امام زمانہؑ کی ولادت

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



مہدویت کے باب میں ایک اعتراض حضرتؑ کی ولادت کے بارے میں کیا جاتا ہے کہ جب امام حسن عسکریؑ شہید ہوئے تو آپؑ کے حرم سرا میں کسی کے ہاں حمل کے آثار نہیں تھے، لہٰذا حضرتؑ کا کوئی بیٹا نہیں تھا۔ اس کے جواب میں یہ کہنا چاہئیے کہ امام عصرؑ کی ولادت امام حسن عسکریؑ کی شہادت سے پانچ برس پہلے ہوئی تھی اور اس امر پر تمام شیعہ علما کا اتفاق ہے۔ رہی یہ بات کہ امام حسن عسکریؑ کی ازواج میں آپؑ کی شہادت کے بعد حمل کے آثار نہیں تھے؛ یہ ایک بے بنیاد بات ہے چونکہ حضرتؑ کی ولادت سے پہلے حمل کے آثار آپؑ کی والدہ میں ظاہر نہیں ہوئے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ کہیں ظالم حکام آپؑ کو قتل نہ کر دیں۔ لہٰذا یہ مسئلہ محال، ناممکن اور حضرتؑ کے پیدا نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ جیسا کہ حضرت موسیؑ اور رسول اکرمؐ کی والدہ کے بارے میں یہ ثابت ہے کہ ان کی ماؤں میں بھی حمل کے آثار آشکار نہیں ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ اہل سنت علما بھی طول قرون میں ہمیشہ حضرتؑ کی پیدائش کا واضح اقرار کرتے آئے ہیں۔

فہرست مندرجات

۱ - ولادت پر سوال
۲ - سوال کا جواب
       ۲.۱ - حلّی جوابات
              ۲.۱.۱ - امام عسکریؑ کی شہادت سے قبل حضرتؑ کی ولادت
              ۲.۱.۲ - حکایت کے ناقل کا ناصبی ہونا
              ۲.۱.۳ - کافی میں حضرتؑ کی ولادت کی تصریح
       ۲.۲ - نقضی جوابات
              ۲.۲.۱ - حضرت موسیؑ کی والدہ گرامی
              ۲.۲.۲ - رسول اکرمؐ کی والدہ گرامی
۳ - اہل ‌سنت علما کے نزدیک امام زمانہؑ کی ولادت
       ۳.۱ - مسعودی کا نقطہ نظر
       ۳.۲ - شافعی حصکفی کا نقطہ نظر
       ۳.۳ - ابن ازرق فارقی کا نقطہ نظر
       ۳.۴ - عماد ‌الدین اصفہانی کا نقطہ نظر
       ۳.۵ - فخر رازی کا نقطہ نظر
       ۳.۶ - ابن اثیر جزری کا نقطہ نظر
       ۳.۷ - ابن عربی کا نقطہ نظر
       ۳.۸ - سبط بن جوزی کا نقطہ نظر
       ۳.۹ - گنجی شافعی کا نقطہ نظر
       ۳.۱۰ - ابن خلکان کا نقطہ نظر
       ۳.۱۱ - ابن طقطقی کا نقطہ نظر
       ۳.۱۲ - ابن فوطی شیبانی کا نقطہ نظر
       ۳.۱۳ - ابو الفداء کا نقطہ نظر
       ۳.۱۴ - ذہبی کا نقطہ نظر
       ۳.۱۵ - ابن وردی کا نقطہ نظر
       ۳.۱۶ - صفدی کا نقطہ نظر
       ۳.۱۷ - یافعی کا نقطہ نظر
       ۳.۱۸ - تفتازانی کا نقطہ نظر
       ۳.۱۹ - ابن خلدون کا نقطہ نظر
       ۳.۲۰ - ابن شحنہ حلبی
       ۳.۲۱ - عبد الرحمن جامی کا نقطہ نظر
       ۳.۲۲ - خواجہ محمد پارسا کا نقطہ نظر
       ۳.۲۳ - قلقشندی کا نقطہ نظر
       ۳.۲۴ - ابن حجر عسقلانی کا نقطہ نظر
       ۳.۲۵ - ابن صباغ مالکی کا نقطہ نظر
       ۳.۲۶ - رفاعی کا نقطہ نظر
       ۳.۲۷ - ابن طولون کا نقطہ نظر
       ۳.۲۸ - ابن حجر ہیتمی کا نقطہ نظر
       ۳.۲۹ - عبد الوہاب شعرانی کا نقطہ نظر
       ۳.۳۰ - عبدالقادر عیدروسی کا نقطہ نظر
       ۳.۳۱ - سمرقندی کا نقطہ نظر
       ۳.۳۲ - رملی کا نقطہ نظر
       ۳.۳۳ - دیدگاه قرمانی حنفی کا نقطہ نظر
       ۳.۳۴ - ابن عماد حنبلی کا نقطہ نظر
       ۳.۳۵ - ضامن بن شدقم مدنی کا نقطہ نظر
       ۳.۳۶ - حسن العراقی کا نقطہ نظر
       ۳.۳۷ - عصامی مکی کا نقطہ نظر
       ۳.۳۸ - شبراوی شافعی کا نقطہ نظر
       ۳.۳۹ - برزنجی کا نقطہ نظر
       ۳.۴۰ - سفارینی حنبلی کا نقطہ نظر
       ۳.۴۱ - محمد امین سویدی کا نقطہ نظر
       ۳.۴۲ - قندوزی حنفی کا نقطہ نظر
       ۳.۴۳ - محمد صدیق قنوجی کا نقطہ نظر
       ۳.۴۴ - یاقوت حموی کا نقطہ نظر
       ۳.۴۵ - محمد ویس حیدری کا نقطہ نظر
       ۳.۴۶ - زرکلی کا نقطہ نظر
       ۳.۴۷ - مصطفی الھاشمی کا نقطہ نظر
       ۳.۴۸ - انس حسنی کا نقطہ نظر
       ۳.۴۹ - عارف احمد عبد الغنی کا نقطہ نظر
       ۳.۵۰ - حشلاف کا نقطہ نظر
       ۳.۵۱ - محمد عمر سربازی کا نقطہ نظر
۴ - ابن تیمیہ کا شبہہ
۵ - شبہے کا جائزہ
۶ - بحث کا نتیجہ
۷ - حوالہ جات
۸ - مآخذ

ولادت پر سوال

[ترمیم]

کہا جاتا ہے کہ کافی کی نقل کے مطابق حضرت مہدیؑ کی ولادت نہیں ہوئی ہے؛ کیونکہ امام حسن عسکریؑ کی شہادت کے وقت امام حسن عسکریؑ کے حرم میں موجود خواتین میں سے کسی میں بھی حمل کے آثار نہیں تھے۔ دوسرے لفظوں میں امام حسن عسکریؑ کی ازواج میں حمل کے آثار نہ ہونے کو امام زمانہؑ کے پیدا نہ ہونے کی دلیل قرار دیا گیا ہے۔ روایت کا وہ حصہ جس کی بنیاد پر اعتراض کیا گیا ہے؛ یہ ہے:
لَمَّا دُفِنَ اَخَذَ السُّلْطَانُ وَ النَّاسُ فِی طَلَبِ وَلَدِهِ وَ کَثُرَ التَّفْتِیشُ فِی الْمَنَازِلِ وَ الدُّورِ وَ تَوَقَّفُوا عَنْ قِسْمَةِ مِیرَاثِهِ وَ لَمْ یزَلِ الَّذِینَ وُکِّلُوا بِحِفْظِ الْجَارِیةِ الَّتِی تُوُهِّمَ عَلَیهَا الْحَمْلُ لَازِمِینَ حَتَّی تَبَینَ بُطْلَانُ الْحَمْلِ فَلَمَّا بَطَلَ الْحَمْلُ عَنْهُنَّ قُسِمَ مِیرَاثُهُ بَینَ اُمِّهِ وَ اَخِیهِ جَعْفَرٍ وَ ادَّعَتْ اُمُّهُ وَصِیتَهُ.
جب امام حسن عسکریؑ دفن ہو گئے تو حاکم اور عوام نے آپؑ کے فرزند کی تلاش شروع کر دی اور گھروں کی بہت زیادہ تلاشی لی گئی؛ امام حسن عسکریؑ کی وراثت کی تقسیم کا عمل روک دیا گیا؛ جس کنیز کے حاملہ ہونے کا شبہ تھا اس پر نگران مقرر کر دئیے گئے؛ یہاں تک کہ اس کا حاملہ نہ ہونا ثابت ہو گیا۔ جب یہ واضح ہو چکا کہ ان خواتین میں سے کوئی بھی حاملہ نہیں ہے تو آپ کی میراث کو آپ کی والدہ اور بھائی جعفر کے مابین تقسیم کر دیا گیا جبکہ والدہ نے ہی حضرتؑ کی وصایت کا دعویٰ بھی کیا۔

سوال کا جواب

[ترمیم]

پہلی بات: بنیادی طور پر یہ اعتراض درست نہیں ہے کیونکہ یہ ایک غلط فرض کی بنیاد پر کیا گیا ہے کیونکہ حضرت مہدیؑ کی ولادت اپنے والد گرامی کی شہادت سے پانچ سال پہلے ہو چکی تھی نہ یہ کہ آپؑ کی شہادت کے بعد ہوئی ہو۔
دوسری بات: سائل کی مورد استناد روایت شیعہ کی اصطلاحی روایت نہیں ہے کہ جس کا پہلا ناقل امام معصومؑ ہوتا ہے بلکہ صرف ایک واقعہ ہے کہ جس کا پہلا ناقل ایک ناصبی اور اہل بیتؑ کا دشمن فرد ہے۔ پس اس کی جانب سے واقعے کی روایت شیعہ کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
تیسری بات: کتاب کافی میں حضرت امام مہدیؑ کی ولادت کی تصریح ہوئی ہے اور ایک باب
’’مولد الصاحب‘‘ وارد ہوا ہے کہ جس میں ۳۰ سے زیادہ روایات حضرتؑ کی ولادت کے اثبات میں نقل ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ اہل سنت کے متعدد علما بھی حضرت مہدیؑ کی ولادت کے قائل ہیں۔ آخری نکتہ یہ کہ اس اعتراض کی بنیاد اس بات پر تھی: چونکہ امامؑ کی والدہ میں حمل کے آثار آشکار نہیں ہوئے تھے، لہٰذا ان کی ولادت نہیں ہوئی؛ مگر یہ استدلال حضرت موسیؑ اور آنحضورؐ کی ولادت کے حوالے سے رد ہو جاتا ہے؛ کیونکہ اہل سنت کتب کی رو سے نہ حضرت موسیؑ کی والدہ میں حمل کے آثار تھے اور نہ ہی رسول کریمؐ کی والدہ ماجدہ میں۔ لہٰذا اس سوال کے جواب میں ہم پہلے حلّی اور پھر نقضی جوابات دیں گے۔

← حلّی جوابات


اس حصے میں علامہ حلیؒ کے تین جوابات کو بیان کیا جائے گا اور ان کا جائزہ لیا جائے گا۔

←← امام عسکریؑ کی شہادت سے قبل حضرتؑ کی ولادت


اس فرض کی بنا پر جو مذکورہ حکایت میں بیان ہوا کہ امام حسن عسکریؑ کی شہادت کے بعد آپؑ کی ازواج میں سے کسی ایک میں بھی حمل کے آثار آشکار نہیں تھے تو یہ مسئلہ امام عصرؑ کی ولادت سے منافات نہیں رکھتا؛ کیونکہ شیعہ علما کے نزدیک موردِ قبول متعدد احادیث کے مطابق حضرت مہدیؑ کی ولادت اپنے والد بزرگوار کی شہادت سے تقریبا پانچ برس قبل یعنی سنہ ۲۵۵ھ کے لگ بھگ ہوئی تھی۔ عظیم شیعہ محدث علامہ کلینیؒ اس حوالے سے تحریر فرماتے ہیں: ولد للنصف من شعبان سنة خمس وخمسین ومائتین. حضرت امام مہدیؑ نیمہ شعبان کی رات بمطابق سنہ ۲۵۵ھ کو پیدا ہوئے۔

شیخ مفیدؒ اس حوالے سے کہتے ہیں: وکان مولده لیلة النصف من شعبان، سنة خمس و خمسین و مائتین. حضرت امام مہدیؑ کی ولادت نیمہ شعبان سنہ ۲۵۵ھ کو ہوئی۔
شیخ طبرسیؒ نے بھی اس مسئلے کی تصریح کی ہے: ولد بسر من رای لیلة النصف من شعبان قبل طلوع الفجر سنه ۲۵۵ خمس و خمسین وماتین من الهجرة. حضرت مہدیؑ سامراء میں نیمہ شعبان کی رات طلوع فجر سے پہلے پیدا ہوئے۔
پس کافی میں منقول واقعہ امام عسکریؑ کی شہادت کے بعد کسی اور فرزند کی ولادت کی نفی کرتا ہے۔ ہمارا بھی یہ ماننا ہے کہ ہمارے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس سے حضرتؑ کی شہادت کے بعد کسی فرزند کی پیدائش کو ثابت کیا جا سکے بلکہ ہم اس امر کے قائل ہیں کہ امام حسن عسکریؑ کے فرزند حضرتؑ کے زمانہ حیات میں ہی پیدا ہو چکے تھے۔ البتہ اس امر کو مخفی رکھا گیا اور خواص کے سوا عام لوگوں اور بالخصوص دشمنوں کو خبر نہیں ہو سکی۔

←← حکایت کے ناقل کا ناصبی ہونا


اس حوالے سے یہ نکتہ قابل ذکر ہےکہ اولا: امام معصومؑ کا قول ہمارے لیے حجت ہے نہ کسی اور کا اور یہ قول بھی ضروری ہے کہ اس کا امام معصومؑ سے صدور علم درایت اور علم رجال کے قواعد کی رو سے ہمارے لیے ثابت شدہ ہو۔
ثانیا: کتاب کافی میں منقول روایت نہ صرف یہ کہ امامؑ کا کلام نہیں ہے بلکہ راویوں کی تصریح کے مطابق یہ ماجرا ایک ناصبی شخص اور دشمن امامؑ سے نقل ہوا ہے۔ لہٰذا ہمارے لیے حجت نہیں ہے؛ جیسا کہ اس حکایت کی ابتدا میں وارد ہوا ہے: الحسین بن محمد الاشعری و محمد بن یحیی وغیرهما قالوا: کان احمد بن عبید الله بن خاقان علی الضیاع والخراج بقم فجری فی مجلسه یوما ذکر العلویة و مذاهبهم وکان شدید النصبف قال: ...
حسین بن محمد اشعری، محمد بن یحیی اور دوسروں نے کہا ہے کہ احمد بن عبید اللہ بن خاقان قم میں خراج اور مالیات کا انچارج تھا۔ ایک دن اس کے سامنے شیعوں اور ان کے مذاہب کا ذکر شروع ہو گیا۔ یہ شخص بذات خود کٹر ناصبی اور اہل بیتؑ کا دشمن تھا۔ پس اس نے یہ حکایت نقل کر دی ...

←← کافی میں حضرتؑ کی ولادت کی تصریح


خود کتاب کافی میں مورد بحث باب کے بعد بلافاصلہ ایک باب ذکر کیا گیا ہے کہ جس کا عنوان یہ ہے: مولد الصاحب (علیه ‌السّلام) ولد (علیه ‌السّلام) للنصف من شعبان سنة خمس وخمسین و مائتین. حضرت صاحب الزمانؑ کی ولادت: آنحضرتؑ نیمہ شعبان سنہ ۲۵۵ھ کو پیدا ہوئے۔
اس باب میں تیس سے زیادہ احادیث کو حضرت ولی عصرؑ کی ولادت کے اثبات میں نقل کیا گیا ہے۔ یوں اس اعتراض کی بے وقعتی بطور کامل روشن ہو جاتی ہے چونکہ بات دو حال سے خالی نہیں ہے: یا یہ کہ سائل نے صرف اعتراض برائے اعتراض ہی کرنا تھا کیونکہ اس نے امام عصرؑ کی ولادت کے اثبات پر مشتمل ایک مفصل باب سے چشم پوشی کی یا یہ کہ وہ علمی اعتبار سے اتنا ضعیف ہے کہ اس نے تھوڑی سی بھی کوشش نہیں کی اور اگلے چند صفحات کا مطالعہ نہیں کیا۔
کتاب کافی اور علمائے شیعہ کی دیگر دسیوں کتب کے علاوہ اہل سنت کے بھی متعدد علما حضرت مہدیؑ کی ولادت کے قائل ہیں، جن میں سے یہ حضرات قابل ذکر ہیں: ذہبی، ابن حجر عسقلانی، ابن حجر ہیثمی، ابن اثیر جزری، عبدالوہاب شعرانی، فخر رازی، سبط بن جوزی، مسعودی شافعی، ابن خلکان و ... .
اس بنا پر امام عصرؑ کی ولادت اپنے پدر گرامی امام حسن عسکریؑ کی شہادت سے پانچ سال قبل شیعہ علما کے نزدیک ثابت اور قطعی ہے حتی بعض اہل سنت علما نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے۔ لہٰذا سائل نے جو کچھ نقل کیا ہے اس کا اس موضوع سے کوئی تعلق نہیں ہے نیز اس کا ناقل بھی ایک ناصبی شخص ہے۔ اب ہم آگے چل کر اس سوال کا نقضی جواب پیش کریں گے۔

← نقضی جوابات


سائل نے امام عسکریؑ کی کنیز میں حمل کے آثار نہ ہونے کو امام زمانؑ کے پیدا نہ ہونے کی دلیل قرار دیا ہے؛ جبکہ حمل کے آثار کا آشکار نہ ہونا، عدم حمل اور عدم ولادت کی دلیل نہیں ہے؛ جیسا کہ آگے چل کر ذکر ہو گا کہ تاریخ کی تصریح کے مطابق حضرت موسیؑ اور پیغمبر اکرمؑ کی پاک ماؤں میں بھی آثار حمل ظاہر نہیں ہوئے تھے۔

←← حضرت موسیؑ کی والدہ گرامی


اہل سنت کے علما و مفسرین نے یہ اعتراف کیا ہے کہ حضرت موسیؑ کی ولادت مخفی طور پر ہوئی؛ یوں کہ حضرت موسیؑ کی والدہ میں حمل کے آثار ظاہر نہیں ہوئے۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں آیت ان فرعون علا فی الارض...؛
اور اس کے بعد سورہ قصص کی آیت نمبر ۴ کے مابعد کی تفسیر میں کہتے ہیں: و ولد موسی، (علیه‌السّلام)، فی السنة التی یقتلون فیها الولدان و کان لفرعون اناس موکّلون بذلک و قوابل یدُرْنَ علی النساء، فمن راینها قد حملتاحصوا اسمها، فاذا کان وقت ولادتها لا یقْبَلُها الا نساء القبط، فاذا ولدت المراة جاریة ترکنها وذهبن، وان ولدت غلامًا دخل اولئک الذبَّاحون، بایدیهم الشفار المرهفة، فقتلوه ومضوا قَبَّحَهُم الله. فلما حملت‌ام موسی به، (علیه‌السّلام)، لم یظهر علیها مخایل الحمل کغیرها، ولم تفطن لها الدایات.
حضرت موسیؑ اس سال کہ جب فرعونی بچوں کو قتل کر رہے تھے؛ پیدا ہوئے اور فرعون نے کچھ لوگوں کو اس کام پر مقرر کر رکھا تھا۔ جو عورت بھی حاملہ ہوتی؛ اس کا نام حکومتی فہرست میں شامل کر لیا جاتا۔ ولادت کے وقت قبطی خواتین فرعون کی طرف سے دایہ کا کردار ادا کرتیں۔ اگر لڑکی پیدا ہوتی تو اسے چھوڑ دیا جاتا لیکن اگر لڑکا پیدا ہوتا تو سپاہی تیز دھار خنجروں سمیت گھر میں داخل ہو کر اسے ذبح کر دیتے۔ (خدا ان پر لعنت کرے) جب حضرت موسیؑ کی والدہ حاملہ ہوئیں تو ان کے حمل کے آثار دیگر خواتین کی طرح ظاہر نہیں ہوئے اور فرعون کی طرف سے مامور کسی دایہ کو اس کی خبر نہیں ہو سکی۔
مذکورہ بالا روایت کے مطابق حضرت مہدیؑ دو جہتوں سے حضرت موسیؑ کے مشابہہ ہیں:
اول: ظالم حکام کے ہاتھوں قتل ہونے کا خوف۔
دوم: آپ کی والدہ ماجدہ میں دوران حمل کسی قسم کے آثار کا نمایاں نہ ہونا۔
اگر کوئی اس امر کے بموجب امام زمانہؑ کی ولادت کا انکار کرنا چاہتا ہے تو اسے پہلے حضرت موسیٰ کی فرعون کے زمانے میں معجزانہ ولادت کا انکار بھی کرنا پڑے گا۔

←← رسول اکرمؐ کی والدہ گرامی


رسولؐ اللہ کی والدہ گرامی میں بھی دوران حمل کسی قسم کے آثار ظاہر نہیں ہوئے تھے۔ جیسا کہ کتاب عیون الاثر میں منقول ہے: ومن طریق محمد بن عمر عن علی بن زید عن عبد اللّه بن وهب بن زمعه عن ابیه عن عمته قالت: کنا نسمع ان رسول اللّه لما حملت به امه آمنه بنت وهب کانت تقول: ما شعرت بانی حملت به و لا وجدت له ثقله کما یجد النساء.... و ربما کانت تقول: و اتانی آت و انا بین النائم و الیقظان فقال: هل شعرت انک حملت؟ فکانی اقول ما ادری، فقال: انک قد حملت بسید هذه الامه و نبیها، .... و عن الزهری قال: قالت آمنه: لقد علقت به فما وجدت له مشقة حتی وضعته. محمد بن عمر نے علی بن زید سے، انہوں نے عبد اللہ بن وھب بن زمعہ سے انہوں نے اپنی چچی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: جب آپؐ کی والدہ آمنہ بنت وھب حاملہ تھیں، تو فرماتی تھیں: دوران حمل مجھے حاملگی کا احساس نہیں ہوتا تھا اور میں نے دیگر خواتین کی مانند اس کا بوجھ محسوس نہیں کیا۔۔۔ بعض اوقات فرماتی تھیں: میں نیند اور بیداری کے مابین تھی کہ ایک فرشتہ میرے پاس آیا اور مجھ سے کہنے لگا: کیا آپ کو حاملگی کا احساس ہو رہا ہے؟ گویا میں نے اسے کہا: مجھے نہیں معلوم۔ اس نے کہا: قطعا آپ اس امت کے پیغمبرؐ کی ماں بننے والی ہیں۔۔۔ اور زہری سے منقول ہے کہ: جناب آمنہ نے فرمایا جب حضرت محمدؐ میرے شکم میں تھے تو وضع حمل تک مجھے کسی قسم کی سختی اور دباؤ محسوس نہیں ہوا۔
حلبی نے بھی کتاب سیرہ حلبیہ میں اسی مطلب کی تصریح کی ہے اور نقل کیا ہے: قالت آمنة لقد علقت به (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) فما وجدت له مشقة حتی وضعته و عنها انها کانت تقول ما شعرت بانی حملت به و لا وجدت له ثقلا کما تجد النساء.... . قالت آمنة واتانی آت (ای من الملائکة) و انا بین النائمة و الیقظانة فقال هل شعرت بانک قد حملت بسید هذه الامة و نبیها. اقول ظاهر هذا السیاق انها لم تعلم بحملها الا من قول الملک لانها لم تجد ما تستدل به علی ذلک لانها لم تجد ثقلا.
رسول اکرمؐ کی والدہ گرامی حضرت آمنہؑ نے فرمایا: جب میں حاملہ تھی تو مجھے کسی قسم کی سختی اور دباؤ کا احساس نہیں ہوا یہاں تک کہ وضع حمل ہوا اور اسی طرح جناب آمنہؑ سے منقول ہے کہ فرماتی تھیں: مجھے محسوس ہی نہیں ہوا کہ حاملہ ہوں اور دوسری خواتین کی طرح مجھے کوئی بوجھ محسوس نہیں ہوا ۔۔۔۔ اسی طرح جناب آمنہ نے فرمایا: میں نیند اور بیداری کے مابین تھی کہ ایک فرشتہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ اس امت کے سرور اور پیغمبرؐ کی ماں بننے والی ہیں؟!
میں (حلبی) کہتا ہوں: جناب آمنہ کے گفتار کا ظاہر سیاق یہ ہے کہ انہیں معلوم نہیں تھا کہ حمل ٹھہر چکا ہے یہاں تک کہ فرشتے نے آگاہ کیا؛ چونکہ انہیں کسی قسم کے بوجھ کا احساس نہیں ہوا تھا۔
جیسا کہ گزر چکا ہے کہ ان دو پیغمبروں کی ماؤں نے حاملگی کے دوران کسی قسم کے آثار حمل نہیں دیکھے تھے اور اگر سائل کے معیار کے مطابق جائزہ لیا جائے تو لازم آئے گا کہ یہ دونوں اولو العزم پیغمبرؐ پیدا ہی نہ ہوئے ہوں جبکہ تاریخ کے مسلمات اور قرآن کریم کی تصریحات کے مطابق حضرت موسیؑ اور پیغمبر اکرمؐ کی ولادت ایک امر قطعی ہے۔

اہل ‌سنت علما کے نزدیک امام زمانہؑ کی ولادت

[ترمیم]

اللہ تعالیٰ کی بارہویں حجت کی ولادت سنہ ۲۵۰ھ کے نیمہ شعبان کی سحر میں امام حسن عسکریؑ کے گھر میں ہوئی اور ان کے وجود سے دنیا نورانی ہو گئی۔ آپؑ کی والدہ گرامی کا نام نرجس خاتون ہے۔ اللہ کے آخری ہادی کی ولادت ایک مسلمہ اور قطعی امر ہے اور اس حوالے سے کوئی شک و شبہہ نہیں پایا جاتا۔ اہل بیتؑ کی روایات اس اہم امر پر گواہ ہیں اور اس سے انسان کے یقین میں اضافہ ہوتا ہے۔ حضرتؑ کی ولادت کے حوالے سے نہ صرف علمائے امامیہ کی روایات و تصریحات بمقدار کافی موجود ہیں بلکہ اہل سنت علما نے بھی طول تاریخ میں حضرتؑ کی ولادت کی نسبت متعدد تصریحات کی ہیں کہ جن میں سے اس مقالے میں اہل سنت کے پچاس بزرگ علما کے افکار کی طرف اشارہ کیا جائے گا:

← مسعودی کا نقطہ نظر


علی بن الحسین بن علی المسعودی الشافعی (متوفی ۳۴۶ھ) مذہب شافعی کے معروف عالم دین ہیں، وہ لکھتے ہیں: الامام الثانی عشر وفی سنة ستین ومائتین قبض ابو محمد الحسن بن علی بن محمد بن علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب (علیهم‌السّلام) فی خلافة المعتمد، وهو ابن تسع وعشرین سنة، وهو ابو المهدی المنتظر.... بارہویں امام: ابو محمد حسن بن علی بن محمد بن علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب (امام حسن عسکری (سلام‌الله‌علیه)) کی رحلت سنہ ۲۶۰ھ میں معتمد کے زمانہ خلافت میں ہوئی کہ جب آپؑ کا سن مبارک ۲۹ برس تھا۔ آپؑ مہدی منتظرؑ کے والد تھے۔

← شافعی حصکفی کا نقطہ نظر


ابو الفضل یحیی بن سلامۃ بن الحسین الشافعی الحصکفی (متوفّی ۵۵۳ ہجری) اہل سنت کے ایک بزرگ ہیں کہ جنہوں نے حضرت مہدیؑ کے وجود کو مسلمہ قرار دیا ہے اور حضرتؑ اور دیگر آئمہ اہل بیتؑ کی شان میں قصیدہ کہا ہے۔
ابن کثیر دمشقی سلفی ان کے طولانی اشعار کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
ثم خرج من هذا التغزل الی مدح اهل البیت والائمة الاثنی عشر رحمهم اللہ
وسائلی عن حب اهل البیت ••••• هل اقر اعلانا به‌ام اجحد
هیهات ممزوج بلحمی ودمی ••••• حبهم هو الهدی والرشد
حیدرة والحسنان بعده ••••• ثم علی وابنه محمد
وجعفر الصادق وابن جعفر ••••• موسی ویتلوه علی السید
اعنی الرضی ثم ابنه محمد ••••• ثم علی وابنه المسدد
والحسن الثانی ویتلو تلوه ••••• محمد بن الحسن المفتقد...
فلا یظن رافضی اننی ••••• وافقته او خارجی مفسد...
والشافعی مذهبی مذهبه •••••لانه فی قوله مؤید
اتبعته فی الاصل والفرع معا••••• فلیتبعنی الطالب المرشد
انی باذن الله تاج سابق ••••• اذا ونی الظالم ثم المفسد
اہل بیتؑ کی مدح میں یہ قصیدہ کہنے کے بعد وہ بارہ آئمہؑ کی شان میں یہ کہتے ہیں:
اے وہ جو مجھ سے اہل بیتؑ کی محبت کے بارے میں سوال کر رہے ہو کہ آیا میں علی الاعلان ان کا اقرار کرتا ہوں یا ان کا منکر ہوں؟ جان لے! میں ہرگز انکار نہیں کرتا، ان کی محبت میرے گوشت و خون کے ساتھ مخلوط ہے۔ ان کی محبت ہدایت و رشد ہے۔ اہل بیتؑ سے مقصود حیدر اور حسنین ہیں ۔۔۔ ان میں سے گیارہویں حسن ہیں کہ جن کے بعد محمد بن الحسن تشریف لائیں گے جو ابھی غائب ہیں۔
کوئی یہ گمان نہ کرے کہ میں رافضی ہو چکا ہوں اور ان سے متفق ہوں یا یہ کہ خارجی اور فاسد ہوں۔ میرا مذہب شافعی ہے کیونکہ ان کی تائید شافعی نے کی ہے۔ میں اصل و فرع میں شافعی کی پیروی کرتا ہوں؛ پس جو کوئی بھی ہدایت چاہتا ہے وہ میری پیروی کرے۔

← ابن ازرق فارقی کا نقطہ نظر


ابن ازرق فارقی (متوفّی ۵۷۱ ہجری) جو اہل سنت کے نمایاں عالم ہیں؛ نے اپنی تاریخ میں حضرت ولی عصرؑ کے زمانہ ولادت کو ذکر کیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں: ان الحجة المذکور ولد تاسع شهر ربیع الاول سنة ثمان وخمسین ومائتین، وقیل ثامن شعبان سنة ست وخمسین، وهو الاصح.
[۱۲] فارقی، احمد بن یوسف، تاریخ الفارقی، ص۲۶۔
بے شک مذکور حجت کی ولادت آٹھ شعبان سنہ ۲۵۶ہجری کو ہوئی اور یہ قول صحیح تر ہے۔
نکتہ: اگرچہ اس متن میں امام عصرؑ کی ولادت کو قبول کیا گیا ہے مگر یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ امام زمانہؑ کی ۹ ربیع الاول کو ولادت کا قول یا ۸ شعبان سنہ ۲۵۶ ہجری یا ۲۵۸ ہجری میں ولادت کا قول درست نہیں ہے۔

← عماد ‌الدین اصفہانی کا نقطہ نظر


عماد الدین اصفہانی (متوفّی ۵۹۷ ہجری) ایک اور اہل سنت عالم ہیں کہ جنہوں نے صراحت کے ساتھ حضرت مہدیؑ کی ولادت کا اعتراف کیا ہے، کہتے ہیں: مولد ابی القاسم محمد المنتظر، بسر من رای، یوم الجمعه ثانی عشر من شهر رمضان
[۱۳] اصفهانی، عمادالدین، البستان الجامع، ص۱۹۰۔
ابو القاسم محمد منتظر سامراء میں بارہ رمضان المبارک بروز جمعۃ المبارک کو پیدا ہوئے۔

← فخر رازی کا نقطہ نظر


فخرالدین رازی (متوفّی ۶۰۴ہجری) اہل سنت کے نامور مفسر ہیں، یہ امام عسکریؑ کے سوانح حیات میں لکھتے ہیں: اما الحسن العسکری الامام (علیه‌السّلام) فله ابنان وبنتان، اما الابنان فاحدهما صاحب الزمان (عجل‌الله‌فرجه‌الشریف)، والثانی موسی درج فی حیاة ابیه واما البنتان ففاطمة درجت فی حیاة ابیها، وام موسی درجت ایضاً. امام حسن عسکریؑ کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھے۔ آپ کے دو بیٹوں میں سے ایک صاحب الزمان ہیں اور دوسرے موسی کہ جو اپنے والد کے زمانہ حیات میں ہی انتقال فرما گئے تھے۔ آپ کی بیٹیوں میں سے ایک فاطمہ اور دوسری ام موسی ہیں کہ جو دونوں اپنے والد کے زمانہ حیات میں وفات پا گئی تھیں۔

← ابن اثیر جزری کا نقطہ نظر


علی بن محمد بن عبد الکریم ابن اثیر جزری (متوفّی۶۳۰ہجری)، نے اپنی معتبر کتاب الکامل فی التاریخ میں تصریح کی ہے کہ امام عسکریؑ کے ایک فرزند م ح م د تھے:وفیها توفی الحسن بن علی بن محمد بن علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب. وهو ابو محمد العلوی العسکری وهو احد الائمة الاثنی عشر علی مذهب الامامیة، وهو والد محمد الذی یعتقدونه المنتظر بسرداب سامرا وکان مولده سنة اثنتین وثلاثین ومائتین. سنہ ۲۶۰ہجری میں حسن بن علی کا انتقال ہوا۔ ابو محمد عسکری مذہب امامیہ کے بارہ آئمہ میں سے ایک ہیں۔ آپ محمد کے والد ہیں کہ جن کی سامرا کے سرداب سے آمد کا اہل تشیع انتظار کر رہے ہیں۔

← ابن عربی کا نقطہ نظر


محی ‌الدین ابن عربی (متوفّی ۶۳۸ہجری) ان علمائے اہل سنت میں سے ہیں جنہوں نے امام زمانہؑ کی ولادت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ تاہم قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ کتاب الفتوحات المکیہ میں اس کلام کی تحریف کی گئی ہے جبکہ اہل سنت عالم شعرانی کتاب فتوحات مکیہ سے یہ نقل کرتا ہے: وعبارة الشیخ محی الدین فی الباب السادس والستین وثلمائة من الفتوحات: ... وهو من عترة رسول الله (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) وسلم من ولد فاطمة رضی الله عنها جده الحسین بن علی بن ابی طالب، ووالده الحسن العسکری ابن الامام علی النقی – بالنون – ابن محمد التقی – بالتاء – ابن الامام علی الرضا، ابن الامام موسی الکاظم، ابن الامام جعفر الصادق، ابن الامام محمد الباقر، ابن الامام زین العابدین علی، ابن الامام الحسین، ابن الامام علی بن ابی طالب.
[۱۶] شعرانی، عبدالوهاب بن احمد، الیواقیت و الجواهر ج۱ ص۵۶۲۔
اور شیخ محی الدین کی عبارت کتاب الفتوحات کے ۳۶۶ نمبر باب [المکیة]میں یہ ہے: ۔۔۔۔ وہ رسول اللہ کی عترت سے ہیں اور حضرت فاطمہؑ کی اولاد میں سے ہیں جبکہ ان کے والد امام حسن عسکریؑ بن امام علی نقیؑ ہیں۔

← سبط بن جوزی کا نقطہ نظر


سبط ابن جوزی (متوفّی ۶۵۴ہجری)، امام زمانہؑ کے حوالے سے یہ لکھتا ہے: فصل فی ذکر الحجة المهدی هو محمد بن الحسن بن علی بن محمد بن علی بن موسی الرضا بن جعفر بن محمد ابن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب (علیه‌السّلام) وکنیته ابو عبدالله وابوالقاسم وهو الخلف الحجة صاحب الزمان، القائم المنتظر والتالی وهو الآخر الائمة. فصل: الحجۃ مھدی کا ذکر
آپ حسن بن علی بن محمد بن علی بن موسی الرضا بن جعفر بن محمد ابن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب ہیں۔ آپ کی کنیت ابو عبد الله اور ابو القاسم ہے۔ آپ وہی خلف الحجۃ اور صاحب الزمان ہیں۔ قائم و منتظر اور آخری امام ہیں۔

← گنجی شافعی کا نقطہ نظر


محمد بن یوسف گنجی شافعی (متوفّی ۶۵۸ہجری) نے کتاب کفایۃ الطالب میں امام عسکریؑ کے سوانح حیات میں لکھا ہے: وهو الامام بعد الهادی، مولده بالمدینة فی شهر ربیع الآخر سنة اثنین وثلاثین وماتین وقبض یوم الجمعة لثمان خلون من شهر ربیع الاول سنة ستین وماتین له یومئذ ثمان وعشرون سنة ودفن فی داره بسر من رای فی البیت الذی دفن فیه ابوه، وخلف ابنه وهو الامام المنتظر. آپؑ، ہادیؑ کے بعد امامت پر فائز ہوئے، آپؑ ۲۳۲ہجری میں پیدا ہوئے اور بروز جمعہ آٹھ ربیع الاول سنہ ۲۶۰ہجری کو رحلت فرما گئے کہ جب آپؑ کا سن ۲۸ برس تھا اور اپنے آبائی گھر میں دفن کیے گئے۔ آپ نے ایک فرزند یادگار چھوڑا اور وہی امام منتظرؑ ہیں۔

← ابن خلکان کا نقطہ نظر


شمس‌الدین ابن خلکان (متوفّی ۶۸۱ہجری) کتاب وفیات الاعیان میں تصریح کرتے ہیں کہ حضرت مہدی (عجل‌الله‌تعالی‌فرجه‌الشریف) شب جمعہ نیمہ شعبان سنہ ۲۵۵ هجری کو پیدا ہوئے اور اپنے والد بزرگوار کی وفات کے وقت آپ پانچ برس کے تھے۔ اگرچہ انہوں نے بھی ذہبی کی مانند دیگر جھوٹی باتوں کا اضافہ بھی کیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں: ۵۶۲ ابوالقاسم المنتظر: ابو القاسم محمد بن الحسن العسکری بن علی الهادی بن محمد الجواد المذکور قبله ثانی عشر الائمة الاثنی عشر علی اعتقاد الامامیة المعروف بالحجة وهو الذی تزعم الشیعة انه المنتظر والقائم والمهدی وهو صاحب السرداب عندهم واقاویلهم فیه کثیرة وهم ینتظرون ظهوره فی آخر الزمان من السرداب بسر من رای. کانت ولادته یوم الجمعة منتصف شعبان سنة خمس وخمسین ومائتین ولما توفی ابوه وقد سبق ذکره کان عمره خمس سنین.... ابو القاسم محمد بن امام حسن عسکریؑ جو شیعہ اثنا عشری کے عقیدے کی رو سے بارہویں امام اور حجتؑ ہیں، وہی ہیں کہ شیعوں کا گمان ہے وہ منتظر ، قائم، مہدی اور صاحبِ سرداب ہیں اور آپ کے بارے میں بہت کچھ نقل کیا گیا ہے۔ شیعہ آخر الزمان میں آپ کے سامرا کے سرداب میں ظہور کے منتظر ہیں۔ آپ کی ولادت بروز جمعۃ المبارک نیمہ شعبان سنہ ۲۵۵ہجری کو ہوئی اور جب آپ کے والد گرامی کی وفات ہوئی اس وقت آپؑ کا سن مبارک پانچ برس تھا۔

← ابن طقطقی کا نقطہ نظر


ابن طقطقی حسنی (متوفّی ۷۰۹ہجری) المعروف ابن طقطقی اہل سنت نسب‌شناس ہیں۔ وہ حضرت ولی عصرؑ کے بارے میں لکھتے ہیں: ولم یذکر للامام الحسن العسکری ولد الا ولده الامام ابوالقاسم محمد مهدی صاحب الزمان (عجل‌الله‌تعالی‌فرجه‌الشریف)، وهو الذی ذهبت الشیعه الامامیة الاثنا عشریة الی بقائه، و انه المهدی الذی یظهر فی آخر الزمان، حسب ما بشر به جده رسول الله، مولده لیلة النصف من شعبان سنة ست و خمسین و مائتین، وهذا هو الصحیح، وقیل غیر ذلک، امه‌ام ولد تدعی نرجس و قیل صفیة، ولد بسر من رای.
[۲۰] ابن طقطقی، محمد بن علی، الاصیلی فی انساب الطالبین، ص۱۶۱۔
امام حسن عسکریؑ کیلئے محمد مہدی صاحب الزمان کے علاوہ کسی فرزند کا ذکر نہیں ملتا، شیعوں کا ان کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ وہ ابھی تک زندہ ہیں اور وہی مہدی منتظر ہیں جو آخر الزمان میں ظہور کریں گے جیسا کہ ان کے جد بزرگوار رسول خدا نے بشارت دی ہے، آپ کی ولادت نیمہ شعبان ۲۵۶ہجری کو ہوئی اور آپ کی والدہ کا نام نرجس خاتون یا صفیہ ہے، آپ کا مقام ولادت بھی سامرا ہے۔

← ابن فوطی شیبانی کا نقطہ نظر


ابن فوطی شیبانی (متوفّی ۷۲۳ہجری) نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے:القائم المنتظر، صاحب الزمان، الامام الثانی عشر ابو القاسم محمد بن الحسن العسکری بن علی الهادی العلوی الحسینی المهدیوهو القائم بالحق وقد ذکرنا القابه فیما تقدم علی مقتضی الترتیب الذی التزمناه، وکان مولده کما ذکرناه سنة خمس او سنة سبع وخمسین ومائتین قبل مضی ابیه بسنتین وسبعة اشهر وکان مولده لیلة النصف من شعبان وله قبل قیامه غیبتان، احداهما اطول من الاخری جاءت بذلک الاخبار.
[۲۱] ابن فوطی، عبدالرزاق بن احمد، مجمع الآداب فی معجم الالقاب، ج۳، ص۳۳۰۔
القائم، المنتظر، صاحب الزمان بارہویں امام ہیں۔ آپؑ ابو القاسم محمد بن الحسن العسکری بن علی الھادی العلوی الحسینی المھدی ہیں اور آپؑ حق پر قیام کرنے والے ہیں۔ ہم نے ان کے القاب کو بحسب ترتیب ذکر کیا ہے اور آپؑ کی ولادت سنہ ۲۵۵ یا ۲۵۷ہجری میں اپنے والد بزرگوار کی رحلت سے دو سال اور سات ماہ قبل نیمہ شعبان میں ہوئی۔ ظہور سے قبل آپ کیلئے دو غیبتیں حاصل ہوئیں، ان میں سے ایک دوسری سے طولانی تر ہے۔ اس حوالے سے روایات منقول ہیں۔

← ابو الفداء کا نقطہ نظر


عماد الدین ابوالفداء (متوفّی ۷۳۲ہجری) اہل سنت مورخ حضرت ولی عصرؑ کی ولادت کے بارے میں لکھتے ہیں: والحسن العکسری المذکور هو والد محمد المنتظر صاحب السرداب و محمد المنتظر المذکور هو ثانی عشر الائمة الاثنی عشر علی رای الامامیة ویقال له القائم و المهدی و الحجة و ولد المنتظر المذکور فی سنة خمس و خمسین و مائتین
[۲۲] ابوالفداء، اسماعیل بن علی، تاریخ ابی الفداء، ص۴۵۔
اول الذکر امام حسن عسکریؑ صاحبِ سرداب محمد منتظر کے والد ہیں اور محمد منتظر وہی شیعوں کے بارہویں امام ہیں اور آپؑ کا لقب قائم، مہدی اور الحجۃ۔ آپؑ کی ولادت سنہ ۲۵۰ھ میں ہوئی۔

← ذہبی کا نقطہ نظر


شمس‌الدین ذهبی (متوفّی ۷۴۸ہجری)، اہل سنت کے بزرگ عالم ہیں انہوں نے اپنی علم رجال، درایہ، حدیث، تاریخ اور انساب کی متعدد کتابوں منجملہ العبر فی خبر من غبر، تاریخ الاسلام، سیر اعلام النبلاء میں تصریح کی ہے کہ امام عسکریؑ کے ایک فرزند تھے جن کا نام (م ح م د) تھا اور ان کی ولادت سنہ ۲۵۶ھ میں ہوئی ہے۔
آپ اپنی کتاب العبر میں لکھتے ہیں: وفیها محمد بن الحسن العسکری بن علی الهادی محمد الجواد بن علی الرضا بن موسی الکاظم بن جعفر الصادق العلوی الحسینی ابو القاسم الذی تلقبه الرافضة الخلف الحجة و تلقبه بالمهدی وبالمنتظر وتلقبه بصاحب الزمان وهو خاتمة الاثنی عشر.... سنہ ۲۵۶ھ میں محمد بن الحسن العسکری ۔۔۔۔ کہ جنہیں رافضی خلف الحجۃ، مہدی، منتظر اور صاحب الزمان کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ وہ بارہ آئمہؑ میں سے آخری امام ہیں۔
کتاب تاریخ الاسلام میں امام عسکریؑ کے سوانح حیات کے ضمن میں لکھتے ہیں:الحسن بن علی بن محمد بن علی الرضا بن موسی بن جعفر الصادق. ابو محمد الهاشمی الحسینی احد ائمة الشیعة الذین تدعی الشیعة عصمتهم. ویقال له الحسن العسکری لکونه سکن سامراء، فانها یقال لها العسکر. وهو والد منتظر الرافضة. واما ابنه محمد بن الحسن الذی یدعوه الرافضة القائم الخلف الحجة، فولد سنة ثمان وخمسین، وقیل: سنة ست وخمسین. عاش بعد ابیه سنتین ثم عدم، ولم یعلم کیف مات. وامه‌ام ولد. حسن بن علی بن محمد ... شیعہ کے آئمہ میں سے ہیں کہ جن کی عصمت کا وہ عقیدہ رکھتے ہیں۔ آپ کو حسن عسکری کہا جاتا ہے کیونکہ سامرا میں رہتے تھے کہ جہاں فوجی چھاؤنی تھی اور اس اعتبار سے سامرا کو عسکر بھی کہا جاتا ہے۔ آپ اسی شخصیت کے والد ہیں کہ رافضی جن کے منتظر ہیں۔۔۔۔ البتہ آپؑ کے بیٹے محمد بن الحسن جنہیں رافضی قائم اور خلف الحجۃ کہتے ہیں؛ سنہ ۲۵۶ھ یا ۲۵۸ھ میں پیدا ہوئے اور اپنے والد گرامی کے بعد دو سال تک زندگی بسر کرتے رہے پھر مفقود ہو گئے اور کوئی خبر نہیں ہے کہ ان کی وفات کیسے ہوئی!
نکتہ: مشخص ہے کہ ذہبی نے ولادت کے وقوع کی طرف اشارہ کیا ہے اگرچہ بعد میں انہوں نے یہ کوشش کی کہ حضرت کی غیبت کو آپ کی وفات کا عنوان دے دیں مگر اس بات کی کوئی علمی حیثیت نہیں ہے اور باطل ہے۔
اسی طرح وہ سیر اعلام النبلاء میں امام زمانہؑ کو امام حسن عسکریؑ کا فرزند قرار دیتے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں: المنتظر الشریف ابوالقاسم محمد بن الحسن العسکری بن علی الهادی ابن محمد الجواد بن علی الرضی بن موسی الکاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن زین العابدین بن علی بن الحسین الشهید بن الامام علی بن ابی طالب العلوی الحسینی خاتمة الاثنی عشر. المنتظر الشریف، ابوالقاسم محمد بن الحسن العسکری بن علی الهادی ابن محمد الجواد بن علی الرضی بن موسی الکاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن زین العابدین بن علی بن الحسین الشهید بن الامام علی بن ابی طالب العلوی الحسینی [بارہ آئمہؑ] میں سے آخری ہیں۔

← ابن وردی کا نقطہ نظر


زین ‌الدین ابن وردی (متوفّی ۷۴۹ہجری) نے صراحت کے ساتھ امام عصرؑ کی ولادت کا مسئلہ ان الفاظ میں ذکر کیا ہے: وَالْحسن العسکری وَالِد مُحَمَّد المنتظر صَاحب السرداب، والمنتظر ثَانِی عشرهم ویلقب اَیْضا الْقَائِم وَالْمهْدِی وَالْحجّة، ومولد المنتظر سنة خمس وَخمسین وَمِائَتَیْنِ. [امام] حسن عسکری، محمد منتظر صاحبِ سرداب کے والد اور اہل تشیع کے بارہویں امام ہیں کہ جنہیں مہدی اور حجت اور قائم کا لقب دیا گیا ہے۔ آپ کی ولادت ۲۵۵ہجری میں ہوئی۔

← صفدی کا نقطہ نظر


صلاح ‌الدین خلیل بن ایبک صفدی (متوفّی ۷۶۴ہجری)، ایک اور اہل سنت عالم ہیں کہ جنہوں نے حضرت مہدیؑ کی ولادت کی تصریح کی ہے۔ وہ الوافی بالوفیات میں لکھتے ہیں: الحجة المنتظر محمد بن الحسن العسکری بن علی الهادی ابن محمد الجواد بن علی الرضا بن موسی الکاظم بن محمد الباقر بن زین العابدین علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب رضی الله عنهم الحجة المنتظر ثانی عشر الایمة الاثنی عشر هو الذی تزعم الشیعة انه المنتظر القائم المهدی وهو صاحب السرداب عندهم واقاویلهم فیه کثیرة ینتظرون ظهوره آخر الزمان من السرداب بسر من رای ولهم الی حین تعلیق هذا التاریخ اربع مائة وسبعة وسبعین سنة ینتظرونه ولم یخرج ولد نصف شعبان سنة خمس وخمسین. حجت منتظر، محمد بن الحسن العسکری ... اثنا عشری مذہب کے بارہویں امام ہیں ۔۔۔۔ آپ کی ولادت نیمہ شعبان سنہ ۲۵۵ہجری میں ہوئی۔

← یافعی کا نقطہ نظر


ابو محمد یافعی (متوفّی ۷۶۸ہجری)، اہل سنت کے ممتاز عالم حضرت ولی عصرؑ کے بارے میں لکھتے ہیں:وفیها وقیل فی سنة ستین توفی الشریف العسکری الحسن بن علی بن محمد ابن علی بن موسی الرضی بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علی زین العابدین ابن الحسین بن علی بن ابی طالب (رضی‌الله‌تعالی‌عنهم) احد الائمة الاثنی عشر علی اعتقاد الامامیة وهو والد المنتظر صاحب السرداب. سنہ ۲۳۲ھ یا ایک قول کے مطابق ۲۶۰ھ میں حسن بن علی بن محمد ۔۔۔ کا انتقال ہوا۔ آپ مذہب امامیہ کے اعتقاد کی بنا پر بارہ آئمہؑ میں سے ایک ہیں۔ آپ صاحبِ سرداب منتظر کے والد گرامی ہیں۔

← تفتازانی کا نقطہ نظر


مسعود بن عمر بن عبداللہ تفتازانی (متوفّی ۷۹۲ہجری)، اہل سنت کے مشہور عالم بھی حضرت مہدیؑ کے نسب کا ذکر کرتے ہوئے امام حسن عسکریؑ کے ایک بیٹے کا وجود تسلیم کرتے ہیں۔ احمد بن حسن الاجھوری بحوالہ کتاب عقائد النسفی تفتازانی کے کلام کو نقل کرتے ہوئے اس مسئلے کی تصریح کرتے ہیں، اگرچہ مذکورہ بالا متن کی کتاب عقائد النسفی سے تحریف کر دی گئی ہے؛ چنانچہ لکھتے ہیں: قال السعد التفتازانی فی شرح عقائد النسفی: ان المهدی بن حسن العسکری بن علی النقی بن محمد الجواد [بن] علی الرضا بن موسی الکاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن زید بن علی بن زین العابدین بن الحسین بن الامام علی کرم الله وجهه.
[۲۹] تفتازانی، مسعود بن عمر، مشارحة الانوار فی آل البیت الاطهار، ص۲۵۔
سعد ‌الدین تفتازنی نے شرح عقائد نسفی میں یہ کہا ہے: مہدی بن حسن عسکری بن علی النقی بن محمد الجواد [ بن] علی الرضا بن موسی الکاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن زید بن علی بن زین ‌العابدین بن حسین بن امام علی۔
نکتہ: اگرچہ نسفی تصریح کرتے ہیں کہ امام زمانہؑ، امام حسن عسکریؑ کے فرزند ہیں۔ تاہم زید کو بھی حضرتؑ کے سلسلہ نسب میں ذکر کرتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے اور امامت امام سجادؑ سے امام باقرؑ کو منتقل ہوئی تھی نہ یہ کہ پہلے زید کو منتقل ہوئی ہو اور پھر امام باقرؑ تک پہنچی ہو۔

← ابن خلدون کا نقطہ نظر


عبد الرّحمن ابن خلدون (متوفّی ۸۰۸ہجری) مشہور اہل سنت مورخ ہیں، انہوں نے معصومینؑ کی تعداد شمار کرتے ہوئے حضرت ولی عصرؑ کے بارے میں لکھا ہے:ثم ابنه حسن العسکری و وفاته سنة ستین و مائتین. ثم ابنه محمد المهدی وهو الثانی عشر وهو عندهم حیّ منتظر واخبارهم معروفة. پھر آپ کے فرزند [ امام‌هادیؑ] کے فرزند حسن عسکریؑ جن کی وفات ۲۶۰ھ کو ہوئی اور ان کے بعد آپؑ کے فرزند محمد المہدیؑ ہیں۔ آپ بارہویں ہیں اور شیعوں کے نزدیک زندہ و منتظر ہیں اور شیعوں کی روایات آپؑ کے بارے میں معروف ہیں۔

← ابن شحنہ حلبی


محمد ابن شحنۃ حلبی (متوفّی ۸۱۵ہجری) نے بھی صراحت کے ساتھ امام عصرؑ کی ولادت کا مسئلہ اور یہ کہ آپ امام حسن عسکریؑ کے فرزند ہیں؛ ذکر کیا ہے:وولد لهذا الحسن ولده محمد المنتظر ثانی عشرهم ویقال له القائم والمهدی والحجة ولد فی سنة خمس و خمسین ومائتین.
[۳۱] ابن شحنه، محمد بن شحنة، روضة المناظر فی علم الاوائل والاواخر، ص۷۸-۷۹۔
امام حسن [عسکریؑ]، کے ایک فرزند ہیں کہ جن کا نام محمد منتظر ہے اور آپ شیعوں کے بارہویں امام ہیں اور آپ کو قائم، مہدی اور حجت بھی کہا جاتا ہے کہ جن کی ولادت سنہ ۲۵۵ھ کو ہوئی۔

← عبد الرحمن جامی کا نقطہ نظر


عبدالرحمن بن احمد بن محمد جامی (متوفّی ۸۱۷ہجری)، ایک اہل سنت عالم ہیں۔ انہوں نے امام زمانہؑ سے متعلق اپنی کتاب کی چھٹی فصل میں یہ الفاظ تحریر کیے ہیں: ذکر محمد بن حسن بن علی بن محمد بن علی الرضا (رضی‌الله‌عنهم) آپ بارہویں امام ہیں اور آپ کی کنیت ابو القاسم ہے ۔۔۔۔ آپؑ کی ولادت ’’سرّ من رأی‘‘ میں ہوئی ہے۔ آپ پھر امام زمانہؑ کی ولادت کی داستان حکیمہ خاتون کی زبانی بطور مفصل نقل کرتے ہیں۔
[۳۲] جامی، عبدالرحمن، شواهد النبوة، ص۲۵۸-۲۵۹۔


← خواجہ محمد پارسا کا نقطہ نظر


خواجہ محمد پارسا (متوفّی ۸۲۲ہجری) حنفی عالم دین ہیں۔ انہوں نے پوری وضاحت کے ساتھ امام عصرؑ کی ولادت کا مسئلہ ان الفاظ میں ذکر کیا ہے: ولم یخلف الحسن العسکری (رضی‌الله‌عنه) ولدا ظاهرا ولا باطنا غیر ابی القاسم محمد المنتظر المسمی بالقائم عند الامامیة وکان مولد المنتظر رضی الله عنه لیلة النصف من شعبان سنة خمس وخمسین ومائتین وامه‌ام ولد یقال لها نرجس.
[۳۳] پارسا، خواجه محمد، فصل الخطاب بوصل الاحباب، ص۴۴۳۔
اور حسن عسکری (رضی‌الله‌عنه) کا ظاہر و باطن میں ابو القاسم محمد منتظر کے علاوہ کوئی فرزند نہیں ہے، منتظر کی ولادت نیمہ شعبان سنہ ۲۵۵ ہجری کو ہوئی۔ آپ کی والدہ ایک کنیز تھیں کہ جن کا نام نرجس بتایا گیا ہے۔

← قلقشندی کا نقطہ نظر


احمد بن علی قلشقندی (متوفّی ۸۲۱ہجری) ان علمائے اہل سنت میں سے ہیں کہ جنہوں نے امام حسن عسکریؑ کو حضرت ولی عصرؑ کا فرزند قرار دیا ہے اور شیعوں کے آپؑ کی نسبت اعتقاد کی طرف اشارہ کرتے ہیں؛ چنانچہ آئمہؑ کو شمار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ثم ابنه الحسن الزکی المعروف بالعسکری، ثم ابنه محمد الحجة و یقال القائم، و هو ثانی عشره، و یعتقدون حیاته و ینتظرون خروجه. پھر آپ کے فرزند [امام ‌ہادیؑ ] حسن زکی ہیں جو عسکریؑ کے نام سے معروف ہیں، پھر آپؑ کے فرزند محمد الحجۃ ہیں کہ جنہیں قائم بھی کہا جاتا ہے اور آپ ان میں سے بارہویں ہیں اور شیعہ آپؑ کی حیات کا عقیدہ رکھتے ہیں اور آپؑ کے ظہور کے منتظر ہیں۔ وہ ایک دوسری کتاب میں بھی اس مطلب کی تصریح کرتے ہیں۔

← ابن حجر عسقلانی کا نقطہ نظر


ابن حجر عسقلانی شافعی (متوفّی ۸۵۲ہجری)، علم رجال اور حدیث میں اہل سنت کے ایک اور بزرگ عالم ہیں جنہوں نے حضرت مہدیؑ کی ولادت کو ایک مسلمہ امر قرار دیا ہے اور امام عسکریؑ کو حضرتؑ کا والد کہا ہے۔ وہ اپنی کتاب لسان المیزان میں جعفر بن علی کے بارے میں لکھتے ہیں: جعفر بن علی بن محمد بن علی بن محمد بن علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب الحسینی اخو الحسن الذی یقال له العسکری و هو الحادی عشر من الائمة الامامیة و والد محمد صاحب السرداب. جعفر بن علی بن محمد...حسن کے بھائی ہیں کہ جنہیں عسکری کہا جاتا ہے۔ حسن عسکری مذہب امامیہ کے بارہ آئمہ میں سے گیارہویں ہیں اور صاحبِ سرداب محمد کے والد گرامی ہیں۔

← ابن صباغ مالکی کا نقطہ نظر


ابن صباغ مالکی (متوفّی ۸۵۵ہجری)، علی بن محمد بن احمد المعروف ابن صباغ مالکی نے کتاب الفصول المهمه میں حضرتؑ کی ولادت کی تصریح کی ہے اور آپؑ کے القاب کا ذکر کیا ہے: ولد ابو القاسم محمد الحجه بن الحسن الخالص بسر من رای لیلة النصف من شعبان سنة ۲۵۵ للهجره، واما نسبه اباً واماً فهو ابو القاسم محمد الحجه بن الحسن الخالصبن علی الهادی بن محمد الجواد بن علی الرضا بن موسی الکاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علی زین العابدین بن الحسین بن علی بن ابی طالب (علیه‌السّلام)، واما امه فام ولد یقال لها: نرجس خیر امة، وقیل: اسمها غیر ذلک، واما کنیته فابو القاسم، واما لقبه فالحجه والمهدی والخلف الصالح والقائم المنتظر وصاحب الزمان واشهرها المهدی. ابوالقاسم محمد الحجت بن الحسن نیمہ شعبان ۲۵۵ھ کو سامرا میں پیدا ہوئے۔ آپ کا نسب ماں باپ کی طرف سے [اس ترتیب سے ہے]: ابو القاسم محمد الحجت بن حسن بن علی الهادی بن محمد الجواد بن علی الرضا بن موسی الکاظم بن جعفرالصادق بن محمد الباقر بن علی زین ‌العابدین بن حسین بن ابی طالب [صلوات‌الله‌علیهم‌اجمعین] ہے۔ آپ کی والدہ کنیز تھیں کہ کہا جاتا ہے ان کا نام ’’نرجس خیر أمہ‘‘ تھا اور کہا جاتا ہے کہ ان کا نام کچھ اور تھا۔ آپ کی کنیت ابو القاسم ہے۔ آپ کے القاب: حجت ، مہدی، الخلف الصالح، القائم المنتظر، صاحب الزمان اور آپؑ کا مشہور ترین لقب مہدیؑ ہے۔

← رفاعی کا نقطہ نظر


ابن محمد سراج‌الدین الرفاعی (متوفّی ۸۸۵ہجری) اہل سنت عالم لکھتے ہیں: (وروی العارفون من سلف اهل البیت) ان الامام الحسین (علیه‌السّلام) لما انکشف له فی سره ان تولی الخلافة الروحیة التی هی الغوثیة والامامة الجامعة فیه وفی بنیه علی الغالب استبشر بذلک وباع فی الله نفسه لنیل هذه النعمة المقدسة فمن الله علیه بان جعل فی بیته کبکة الامامة وختم بنیه هذا الشان علی ان الحجة المنتظر الامام المهدی (علیه‌السّلام) من ذریته الطاهرة وعصابته الزاهرة-الی ان قال-فالحسن العسکری (علیه‌السّلام) اعقب صاحب السرداب الحجة المنتظر ولی الله الامام محمد المهدی علیه السلام.
[۳۸] رفاعی، محمد بن عبدالله، صحاح الاخبار فی نسب السادة الفاطمیة الاخیار، ص۴۹-۵۴۔
اہل بیتؑ کے سلف میں سے عرفا نے روایت کی ہے کہ امام حسینؑ کو جب علم ہوا کہ خلافت اور امامت آپؑ کی اولاد میں ہو گی تو آپ خوش ہو گئے اور اپنی جان کا نذرانہ خداوند متعال کی راہ میں اس منزلت کو کسب کرنے کیلئے پیش کر دیا۔ پس خداوند متعال نے احسان کیا اور امامت کو آپ کی اولاد میں قرار دیا حتی کہ وہ حضرت حجت منتظر مہدیؑ پر منتہی ہوئی، پس امام حسن عسکریؑ کے حجت اور منتظر نام سے ایک فرزند ہیں کہ جو امامت پر فائز ہوئے۔

← ابن طولون کا نقطہ نظر


شمس ‌الدین محمد بن طولون (متوفّی ۹۵۳ہجری) بھی ایک اہل سنت عالم ہیں جنہوں نے حضرتؑ کی ولادت کے حوالے سے یہ عبارت تحریر کی ہے: وثانی عشرهم ابنه محمد بن الحسن. وهو ابو القاسم محمد بن الحسن ابن علی الهادی بن محمد الجواد بن علی الرضا بن موسی الکاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علی زین العابدین بن الحسین بن علی بن ابی طالب (رضی‌الله‌عنهم). کانت ولادته (رضی‌الله‌عنه) یوم الجمعة منتصف شعبان سنة خمس وخمسین ومائتین، ولما توفی ابوه المتقدم ذکره، (رضی‌الله‌عنهما)، کان عمره خمس سنین. واسم امه خمط وقیل نرجس. اور ان میں سے بارہویں محمد بن الحسن ہیں۔ آپ ابوالقاسم محمد بن الحسن ابن علی الهادی بن محمد الجواد بن علی الرضا بن موسی الکاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علی زین العابدین بن الحسین بن علی بن ابی طالب (رضی‌الله‌عنهم) ہیں۔ حضرتؑ کی ولادت نیمہ شعبان بروز جمعۃ المبارک سنہ ۲۵۵ھ کو ہوئی۔ جب آپ کے والد کہ جن کا ہم نے ذکر کیا، رحلت فرما گئے اس وقت ان کی عمر پانچ سال تھی اور آپ کی والدہ کا نام خمن اور ایک قول کے مطابق نرجس ہے۔

← ابن حجر ہیتمی کا نقطہ نظر


ابن حجر ہیتمی (متوفّی ۹۷۳ہجری)، نے کتاب الصواعق المحرقه، میں تصریح کی ہے کہ امام عسکریؑ کے ایک فرزند تھے کہ جن کا سن حضرتؑ کی وفات کے وقت ۵ سال تھا: ولم یخلف غیر ولده ابی القاسم محمد الحجة، وعمره عند وفاة ابیه خمس سنین، لکن اتاه الله فیها الحکمة، ویسمی القائم المنتظر.... ابو القاسم محمد الحجت کا امام عسکریؑ کے علاوہ کوئی اور بیٹا نہیں تھا، اپنے والد کی وفات کے وقت آپؑ کا سن مبارک پانچ سال تھا۔ تاہم خداوند عالم نے اس کم سنی میں انہیں حکمت عطا کی اور آپ کو قائم و منتظر ۔۔۔ کا لقب عطا ہوا۔

← عبد الوہاب شعرانی کا نقطہ نظر


عبدالوہاب شعرانی (متوفّی ۹۷۴ہجری)، دسویں صدی ہجری کے بزرگ اہل سنت ہیں جو تصریح کرتے ہیں کہ ہم حضرت مہدیؑ کے منتظر ہیں اور وہ امام عسکریؑ کے فرزند ہیں اور سنہ ۲۵۵ ھ میں پیدا ہوئے اور اب تک آپ کا سن ۷۰۶ سال ہو چکا ہے:
المبحث الخامس والستون: فی بیان ان جمیع اشراط الساعة التی اخبرنا الشارع (صلی‌الله‌علیه‌وسلم) حق لابد ان یقع کلها قبل قیام الساعة وذلک کخروج المهدی ثم الدجال ثم نزول عیسی وخروج الدابة وطلوع الشمس من مغربها ورفع القرآن وفتح سد یاجوج وماجوج، حتی لو لم یبق من الدنیا الا مقدار یوم واحد لوقع ذلک کله. قال الشیخ تقی الدین بن ابی منصور فی عقیدته: وکل هذه الآیات تقع فی المائة الاخیرة من الیوم الذی وعد به رسول الله (صلی‌الله‌علیه‌وسلم) امته بقوله: ان صلحت امتی فلها یوم وان فسدت فلها نصف یوم، یعنی من ایام الرب المشار الیها بقوله: وان یوما عند ربک کالف سنة مما تعدون. وقال بعض العارفین: واول الالف محسوب من وفاة علی بن ابی طالب رضی الله عنه آخر الخلفاء. فان تلک المدة کانت من جملة ایام نبوة رسول الله ورسالته فمهد الله تعالی بالخلفاء الاربعة البلاد، ومراده (صلی‌الله‌علیه‌وسلم) ان شاء الله بالالف قوة سلطان شریعته الی انتهاء الالف، ثم تاخذ فی الاضمحلال الی ان یصیر الذین غریبا کما بدا، وذلک الاضمحلال یکون بدایته سنة ثلاثین من القرن الحادی عشر، فهناک یترقب خروج المهدی. وهو من اولاد الامام حسن العسکری، ومولده (علیه‌السّلام) لیلة النصف من شعبان سنة خمس وخمسین ومائتین، وهو باق الی ان یجتمع بعیسی بن مریم علیه السلام، فیکون عمره الی وقتنا هذا ـ وهو سنة ثمان وخمسین وتسعمائة ـ سبعمائة سنه وست سنین.
[۴۱] شعرانی، عبدالوهاب بن احمد، الیواقیت و الجواهر، ج۲، ص۱۲۷۔

بحث نمبر ۶۵: اس مطلب کے بیان کہ قیامت کی علامات جن کی حضرت محمدؐ نے خبر دی ہے؛ وہ حق ہیں اور قیامت سے پہلے وہ ہو کر رہیں گی۔ علامات جیسے مہدیؑ کا قیام اور اس کے بعد دجال کا خروج، پھر عیسیؑ کا قیام اور دابہ کا قیام، سورج کا مغرب سے طلوع، قرآن کا اوپر جانا، یاجوج و ماجوج کی دیوار کا کھل جانا۔ اگر دنیا کے اختتام میں ایک دن بھی باقی ہو تو بھی یہ علامات ہو کر رہیں گی۔
شیخ تقی الدین بن ابی منصور اپنی عقائد کی کتاب میں کہتے ہیں: یہ تمام علامات آخری صدی میں ہوں گی کہ جن کا پیغمبرؐ نے امت کو وعدہ دیا ہے؛ چنانچہ فرمایا: اگر میری امت اپنی اصلاح کر لے تو وہ ایک دن حکومت کرے گی اور اگر فاسد ہو جائیں تو آدھا دن۔ حضرتؑ کا دن سے مقصود وہ دن ہے جیسا کہ خدا قرآن میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے: دن خدا کے نزدیک ہزار سال کے برابر ہے جسے تم شمار کرتے ہو۔ بعض عرفا نے کہا ہے: پہلے ہزار سال کو آخری خلیفہ علی بن ابی طالبؑ کی وفات کے دن سے شمار کیا جائے گا کیونکہ خلفائے اربعہ کا دور رسول خدا کی نبوت کا حصہ شمار ہو گا۔ پس خدا نے خلفائے اربعہ کے ذریعے شہروں کو آمادہ کر دیا۔ حضرتؑ کا مقصود یہ ہے کہ خدا کی مشیت سے دین اس ہزار سال میں قوی ہو جائے گا اور پھر دین سقوط کر جائے گا اور پہلے کی طرح غربت میں چلا جائے گا۔ یہ سقوط گیارہویں صدی کے تیسرے سال سے شروع ہو گا۔ اس وقت کے بعد مہدیؑ کے قیام کا انتظار کرنا چاہئیے اور مہدیؑ امام حسن عسکریؑ کی اولاد میں سے ہیں جو نیمہ شعبان سنہ ۲۵۵ھ کو پیدا ہوئے۔ آپ حضرت عیسیؑ سے ملاقات تک زندہ رہیں گے۔ پس اس سال (۹۵۸ھ) تک آپ کی عمر سات سو چھ سال ہو چکی ہے۔۔ سنہ ۲۶۰ہجری میں ابو محمد حسن بن علی ۔۔۔ معتمد کے زمانہ خلافت کے دوران ۲۹ برس کے سن میں انتقال کر گئے۔ آپ مہدی منتظر کے والد ہیں کہ جو مذہب امامیہ کے مطابق بارہویں امام ہیں۔

← عبدالقادر عیدروسی کا نقطہ نظر


عبدالقادر بن شیخ بن عبد اللہ العیدروس (متوفّی ۹۸۹ہجری) کتاب النور السافر میں شیخ عبد المعطی کا ایک شعر لکھتے ہیں کہ جس میں حضرتؑ کا اسم ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے مصیبتوں کو برطرف کرنے کیلئے اس شعر کو پڑھنے کا تجربہ کیا ہے اور اسے مفید پایا ہے جو خود امام عصرؑ کی ولادت پر بہترین دلیل ہے۔
قال وقد جربتهما للفرج بعد الشدة••••• مفیدة ومنه فی الاثنی عشر الائمة
بالمصطفی وعلی البتول ••••• وبالسبطین ثم علی والباقر العلم
جعفر وموسی علی والجواد کذا ••••• علی الحسن وکذا المهدی ذی الشیم.
میں نے ان دو اشعار کا مشکلات کے دوران تجربہ کیا ہے اور میں نے ان کا فائدہ دیکھا ہے۔ ان میں سے ایک شعر بارہ آئمہؑ کے بارے میں ہے۔
یعنی اے اللہ! مصطفی، بتول... اور مہدیؑ کے حق کا واسطہ کہ جن کے رخسار پر تل ہے۔

← سمرقندی کا نقطہ نظر


سید محمد بن حسین سمرقندی (متوفّی ۹۹۶ہجری) کہ جنہیں علامہ نسب شناس کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے امام عصرؑ کے نام سے ایک عنوان قائم کیا ہے اور اس کے ضمن میں آپؑ کی ولادت کی تصریح کرتے ہیں؛ جیسا کہ کہتے ہیں:الامام محمد المهدی واما ولده محمد المهدی بن الحسن العسکری بن علی الهادی... فهو الثانی عشر من الائمة. ولد یوم الجمعة منتصف شعبان، سنة خمس وخمسین ومائتین-الی ان قال-: وکان عمره حین توفی ابوه خمس سنین.
[۴۳] سمرقندی، سیدمحمد بن حسین، تحفة الطالب بمعرفة من ینتسب الی عبدالله و ابی طالب، ص۵۴۔
امام محمد مہدی: آپ کے فرزند محمد المہدی بن حسن عسکری بن علی ہادی ۔۔۔ آئمہؑ میں سے بارہویں امام ہیں۔ آپ نیمہ شعبان ۲۵۵ھ کو پیدا ہوئے اور والد کی وفات کے وقت آپ کا سن مبارک پانچ سال تھا۔

← رملی کا نقطہ نظر


شمس‌الدین رملی (متوفّی ۱۰۰۴ہجری) ایک سوال کے جواب میں امام عصرؑ کے وجود پر دلائل دیتے ہیں؛ چنانچہ وہ ایک سائل کے جواب میں یہ مطلب تحریر کرتے ہیں: سئل (رضی‌الله‌عنه): عن مولانا المهدی هل هو موجود الآن‌ام لا؟ فاجاب: قد قرا علی شخص من مدة طویلة کتابا فی اصول الدین ولا احفظ الآن اسمه فذکر ان المهدی موجود فی البلد الفلانیة و سماها و ان طول الازمنة لا تؤثر فیه انتهی.
[۴۴] رملی، شمس‌الدین، فتاوی شمس‌الدین الرملی المخطوطة، ورقه ۷۔
رملی سے سوال کیا گیا: کیا حضرت مہدیؑ موجود ہیں یا نہیں؟ انہوں نے جواب میں کہا: ماضی میں ایک شخص نے اصول دین کے موضوع پر میرے سامنے ایک کتاب پڑھی تھی کہ جس کا اس وقت مجھے نام یاد نہیں ہے۔ اس کتاب میں لکھا تھا کہ مہدیؑ فلاں شہر میں رہتے ہیں اور ان کی طولانی غیبت ان کی زندگی پر اثرانداز نہیں ہو گی۔

← دیدگاه قرمانی حنفی کا نقطہ نظر


احمد بن یوسف قرمانی حنفی (متوفّی۱۰۱۹ہجری) کہ جنہوں نے چار عثمانی سلاطین کی خدمت کی اور ایران و عراق کے خلاف ان کی تمام جنگوں میں شریک تھے؛ کتاب اخبار الدول میں لکھتے ہیں: فی ذکر ابی القاسم محمد الحجة الخلف الصالح: وکان عمره عند وفاة ابیه خمس سنین، اتاه الله فیها الحکمة کما اوتیها یحیی (علیه‌السّلام) صبیاً، وکان مربوع القامة، حسن الوجه والشعر، اقنی الانف، اجلی الجبهة.... واتفق العلماء علی ان المهدی هو القائم فی آخر الوقت....
[۴۵] قرمانی، احمد بن یوسف، اخبار الدول و آثار الاول. ج۱، ص۳۵۳-۳۵۴۔
ابو القاسم محمد الحجت الخلف الصالح کی سوانح حیات: اپنے والد کی وفات کے وقت آپؑ کا سن پانچ سال تھا۔ خدا نے بچپن میں انہیں حکمت کی تعلیم دی، جیسے حضرت یحییٰ کو بچپن میں عطا فرمائی تھی۔ حضرت بلند قامت، خوبصورت بالوں اور چہرے، لمبی ناک اور نورانی پیشانی رکھتے ہیں۔ علما متفق ہیں کہ یہ وہی مہدی ہیں جو آخر الزمان میں قیام کریں گے۔

← ابن عماد حنبلی کا نقطہ نظر


شہاب‌ الدین ابی‌فلاح ابن عماد حنبلی (متوفّی ۱۰۸۹ہجری) نے مکمل وضاحت کے ساتھ امام عسکریؑ کو امام زمانہؑ کے والد کے عنوان سے متعارف کیا ہے: وفیها الحسن بن علی بن محمد الجواد بن علی الرضا بن موسی الکاظم بن جعفر الصادق العلویّ الحسینیّ، احد الاثنی عشر الذین تعتقد الرافضة فیهم العصمة، وهو والد المنتظر محمد صاحب السرداب اس سال حسن بن علی بن محمد الجواد بن علی الرضا بن موسی الکاظم بن جعفر الصادق العلوی الحسینی کی وفات ہوئی، آپ شیعوں کے آئمہ میں سے ایک ہیں کہ جن کے بارے میں وہ عصمت کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ آپ منتظر محمد [حضرت مہدی (عجل‌الله‌تعالی‌فرجه‌الشریف) ] کے والد ہیں۔

← ضامن بن شدقم مدنی کا نقطہ نظر


ضامن بن شدقم حسینی مدنی (متوفّی ۱۰۹۰ہجری) اہل سنت عالم، حضرت امام جواد (علیه‌السلام)، کی اولاد کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت ولی‌عصر (عجل‌الله‌تعالی‌فرجه‌الشریف) کے نام کی بھی تصریح کرتے ہیں اور انہیں امام حسن عسکریؑ کا بیٹا شمار کرتے ہیں۔

← حسن العراقی کا نقطہ نظر


شیخ حسن عراقی (متوفّی ۹ ویں یا ۱۰ویں ہجری) ان علما میں سے ہیں جو امام زمانہؑ کی خدمت میں مشرف ہوئے ہیں اور انہیں حضرتؑ کے ساتھ ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ حسن العراقی اہل سنت کے بزرگ عالم ہیں۔ عبد الوہاب شعرانی نے حسن العراقی کے مشرف ہونے کی داستان کو حضرتؑ کی حیات اور ولادت کی دلیل قرار دیتے ہوئے نقل کیا ہے کہ:
ومنهم الشیخ العارف بالله تعالی سیدی حسن العراقی رحمه الله تعالی المدفون بالکوم خارج باب الشعریه رضی الله عنه بالقرب من برکه الرطلی، وجامع البشیری ترددت الیه مع سیدی ابی العباس الحریثی، وقال: ارید ان احکی لک حکایتی من مبتدا امری الی وقتی هذا کانک کنت رفیقی من الصغر، فقلت له: نعم.
فقال: کنت شاباً من دمشق، و کنت صانعاً، و کنا نجتمع یوماً فی الجمعه علی اللهو واللعب، و الخمر، فجاءنی التنبیه من الله تعالی یوماً الهذا خُلِقْتُ؟ فترکت ما فیهم فیه، وهربت منهم فتبعوا ورائی فلم یدرکونی، فدخلت جامع بنی امیه، فوجدت شخصاً یتکلم علی الکرسی فی شان المهدی علیه السلام، فاشتقت الی لقائه فصرت لا اسجد سجده الا وسالت الله تعالی ان یجمعنی علیه فبینما انا لیله بعد صلاه المغرب اصلی صلاه السنه، واذا بشخصجلس خلفی، وحسس علی کتفی، وقال لی: قد استجاب الله تعالی دعاءک یا ولدی مالک انا المهدی. فقلت تذهب معی الی الدار، فقال نعم، فذهب معی، فقال: اخل لی مکاناً انفرد فیه فاخلیت له مکاناً فاقام عندی سبعه ایام بلیالیها، ولقننی الذکر، وقال: اعلمک وردی تدوم علیه ان شاء الله تعالی تصوم یوماً، وتفطر یوماً، وتصلی کل لیله خمسمائه رکعه. فقلت: نعم فکنت اصلی خلفه کل لیله خمسمائه رکعه وکنت شاباً امرد حسن الصوره فکان یقول: لا تجلس قط الا ورائی فکنت افعل، وکانت عمامته کعمامه العجم، وعلیه جبه من وبر الجمال فلما انقضت السبعه ایام خرج، فودعته، وقال لی: یا حسن ما وقع لی قط مع احد ما وقع معک فدم علی وردک حتی تعجز، فانک ستعمر عمراً طویلا انتهی کلام المهدی
.
ان میں سے منجملہ شیخ عارف باللہ، میرے آقا حسن عراقی ہیں کہ جن کی قبر باب شعریہ سے باہر برکہ رطلی اور جامع بشری کے پاس کوم میں ہیں۔ میں اپنے سید و سردار ابو العباس حریثی کے ساتھ ان کے پاس حاضر ہوتا تھا۔ حسن عراقی نے کہا: میں بچپن سے تمہارا رفیق ہوں، چاہتا ہوں کہ اپنی داستان تمہارے سامنے بیان کروں۔ میں نے کہا: بیان کریں۔ کہنے لگے: میں دمشق کا رہنے والا ایک جوان اور صنعت گر ہوں۔ ایک دن جمعہ کے دن اپنے رفقا کے ساتھ بیہودگی اور شراب نوشی میں مشغول تھا کہ خدا کی طرف سے مجھے ایک آگاہی بخش اور الہامی پیغام آیاکہ کیا تمہیں اس کام کیلئے خلق کیا گیا ہے؟ اس کے بعد میں نے اس کام سے ہاتھ اٹھا لیا اور اپنے رفقا کو ترک کر دیا، دوستوں نے میرا پیچھا کیا مگر مجھے تلاش نہ کر سکے۔ میں مسجد جامع بنی امیہ میں داخل ہوا اور دیکھا کہ ایک شخص منبر پر بیٹھ کر مہدیؑ کے بارے میں بات کر رہا ہے۔ اس کی باتوں کو سن کر مجھے مہدیؑ کے دیدار کا اشتیاق ہو گیا۔ پس میں جو سجدہ بھی کرتا تھا، اس میں خدا سے چاہتا تھا کہ مجھے آپؑ کا دیدار نصیب کرے یہاں تک کہ اگلی رات نماز مغرب کے بعد نماز نافلہ پڑھنے میں مشغول تھا کہ اتنے میں ایک شخص میرے پیچھے بیٹھ گیا اور اس نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا اور فرمایا: میرے بیٹے خدا نے تیری دعا کو قبول کر لیا ہے، تیرا کیسا نصیب ہے؛ میں نے کہا کہ کیا میرے گھر چلیں گے؟! انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ میرے ساتھ گھر تشریف لے آئے اور فرمایا: میرے لیے ایک خلوت کی جگہ تیار کرو۔ میں نے ایک جائے خلوت آمادہ کی اور حضرتؑ سات دن رات میرے پاس رہے اور مجھے ذکر خدا کی تعلیم دی اور فرمایا: میں تمہیں ایسے ذکر کی تعلیم دے رہا ہوں کہ ان شاء اللہ اس کا تسلسل جاری رکھو؛ ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن نہ رکھو اور ہر رات پانچ سو رکعت نماز ادا کرو۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے۔ میں ان کے پیچھے ہر رات پانچ سو رکعت نماز ادا کرتا رہا۔ میں ایک نوخیز اور خوبصورت جوان تھا۔ مجھے فرمایا: صرف پیچھے بیٹھو اور میں نے یہی کام کیا۔ آپ کا عمامہ عجمیوں کی طرح کا تھا، عبا اونٹ کے بالوں کی تھی۔ سات دن گزرنے کے بعد انہوں نے مجھے خدا حافظ کہا اور چلے گئے اور مجھے فرمایا: اے حسن! جو واقعہ میرے اور تمہارے مابین ہوا ہے، ایسا کسی اور کے ساتھ نہیں ہوا۔ پس جو ذکر میں نے تمہیں سکھایا ہے اسے حتی المقدور جاری رکھو کیونکہ میری عمر طولانی ہو گی۔

← عصامی مکی کا نقطہ نظر


عبدالملک عصامی مکی (متوفّی ۱۱۱۱ہجری) امام حسن عسکریؑ کی شہادت کا ذکر کرتے ہیں اور آپؑ کی جائے دفن کے حوالے سے کہتے ہیں کہ آپؑ اپنے والد گرامی حضرت ہادیؑ کے جوار میں مدفون ہیں، پھر امام زمانہؑ کے بارے میں لکھتے ہیں: و ابی محمد الامام الحسن العسکری بن علی الهادی بن محمد الجواد بن علی الرضا بن موسی الکاظم وهو الامام بعد ابیه وحادی عشر الائمة امه‌ام ولد اسمها سوسن. مات فی اوائل خلافة المعتمد مسموما فی یوم الجمعة لثمان خلونمن شهر ربیع الاول سنة ستین ومائتین ب سر من رای ودفن عند قبر ابیه الهادی. خلف ولده محمدا اوحده وهو الامام محمد المهدی بن الحسن العسکری بن علی التقی بن محمد الجواد ابن علی الرضا بن موسی الکاظمبن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علی زین العابدین بن الحسین بن علی بن ابی طالب رضی الله تعالی عنهم اجمعین. ولد یوم الجمعة منتصف شعبان سنة خمس وخمسین ومائتین. ولما توفی ابوه کان عمره خمس سنین.
ابومحمد امام حسن عسکری فرزند علی الهادی ... آپ اپنے والد کے بعد امام تھے اور آئمہؑ میں سے گیارہویں امام تھے۔ آپؑ کو معتمد کی خلافت کے اوائل میں زہر دیا گیا اور بروز جمعۃ المبارک آٹھ ربیع الاول سنہ ۲۶۰ھ کو سامرا میں رحلت فرما گئے اور اپنے والد گرامی علی الھادیؑ کے جوار میں دفن ہوئے۔ انہوں نے صرف ایک بیٹے محمد کو پسماندگان میں چھوڑا اور وہی امام محمد المہدی بن حسن عسکریؑ ۔۔۔ ہیں۔ ان کی ولادت نیمہ شعبان ۲۵۵ھ کو ہوئی اور اپنے والد کی رحلت کے وقت پانچ برس کے تھے۔

← شبراوی شافعی کا نقطہ نظر


عبدالله شبراوی شافعی (متوفّی ۱۱۷۲ ہجری) نے بھی حضرتؑ کی ولادت کے حوالے سے کہا ہے: الثانی عشر من الائمة ابوالقاسم محمد الحجة الامام قیل هو المهدی المنتظر. ولد الامام محمد الحجة ابن الامام الحسن الخالص بسر من رای لیلة النصف من شعبان سنة خمس و خمسین و مئتین قبل موت ابیه بخمس سنین. وکان ابوه قد اخفاه حین ولد، وستر امره لصعوبة الوقت وخوفه من الخلفاء فانهم کانوا فی ذلک الوقت یتطلبون الهاشمیین ویقصدونهم بالحبس والقتل. کان الامام محمد الحجة یلقب ایضا بالمهدی والقائم والمنتظر والخلف الصالح وصاحب الزمان واشهرها المهدی. آئمہؑ میں سے بارہویں فرد ابو القاسم محمد الحجت ہیں ۔۔ امام محمد الحجت بن امام حسن [عسکری] سنہ ۲۵۵ھ میں اپنے والد کے انتقال سے پانچ سال قبل پیدا ہوئے۔ جب ان کی ولادت ہوئی تو ان کے والد نے انہیں مخفی کر دیا اور اس زمانے کے سخت حالات اور خلفا کے خوف کی وجہ سے انہیں چھپا دیا کیونکہ اس زمانے میں وہ ہاشمیوں کا تعاقب کر رہے تھے اور ان پر نظر رکھتے تھے؛ یا انہیں قتل کر دیتے تھے یا زندان میں ڈال دیتے تھے۔ امام محمد الحجتؑ کے القاب میں سے مہدی، قائم، منتظر، خلف صالح اور صاحب الزمان ہیں اور آپ کا سب سے مشہور لقب مہدیؑ ہے۔

← برزنجی کا نقطہ نظر


جعفر بن حسن بن عبد الکریم برزنجی (متوفّی ۱۱۷۷ہجری)، منجملہ ان اہل سنت شعرا میں سے ہیں کہ جنہوں نے صراحت کے ساتھ امام زمانہؑ کے نام کو اہل بیتؑ کے خاتم کے عنوان سے ذکر کیا ہے؛ چنانچہ لکھتے ہیں: وبختمـہ جریمْ نـجْـل ِ الـرسـول ِمحـمـدٍ مهدیِّـنَـا الاتِــی الامــامْ المنتـظَـر.
[۵۱] برزنجی، جعفر بن حسن، جالیة الکدر، ص۲۱۔
ان آئمہؑ [ کے اختتام پر ]، حضرت محمد[ کے فرزند] محمد [یعنی] مہدی آئیں گے اور وہی امام منتظر ہیں۔
شیخ عبد الہادی نجاالابیاری اس شعر کی وضاحت میں لکھتے ہیں: ‌ای ختم الائمه الاثنی عشر المذکورین‌ای اخرهم نجل‌ای ابن الرسول (صلی‌الله‌علیه‌وسلم) بالواسطه اذهو ابو القاسم محمد بن ابی محمد الحسن الخالصبن علی الهادی بن محمد الجواد ابن علی الرضا بن موسی الکاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علی زین العابدین بن الحسین بن علی بن ابی طالب یلقب بالمهدی والحجة والقائم والمنتظر وصاحب الزمان.
[۵۲] آبیاری، عبدالهادی، الغرر فی شرح المنظومة البدریه المسماة جالیه الکدر، ص۱۱۲۔
[ مہدیؑ ] یعنی مذکورہ آئمہ اثنا عشر کا اختتام؛ ان میں سے آخری امام رسول خدا (صلی‌الله‌علیه‌[وآله]و سلم) کے بالواسطہ فرزند ہیں؛ چونکہ آپؑ ابو القاسم محمد بن ابی محمد حسن بن علی ... ہیں۔ آپؑ کا لقب مہدیؑ، حجت، قائم، منتظر اور صاحب الزمان ہے۔ اسی طرح وہ چند سطریں قبل تصریح کرتے ہیں کہ امام حسن عسکریؑ، حضرت مہدیؑ کے والد گرامی ہیں اور دونوں معصوم اماموں کے ناموں کے ساتھ ’’رضی اللہ عنہ‘‘ کا لاحقہ بھی استعمال کرتے ہیں۔

← سفارینی حنبلی کا نقطہ نظر


محمد بن احمد سفارینی حنبلی (متوفّی ۱۱۸۸ہجری) امام زمانہؑ کے حوالے سے یہ عبارت نقل کرتے ہیں: قلت: هو ابوالقاسم محمد بن الحسن العسکری بن علی الهادی بن محمد الجواد بن علی الرضا بن موسی الکاظم بن جعفر الصادق ابن محمد الباقر بن زین العابدین علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب رضوان الله علیهم ومحمد بن الحسن هذا ثانی عشر الائمة الاثنی عشر علی اعتقاد الامامیه ویعرف بالحجة... کانت ولادته فی منتصف شعبان سنة خمس وخمسین ومائتین. میں [سفارینی] کہتا ہوں: آپ ابو القاسم، محمد بن حسن عسکری بن علی الہادی بن محمد الجواد بن علی الرضا بن موسی الکاظم بن جعفر الصادق ابن محمد الباقر بن زین العابدین علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب (رضوان‌الله‌علیهم‌اجمعین) ہیں۔ یہ محمد بن الحسن شیعہ عقیدہ کے مطابق آئمہ اثنا عشر میں سے بارہویں ہیں اور حجت کے نام سے معروف ہیں ۔۔۔ آپ کی ولادت نیمہ شعبان سنہ ۲۵۵ھ میں ہوئی۔

← محمد امین سویدی کا نقطہ نظر


ابی‌الفوز محمدامین بغدادی سویدی (متوفّی ۱۲۴۶ہجری) علمائے اہل سنت میں سے ہیں، آپ اپنی کتاب سبائک الذھب میں حضرتؑ کی ولادت کی تصریح کرتے ہیں: محمدالمہدی: وکان عمره عند وفاة ابیه خمس سنین.
[۵۴] بغدادی سویدی، محمدامین، سبائک الذهب فی معرفة قبائل العرب، ص۳۴۶۔
محمد المہدی کہ جن کی عمر اپنے والد کی وفات کے وقت پانچ سال تھی۔

← قندوزی حنفی کا نقطہ نظر


سلیمان بن ابراہیم قندوزی حنفی (متوفّی ۱۲۹۴ہجری) اہل سنت عالم ہیں اور امام عصرؑ کی ولادت کو ثقہ اشخاص کے نزدیک واضح و روشن مانتے ہیں؛ وہ اس حوالے سے لکھتے ہیں: فالخبر المعلوم المحقق عن الثقات، ان ولادة القائم کانت لیلة الخامس عشر من شعبان، سنة خمس و خمسین و مائتین فی بلدة سامراء. معتمد افراد سے یہ خبر معلوم ہوئی ہے کہ قائم کی ولادت [(عجل ‌اللہ ‌تعالیٰ ‌فرجہ ‌الشریف)]، نیمہ شعبان سنہ ۲۵۵ھ کو سامرا میں ہوئی ہے۔

← محمد صدیق قنوجی کا نقطہ نظر


محمد صدیق حسن ‌خان قنوجی (متوفّی ۱۳۰۷ہجری) سلفیوں میں سے ہیں، ان کی کتاب کی عظیم سلفی محدث محمد ناصرالدین البانی نے تلخیص کی ہے؛ چنانچہ کہتے ہیں: انظر امهات العترة الطاهرة الذین هم قدوة السادة واسوة القادة فی کل خیر ودین من کن... و ام الامام محمد بن حسن الملقب بالحجة والقائم والمهدی‌ام ولد اسمها نرجس. اہل بیتؑ کی پاک ماؤں کو دیکھو، وہی جو ہر خیر اور دین میں دوسروں کیلئے مثال ہیں۔۔۔ امام محمد بن حسن المعروف حجت، قائم و مہدی؛ کی والدہ ان میں سے ایک ہیں، آپ [ کا نام ] نرجس ہے۔

← یاقوت حموی کا نقطہ نظر


یاقوت بن عبدالله حموی (متوفّی ۶۲۶ ہجری) امام ہادی اور امام عسکریؑ کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ منتظر یعنی امام زمانہؑ ان بزرگوار کی نسل سے ہیں؛ چنانچہ لکھتے ہیں: عسکر سامرا قد تقدم ذکر سامرا بما فیه کفایة وهذا العسکر ینسب الی المعتصم وقد نسب الیه قوم من الاجلاء منهم علی بن محمد بن علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی ابن الحسین بن علی بن ابی طالب (رضی‌الله‌عنه) یکنی ابا الحسن الهادی ولد بالمدینة ونقل الی سامرا وابنه الحسن بن علی ولد بالمدینة ایضا ونقل الی سامرا فسمیا بالعسکریین لذلک فاما علی فمات فی رجب سنة ۲۵۴ ومقامه بسامرا عشرین سنة واما الحسن فمات بسامرا ایضا سنة ۲۶۰ ودفنا بسامرا وقبورهما مشهورة هناک ولولدهما المنتظر هناک مشاهد معروفة.
سامرا کی چھاؤنی: پہلے سامرا کے بارے میں کافی حد تک وضاحت دی جا چکی ہے۔ اس چھاؤنی کی نسبت معتصم کی طرف دی گئی ہے اور کچھ بزرگوں کو اس مقام سے منسوب کیا گیا ہے منجملہ: علی بن محمد بن علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی ابن الحسین بن علی بن ابی طالب (رضی‌الله‌عنه) کہ جن کی کنیت ابو الحسن الہادی ہے، ان کی ولادت مدینہ میں ہوئی اور انہیں سامرا کی طرف منتقل کیا گیا اور ان کے فرزند حسن بن علی بھی مدینہ میں متولد ہوئے اور آپ کو سامرا میں منتقل کیا گیا۔ اسی وجہ سے انہیں عسکریین کا نام دیا گیا ہے۔ تاہم علی [یعنی امام‌ ہادی (سلام ‌اللہ ‌علیہ) ماہ رجب سنہ ۲۵۴ھ کو سامرا میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ جہاں ان کی قبر موجود ہے اور ان کے فرزند حسن کی وفات سنہ ۲۶۰ھ میں ہوئی اور دونوں افراد سامراء میں دفن ہوئے اور ان کی قبور سامراء میں مشہور ہیں اور اسی سامراء میں ان کے فرزند [مہدی] منتظَر سے منسوب مشہور مقامات اور زیارتگاہیں ہیں۔ یاقوت حموی، حضرت مہدیؑ کو امام حسن عسکریؑ اور امام ہادیؑ کی اولاد سے قرار دیتا ہے۔

← محمد ویس حیدری کا نقطہ نظر


محمد ویس حیدری (متوفّی۱۴۰۵ہجری) امام ہادیؑ کے حالات زندگی کے ضمن میں آپؑ کی اولاد کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مہدیؑ کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کرتے ہیں: اولاده: اعقب خمسة اولاد: ... فالحسن العسکری اعقب محمد المهدی صاحب السرداب.
[۵۸] حیدری، محمد ویس، الدرر البهیة فی الانساب الحیدریة، ص۷۳۔
[حضرت امام‌ ہادیؑ] کے پانچ فرزند ہیں..[کہ جن میں سے ایک ] حسن عسکریؑ ہیں اور انہی کے بیٹے محمد مہدیؑ صاحبِ سرداب ہیں۔

← زرکلی کا نقطہ نظر


خیرالدین زرکلی (متوفّی ۱۴۱۰ہجری)، اہل سنت عالم ہیں کہ جنہوں نے حضرت مہدیؑ کی ولادت کی تصریح کی ہے: محمد بن الحسن العسکری الخالص بن علی الهادی ابو القاسم، آخر الائمة الاثنی عشر عند الامامیة، و هو المعروف عندهم بالمهدی، و صاحب الزمان، و المنتظر، و الحجة و صاحب السرداب، ولد فی سامراء، و مات ابوه و له من العمر نحو خمس سنین.
[۵۹] زرکلی، خیرالدین، الاعلام، ج۶، ص۸۰۔
محمد فرزند حسن عسکری... شیعہ کے بارہ آئمہؑ میں سے ایک ہیں۔ آپؑ شیعہ نقطہ نظر سے مہدی، صاحب الزمان، منتظر، حجت اور صاحب سرداب کے عنوان سے مشہور ہیں۔ آپ کی ولادت سامرا میں ہوئی اور اپنے والد کی وفات کے وقت پانچ سال کے تھے۔

← مصطفی الھاشمی کا نقطہ نظر


مصطفی بن عبدالرحیم بن برقان ہاشمی معاصر عالم دین ہیں،انہوں نے امام زمانہؑ کے حوالے سے یہ لکھا ہے: ابوالقاسم محمد بن حسن بن علی بن محمد بن علی رضا ولقب وی نزد امامیه حجت و قایم و مهدی و منتظر....
[۶۰] هاشمی، مصطفی بن عبدالرحیم، تذکرة الهاشمی، ص۱۸۵۔


← انس حسنی کا نقطہ نظر


انس حسنی کتبی معاصر عالم دین ہیں، انہوں نے امام عصرؑ کیلئے ایک عنوان خاص کیا ہے اور آپؑ کی غیبت اور ولادت کے حوالے سے لکھتے ہیں: وتوفی الحسن العسکری فی اوائل ملک احمد بن المتوکل بسر من رای مسموما... وله من الولد: محمد المهدی. محمد المهدی وهومحمد المهدی بن الحسن العسکری بن علی الهادی بن محمد الجواد بن علی الرضا بن موسی الکاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علی زین العابدین بن الحسین الشهید بن علی بن ابی طالب علیهماالسلام. والقابه: الحجة، والخلف الصالح، والقائم، والمنتظر، والتالی، وصاحب الزمان، واشهرها المهدی. وکان عمره حین توفی ابوه خمس سنین. فالامام المهدی اختفی فی سن مبکر، والامر مسلم بین السنة والشیعة، علی اختفائه وغیاب اخباره وعدم ظهوره. فقد ولد المهدی بسر من رای فی لیلة النصف من شعبان سنة خمس وخمسین ومائتین من الهجرة النبویة المبارکة، وهو وحید ابیه، لم یعقب الحسن غیره، وقد اعقبه فی آخر حیاته، وامه‌ام ولد یقال لها: نرجس. ومن المؤرخین من نفی عقب ابیه الزکی العسکری، وهذا اطلاق فی القول بما یوجب ان لا یعتد به، فالحسن العسکری بن علی الهادی عقبه مسلم فی ابنه محمد المهدی.
[۶۱] حسنی کتبی، شریف انس، الاصول فی ذریة البضعة البتول، ص۹۸-۹۹۔
حسن عسکری، احمد بن متوکل کی [خلافت] کے ایام میں سامراء میں مسموم ہوئے اور انتقال کر گئے اور آپ کے فرزند محمد المہدی بن حسن العسکری بن علی الهادی بن محمد الجواد بن علی الرضا بن موسی الکاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علی زین العابدین بن الحسین الشهید بن علی بن ابی طالب (علیهم‌االسلام) ہیں۔ آپ کے القاب یہ ہیں: حجت ، خلف الصالح، قائم، منتظر، تالی، صاحب الزمان ہیں اور ان میں سے مشہور ترین مہدی ہیں۔ اپنے والد کی وفات کے وقت آپ کا سن پانچ سال تھا۔ امام مہدیؑ جوانی میں غائب ہوئے اور شیعہ و سنی کے مابین آپؑ کی غیبت ایک مسلمہ امر ہے اور اس پر بہت سی روایات موجود ہیں۔ مہدیؑ کی ولادت نیمہ شعبان سنہ ۲۵۵ھ کو ہوئی۔ آپ اپنے والد کے اکلوتے بیٹے تھے اور [امام حسن عسکری (سلام‌الله‌علیه)] کا آپ کے علاوہ کوئی اور فرزند نہیں ہے۔ ماں ایک کنیز تھیں کہ جنہیں نرجس خاتون کہا جاتا ہے، بعض مورخین نے آپ کے والد زکی العسکری کی نسل کا انکار کیا ہے [کہ آپ کا کوئی فرزند نہیں ہے۔ ] یہ کلام مطلق ہے لہٰذا اس پر اعتماد نہیں کیا جائے گا کیونکہ حسن عسکری بن علی الھادی کے بیٹے محمد مہدی کا وجود مسلم ہے۔

← عارف احمد عبد الغنی کا نقطہ نظر


احمد عبد الغنی معاصر عارف ہیں، یہ امام عسکریؑ کے نام پر پہنچ کر انہیں ابو محمد کی کنیت سے یاد کرتے ہیں اور انہوں نے امام زمانہؑ کی والدہ کا نام بھی ذکر کیا ہے۔ الحسن بن علی (الهادی، العسکری) بن محمد (الجواد). .. یکنی ابامحمد. کان من الزهد والعلم علی امر عظیم وهو والد الامام المهدی ثانی عشر الائمة عند الامامیة.
[۶۲] عبدالغنی، عارف احمد، الجوهر الشفاف فی انساب السادة الاشراف، ج۱، ص۱۶۰-۱۶۱۔
حسن بن علی العسکری، کی کنیت ابومحمد ہے۔ زہد و علم میں آپ کا مقام بہت بلند ہے اور آپؑ شیعوں کے بارہویں امام حضرت مہدیؑ کے والد بزرگوار ہیں۔

← حشلاف کا نقطہ نظر


عبدالله بن محمد حشلاف، اہل سنت کے معاصر عالم ہیں۔ انہوں نے بھی امام عصرؑ کی ولادت کو صراحت سے بیان کیا ہے: و اما ولده محمد المهدی فهو الامام الثانی عشر وهو الخلیفة من بعد ابیه ولد سنة خمس وخمسین ومائتین وقیل ثمان وخمسین وقد قیل اقل من ذلک وله القاب منها المنتظر وصاحب الزمان واشهرها المهدی.
[۶۳] حشلاف، عبدالله بن محمد، سلسلة الاصول فی شجرة ابناء الرسول، ص۱۴۴۔
بہرحال [امام حسن عسکری (سلام ‌اللہ علیہ) ]، کے بیٹے محمد مہدیؑ بارہویں امام اور اپنے والد کے بعد خلیفہ ہیں۔ آپ کی ولادت ۲۵۵ھ کو ہوئی۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ کی ولادت ۲۵۸ھ یا اس سے پہلے ہوئی ہے۔ آپ کے متعدد القاب ہیں جن میں سے منتظر اور صاحب الزمان مشہور ترین ہیں۔

← محمد عمر سربازی کا نقطہ نظر


محمد عمر سربازی معاصر عالم دین ہیں اور منجملہ ان لوگوں میں سے ہیں کہ جنہوں نے امام عصرؑ کی ولادت کی تصریح کی ہے۔
[۶۴] سربازی، محمدعمر، فتاوای منبع العلوم کوه ون، ج۳، ص۱۴۱-۱۴۲۔


ابن تیمیہ کا شبہہ

[ترمیم]

ابن تیمیه حرانی نے منہاج السنّۃ میں حضرت مہدیؑ کے بارے میں لکھا ہے: قد ذکر محمد بن جریر الطبری وعبد الباقی بن قانع وغیرهمامن أهل العلم بالأنساب والتواریخ أن الحسن بن علی العسکری لم یکن له نسل ولا عقبوالإمامیة الذین یزعمون أنه کان له ولد یدعون أنه دخل السرداب بسامرا وهو صغیر منهم من قال عمرة سنتان ومنهم من قال ثلاث ومنهم من قال خمس سنین....
محمد بن جریر طبری اور عبد الباقی بن قانع اور علم انساب و تاریخ کے دیگر علما نے کہا ہے کہ [امام] حسن بن علی عسکری [(علیہ ‌السّلام)] کا کوئی فرزند نہیں ہے؛ تاہم امامیہ کا یہ خیال ہے کہ آپ کا ایک بیٹا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ آپؑ سامرا کے سرداب میں بچپن کے زمانے میں غائب ہو گئے تھے۔ بعض شیعوں نے کہا ہے کہ آپؑ دو سال کے تھے اور بعض نے تین سال جبکہ ایک جماعت نے آپ کا سن پانچ سال نقل کیا ہے۔
احسان الہٰی ظہیر نے بھی کتاب الشیعة و أهل البیت میں ابن تیمیہ کی اسی بات کا تکرار کیا ہے اور کہتا ہے: من أکاذیب الشیعة علی اهل البیت انهم نسبوا الیهم الأقوال والروایات التی تنبیء بخروج القائم من اولاد الحسن العسکری الذی لم یولد له مطلقا ...
شیعوں کا اہل بیت [علیہم ‌السلام] پر ایک جھوٹ یہ ہے کہ ان کی طرف ایسے اقوال اور روایات کی نسبت دیتے ہیں جن میں حسن عسکری کی اولاد میں سے قائم [علیه‌السلام] کا حوالہ دیا گیا ہے حالانکہ ان کا کوئی بیٹا نہیں تھا۔
دیگر وہابیوں جیسے احمد محمود صبحی نے کتاب نظریة الإمامة میں
[۶۷] صبحی، احمد محمود، نظریة الإمامة، ص۴۰۹۔
ڈاکٹر قفاری نے أصول مذهب الشیعه میں میں انہی باتوں کو دہرایا ہے۔

شبہے کا جائزہ

[ترمیم]

افسوس کی بات ہے کہ وہابی اور ان کے سرکردہ ابن تیمیہ شیعوں کے عقائد پر سوالیہ نشان لگانے کیلئے ہر کام حتی اپنے علما پر جھوٹ باندھنے سے بھی اجتناب نہیں کرتے۔
یہ مطلب جو ابن تیمیہ نے طبری سے نقل کیا ہے، دراصل تاریخ طبری کے آغاز سے اختتام تک اس میں سرے سے موجود ہی نہیں ہے اور کلمہ ’’العسکری‘‘ اس کتاب میں صرف ایک مرتبہ ’’إبراهیم بن مهران النصرانی العسکری‘‘ کیلئے استعمال ہوا ہے اور جملہ ’’نسل ولا عقب‘‘ اس پوری کتاب میں استعمال ہی نہیں ہوا ہے۔ کتاب منھاج السنۃ کے محقق محمد رشاد سالم اس اشکال کی طرف متوجہ تھے اور وہ یہ بات تاریخ طبری میں تلاش نہیں کر سکے، لہٰذا انہوں نے یہ کوشش کی کہ کسی طرح ابن تیمیہ کی بات کیلئے کوئی حوالہ پیش کر دیں؛ لہٰذا اس نے یہ لکھ دیا کہ یہ جملہ کتاب صلة التاریخ الطبری،(تکملہ تاریخ طبری) میں آیا ہے حالانکہ یہ بات اس کتاب میں بھی ذکر نہیں ہوئی ہے اور اس نے ابن تیمیہ کی بات اور ایک دوسری بحث میں خلط ملط کر دیا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ کتاب صلۃ تاریخ الطبری میں جملہ ’’لم یعقب الحسن‘‘ آیا ہے مگر اس کا امام عسکریؑ اور حضرت حجتؑ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ معاملہ یہ ہے کہ مقتدر عباسی کے زمانے میں ایک شخص مقتدر عباسی کے دربار میں آتا ہے اور کہتا ہے کہ اسے مقتدر کے ساتھ ایک اہم کام ہے اور اگر میں اس تک بات نہ پہنچاؤں تو تلخ واقعات رونما ہوں گے۔ پھر جب مقتدر کے پاس جاتا ہے اور ماضی و مستقبل کے بارے میں کچھ باتیں کرتا ہے تو سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کون ہیں؟ وہ کہتا ہے: میں محمد بن حسن بن علی بن موسی بن جعفر ہوں۔ یعنی میں امام رضاؑ کی نسل سے ہوں اور ان کے بیٹے حسن کا بیٹا ہوں۔ پھر مقتدر یہ حکم دیتا ہے کہ آل ابو طالب میں سے کسی کو لایا جائے تاکہ اس کی بات کی تصدیق ہو سکے۔ آل ابو طالب کا ایک فرد ابن طومار اس شخص کی تکذیب کرتے ہوئے کہتا ہے: لم یعقب الحسن. (امام رضاؑ کے فرزند) حسن کا کوئی بیٹا نہیں تھا۔
افسوس کہ کتاب منھاج السنۃ کے محقق رشاد سالم نے ضروری دقت نہیں کی اور یہ گمان کیا کہ یہ حسن وہی امام حسن عسکریؑ ہیں؛ حالانکہ اس کا مقصود حسن بن علی بن موسی الرضاؑ ہیں اور اس بات کا امام عسکریؑ اور حضرت حجتؑ سے کوئی ربط نہیں ہے۔ جالب یہ ہے کہ جس شخص نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ میں امام رضاؑ کا پوتا ہوں، وہ رسوا ہو جاتا ہے اور آخر میں پتہ چلتا ہے کہ اس نے اہل بیتؑ سے اپنی جھوٹی نسبت دی ہے اور وہ ابن الضبعی نامی شخص کا بیٹا ہے اور حتی باپ اسے ڈھونڈ لیتا ہے اور مقتدر کے پاؤں پڑتا ہے لیکن مقتدر اسے سخت سزا دیتا ہے اور یوم ترویہ کے دوران اسے لوگوں میں پھرایا جاتا ہے اور رسوا کیا جاتا ہے پھر اسے زندان میں ڈال دیا جاتا ہے۔
علاوہ ازیں کتاب صلۃ تاریخ الطبری خود طبری کی تالیف نہیں ہے بلکہ ایک مجہول شخص عریب بن سعد القرطبی متوفی ۳۶۹ ھ کی تالیف ہے کہ جس کی سوانح حیات اہل سنت کی کتب میں سے کسی کتاب میں ذکر نہیں کی گئی ہے۔
وہابی علما میں سے صرف خیر الدین زرکلی نے کتاب الاعلام میں اس کی مختصر سوانح حیات ان الفاظ کے ساتھ ذکر کی ہے: عریب بن سعد القرطبی: طبیب مؤرخ من أهل قرطبة من أصل نصرانی (اسبانیولی) أسلم آباؤه واستعربوا وعرفوا ببنی الترکی . استعمله الناصر (سنة ۳۳۱) علی کورة أشونة . واستکتبه المستنصر (الحکم) وارتفعت منزلته عند الحاجب المصور (أبی عامر) فسماه خازن السلاح واختصر تاریخ الطبری وأضاف إلیه أخبار إفریقیة والأندلس ، فسمی صلة تاریخ الطبری. اہل قرطبہ کے طبیب اور مورخ عریب بن سعد قرطبی، نصرانی تھے۔ ان کے والدین نے اسلام قبول کیا اور عربی کی تعلیم حاصل کی اور یہ بنو ترکی کے لقب سے مشہور ہو گئے۔ ناصر (متوفی ۳۳۱ہجری) نے اسے اشنونہ کے علاقے کا فرماندار بنا دیا اور مستنصر نے اسے اپنا کاتب مقرر کر دیا۔ حاجب نقاش ابو عامر کے سامنے اس کی قدر و منزلت بڑھ گئی اور اسے خازن السلاح کا لقب دیا گیا۔ اس نے تاریخ طبری کی تلخیص کی اور افریقہ و اندلس کے واقعات کا اس میں اضافہ کیا اور کتاب کا نام ’’صلة تاریخ الطبری‘‘ رکھ دیا۔
اسی طرح ابن تیمیہ نے عبد الباقی بن قانع اموی کی طرف یہ نسبت دی ہے کہ اس کے بقول امام حسن عسکریؑ کا کوئی بیٹا نہیں تھا مگر افسوس کہ ابن تیمیہ نے اپنی اس بات کا بھی کوئی حوالہ پیش نہیں کیا تاکہ ہم دیکھتے کہ اس نے واقعا کوئی ایسی بات کی ہے یا پھر ابن تیمیہ نے طبری کی طرح عبد الباقی کی طرف بھی جھوٹی نسبت دے دی ہے۔ باقی وہابیوں نے بھی اس مطلب کو ابن تیمیہ سے لے کر صرف اسے دہرا دیا ہے اور ان میں سے کوئی بھی ان پانچ صدیوں میں ابن تیمیہ کی جانب سے عبد الباقی کی طرف منسوب کیے جانے والے اس قول کا حوالہ پیش نہیں کر سکا اور افسوس کہ سب نے ابن تیمیہ پر اعتماد کرتے ہوئے بلا دلیل و سند اس بات کو تسلیم کر لیا ہے۔
ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ عبد الباقی نے یہ بات کی بھی ہو تو کیا ایسے شخص کی بات جس کی اہل سنت کے بزرگ علما نے تضعیف کی ہو؛ کسی مطلب کے اثبات کیلئے کسی اہمیت یا حجیت کی حامل ہو سکتی ہے؟!
شمس الدین ذہبی سیر اعلام النبلاء میں اس کی شرح حال میں لکھتے ہیں: قال البرقانی البغدادیون یوثقونه وهو عندی ضعیف وقال الدارقطنی کان یحفظ ولکنه یخطیء ویصر. وروی الخطیب عن الأزهری عن أبی الحسن بن الفرات قال کان ابن قانع قد حدث به اختلاط قبل موته بنحو من سنتین فترکنا السماع منه وسمع منه قوم فی اختلاطه.
برقانی، نے کہا ہے کہ بغدادیوں نے اس کی توثیق کی ہے مگر یہ نقطہ نظر میرے نزدیک ضعیف ہے، دار قطنی نے کہا ہے: وہ روایات کو حفظ کرتا تھا مگر اشتباہ کرتا تھا اور اپنی خطاؤں پر ڈٹ جاتا تھا (البتہ شاید جملہ ’’یخطیء و یصر‘‘ میں طباعت کی غلطی ہے اور اصل مطلب ’’یخطیء و یصیب‘‘ تھا کہ کبھی خطا کرتا تھا اور کبھی درست کہتا تھا) خطیب بغدادی نے ازهری سے اور اس نے ابوالحسن بن فرات سے نقل کیا ہے کہ ابن قانع کیلئے منقول ہے کہ اپنی موت سے دو سال قبل دیوانہ ہو گیا تھا؛ پس میں نے اس سے روایت کے سماع کو ترک کر دیا کیونکہ ایک گروہ نے دیوانگی کے ایام میں اس سے روایت کا سماع کیا ہے۔
اس بنا پر حتی اگر اس نے کوئی ایسی بات کی بھی ہو تو ان تضعیفات کے پیش نظر جو ان کے بارے میں نقل ہوئی ہیں، ان کے کلام سے استناد نہیں کیا جا سکتا۔
اہل سنت بزرگوں کی جانب سے حضرت مہدی(عجل‌الله‌تعالی‌فرجه‌الشریف) کی ولادت کا اعتراف:
بہت سے اہل سنت بزرگوں اور مفکرین نے ماضی سے حال تک حضرت مہدی (عجل‌الله‌تعالی‌فرجه‌الشریف) کی ولادت کا اعتراف کیا ہے اور انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ حضرتؑ ۱۵ شعبان سنہ ۲۵۵ہجری کو سامرا شہر میں پیدا ہوئے کہ ہم ان میں سے چند افراد کے نام کی طرف اشارہ کریں گے۔ قارئین محترم اس حوالے سے کتاب الإصالة المهدویة، تالیف جناب آغائے فقیہ ایمان کی طرف رجوع کر سکتے ہیں، انہوں نے اس کتاب میں اہل سنت کے ۱۱۲ علما کے نام ذکر کیے ہیں کہ جنہوں نے امام زمانؑ کی ولادت کی تصریح کی ہے۔

بحث کا نتیجہ

[ترمیم]

امام زمانہؑ کی ولادت سے متعلق ایک سو سے زائد علمائے اہل سنت کی تصریحات کو دیکھتے ہوئے اور مذکورہ بالا سوال کے جواب میں جو مطالب پیش کیے گئے، ان کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ ایسا اعتراض بے بنیاد ہے کیونکہ معترض نے اپنے ناقص اور نادرست انتخاب کی بنیاد پر ایک حکایت کے اقتباس کہ جس کا ناقل ایک ناصبی شخص ہے؛ کو شیعہ کی مورد قبول دلیل کے عنوان سے پیش کرنا چاہا ہے اور حضرت مہدیؑ کی ولادت کے حوالے سے معتبر اور متواتر احادیث اور علمائے اہل سنت کے ایک بڑے طبقے کے امام زمانہؑ کی ولادت کے حوالے سے نقطہ نظر کو نظر انداز کر دیا ہے۔ علاوہ ازیں کوئی بھی شیعہ عالم امام عصرؑ کی امام حسن عسکریؑ کی شہادت کے بعد ولادت کا قائل نہیں ہے بلکہ سب علما قائل ہیں کہ آپؑ کی ولادت امام حسن عسکریؑ کے زمانہ حیات میں ہوئی تھی۔ لہٰذا شہادت کے بعد امام حسن عسکریؑ کی ازواج میں حمل کے آثار کا نہ ہونا، بنیادی طور پر امام عصرؑ کی ولادت کی بحث سے غیر مربوط ہے۔ دوسری طرف سے حضرتؑ کی والدہ گرامی میں حمل کے آثار کا آشکار نہ ہونا، بھی ایک ناممکن اور محال امر نہیں ہے جیسا کہ حضرت موسیؑ اور حضرت رسول اکرمؐ کی امہات میں ثابت ہے کہ ان میں حمل کے آثار آشکار نہیں ہوئے تھے۔ ابن تیمیہ نے طبری اور عبدالباقی بن قانع سے جو بات نقل کی ہے کہ امام عسکریؑ بلا فرزند دنیا سے رحلت فرما گئے تھے، ایک سفید جھوٹ ہے اور ان کی کتب میں ایسا کوئی مطلب نہیں ملتا ہے۔ بالفرض ان دو افراد نے یہ بات کی بھی ہو تو اس سے خود ان کی بے اطلاعی ثابت ہوتی ہے؛ چونکہ اہل سنت کی تاریخ کے بڑے علما میں سے دس افراد نے حضرت حجتؑ کی ولادت کی تصریح کی ہے اور ان کی تاریخ ولادت کو بھی متعین کیا ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. کلینی رازی، محمد بن یعقوب (متوفّی۳۲۸ ہجری)، اصول کافی، کافی ج۱، ص۵۰۵، ناشر:اسلامیه‌، تهران‌، الطبعة الثانیة، ۱۳۶۲ ہجری. ش۔    
۲. کلینی رازی، محمد بن یعقوب (متوفّی۳۲۸ ہجری)، اصول کافی، ج۱، ص۵۱۴، ناشر:اسلامیه‌، تهران‌، الطبعة الثانیة، ۱۳۶۲ ہجری. ش۔    
۳. شیخ مفید، محمد بن محمد، (متوفّی ۴۱۳ ق)، الارشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، ج۲، ص۳۳۹، تحقیق:مؤسسة آل البیت (علیهم‌السّلام) لتحقیق التراث، ناشر:دار المفید للطباعة والنشر والتوزیع - بیروت – لبنان، سال چاپ:۱۴۱۴ - ۱۹۹۳ م۔    
۴. طبرسی، احمد بن علی، (متوفّی ۵۴۸ ق)، تاج الموالید، ص۶۱، به کوشش:مرعشی، سید محمود، ناشر:دفتر آیة الله مرعشی نجفی، قم، سال چاپ:۱۴۰۶ق۔    
۵. کلینی رازی، محمد بن یعقوب (متوفّی۳۲۸ ہجری)، اصول کافی، ج۱، ص۵۱۴، ناشر:اسلامیه‌، تهران‌، الطبعة الثانیة، ۱۳۶۲ ہجری. ش۔    
۶. قصص/سوره۲۸، آیه۴۔    
۷. ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر (متوفّی۷۷۴ہجری)، تفسیر القرآن العظیم، ج۶، ص۲۲۱-۲۲۲، المحقق:سامی بن محمد سلامة، الناشر:دار طیبة للنشر و التوزیع، الطبعة:الثانیة ۱۴۲۰ہجری - ۱۹۹۹ م۔    
۸. ابن سید الناس، محمد بن محمد، متوفّی ۷۳۴ ق، عیون الاثر، ج۱، ص۳۱، ناشر:دار القلم، بیروت، اول، ۱۴۱۴ ق۔    
۹. حلبی، علی بن برهان‌الدین (متوفّی۱۰۴۴ہجری)، السیرة الحلبیة فی سیرة الامین المامون،، ج۱، ص۶۹۔    
۱۰. مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب، ج۴، ص۱۶۰۔    
۱۱. ابن کثیر، اسماعیل‌ بن‌ عمر، البدایة و النهایة، ج۱۲، ص۲۹۸۔    
۱۲. فارقی، احمد بن یوسف، تاریخ الفارقی، ص۲۶۔
۱۳. اصفهانی، عمادالدین، البستان الجامع، ص۱۹۰۔
۱۴. فخررازی، محمد بن عمر، الشجرة المبارکة فی انساب الطالبیة، ص۷۸-۷۹۔    
۱۵. ابن اثیر جزری، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج۷، ص۲۷۴۔    
۱۶. شعرانی، عبدالوهاب بن احمد، الیواقیت و الجواهر ج۱ ص۵۶۲۔
۱۷. سبط ابن جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکرة الخواص، ص۳۲۵۔    
۱۸. گنجی شافعی، محمد بن یوسف، کفایة الطالب، ص۴۵۸۔    
۱۹. ابن خلکان، احمد بن ابراهیم، وفیات الاعیان و انباء ابناء الزمان، ج۴، ص۱۷۶۔    
۲۰. ابن طقطقی، محمد بن علی، الاصیلی فی انساب الطالبین، ص۱۶۱۔
۲۱. ابن فوطی، عبدالرزاق بن احمد، مجمع الآداب فی معجم الالقاب، ج۳، ص۳۳۰۔
۲۲. ابوالفداء، اسماعیل بن علی، تاریخ ابی الفداء، ص۴۵۔
۲۳. ذهبی، شمس‌الدین، العبر فی خبر من غبر، ج۱، ص۳۸۱۔    
۲۴. ذهبی، شمس‌الدین، تاریخ الاسلام و وفیات المشاهیر و الاعلام، ج۱۹، ص۱۱۳۔    
۲۵. ذهبی، شمس‌الدین، سیر اعلام النبلاء، ج۱۳، ص۱۱۹-۱۲۰۔    
۲۶. ابن وردی، عمر بن مظفر، تاریخ ابن الوردی، ج۱، ص۲۲۳۔    
۲۷. صفدی، خلیل بن ایبک، الوافی بالوفیات، ج۲، ص۲۴۹۔    
۲۸. یافعی، عبدالله بن اسعد، مرآة الجنان و عبرة الیقظان، ج۲، ص۸۱۔    
۲۹. تفتازانی، مسعود بن عمر، مشارحة الانوار فی آل البیت الاطهار، ص۲۵۔
۳۰. ابن خلدون، عبدالرحمن، تاریخ ابن خلدون، ج۴ ص۱۴۸۔    
۳۱. ابن شحنه، محمد بن شحنة، روضة المناظر فی علم الاوائل والاواخر، ص۷۸-۷۹۔
۳۲. جامی، عبدالرحمن، شواهد النبوة، ص۲۵۸-۲۵۹۔
۳۳. پارسا، خواجه محمد، فصل الخطاب بوصل الاحباب، ص۴۴۳۔
۳۴. قلشقندی، احمد بن علی، قلائد الجمان، ص۱۶۴۔    
۳۵. قلشقندی، احمد بن علی، نهایة الارب، ص۱۲۴۔    
۳۶. ابن حجر عسقلانی، احمد بن‌ علی‌، لسان المیزان، ج۲، ص۱۱۹۔    
۳۷. ابن صباغ مالکی، علی بن محمد، الفصول المهمة فی معرفة الائمة، ج۲، ص۱۱۰۲۔    
۳۸. رفاعی، محمد بن عبدالله، صحاح الاخبار فی نسب السادة الفاطمیة الاخیار، ص۴۹-۵۴۔
۳۹. ابن طولون، شمس‌الدین محمد، الائمة الاثنی عشر، ص۱۱۷۔    
۴۰. ابن حجر هیتمی، احمد بن‌ محمد، الصواعق المحرقة علی اهل الرفض و الضلال و الزندقة، ج۲، ص۶۰۱۔    
۴۱. شعرانی، عبدالوهاب بن احمد، الیواقیت و الجواهر، ج۲، ص۱۲۷۔
۴۲. عیدروسی، عبدالقادر، النور السافر عن اخبار القرن العاشر، ص۳۲۷۔    
۴۳. سمرقندی، سیدمحمد بن حسین، تحفة الطالب بمعرفة من ینتسب الی عبدالله و ابی طالب، ص۵۴۔
۴۴. رملی، شمس‌الدین، فتاوی شمس‌الدین الرملی المخطوطة، ورقه ۷۔
۴۵. قرمانی، احمد بن یوسف، اخبار الدول و آثار الاول. ج۱، ص۳۵۳-۳۵۴۔
۴۶. ابن عماد حنبلی، عبدالحی بن احمد، شذرات الذهب فی اخبار من ذهب، ج۳، ص۲۶۵۔    
۴۷. حسینی مدنی، ضامن بن شدقم، تحفة الازهار و زلال الانهار، ج۲، ص۴۹۵۔    
۴۸. شعرانی، عبدالوهاب بن احمد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۱۲۱۔    
۴۹. عصامی مکی، عبدالملک، سمط النجوم العوالی، ج۴، ص۱۴۹-۱۵۰۔    
۵۰. شبراوی شافعی، عبدالله، الاتحاف بحب الاشراف، ص۳۶۹-۳۷۲۔    
۵۱. برزنجی، جعفر بن حسن، جالیة الکدر، ص۲۱۔
۵۲. آبیاری، عبدالهادی، الغرر فی شرح المنظومة البدریه المسماة جالیه الکدر، ص۱۱۲۔
۵۳. سفارینی حنبلی، محمد بن احمد، لوامع الانوار البهیة، ج۲، ص۷۱-۷۲۔    
۵۴. بغدادی سویدی، محمدامین، سبائک الذهب فی معرفة قبائل العرب، ص۳۴۶۔
۵۵. قندوزی حنفی، سلیمان بن ابراهیم، ینابیع المودة، ج۳، ص۳۰۶۔    
۵۶. قنوجی، محمدصدیق حسن‌خان، الروضة الندیة، ج۲، ص۹-۱۰۔    
۵۷. حموی، یاقوت بن عبدالله، معجم البلدان، ج۴ ص۱۲۳۔    
۵۸. حیدری، محمد ویس، الدرر البهیة فی الانساب الحیدریة، ص۷۳۔
۵۹. زرکلی، خیرالدین، الاعلام، ج۶، ص۸۰۔
۶۰. هاشمی، مصطفی بن عبدالرحیم، تذکرة الهاشمی، ص۱۸۵۔
۶۱. حسنی کتبی، شریف انس، الاصول فی ذریة البضعة البتول، ص۹۸-۹۹۔
۶۲. عبدالغنی، عارف احمد، الجوهر الشفاف فی انساب السادة الاشراف، ج۱، ص۱۶۰-۱۶۱۔
۶۳. حشلاف، عبدالله بن محمد، سلسلة الاصول فی شجرة ابناء الرسول، ص۱۴۴۔
۶۴. سربازی، محمدعمر، فتاوای منبع العلوم کوه ون، ج۳، ص۱۴۱-۱۴۲۔
۶۵. ابن تیمیه حرانی حنبلی، أحمد بن عبدالحلیم (متوفّی ۷۲۸ ہجری)، منهاج السنة النبویة، ج۴، ص۸۷، تحقیق:د. محمد رشاد سالم، ناشر:مؤسسة قرطبة، الطبعة:الأولی، ۱۴۰۶ہجری۔    
۶۶. ظهیر، احسان الهی، الشیعة و أهل البیت، ص۲۴۴۔    
۶۷. صبحی، احمد محمود، نظریة الإمامة، ص۴۰۹۔
۶۸. قفاری، ناصر، اصول مذهب الشیعه، ج۲، ص۷۵۶۔    
۶۹. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۷، ص۴۳۷۔    
۷۰. زرکلی، خیرالدین (متوفّی ۱۴۱۰ہجری)، الأعلام قاموس تراجم لأشهر الرجال والنساء من العرب والمستعربین والمستشرقین، ج۴، ص۲۲۷، ناشر:دار العلم للملایین بیروت، الطبعة:الخامسة، ۱۹۸۰م۔    
۷۱. ذهبی شافعی، شمس‌الدین (متوفّی ۷۴۸ ہجری)، سیر أعلام النبلاء، ج۱۵، ص۵۲۷، تحقیق:شعیب الأرنؤوط، محمد نعیم العرقسوسی، ناشر:مؤسسة الرسالة - بیروت، الطبعة:التاسعة، ۱۴۱۳ہجری۔    


مآخذ

[ترمیم]

مؤسسہ تحقیقاتی حضرت ولی‌عصر (عجل‌الله‌تعالی‌فرجه‌الشریف)، ماخوذ از مقالہ «اعتراف علمای اهل سنت به تولد حضرت مهدی (عج)۔    
مؤسسہ تحقیقاتی حضرت ولی‌عصر (عجل‌الله‌تعالی‌فرجه‌الشریف)، ماخوذ از مقالہ «آیا بر اساس روایت کتاب کافی، امام عصر ارواحنا فداه متولد نشده است؟۔    
مؤسسہ تحقیقاتی حضرت ولی‌عصر (عجل‌الله‌تعالی‌فرجه‌الشریف)، ماخوذ از مقالہ «آیا امام عسکری (ع) بدون فرزند از دنیا رفته است؟۔    






جعبه ابزار