اجتہادی مکاتب
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
آپ کے سامنے یہاں عظیم استاد حجۃ الاسلام والمسلمین شب زندہ دار کی گفتگو کو پیش کیا جا رہا ہے کہ جو
نجف،
سامراء،
کربلا اور
قم کے اجتہادی مکاتب کے بارے میں کی گئی اور علمی رشد، فروق اور ہر مکتب کے بزرگوں کا ذکر ہوا۔ آخر میں
صاحب جواھر کی فقاہتی روش کو خاص طور پر مورد بحث قرار دیا گیا۔ (اس گفتگو کے میزبان آقای سلمان دھشور تھے اور انہوں نے ہی اس کی رپورٹ تیار کی ہے)
[ترمیم]
سامرا،
نجف،
کربلا اور
قم کے اجتہادی مکاتب کا علمی و تعلیمی روش کے لحاظ سے کیا فرق ہے؟!
نجف و سامرا کے مکتب و مسلک کے مسلک اور محتویٰ کا جائزہ:
نجف و سامرا کے مکاتب شیخ کے بعد سے محتویٰ و
مسلک کے لحاظ سے متحد ہیں؛ کیونکہ شیخ کے کچھ شاگرد جو مرحوم
مرزائے شیرازی کے شاگرد تھے، وہ سامرا منتقل ہوئے؛ لہٰذا اہل سامرہ نے انہی مطالب کی ترویج کی؛ البتہ ممکن ہے کہ درسی اسلوب میں ان کا اختلاف ہو، مگر محتوا وہی ہے۔
[ترمیم]
مکتبِ کربلا کے نمایاں افراد اور ان کے محتوائی مطالب:
کربلا میں
صاحب فصول ، صاحب ضوابط اور مرحوم اردکانی جیسے افراد موجود تھے کہ جن کا اپنا مکتب تھا اور ان کے مطالب شیخ کے اقوال سے متفاوت تھے۔
کتاب غایۃ المسئول کی تقریبا ساری مباحث، الفاظ کے بارے میں ہیں، کچھ مقدار
ظن اور
خبر واحد کی حجیت کی بحث ہے؛ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ کربلا کا مکتب
مباحث الفاظ اور اس قسم کی مباحث میں مشغول تھا؛ کیونکہ ابھی تک
اصول عملیہ کا باب نہی کھلا تھا اور مباحث پراکندہ صورت میں پیش کی جاتی تھیں؟!
نہیں! وہ مباحث منظم ہیں۔
کیا
شیخ، نے اصول عملیہ اور قطع کی مباحث کا باب کھولا ہے؟!
یہ مطالب مکتبِ کربلا کے کلمات و کتب میں موجود ہیں؛ البتہ نہ اس صورت کہ جیسے شیخ نے پیش کی ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ
تعادل ،
تراجیح اور
استصحاب کی بنیادی مباحث مکتبِ کربلا کی ہیں؛ یہ مطالب شریف العلما کہ جو کربلا میں ساکن تھے؛ سے شروع ہوئیں۔ البتہ بعض نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ رسائل شریف العلما کے درس کی تقریرات ہیں؛ اگرچہ میں اسے بعید سمجھتا ہوں۔ البتہ
حوزہ کربلا کے اصل افراد وہی فاضل اردکانی ، صاحب ضوابط اور صاحب مفاتیح تھے۔
شیخ کے مطالب کربلا میں منتقل ہوتے تھے اور ان کا تنقیدی جائزہ لیا جاتا تھا لیکن مباحث و افکار کی بنیاد شیخ کے مطالب نہیں ہیں۔
مرحوم آقائے
شیخ مرتضیٰ حائری اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ’’سر دلبران‘‘ میں ایک داستان نقل کرتے ہیں کہ ایک سفر میں شیخ کربلا کی
زیارت سے مشرف ہوتے ہیں، مرزائے شیرازی بھی ان کی خدمت میں حاضر تھے۔ جناب مرزا فاضل اردکانی کے درس میں جاتے ہیں اور اردکانی شیخ کے مطلب کو (جنہیں ان کے درس میں ملا مرتضیٰ بیان کرتے تھے) نقد کر رہے تھے۔ واپسی پر جب کشتی پر سوار ہوتے ہیں، سفر کے آغاز میں ہی مرحوم مرزا شیخ کیلئے نقل کرتے ہیں کہ فاضل اردکانی نے یہ بحث کی ہے؛ شیخ وہیں پر سوچ میں پڑ جاتے ہیں اور نجف تک تفکر کی حالت میں رہے۔ نجف پہنچ کر قبول کر لیتے ہیں کہ ان پر اشکال وارد ہے۔ آقای حائری نے اس کتاب میں لکھا ہے کہ جب ہم نےآقای
محمد تقی خوانساری کی خدمت میں رسائل پڑھ رہے تھے، انہوں نے کہا کہ: اشکال
استصحاب کلی قسم ثانی کی بحث میں ہے۔
مکتبِ کربلا و نجف کے مندرجات میں تفاوت:
اردکانی کی تقریرات غایۃ المسئول کے نام سے ان کے فاضل شاگرد مرحوم شہرستانی کے قلم سے مؤسسہ آل البیت کی طرف سے چھپ چکی ہیں۔ مندرجات کے اعتبار سے اس کتاب کا اگر کوئی مطالعہ کرے تو وہ دیکھتا ہے کہ تقریر شدہ مطالب کا اسلوب اور الفاظ شیخ کی مباحث اور رسائل سے ہٹ کر ہے۔
یہ کہنا چاہئے کہ کربلا شیخ کے بعد نجف کا سرپرست ہے؛ کیونکہ جب شریف العلما کربلا میں ساکن تھے، شیخ نے ان کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیے اور شیخ کے بہت سے افکار کا مبدا وہیں سے ہے اور اس کی شاخیں شریف العلما کے کلمات میں ہیں؛ حتی بعض بڑے اساتذہ نے یقین کے ساتھ کہا ہے کہ رسائل شریف العلما کے درس کی تقریرات ہیں؛ یعنی شیخ اعظم کی ابتدائی تالیف نہیں ہے۔ اس بنا پر
مکتبِ کربلا مکتبِ نجف میں بہت زیادہ کردار رکھتا ہے مگر میں بعید سمجھتا ہوں کہ ایسا ہو۔
مجلہ فقہ:
صوابط الاصول شریف العلما کی تقریرات میں سے ہے؟!
ضوابط الاصول شریف العلما کی تقریرات میں سے نہیں ہے؛ یہ دو کتاب ایک دوسرے کے مقابلے میں ہیں۔ ’’القواعد الشریفہ‘‘ نام کی ایک اور کتاب موجود ہے کہ جس کے مقرِّر سید اسد اللہ بروجردی ہیں اور یہ کتاب شریف العلما کے مطالب کی تقریر ہے مگر ضوابط الاصول کے مصنف مرحوم قزوینی کے بارے میں احتمال ہے کہ وہ شریف العلما کے شاگرد نہ ہوں۔
مجلہ فقہ: آپ نے کتاب
غایۃ المسئول کا شیخ اعظم کے مطالب کے ساتھ جو فرق مشاہدہ کیا ہے، اس کے بارے میں زیادہ وضاحت دیں۔
اس کے زیادہ تر مطالب شیخ کے افکار سے مشابہہ نہیں ہیں؛ مطالب و مباحث کو پیش کرنے کا اسلوب
فصول اور
ھدایۃ المسترشدین جیسا ہے؛ البتہ ہر مفکر کا ایک استدلال ہے مگر اسلوب وہی ہے۔
آیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ کربلا کے مکتب میں مباحث کا نطم اور ظاہری صورت نجف کے مطالب کی مانند نہیں تھی؛ مثال کے طور پر فصول یا
قوانین کی مباحث کا نظم و منہج (البتہ قوانین میں قانون قانون کی ترتیب ہے) اس طرح نہیں ہے کہ جس صورت مثلا شیخ نے اصول عملیہ و قطع و ۔۔۔ کے مجاری کو منقح کیا ہے۔
جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ کربلا کا اسلوب اور مباحث کی بنیاد قوانین و فصول کی مباحث کے اسلوب جیسا ہے؛ کیونکہ قوانین و فصول کے مسائل کا نظم شیخ کی رسائل سے ہٹ کر ہے ؛ مثلا ان کی کچھ مباحث
قرآن کے بارے میں ہیں، پھر
سنت ،
خبر واحد اور
تعارض وغیرہ کی مباحث ہیں شیخ کی مباحث کے برخلاف جو قطع سے شروع ہوتی ہیں اور تعارض کو آخر میں اور اصول عملیہ کے بعد پیش کرتے ہیں۔ وہ مسائل جو خبر واحد کی حجیت میں مطرح ہوتے ہیں وہ بھھی اسی طرح سے ہیں؛ کتاب
مفاتیح الاصول میں
عدالت پر تفصیلی بحث کی گئی ہے حتی
فقہ الرضا کی
حجیت پر بھی بحث کی گئی ہے مگر شیخ کی مانند قطع و ظن و
شک کی مباحث کو اہمیت نہیں دیتے اور مستقل باب میں اس کے بارے میں بحث نہیں کرتے؛ اگرچہ خود یہ مسائل تقریبا ان کے کلمات میں بھی ایک دوسری ترتیب سے موجود ہیں۔
نجف و
سامرا کا شیخ اعظم کے زمانے میں تفاوت:
نجف و سامرا کے مکتب میں اسلوب تدریس اور مباحث کے تعمق میں اختلافات کے باوجود علمی اعتبار سے ان کا راستہ ایک ہے؛ مگر کربلا کا مکتب مختلف ہے۔
نجف و سامر کے مکاتب میں جو آپ نے فروق بیان کیے ہیں، یہ ایک خاص زمانے سے مربوط ہیں اور آج تک ایسا نہیں ہے؛ یہ نکات شیخ کے زمانے سے ان کے بعد چالیس پچاس سال کے عرصے سے مربوط ہیں مگر بعد میں حالات مختلف ہو گئے ہیں۔ نجف اشرف میں شیخ اعظم کے بعد شیخ کے افکار کی زیادہ اہمیت تھی اور انہیں قلمبند کیا جاتا تھا۔ ایک شاگرد کہ جس نے وہ زمانہ درک کیا اور وہ حصول علم کیلئے نجف میں موجود تھے، آقای
شیخ اسماعیل محلاتی ہیں؛ وہ بزرگوں میں سے ہیں؛ علمی اعتبار سے اور تقویٰ کے اعتبار سے بھی بہت بلند درجے پر ہیں۔ میری ان کے ساتھ آشنائی آقای مرتضیٰ حائری کی تلقین سے شروع ہوئی۔
انہوں نے عقائد کی کتاب انوار الھدایۃ والمعرفۃ کے آخر میں اپنے حالات کو بیان کیا ہے اور پھر اپنے حالات کو بیان کرنے کی مناسبت سے نجف اور سامرا کی صورتحال پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کے بیانات سے آشکار ہوتا ہے کہ فن کے
اہل خبرہ میں سے بھی ہیں اور نزدیک سے انہوں نے حالات کا مشاہدہ بھی کیا ہے۔
کتاب
انوار المعرفۃ کی نقل کے مطابق نجف کے حالات:
اس کتاب میں آیا ہے: اس مقدس سر زمین پر تدریس کی مجالس بہت زیادہ تھیں؛ ان میں سے طلاب کی تعداد کے لحاظ سے سید بزرگوار جناب آقای
سید حسین تبریزی کوہ کمرهای کا درس تھا، (آپ مرحوم حجت کے چچا تھے) اور شیخ کے فقہی و اصولی مطالب کو انتہائی مضبوطی سے قلمبند کرنے میں ان کا کوئی ہم پلہ نہیں تھا۔
چونکہ اس زمانے کے طلبہ کا مقصود، شیخ کی مرادات کا فہم اور ان کے مقاصد کی اطلاع تھی اور یہ مطلب پورے طور پر ان سید بزرگوار کی ذات میں موجود تھا۔ لہٰذا طلاب کی تعداد ان کے درس میں سب سے زیادہ تھی۔
یہاں سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شیخ کے بعد مدتوں تک نجف شیخ کے افکار کے زیر سایہ رہا اور شیخ کے مطالب کی وضاحت و تشریح مدنظر رہی اور اس زمانے میں شیخ کے افکار میں تصرف بہت کم مورد نظر تھا۔ مرحوم محلاتی آگے چل کر لکھتے ہیں:
ان کے بعد مرحوم (سید حسین تبریزی کوہ کمرہ ای)، مرحوم سید بزرگوار جناب الحاج میرزا
محمدحسن شیرازی تھے... کیونکہ مرحوم کے درس کا مبنی غیر کے مطالب کی نقل و حکایت پر نہ تھا، بلکہ ہر مطلب کو ہر جہت سے زیر نظر قرار دیں اور وہ عمیق نگاہ و صائب حدس کہ جس کے وہ حامل تھے، یعنی غرائب دھر میں سے تھے، ہر مطلب کو الٹ پلٹ دیتے تھے، یہ مسلک طلاب کی متوسط طاقت بلکہ آخری قوت ادراک سے بھی ما فوق تھا، اس لیے یہ اس امر کا موجب تھا کہ ہر مسئلہ طول پکڑے، درس دیر سے آگے چلے، لہٰذا ان کے درس کی تعداد نسبتا کم تھی۔
آقای حائری نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ ایک شخص تحصیل علم کیلئے سامرا جاتا ہے؛ میرزا بعض اوقات عصر کے اوقات میں
دجلہ کے کنارے چلے جاتے تھے اور یہ آغا بھی چلا جاتا تھا: میرزا سوال کرتے ہیں: ہمارے درس کو تو نے کیسا پایا؟! کہتا ہے: آقا! بہت طولانی ہے۔ میرزا دیکھتے ہیں کہ اسے اچھا نہیں لگا، تو فرماتے ہیں ہم نہیں چاہتے کہ مطالب کو برف کی طرح جمع کریں، ہم چاہتے ہیں کہ ایک مسئلہ حل ہو۔
بعض اوقات ایک بحث سات گھنٹے تک طول پکڑتی تھی اور ان کا طریقہ یہ تھا کہ تمام سے ان کی رائے پوچھتے تھے اور آخر میں جمع بندی کرتے تھے۔ یہ نجف کا دوسرا حلقہ درس تھا۔
اس سرزمین مقدس کی ایک اور مجلس جناب حاج میرزا
حبیب اللہ رشتی کی تھی جو شیخ کے درجہ اول کے شاگرد ہیں۔ وہ ایک وسیع الفکر شخصیت تھے جو ہر مطلب میں اپنے بدیع تصرفات کے ساتھ داخل اور خارج ہوتے تھے۔ ان کی فقہی و اصولی تصنیفات اپنی جامعیت ، قوت فکر اور علمی کمال کی ہر
اہل خبرہ کیلئے خود حکایت کرتی ہیں۔
کتاب کی نقل کے مطابق اس زمانے میں موجود مکاتب کی تحلیل:
نقل شدہ مطالب کی رو سے درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں:
اول یہ کہ سامرا و نجف کے مکتب کا تفاوت یہ تھا کہ سامرا میں
میرزای شیرازی کا اسلوب نقلِ کلمات کی بجائے مسائل میں تعمیق اور ژرف اندیشی تھا۔ ان کا سبک یہ نہیں تھا کہ مطالب کو نقل کیا جائے بلکہ نظریہ پردازی اور ژرف نگری کرتے تھے۔
مرحوم رشتی کا سبک میرزا کے برخلاف نقلِ کلمات تھا؛ ان کی کتاب کو دیکھیں، اقوال کو جمع کرتے ہیں، البتہ جائزہ بھی لیتے ہیں مگر ان کا شیوہ یہی ہے کہ اقوال کو مختلف کتب سے جمع کر کے ان پر نقد کرتے ہیں۔
ایک سبک آقا
سید حسین کوہ کمرہ ای کے درس کا تھا کہ جو شیخ کے کلمات کے نقل و تقریر پر اکتفا کرتے تھے۔
پس نجف میں دو سبک موجود تھے لیکن میرزا کا تعمیقی سبک ان کے بعد تعطیل ہو جاتا ہے، فقط آخوند کے زمانے تک چلتا ہے۔
آخوند خراسانی بھی میرزای شیرازی کی محنتوں کا ثمر ہیں؛ آخوند کی
فقہ اور
اصول فقہ پر ایک نگاہ ڈالنے سے ہم سمجھ جاتے ہیں کہ نقلِ اقوال اس طریقے سے نہیں ہے، وہ خود ژرف اندیش ہیں اور یہ ایک خصوصیت ہے جو ہم اس زمانے میں ملاحظہ کرتے ہیں۔
دوسری خصوصیت جو نجفیوں میں زیادہ تھی مگر قمیوں میں موجود نہ تھی، حالانکہ یہ وہاں کے شاگرد تھے مگر اس سبک کا استقبال نہیں تھا اور اس کو جاری نہیں رکھتے تھے؛ یہ ہے کہ نجفی فقہی مسائل میں ورود کی ابتدا میں کسی اصل کی تاسیس کے درپے ہیں؛ اس معنی میں کہ اگر کسی مسئلے میں دلیل نہ ہو تو اصل کا کیا مقتضیٰ ہے؟! بعض اوقات یہ بحث طولانی، عمیق اور مشکل ہے حالانکہ اس مسئلے میں اتفاقا دلیل بھی موجود ہے اور اس اصلِ مؤسس کی ضرورت نہیں ہوتی؛ یہ سبک نجف سے مخصوص ہے۔
آقای حائری ،
آقای بروجردی اور دیگر بزرگ علما جو نجف میں تھے اور پھر
قم تشریف لے آئے، ان کا یہ سبک نہیں تھا؛ کیونکہ ان کا نظریہ یہ تھا کہ جب کسی مسئلے پر کوئی دلیل موجود ہوتی ہے، تو
تاسیسِ اصل ضروری نہیں ہے اور اگر کسی جگہ پر ضرورت ہو تو اصل کی بحث کو پیش کر کے اس کی تشریح کریں گے۔ لہٰذا یہ فرق ہے جو روشی و منہجی اعتبار سے نجف و قم کے دو مکاتب میں دیکھا جا سکتا ہے۔
میری نگاہ میں ان بزرگان کے مسالک میں اختلافات زیادہ تر علمی یا تدریسی یا تدوینی روشوں میں ہیں اور یہ کہ بحث کے موقع پر پہلے اصل کی طرف جائیں یا نہ! بہرحال مندرجات وبالخصوص فقہ میں تفاوت کا زیادہ مطلب نہیں ہے؛ چونکہ فقہ ایک منقول علم ہے اور اہم یہ ہے کہ اس امر ثابت نفس الامری کو کشف کرے۔
[ترمیم]
جس نکتے کی طرف توجہ ضروری ہے؛ یہ ہے کہ
حوزہ سامرا اصولی مباحث کی تعمیق کے اعتبار سے بہت زیادہ مؤثر تھا؛ یعنی میرزای شیرازی کے کام کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے علم کو ایسی قوت و طاقت دی کہ منشا آثار قرار پائے، جیسے
آقای نائینی ،
آقا ضیاء اور مرحوم صاحب کفایہ؛ درحقیقت یہ نقطہ عطف ہیں۔ مرحوم آخوند صاحب کفایہ عمق بخشی کے اعتبار سے ان دو محققین سے پہلے ہیں، اگرچہ مرتبے کے اعتبار سے آقای نائینی اور آقا ضیاء آخوند کے شاگردوں کے مرتبے پر ہیں؛ اگرچہ آقای نائینی نے بہت زیادہ ان کی شاگردی نہیں کی، برخلاف آقا ضیا ،
محقق اصفہانی اور مرحوم
میرزا محمد تقی شیرازی؛ کہ جو دقیق افراد تھے اور انہوں نے
علم اصول کو ترقی دی؛ یہ سب میرزای شیرازی اور اس سبک کی زحمات کے مرہون منت ہے؛ البتہ تمام مطالب شیخ کے ہیں، تاہم میرزای شیرازی کی زحمات، تربیت اور تعمیق کا اس میں اثر ہے۔
میں نے سنا ہے کہ
سید ابو القاسم خوئی مبالغہ کرتے ہوئے فرماتے تھے: اگر آقا میرزا محمد تقی شیرازی
نبوت کا دعویٰ کریں اور اپنا معجزہ اصول کو قرار دیں، تو انہیں قبول کرنا سزاوار ہے۔ البتہ آقای خوئی میرزای دوم (میرزا محمدتقی شیرازی) کے درس میں حاضر نہیں ہوئے بلکہ آقای میرزا علی آقا شیرازی کے درس میں جاتے تھے؛ ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ کیوں محمد تقی میرزا کے درس میں نہیں گئے، وہ کہتے تھے کہ میں ان کے مطالب کو جمع نہیں کر سکتا۔
یہ مطالب جو آپ نے فرمائے ہیں،
شیخ انصاریؒ سے پچاس سال بعد کے ہیں، اگر ممکن ہے تو ان پچاس سال کے بعد کے مکاتب کے بارے میں بتائیں۔
استاد: آگے چل کر بظاہر سامرا و کربلا کے مکاتب منفی ہوئے ہیں۔ سامرا میرزا کے ایک سال بعد برقرار تھا؛ اور جو اعاظم وہاں پر تھے جیسے میرزا محمد تقی شیرازی اور
محقق فشارکی ان کے کوئی خاص موجود نہیں ہیں؛ آقای شیرازی سے مکتوب اصول باقی نہیں بچا ہے اور مرحوم فشارکی سے بھی مختصر کتاب ہم تک پہنچی ہے، البتہ ان کے اہم مطالب کو حاج شیخ عبد الکریم نے کتاب ’’درر الفوائد‘‘ میں جمع کیا ہے۔
اب اس کے بعد
مکتبِ قم اور
مکتبِ نجف کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
[ترمیم]
شیخ اعظم اور میرزائے شیرازی کے زمانے میں کہا جا سکتا ہے کہ قم علمی لحاظ سے ایسا مقام نہیں تھا کہ جہاں پر کوئی مکتب موجود ہو۔ جب قم ایک اہم حوزہ بن گیا تو کہنا چاہئے تقریبا نجف کا مولود تھا؛ یعنی نجف سے تعلیم یافتہ علما جیسے آقای حاج
شیخ عبد الکریم حائری قم تشرف لائے۔ آپ کی علمی ولادت نجف و سامرا میں ہوئی جبکہ ابتدائی تعلیم کربلا میں حاصل کی تھی۔ آقای حاج شیخ نے فاضل اردکانی کو درک کیا ہے مگر ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہ نہیں کیا؛ کیونکہ ابھی خارج کی حد تک نہیں پہنچے تھے اور سطوح پڑھتے تھے۔ فاضل اردکانی ان سے کہتے ہیں کہ آپ سامرا جائیں اور میرزای شیرازی کے نام ایسا نامہ لکھتے ہیں کہ جب میرزا نامہ پڑھتے ہیں تو فرماتے ہیں: انہوں نے اس طور نامہ لکھا ہے کہ میں ان کا ارادت مند ہو گیا ہوں۔
بعد میں مرحوم شیرازی کے حکم پر مرحوم شیرازی کے بیٹے آقا سید علی آقای حائری کے ساتھ میرزا محمد تقی شیرازی المعروف میرزای شیرازی دوم کی خدمت میں زانوئے تلمذ تہ کرتے ہیں؛ پھر آقای
سید محمد فشارکی جو
میرزای شیرازی کے تلامذہ میں سے تھے؛ کی خدمت میں درس کو جاری رکھتے ہیں۔
آقای بروجردی کی طرح کے افراد صاحب کفایہ آخوند کے شاگرد تھے۔ آیات ثلاث؛ خوانساری، صدر اور حجت نجف کے شاگرد ہیں اور آقای نائینی، آقای
ضیا عراقی کے شاگرد شمار ہوتے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ نجف، سامرا اور قم ایک مثلث کے تین اضلاع تھے، البتہ ان میں کچھ فرق ہے؛ احتمالا انہوں نے بذات خود معجم الرجال الحدیث میں انہیں اپنے اساتذہ کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ مرحوم امام نے آقای حاج شیخ عبد الکریم حائری کے اصول کا ایک دورہ بھی مکمل نہیں کیا ہے۔ آپ چند ماہ تک جو قم میں رہے، آقای بروجردی کے درس میں اور کچھ مقدار محمد حسین مسجد شاہی صاحب وقایۃ الاذھان کے درس میں شرکت کی ہے اور ظاہرا آقای یثربی کی خدمت میں سطح یا کچھ مقدار تک درس خارج پڑھے ہوں گے۔ اس بنا پر زیادہ تر شخصی کام اور ذاتی استعداد تھی کہ جس کے باعث وہ اس مقام تک پہنچے۔ حاج شیخ
محمد شاہ آبادی سے منقول ہے کہ اگر امام نے آقای
گلپایگانی اور آقای
اراکی کے برابر فقہ میں کام کیا ہوتا تو اپنی قوی استعداد کے باعث ’’اعلم من فی الارض‘‘ ہوتے۔
مرحوم امام اور مرحوم آقای حائری کا نجف سے اختلاف زیادہ ہے؛ بالخصوص دو مکاتب کے معیار یہاں مشہود ہیں؛ براہ کرم، اختلافات کو واضح کریں اور ان میں سے اہم اختلافات کی وضاحت کریں۔
پہلا اختلاف مسئلہ انحلال میں ہے جو آقای نائینی اور نجف کے مکتب کی بہت سی ابحاث میں عمدہ کردار کا حامل ہے؛ البتہ مرحوم آقای ضیاء انحلال کے منکر ہیں۔ سوائے بہت کم موارد کے جو شاید محل نزاع سے خارج ہیں اور انہیں سب قبول کرتے ہیں؛ تاہم جہاں اس پر بحث ہوتی ہے، نجفی مسئلہ انحلال کو اہمیت دیتے ہیں اور زیادہ پیش کرتے ہیں جبکہ قمی اس طرح نہیں ہیں۔
دوسرا اختلاف خطابات قانونیہ کے مسئلے میں ہے کہ حضرت امامؒ کے نزدیک
قدرت و
التفات شرط نہیں ہیں بلکہ غیر
قادر ،
عاجز ،
ناسی وغیرہ بھی قانونی تکلیف کے مشمول ہو سکتے ہیں۔ آپ بہت سے مقامات پر اس مسئلے سے استفادہ کرتے ہیں اور یہ ایک اساسی تفاوت شمار ہوتا ہے۔
تیسرا اختلاف مسئلہ
لا ضرر» یا
لا حرج» ہے؛ البتہ قاعدہ ’’لا ضرر‘‘ کہ
فقہا نوعا اسے ادلہ پر
حاکم سمجھتے ہیں، حضرت امامؒ ’’لاضرر‘‘ کو
نھی سلطانی سمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ ادلہ پر حکومت نہیں رکھتا؛ اس کی لسان نہی ہے، نہ وہ نہی جو الہٰی
تحریم ہو بلکہ یہ تحریمِ سلطانی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ اس جہت سے کہ امت کے سلطان ہیں، اپنے اختیارات کے تحت نہی فرماتے تھے۔ لہٰذا آپ قاعدہ لا ضرر کو جو
فقہ میں بہت استعمال ہوتا ہے، قبول نہیں کرتے ہیں۔
چوتھا اختلاف مسئلہ ترتب ہے؛ البتہ آقای آخوند بھی ترتب کے منکر ہیں مگر نجفی جیسے آقای نائینی اور آقای آقا ضیاء اور آقای اصفہانی ترتب کے قائل ہیں۔ حضرت امامؒ بھی ترتب کے قائل نہیں ہیں اور ان کے مبانی اصول کی بہت سی دیگر مباحث میں متفاوت ہیں۔ آقای حائری اور آقای داماد بھی اس قبیل سے تھے۔
بہرحال یہ کہا جا سکتا ہے کہ مکتبِ قم و مکتبِ نجف دو مکتب ہیں اور جو اساتذہ اب موجود ہیں، وہ دو طرح کے طرز فکر کے حامل ہیں؛ آقای مومن، مرحوم آقای فاضل اور آقای مکارم جیسے اساتذہ، آقای تبریزی ، آقای وحید اور دیگر اساتذہ کہ جن کی تعلیم کا آغاز نجف سے ہوا؛ تفاوت رکھتے ہیں؛ یہ تفاوت ان کے اصول و فقہ کے
استنباط میں مشہود ہے۔
البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اکثر قمیوں کے نزدیک آقای نائینی کا اصول آقا ضیاء اور آقای اصفہانی کے اصول سے زیادہ پر رونق ہے اور قابل قبول ہے۔ شاید نجف میں بھی ایسے ہی ہو۔ درست ہے کہ قمی آقا ضیاء اور اصفہانی کے محقق ہونے کے معترف ہیں مگر آقای نائینی کا اصول زیادہ مقبول ہوا حتی خود آقا ضیاء نے بھی آقای نائینی کی تقریرات پر
تعلیقہ لکھا ہے؛ یعنی خود آقا ضیاء بھی میرزای نائینی کے مقام کے معترف تھے اور اصفہان میں آقای نائینی سے انہوں نے سطح کا درس پڑھ چکے تھے۔
آقای اصفہانی کو بھی اوائل میں متہم کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اصول کو فلسفے کے قالب میں ڈھال دیا ہے، لہٰذا وہ سائڈ لائن ہو جاتے ہیں حتی اس زمانے کے بعض بزرگ جب
نھایۃ الدرایۃ کی جلد اول کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اس میں فلسفی مطالب ڈال دئیے گئے ہیں۔
ایک کامل وجہ جامع کا حصول کہ جس کے وسیلے سے ان دو مکاتب کو سمجھا جا سکے، مشکل ہے؛ تاہم افراد کے علمی تسلط کے پیش نظر دو فرق ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں:
پہلا تفاوت یہ ہے کہ قمی
روایات ،
وثاقتِ راوی وہ بھی وثاقت منصوص کو مد نظر قرار نہیں دیتے ہیں بلکہ ان کے معیارات
شہرت، انجبار بہ
شہرت اور ان قرائن کا مجموعہ ہے جو ممکن ہے کہ اس
خبر کو رجال کی وثاقت نہ ہونے کے باوجود
حجت کی شان تک پہنچا دیں۔ یہ ملاک تمام بزرگوں میں موجود ہیں؛ امام، آقای حائری اور باقی علما اس طرح ہیں۔ یہ نکتہ نجف میں بھی رائج تھا اور تقریبا یہ آقای خوئی کا سبک ہے کہ برخلاف مشی کرتے ہیں اور منصوص وثاقت کو قبول کرتے ہیں مگر آقای نائینی، آقا ضیا اور آقای اصفہانی اور حتی آقای خوئی کے معاصرین جیسے آقای حکیم اور آقای شاہرودی اس طرح نہیں ہیں؛ اس بنا پر قطعی طور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ نجف و قم کے مکاتب کا تفاوت ہے؛ ممکن ہے کہ کوئی فرد یہاں سے اور کوئی فرد وہاں سے اس کا قائل ہو؛ تاہم اگر نجف کو حالیہ دہائیوں میں آقای خوئی کے تحت نظر حساب کریں تو اس تفاوت کے قائل ہوا جا سکتا ہے۔
دوسرا تفاوت یہ کہ عرفیات کی دریافت میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں البتہ منہج میں متفاوت ہیں اور کبریات میں اختلاف رکھتے ہیں اور کوئی اس طرف کا اور کوئی دوسری طرف کا قائل ہے کہ یہ اختلافِ مسالک نہیں ہے بلکہ یہ منہجِ بحث کا اختلاف ہے۔
کیا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ایک جامع موجود ہے اور وہ یہ کہ سب قمی
فلسفے کو داخل کرنے کے مخالف ہیں، البتہ بعض بنیادی طور پر مخالف ہیں، اب اس دلیل سے کہ فلسفی مباحث حقیقی ہیں اور اصولی مباحث اعتباری ہیں، لہٰذا وہ معتقد ہیں کہ انہیں داخل نہیں کرنا چاہئے، مگر نجفی فلسفے کو داخل کرتے ہیں۔ جو اساتذہ فلسفے میں بہت کام کر چکے ہیں جیسے
علامہ طباطبائی ،
مرحوم امام بہت اشکال کرتے ہیں کہ ان مباحث میں خلط واقع ہوا ہے، مثلا
قاعده الواحد کو
فعل خدا سے مربوط سمجھتے ہیں، مگر مرحوم آخوند نے اس قاعدے کو
علم اصول کے موضوع کی بحث میں اور بہت سے دیگر مقامات پر داخل کیا ہے۔ یہ آپ کی نظر میں ایک جامع نہیں ہے؟!
بہت مشکل سے نجف کہ جو فلسفے کی مخالفت میں معروف ہے اور اصلا وہاں پر فلسفے کی تدریس نہیں ہوتی تھی، ہم یہ کہیں کہ انہوں نے فلسفے کو داخل کیا۔ محقق اصفہانی ایک فرد تھے، وہ بھی اگر ان کے حوالے سے درست قضاوت کی جائے؛ قم میں بھی آقای حکیم جیسے علما فلسفے کے موافق تھے اور امام ان کے شاگرد رہے تھے۔ اس بنا پر اگر وہاں پر آقای اصفہانی نے فقہ میں یہ کام کیا ہے کہ البتہ بندہ اسے قبول نہیں کرتا، یہاں بھی ایسے افراد تھے۔
فقہ میں بھی آپ قبول نہیں کرتے کہ محقق اصفہانی نے فلسفے کو داخل کیا ہے؟! ان کا بیان ایسا بیان ہے کہ بہت ہی فلسفی ہے؛ ممکن ہے کہ فہم عرفی ہو مگر بیان فلسفی ہو۔
نہیں، ایسا نہیں ہے؛ بعض اوقات ایسی چیزیں ہیں کہ ہم اشتباہ کرتے ہیں مثلا وہ
اعتباریات میں کہتے ہیں:
عرف اعتباریات کا نمونہ
واقعیات سے نقل کرتا ہے۔ وہ
ملک کی بحث
مییں کہتے ہیں:
ملکیت کو ہم کہتے ہیں کہ مفہوم جدہ ہے، کہاں سے عرف کے ذہن میں آیا ہے کہ وہ ملکیت کا اعتبار کرتا ہے؛ وہ کہتے ہیں: جو عمامہ ہمارے سر پر ہے اور سر پر محیط ہے اور سر محاط ہے، اس
عمامے کی خاصیت کیا ہے؟! یہ ہے کہ دوسروں کو اس عمامے سے عبور کیے بغیر سر تک پہنچنے سے منع کرتا ہے؛ اگر پتھر پھینکا جائے تو اس عمامے کو لگے گا نہ سر کو۔ ہر آدمی جو کہے یہ میرا مال ہے گویا اس شے کا احاطہ رکھتا ہے کہ جس میں کوئی تصرف نہیں کر سکتا ہے سوائے یہ کہ اس سے اجازت لے۔ لہٰذا ان کے امور کو منظم کرنے کیلئے ملکیت کا اعتبار کرتے ہیں؛ ملکیت در واقع ’’جدہ‘‘ سے نمونہ اخذ کرتی ہے مگر چونکہ انہوں نے
جدہ کا نام لے لیا ہے، اس لیے کہا جانے لگا کہ ان کا تفکر فلسفی ہے۔
سامرا کے مکتب میں واقعا کس قدر یہ فلسفی مباحث دیکھنے کو ملتی ہیں؟! اگر حاج شیخ عبد الکریم کی درر الفوائد کی ورق گردانی کریں کس قدر ایسی مباحث جو فلسفے میں بیان ہوئی ہیں اور بہر دلیل یہاں آئی ہیں، اہمیت رکھتی ہیں؟! دوسری بات یہ کہ علم اصول سے مخصوص دقتیں اور باریک بینیوں کو گویا حضرت امامؒ اور آقای
بروجردی جیسے افراد تسلیم نہیں کرتے؛ یعنی ہم اس طرح فرق کرتے ہیں: تحلیلیں، دقیں اور خاص باریک بینیاں مکتبِ نجف میں موجود ہیں مگر قمی ان دقتوں کو نہیں دیکھتے یا انہیں عملی کرنے کے خواہاں نہیں ہیں۔
ہم نے عرض کیا کہ اسے نجف کی طرف نسبت نہیں دی جا سکتی؛ آقای نائینی جو نجف کے اساتذہ میں سے ہیں، ان کی علمی شہرت اصول میں ہے، مگر وہ ان باریک بینیوں کے حامل نہیں ہیں۔
این انحلالی که شما میفرمایید چطور؟
اینها میگویند
انحلال عرفی است.
چطور میگویند عرفی است؟
میگویند اینها عرفی است و برای تحقیقش به بازار و مردم مراجعه کنید. امام میفرماید که در تطابق
ایجاب و
قبول، یکی میگوید این خانه را به هزار
دینار فروختم؛ او میگوید نصفش را بردار؛ نصف دیگر هزار دینار میشود پانصد دینار.
آقای خوئی و آقای تبریزی و امثال آنها میگویند در اینجا
انحلال میشود، وقتی انحلال شد، یعنی این نصف را آنقدر خریده و آن نصف را آنقدر؛ اما امام میگوید انحلال اینجا
باطل است؛ انحلال وقتی است که جمع در تعبیر بکند؛ مثلاً میخواهد میز را بفروشد، فرش را هم بفروشد، و برای اینکه راحت تعبیر بکند میگوید: بعتک هذا المیز و هذا الفرش» اینجا انحلال است.
آنها میگویند اگر انحلال نبود، شما این زمین را هزار تومان فروختید، بعد معلوم شد نصفش مال کسی است،
معامله باطل است، یا مردم میگویند در
حصه خودش صحیح است و در حصه دیگری هم باطل است با اینکه یک معامله قابل تبعّض نیست؛ اینها به
فهم عرفی استدلال میکنند و قبول ندارند خیلی از این چیزها فلسفی باشد. میگویند این انحلال عرفی و در فهم کوچه و بازار و
معاملات مردم است. بسیاری از سرآمدهای نجف، مثل آقای خوئی، آقای حکیم و شاهرودی هم اینطور نیستند که زیاد دقت کنند. نجفی که در ذهن شما میآید، آقای اصفهانی است که خود نجفیها متّهمش نمودهاند و دورش را خالی کردهاند. ایشان در آن زمان شهرت زیادی ندارد و به خاطر همین دورش را نمیگرفتند، و الا کمی که عقبتر برویم میبینیم کسی که بیشتر از ایشان فلسفه را داخل کرده، محقق تهرانی صاحب محجَّة العلما است که محقق اصفهانی با عظمت از ایشان یاد مینماید و گاهی حرفش را نقل میکند.
ایشان
اصول عملیه را به یک چیز بر میگرداند و میگوید عقلاً همین یکی است؛ اصل وجود
مقتضی و عدم
مانع. ولی او هم در
نجف منزوی بود و شاگردان زیادی نداشت؛ شاگردان ایشان انگشتنما بودند.
به نظر شما این فرق را میتوان قائل شد که تطبیقات اصولی و عنایت به
اصول در
فقه نجفیها بیشتر از قمیها وجود دارد؛ یعنی تطبیقات اصولی که دائماً از محقق خوئی دیده میشود، از حضرت امام یا کسانی که الآن هستند یا قبلاً بودهاند دیده نمیشود؛ حتی فقه آقا ضیاء هم اینطور است. به نظر شما این فرق در فقه قابل قبول است؟
این فرق هم باز به این دلیل است که وقتی ما به نجف نگاه میکنیم، یک فرد و دو فرد را به خاطر سیطرهای که پیدا کردهاند، میبینیم.
آقای خوئی غالباً اصولی کار میکند؛ یعنی با اصطلاحات اصولی حرف میزند؛ مثلاً میگوید این
مطلق است، این
مقید است، و اصطلاحات اصولی را به کار میبرد، اما خیلی از آقایانی که قمی بحث میکنند، میگویند این حمل بر آن میشود، که همان
تقیید است؛ یعنی همان چیزی که در نتیجه یکی است، ولی نجفیها اصطلاحش را به کار میبرند؛ مثلاً آقای گلپایگانی بحث را زیاد در قالب اصولی و اصطلاحی نمیگفتند، ولی خیلی جمعهای دلنشینی آنجام میدادند، به معنای
فقه الحدیث و جمع
روایات، لذا میگفتند فقه زرارهای. حواشی ایشان بر
عروه، حاشیه متینی است. آقای خوئی میگفتند من در مطالعات به حواشی ایشان مراجعه میکنم و خیلی جاها نتایج با بقیه آقایان یکی است. بنابراین این مطلب را درباره بخشی از آقایان
قم میتوان گفت.
زیاد تتبع کردن قمیها و کم تتبع کردن نجفیها، تفاوت اساسی دو مکتب قم و نجف:
مسئلهای که من فکر میکنم در این سالهای اخیر بعد از
شیخ اعظم اتفاق افتاده و شاید تأثیر آقای
آخوند بوده است، کثرت تتبع قمیها و قلت تتبع نجفیهاست؛ مثلاً آقا ضیاء یا آقای نائینی در فقهشان تتبعی ندارند؛ شما بحث صلاة آقای نائینی یا مباحث
آقای حکیم را ببینید، در
مستمسک تا یک حدودی تتبع وجود دارد، ولی باز آقای حکیم آنچنان که باید کلمات را نقل نمیکند، بلکه یک مقداری نام میبرد؛ ولی قمیها برعکساند، شاید ویژگی مرحوم آقای بروجردی که یک مقداری تتبعی بحث میکردند، سایه افکنده باشد. فقه امام هم تتبعی است، مخصوصاً در طهارتش. اینها به شکل گسترده نیست که بگوییم قمیها اینطور هستند، بلکه در میان قمیها، خود امام در مباحث بیع اینطور نیست.
آن عقیده، خاص خود ایشان است. حضرت
امام به طلبههایی که مراجعه کرده بودند، گفتند شما یک باب در
طهارت کار کنید، چون اینجا
روایت و
تعارض زیاد است. تأویلات و جمع روایات را یاد بگیرید تا بتوانید روایتهایی را که تعارض دارد جمع یا
تأویل کنید؛ اما یک باب در معاملات یاد بگیرید، چون روایات کم است، بتوانید دائماً از قواعد استفاده بکنید؛ آنجا که روایت زیاد است، اقوال هم خودبهخود خیلی بیشتر است، اما در معاملات بیشتر قواعد است.
درست است؛ آقای مؤمن از امام نقل میکنند که در قم میفرمودند اگر میخواهید درس خارج بروید، طهارت یا
بیع بروید؛ زیرا در این ابواب زیاد کار شده و طلبه مطلب یاد میگیرد. مقصودشان هم این بود که این ابواب بکر، برای تحصیل کلاسیک مناسب نیست؛ مثلاً
مسائل مستحدثه برای کسانی خوب است که مرتبهای را گذراندهاند. بله، آنها باید کار کنند تا غنا ببخشند؛ وقتی غنا بخشیده شد، درسِ کلاسیک میشود. شاید
خمس در آن زمانها غنی نبود؛ شما خمس
جواهر را نگاه کنید، خیلی کوچک است، در زمان
صاحب جواهر هنوز این ابحاث خیلی غنی نبود، اما امروز بحث خمس، بحثی قوی است.
آیا منظور شما از منهج بحثی که فرمودید در
نجف و
قم فرق میکند، همین تتبع اقوال در فقه بود یا منظور دیگری داشتید؟
عرض کردم لازم نیست به همه نسبت بدهیم، ولی فقههایی که نجفیها مثل آقای نائینی و آقا ضیاء و محقق آخوند نوشتهاند خیلی تتبعی نیست؛ به خلاف شیخ، ولی قمیها معمولاً بیشتر تتبعی هستند، مگر بعضی افراد مثل مرحوم آقا
سید احمد خوانساری که من خودم از ایشان در اصول سؤال کردم، ایشان چند مطلب گفتند؛ یکی فرمودند که در اصول، کفایه و رسائل کافی است، در فقه هم همینطور، بعد ایشان فرمودند که شیخ خودش را در مکاسب معطل کرده و به بقیه فقه نرسیده است؛ ایشان هم سبکش خیلی موجز بود.
بسیاری از قمیها که کتاب نوشتهاند، تتبعی است؛ حضرت امام در طهارتشان تتبعی هستند؛ یا آقای فاضل در باب
حج یا طهارت تفصیل الشریعة که در موقع
تبعید در یزد نوشتند، تتبعی بحث کردهاند.
مجلہ فقہ: به نظر شما آیا میتوان گفت منهج درسیشان تفاوت دارد؛ به این معنا که نجفیها یک حالت القاء دارند و مباحث فقه و اصول را خیلی منظمتر مطرح میکنند.
هم اکنون آقایانی که درس میگویند و متأثر از نجف هستند، خیلی بحثشان منظمتر است نسبت به بعضی آقایان قمی؛ اگر مبحث کسی یک مقداری توسعه داشته باشد، نظم مقدمی و مؤخری و اشکال اول و دوم زیاد به چشم میآید، اما در قمیها خیلی به چشم نمیآید؛ در القاء هم زیاد به نظم مقید نیستند.
استاد: بله؛ در سبک تدریس تفاوت وجود دارد. آقای مؤمن میفرمودند: وقتی امام تبعید شدند و بعد از چند ماه به نجف رفتیم، یکی از درسهایی که میرفتم درس آقای حاج
شیخ حسین حلی بود؛ ایشان
حدیث را روی کاغذ سیگار مینوشت، ولی امام گاهی سه جلد وسائلهای رحلی قدیم را زیر بغل میگرفتند و
احادیث را از روی آن میخواندند؛ ولی در نجف اشاره میکردند. اما چنین فرقهایی از نظر ارائه مطلب که کتاب را بیاورند و از روی آن بخوانند، چیزهایی نیست که بتوانیم بگوییم امتیازاتی به حساب میآید؛ سلیقهای است.
بالاخره گاهی یدرک و لا یوصف است؛ مثل اینکه به قول آقای آخوند بین مسائل اصول یک جامعی هست، اما انسان نمیتواند بفهمد این جامع چیست و نامی از آن ببرد؛ یک جامع ناشناخته وجود دارد و انسان حس میکند که آن مجموعه با این مجموعه تفاوتهایی دارند. وقتی میگوییم این تفاوت وجود دارد، میبینیم قابل مناقشه است؛ ولی مجموع این خصوصیات با ضمیمه بعضی به بعضی دیگر، نجف را یک سبک کرده، و قم را یک سبک دیگر؛ اما من هنوز به تعبیر جامع و کاملی نرسیدهام که بتوانم آن را به عنوان تمایز بین دو مسلک و دو حوزه بگویم.
آیا میتوان اینگونه تقسیم کرد که بعضی فقها ذاتاً دقتهای عقلی یا روحیه تتبعی بیشتری دارند و بعضی روحیه تحقیقی و تفکری بیشتری دارند؟
این ویژگی نیز در هر دو مکتب وجود دارد. این خصوصیات نه غالب اینجاست و نه غالب آنجا. نکتهای که وجود دارد، تسلط بیشتر نجفیها بر فقه و اصول است؛ یعنی نجفیها معمولاً غالب و حاضرالذهن هستند؛ شاید علتش تمحض نجفیها و ذو فنون بودن قمیها باشد. الآن هم تقریباً اینطور است؛ مسئلهای که طرح میشود، نجفیها بیشتر میتوانند به اصول برگردانند و جواب مسئله را بدهند، اما قمیها گاهی این نحوه تسلط را ندارند.
بنابراین تسلط نجفیها به کل
ابواب فقه و
اصول و استحضارشان و سرعت در تفریع فرع بر اصلشان بیشتر است، ولذا غالباً آنها را اینجا ملاّتر میدانند. در قمیها مثلاً آقای سبحانی، آقای مکارم و آقای جوادی ذو فنوناند؛ ذو فنونی، تسلط فقه و اصول را در انطباق و خصوصیات و مانند اینها کم میکند، اما فقه و اصول رشته نجفیهاست. انسان واقعاً این جهت را حس میکند؛ البته استثنائاتی هم به چشم میخورد؛ مثلاً در قمیها بعضی ذو فنون نیستند، برای نمونه آقای شهیدی با اینکه از قم بیرون نرفته، اما مسلط است، برخلاف دیگری که هم فقه و اصول کار میکند، هم در فلسفه کار میکند، در
تفسیر کار میکند،
منبر میرود و مقاله مینویسد و....
[ترمیم]
بررسی مکتب فقهی صاحب جواهر و ویژگیهای این مکتب:
شما فرمودهاید صاحب جواهر یک مکتب فقهی دارد، درباره مکتب ایشان به مواردی مثل فقه الاعاجم» و به سبک ایشان در مسائلی مثل انضمام ادله،
رجال و
حجیت خبر واحد و... اشاره کردهاید؛ لطفاً این مسائل را مقداری توضیح بدهید تا خصوصیات مکتب صاحب جواهر از نظر شما روشن شود. این اسم هم که فرمودید فقه اعاجم» سابقهای دارد یا خود شما اسم گذاشتید، اینها را لطف کنید توضیح بدهید.
جواهر در معنای روایتی، نکتهای از میرزای قمی نقل میکند و بعد میگوید این فهم، فهم و
فقه اعاجم است. صاحب جواهر از
میرزای قمی به عنوان محقق نام میبرد؛ یعنی به مقام علمی میرزا اعتراف میکند و او را محقق بزرگی میداند، اما با این حال گاهی فقه الحدیثهایی را که فارسها بر اساس دقتهای خاص خودشان دارند، قبول ندارد و میگوید این فقهالاعاجم است؛ یعنی فقهای فارس بر اساس این دقتها استنباط میکنند و
فقه الحدیث را میفهمند؛ چون آنها اهل لسان نیستند. گاهی اهل لسان عبارتی را راحت میفهمد، ولی غیر اهل لسان بر مبنای
لغت و دقت خاصی معنا میکند. من به یاد دارم که مرحوم آقای میرزا کاظم (رضوان الله تعالی علیه) (آیتالله میرزا کاظم قاروبی تبریزی، از شاگردان آیتالله خوئی، از اعجوبههای روزگار بود. اهل معنا و
ریاضت بود و در
سیر و سلوک از شاگردان استاد
عرفان،
آیتالله قاضی به شمار میرفت) میفرمود: بعضی از فقهای عرب که درس خارجشان خیلی مهم بود، در حمام میآمدند و من میدیدم برای اینکه پیشانیشان خیلی
عرق میکرد و میخواستند پیشانیشان را بر مهر بگذارند، لنگشان را روی
مهر میانداختند و
سجده میکردند؛ به نظر ایشان
سجده بر خاک صادق بود و این لنگ مانع نبود، اما عجمها کمی که مهر کثیف میشود، میگویند این جرم دارد و مانع است. این تفاوت در تطبیق یا فهم این نوع مسائل است. اگر به او اشکال کنیم که به
لنگ سجده کردی، میگوید
سجده بر تراب معنایش این نیست که شما فهمیدید.
عجیب این است که صاحب جواهر با این اصرار بر فهم عرفی که خودش هم ادعا دارد و در فقه ایشان هم روشن است، و با اینکه به فقه الاعاجم پرخاش میکند و فقه میرزای قمی را نقد میکند، اما در مواردی به مسائلی مبتلا شده است که حتی اعاجم هم مبتلا نشدهاند؛ مثلاً در
موثقه عمار ساباطی آمده:
مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بِإِسْنَادِهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ یَحْیَی (عَنْ أَحْمَدَ بْنِ یَحْیَی) عَنْ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیًّ عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِیدً عَنْ مُصَدّقِ بْنِ صَدَقَةَ عنْ عَمَّارً السَّابَاطِیِّ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ سُئِلَ عَنِ الْکُوزِ وَ الإِنَاءَ یَکُونُ قَذِراً کَیْفَ یُغْسَلُ وَ کَمْ مَرَّةً یُغْسَلُ قَالَ یُغْسَلُ ثَلاثَ مَرَّاتً یُصَبُّ فِیهِ الْمَاءُ فَیُحَرَّکُ فِیهِ ثُمَّ یُفْرَغُ مِنْهُ ثُمَّ یُصَبُّ فِیهِ مَاء آخَرُ فَیُحَرَّکُ فِیهِ ثُمَّ یُفْرَغُ ذَلِکَ الْمَاءُ ثُمَّ یُصَبُّ فِیهِ مَاء آخَرُ فَیُحَرَّکُ فِیهِ ثُمَّ یُفْرَغُ مِنْهُ وَ قَدْ طَهُرَ إِلَی أَنْ قَالَ وَ قَالَ اغْسِلِ الإِنَاءَ الَّذِی تُصِیبُ فِیهِ الْجُرَذَ مَیِّتاً سَبْعَ مَرَّاتً.۔
این جواب کیفیت شستن است؛ سپس بحث شده اگر به جای اینکه
آب بریزیم و حرکت بدهیم، پر کنیم و خالی کنیم، چگونه است؟ از فقهای عجم کسی را سراغ نداریم که گفته باشد اشکال دارد، بلکه گفتهاند آنچه در
روایت آمده مثال است، و حضرت آسانترین راه را که کمتر آب مصرف بشود بیان کرده است و موضوعیتی ندارد؛ بنابراین مقصود این است که آب به تمام جوانب ظرف برسد؛ اما
صاحب جواهر فرموده اشکال دارد؛ چون این
نص شاملش نمیشود و هر کسی بخواهد ظرف را اینطور آب بکشد و پر و خالی کند، در اینکه طاهر بشود اشکال است. این خیلی خلاف فهم عرفی است، ولی خود ایشان آنجا به فهم اعاجم آنگونه اعتراض میکند و اینجا هم اینگونه به این اشکال مبتلا شده است که خلاف فهم عرفی است.
برای پرداختن به بعضی از خصوصیات دیگر مکتب صاحب جواهر، باید به چند مورد اشاره کنم:
اولین خصوصیت مکتب صاحب جواهر این است که در هر مسئلهای وارد شود، به فروعات آن مسئله توجه عجیبی دارد، ولذا کمتر فرعی است که بعد از گذشت این فاصله زمانی تا زمان ایشان، باز هم فرعی مطرح بشود و در جواهر ولو به عنوان اشاره چیزی از آن نبینیم. این ذهن فعال و زاینده ایشان است که به جوانب و فروعاتی که ممکن است پیش بیاید، توجه میکرد، گویا تمام فروعات متصورهای که به ذهن میآید، به ذهن این بزرگوار میآمده و آنجا طرح کرده است. این دقت در زمان ما خیلی کم شده است؛ یعنی کتب فقهی که الآن نوشته میشود، همان فرع را مطرح میکنند، اما ذهن به این طرف و آن طرف نمیرود و یک مسئله همانطور مطرح میشود.
دومین خصوصیت این است که به همه ادلهای که گفته شده یا ممکن است گفته شود، اشراف کامل داشت و تمام ادله را آورده است؛ البته درست است که چیزهایی فراموش شده، ولی تا عصر ایشان با این گستردگی فقهی که ایشان نوشته و در یک جا متمرکز نبوده، این باید یک کرامتی باشد.
ایشان به این نکته که شاید مثل این فرع در باب دیگری هم باشد، استحضار داشت؟
بله؛ معمولاً توجه دارد و این خودش یک امتیازی است که امتیاز سوم به شمار میرود. مرحوم حاج میرزا کاظم تبریزی (رضواناللهتعالیعلیه)، در آن زمان که فکش مشکل پیدا کرده بود و نمیتوانست تدریس بکند، از فقه آقای شاهرودی تعریف میکرد و میفرمود: آقای شاهرودی طهارت میگفت، ولی توجه به
دیات داشت که اگر این حرف را اینجا بزنی و
جمع عرفی بکنی، این حرف را در فلان روایاتِ مثلاً دیات هم بزنی با اینکه آنجا باب دیگری است. ایشان یک وقوف و اشرافی به همه جوانب مسئله داشتند و مرحوم میرزا کاظم این را یکی از امتیازات مرحوم آقای شاهرودی میدانست و میفرمود: من چهار سال به درس آقای شاهرودی میرفتم و گاهی میگفتند که این
فقاهت فقیه است که اینطور اشراف دارد، همینجا را فقط بررسی نمیکند، بلکه به ابواب دیگر نیز توجه دارد.
یکی از
فقها و مراجع معاصر به مشهد مشرف بود و شبها درباره
مسائل مستحدثه راجع به
پول و
اسکناس و... درس میگفت؛ من شاید بیشتر شبها میرفتم؛ ایشان یک وقتی آنجا فرمودند:
سید صاحب عروه در حاشیه مکاسب وجوهی را برای پول تصور کرده و حکمش را بیان نموده و بحث کرده است که از کرامات ایشان به شمار میرود؛ چون در زمان ایشان این حرفها نبود، ولی ایشان در ذهن خودش نظریهپردازی کردهاند، از نظر پشتوانه پول که اگر پول اینطور باشد، حکمش این است و اگر آنطور باشد، این است.
این خصیصه صاحب جواهر، در صاحب عروه هم تا حدودی دیده میشود و ایشان هم ذهن جوالی در فروعات دارد، ولی فرق صاحب جواهر و ایشان در این است که صاحب جواهر به تنهایی در همه فقه اینطور گفتهاند، اما مرحوم صاحب عروه یک لجنهای با او همکاری میکردند؛ دو تا از کاشف الغطاها،
میرزای نائینی و... با او همکاری میکردند و ایشان هر روز نصف صفحه مینوشت و به اینها میداد تا بررسی کنند، بعد این افراد اگر فرعی به ذهنشان میآمد، به صاحب عروه میگفتند. مرحوم حاج
محمدحسین کاشف الغطاء در مقدمه تقریر عروهای که دارد توضیح میدهد که صاحب عروه چه کار میکرد و ما چه کار میکردیم.
چهارمین خصوصیت این است که تسلط عجیبی به کتب
اصحاب در مسائل داشت.
پنجمین خصوصیت این است که ایشان قوت فکر هم داشت، اما شاید آن جنبهها بر قوت فکر ترجیح داشته باشد، و لذا از تعبیرات شیخ اعظم هم روشن میشود؛
شیخ اعظم هنگامی که از صاحب جواهر نام میبرد، تعبیراتش تعبیراتی نیست که از نظر تحقیقی بلند باشد، ولو اعتنا دارد؛ مثلاً گمان میکنم از تعبیرات شیخ بر میآید که
نراقی را بالاتر میداند؛ چون از ایشان با عبارت بعض الاساطین» تعبیر میکند، ولی از صاحب جواهر چنین تعبیری نمیکند و این القاب نشان دهنده رتبه فکری افراد است.
در مباحثی هم که الآن طرح میشود، درست است که صاحب جواهر ماخذ فقهی بزرگی است، اما آنچه بیشتر اهمیت دارد این است که ایشان فروع را طرح کرده و به ادله اشاره فرموده، اما مختار ایشان و ادلهای که ایشان بر مختار خودش استناد میکند، مثل شیخ نیست؛ البته با آن عظمتی که ایشان دارد، آن جنبهها بر این جنبه استدلال میچربد.
[ترمیم]
براہ کرم، مسئلہ انضمام ادلہ کی وضاحت کریں؟!
وہ اپنی فقہی فروعات میں بحث کرتے ہیں کہ بعض اوقات مختلف ادلہ کو جمع و ضمیمہ کیا جاتا ہے اگرچہ ممکن ہے کہ ان ادلہ میں سے ہر ایک میں اشکال ہو، تاہم ان کا ایک دوسرے کے ساتھ انضمام ان کے نزدیک مطلب کے اثبات کیلئے کافی ہے۔ شیخ اعظم اسی طرح کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اثباتِ مسئلہ کیلئے کافی ہے، اگرچہ ہم ان میں سے ہر ایک دلیل پر بحث کرتے ہیں، مگر ان امور کا ایک جگہ پر جمع ہونا کافی ہے؛ یہ بھی ایک اسلوب ہے۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو مثلا پانچ کی پانچ دلیلوں کو نقد کرتے ہیں اور ان کے نزدیک دعویٰ ثابت نہیں ہوتا، تاہم اگرچہ دلائل میں سے ہر ایک منفردا اشکال رکھتی ہیں مگر ادلہ کے ایک دوسرے کے ساتھ انضمام سے
حجیت کا اطمینان ہو جاتا ہے۔ مرحوم شیخ بعض اوقات اس سبک کو لیتے ہیں اور یہ ایسا سبک ہے کہ
فقہ میں بہت مؤثر ہے۔ بعض نے حواشی میں اشکالات اٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ اگر چند صفر ایک دوسرے کے ساتھ رکھ دئیے جائیں تو کیا کوئی عدد بن جائے گا؟! جواب یہ ہے کہ انضمام کے موارد فرق کرتے ہیں؛ کبھی انضمام
تواتر کے باب سے ہے کہ ہر شخص جو ایک خبر لاتا ہے وہ منفردا ہمارے لیے علم آور نہیں ہے مگر یہ انضمام علم آور ہیں اور کبھی ایسا نہیں ہے اور یہ اپنی جگہ پر ایک بحث ہے کہ ہم دیکھیں کہ انضمام سے کیا حاصل ہوتا ہے۔
[ترمیم]
اگر
علم رجال یا
حجیت خبر واحد کے باب میں آپ کے نزدیک کوئی مطلب خاص ہے، تو اسے بیان کیجئے؟!
وہ رجال میں
اصحاب اجماع کو قبول کرتے ہیں؛ یعنی اگر ایک سند میں اصحابِ اجماع موجود ہوں تو لازمی نہیں ہے کہ اس فرد کے بعد والے افراد پر تحقیق کی جائے، اگرچہ اس کے بعد سند ضعیف ہی کیوں نہ ہو، پھر بھی
حجت ہے اور ’’اجمعت الاصابة علی تصحیح ما یصح عن جماعة‘‘ کا وہ اس طرح معنی کرتے ہیں۔ یہ ایک مکتب ہے جو
استنباط میں بہت زیادہ مؤثر ہے اور بہت سی
روایات کی اس طرح تصحیح کی جاتی ہے۔
خبر واحد کی حجیت کے باب میں اس خبرِ واحد کو معتبر سمجھتے ہیں جس کے مطابق مشہور نے فتویٰ دیا ہو اور اس پر عمل کیا ہو اور یہ خود بہت مؤثر ہے۔ تاہم ان کا ضابطہ اس میں کہ ہم سمجھ سکیں کہ مشہور نے اس
خبر پر عمل کیا ہے، یہ ہے کہ اگر
شہید اول نے
دروس اور
لمعه میں کوئی بات کہی ہے تو یہ وہی مشہور کا نظریہ ہے۔
ان نکات اور دیگر نکات کا استخراج شواہد کے ساتھ اور دقیق طور پر خود ایک ایسا کام ہے کہ جسے انجام دینا چاہئے، البتہ صاحب جواہر کا اصول ہم تک نہیں پہنچا ہے۔ میں نے ان کے حالات میں ملاحظہ کیا ہے کہ ان کی اس موضوع پر تالیفات تھیں مگر اس وقت ہماری دسترس میں نہیں ہیں۔
ہم آپ کے مشکور ہیں کہ آپ نے ہمیں وقت دیا۔
[ترمیم]
[ترمیم]
دفتر تبلیغات اسلامی قم، ماخوذ از مقالہ نگاهی به مکاتب اجتهادی نجف و قم»، ج۱، ص۷، ش۶۷۔