:
لا ارْهَبُ الْمَوْتَ إِذِ الْمَوْتُ رُقا • حَتَّی اواری فی الْمَصالِیتِ لِقا
نَفْسی لِنَفْسِ الْمُصْطَفی الْطُّهر وَقا • إنّی أَنَا الْعَبَّاسُ أَعْدُو بِالسَّقا
وَلا أَخافُ الشَّرَّ يَوْمَ الْمُلْتَقی
میں موت سے خوفزدہ نہیں ہوں کیونکہ موت مایہ کمال ہے یہاں تک کہ میرا یکر شجاع مردوں کی طرح
خاک میں پنہان ہو جائے۔
میری جان فدا ہو مصطفیٰ پر، میں عباس ہوں اور سقا میرا
لقب ہے اور ہرگز دشمن کے ساتھ نبرد کے موقع پر خوف و ہراس کا شکار نہیں ہوں۔
پھر حملہ کیا اور دشمن کو تتر بتر کر دیا۔ زید بن ورقاء جھنی ایک درخت کے پیچھے گھات لگا کر کھڑا تھا اور حکیم بن طفیل سُنْبُسی کے ساتھ مل کر آپؑ کے دائیں ہاتھ پر ضربت لگائی۔
عباس نے تلوار کو بائیں ہاتھ میں لے لیا اور یہ رجز کہا:
وَاللَّهِ إِنْ قَطَعْتُمُ يَمینی • إنّی أُحامِی أبَداً عَنْ دینی
وَعَنْ إمامٍ صادِقِ الْيَقینِ • نَجْلِ النَّبىِّ الْطَّاهِرِ الأَمینِ
خدا کی قسم! اگر میرا دایاں ہاتھ قطع کرو گے، تو میں پھر بھی ہمیشہ اپنے دین اور اپنے امام کہ جو واقعا یقین کی منازل پر ہیں، پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے فرزند ہیں اور پاک و امین ہیں؛ کی حمایت کروں گا
پس نمایاں جنگ کی یہاں تک کہ آپ پر ضعف کا غلبہ ہو گیا۔ اس وقت حکیم بن طفیل طائی جو ایک درخت کے پیچھے گھات لگا کر کھڑا تھا؛ نے ایک اور ضربت آپ کے بائیں ہاتھ پر ماری اور عباس نے یہ رجز پڑھا:
یا نَفْسِ لا تَخْشی مِنَ الْكُفَّارِ • وَأَبْشِری بِرَحْمَةِ الْجَبَّارِ
مَعَ الْنَّبی السَّيِّد الْمُختار • قَدْ قَطَعُوا بِبَغْيِهِم يِساری
فَأصْلِهِمْ یا ربِّ حَرِّ النَّارِ
اے نفس! کافروں سے خوفزدہ مت ہو؛ پیغمبر اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی ہم نشینی کی تجھے مبارک ہو؛ انہوں نے ستم سے میرا بایاں ہاتھ کاٹ دیا ہے؛ پرودگارا! انہیں دوزخ کی آگ میں ڈال دے۔
ان میں سے مرحوم مجلسی نے صاحب مناقب کا کلام نقل کرنے کے بعد بعض مرسل مصادر سے حضرت کی شہادت کا احوال کچھ اس طرح بیان کیا ہے: پھر عباسؑ اپنے بھائی کی تنہائی کو دیکھ کر آپؑ کے پاس آئے اور اجازت طلب کی تاکہ میدان میں جائیں۔ امامؑ نے فرمایا: تو میرا پرچمدار ہے اور اگر تم چلے گئے تو میرا لشکر منتشر ہو جائے گا۔ عرض کیا: میرا سینہ تنگ ہو چکا ہےاور میں زندگی سے سیر ہو چکا ہوں اور چاہتا ہوں کہ ان
منافقین سے اپنا انتقام لوں!
امامؑ نے فرمایا: پس کچھ مقدار پانی ان بچوں کیلئے لے آؤ۔ عباس دشمن کی طرف گئے اور انہیں جس قدر پند و نصیحت کی؛ مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اپنے بھائی کے پاس واپس آ گئے اور آپؑ کو مطلع کیا۔ اس وقت سنا کہ بچے العطش کی فریاد بلند کر رہے ہیں۔ مشک اٹھائی اور ایک گھوڑے پر سوار ہو کر فرات کی طرف چل نکلے۔ فرات پر تعینات چار ہزار سواروں نے آپ کا محاصرہ کر کے تیر برسانا شروع کر دئیے۔
انہیں منتشر کر کے ایک روایت کے مطابق اسی افراد کو تہ تیغ کیا۔
فرات میں داخل ہو گئے، ایک چلو میں پانی اٹھایا تاکہ اسے پی لیں؛ مگر حسینؑ اور آپؑ کے خاندان کی تشنگی یاد آنے لگی؛ چنانچہ پانی پھینک دیا اور مشک کو پانی سے پر کر کے اسے اپنے دائیں کندھے پر رکھ دیا اور خیموں کا رخ کیا۔ دشمن نے آپ کا راستہ روک کر چاروں طرف سے محاصرہ کر لیا۔
عباسؑ نے ان سے جنگ کی یہاں تک کہ نوفل ارزرقی نے آپؑ کے دائیں ہاتھ پر ضربت لگائی۔ عباسؑ ننے مشک کو بائیں کندھے پر لٹکا لیا۔ نوفل نے ایک ضرب آپ کے بائیں ہاتھ پر لگا کر اسے تن سے جدا کر دیا۔ پھر عباسؑ نے مشک کو دانتوں سے پکڑ لیا، ایک تیر آیا اور مشک کو لگ گیا اور مشک کا پانی گر گیا، ایک اور تیر سینے پر لگا۔ پھر گھوڑے پر سنبھل نہ سکے اور امام حسینؑ کو صدا کی: میری فریاد کو پہنچیں!
جب امام ان کی طرف آئے اور دیکھا کہ خون میں غلطاں ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس وقت عباس دنیا سے جا چکے تھے۔ امام حسینؑ نے اس وقت فرمایا: «الآنَ انْكَسَرَ ظَهْری وَقَلَّتْ حیلَتی»؛
اب میری کمر ٹوٹ گئی ہے اور میری تدبیر تھوڑی ہو گئی ہے۔
[ترمیم]
زیارت ناحیہ میں آپ کو ان الفاظ میں یاد کیا گیا ہے:
السَّلامُ عَلی أبی الْفَضْلِ العَبَّاسِ بْنِ أَمیرِالْمُؤمنینَ المُواسی أَخاهُ بِنَفْسِهِ، أَلآخِذُ لِغَدِهِ مِنْ أَمْسِهِ، الْفادی لَهُ الواقی السَّاعی إِلَيْهِ بِمائِه، الْمَقطُوعَةِ يَداه- لَعَنَ اللَّهِ قاتِلَیهُ يَزیدَ بْنَ الرُّقادِ الجُهَنىّ، وَحَکیمِ بْنِ الطُّفَیلِ الطَّائی۔
سلام ہو ابو الفضل العباس بن امیر المومنینؑ پر؛ وہ کہ جس نے بھائی کی راہ میں اپنی جان قربان کر دی کہ جس نے اپنے گزشتہ کل سے آنے والے کل کیلئے اخذ کر کے آگے بھیج دیا؛ خود کو فدا کر دیا اور ڈھال بنا اور پانی پہنچانے کے حوالے سے بہت جدوجہد کی اور ان کے ہاتھ قطع کر دئیے گئے۔
خدا لعنت کرے، ان کے قاتلین پر؛ یزید بن رقاد جھنی اور حکیم بن طفیل طائی پر!
[ترمیم]
حضرت ابو الفضل کی بارگاہ
نہر علقمہ کے کنارے پر دیگر شہدا سے جدا ہے اور حضرت کا صحن و سرا عشاق اور چاہنے والوں کا مزار ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
پژوهشی پیرامون شہدائے کربلا، جمعی ازنویسندگان، ج۱، ص۷۰- ۷۷۔ پیشوایی، مهدی، مقتل جامع سیدالشهداء، ج۱، ص۸۳۷۔