عید غدیر معتبر احادیث کی روشنی میں
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
ہر قوم و ملت کے خوشی اور غمی کے ایام ہوتے ہیں۔
دین اسلام ایک کامل اور جامع دین مکتب ہے جوکہ انسانیت کو ایک نظر سے دیکھتا ہے اور ان کی زندگی بسر کرنے کا کامل نظام پیش کرتا ہے جس میں ڈھل کر معاشرے اللہ تعالی کی سمت اپنا سفرِ خلقت انجام دیتے ہیں ۔
اللہ تعالی نے انسانی خوشی اور غمی کو توحید کی اساس پر پیش کیا ہے اور لہو و لعب سے اجتناب کرتے ہوئے ہدف و مقصد کے پیش نظر ایسی مراسم اور مناسبتوں کو دینی تعلیمات کی صورت میں ڈھال کر پیش کیا ہے کہ ان مراسم و مناسبتوں کو برپا کر کے اجتماعی طور پر معاشرے خوشی اور غمی کے احساس کو پورا کرتے ہیں۔
دین اسلام نے حکمتِ الہٰی کے تحت جن ایام کو خوشی اور شادمانی کے دن قرار دیا ہے اس کو مسلمانوں کے لیے عید کا عنوان دے کر مختلف احکام ذکر کیے ہیں۔ کلمہِ عید
عربی زبان کا لفظ ہے جوکہ ’’عود‘‘ سے نکلا ہے جس کا معنی ایک امر کا دوسری مرتبہ ہونا اور پلٹنا کے ہیں۔ عید اللہ تعالی کی طرف پلٹنا اور تجدید عہد کرنے کا دن ہے۔ جو عہد و پیمان پہلے باندھا گیا تھا اور جسے اللہ تعالی نے انسان کی
فطرت میں رکھ دیا تھا اس کی طرف دوبارہ پلٹا جائے۔
[ترمیم]
قرآن کریم میں کوئی ایسی آیت کریمہ موجود نہیں ہے جس میں صراحت کے ساتھ مسلمانوں کے خوشی کے دن اور عید کا تذکرہ ہو اور اس کے اعمال کسی آیت میں بیان کیے گئے ہوں۔ پس قرآن کریم کی کسی آیت سے ہم عید ہونے یا نہ ہونے کا استدلال قائم نہیں کر سکتے۔ یقیناً ہم اپنی مرضی سے عید کے ایام اور تعداد کا تعین کر کے اللہ اور اس کے
رسول ﷺ کی طرف منسوب بھی نہیں کر سکتے کیونکہ اپنی طرف سے دین میں اضافہ و کمی بدعت کہلاتا ہے جس کی مذمت
شیعہ و سنی ہر دو کتبِ احادیث میں شدت کے ساتھ آئی ہے۔ اس امر کے لیے ضروری ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی احادیث اور ان کی پاکیزہ
سیرت کی طرف رجوع کریں۔ معتبر اور
صحیح السند احادیث مبارکہ کی وجہ سے
مکتب تشیع عید الفطر اور
عید الاضحی کے علاوہ مزید دو عیدوں روز
جمعہ اور عید غدیر کو خصوصی طور پر مسلمانوں کی عید قرار دیتے ہیں۔
عید غدیر کا اہتمام کسی تعصب یا غلو یا بدعت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس کی اساس اور بنیاد آئمہ اہل بیتؑ سے ملنے والی معتبر اور صحیح السند احادیث اور ان کی سیرتِ طیبہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی احادیث دو اہم سلسلوں سے ہم تک پہنچی ہیں:
پہلا سلسلہ صحابہ کرام سے وارد ہونے والی احادیث ہیں جسے تابعین اور اس کے بعد تبع تابعین اور ان سے محدثین نے قواعد و ضوابط حدیث کے مطابق جمع آوری کر کے ہم تک پہنچایا ہے۔
اہل سنت اس طریقہ کو معتبر جانتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ اس کے مطابق
دین اسلام میں فقط دو عیدوں کا سراغ ملتا ہے اور وہ
عید الفطر جسے ہم چھوٹی عید اور دوسری عید الاضحی ہے جسے ہم بڑی عید یا عید قربان کہتے ہیں ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی احادیث کا دوسرا طریق آئمہ اطہارؑ کے ذریعے سے ہم تک پہنچا ہے۔ ہر وہ حدیث جو بارہ آئمہ اطہار ع میں سے کسی ایک امام پر ختم ہو وہ
رسول اللہ ﷺ کی حدیث مبارک کہلائے گی کیونکہ آئمہ اطہارؑ جو کچھ بیان کرتے ہیں وہ علم رسالت سے بیان کرتے ہیں جو انہیں ودیعت کیا گیا تھا۔ چنانچہ آئمہ اطہارؑ کی احادیث بعینہ رسول الله ﷺ کی احادیث مبارکہ ہیں۔ اگر ہم ذخیرہ حدیثِ اہل بیتؑ کا جائزہ لیں اور صرف معتبر و صحیح السند احادیث کو مدنظر رکھیں اور
ضعیف السند یا غیر معتبر روایات کی طرف رجوع نہ کریں تو معلوم ہو گا کہ دین اسلام میں اللہ تعالی نے چار عیدیں مسلمانوں کے لیے قرار دی ہیں:
۱۔
عید جمعہ۲۔ عید الفطر (چھوٹی عید جو ماہِ رمضان کے بعد آتی ہے)
۳۔ عید الاضحی ( بڑی عید یا عید قربان جو ۱۰ ذی الحج کو آتی ہے)
۴۔
عید غدیر ( یہ ۱۸ ذی الحج کو منعقد ہوتی ہے اور بقیہ تین سے افضل ترین عید ہے)
اگر ان
چار اعیاد مبارکہ کا تذکرہ صحیح السند احادیث میں وارد نہ ہوتا تو مکتب تشیع میں کسی صورت ان چار عیدوں کو منانے کی تاکید نہ کی جاتی۔ ذیل میں سندی تحقیق کے ساتھ ان احادیث مبارکہ کو ملاحظہ کرتے ہیں جن میں آئمہ اطہارؑ نے ان چار عیدوں اور عید غدیر کو افضل ترین
عید قرار دیا ہے۔
[ترمیم]
اہل بیتؑ سے ملنے والے ذخیرہ حدیث میں متعدد ایسی معتبر اور صحیح السند احادیث موجود ہیں جن میں چار عیدوں اور عید غدیر کے افضل ہونے کی صراحت کی گئی ہے۔ ہم پہلے ان معتبر احادیث کو ذکر کرتے ہیں اور اس کے بعد سندی تحقیق کا جائزہ لیتے ہیں ۔
شیخ صدوق نے
کتاب الخصال میں
امام جعفر صادقؑ سے روایت ان الفاظ میں نقل کی ہے:
حَدَّثَنَا أَبِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ( علي بن الحسين بابويه ) ، قَالَ حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّه ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ يَزِيد ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عُمَيْرٍ ، عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: السَّبْتُ لَنَا وَالْأَحَدُ لِشِيعَتِنَا وَالْإِثْنَيْنِ لِأَعْدَائِنَا وَالثَّلَاثَاءُ لِبَنِي أُمَيَّةَ وَالْأَرْبِعَاءُ يَوْمُ شُرْبِ الدَّوَاءِ وَالْخَمِيسُ تُقْضَى فِيهِ الْحَوَائِجُ، وَالْجُمُعَةُ لِلتَّنَظُّفِ وَالتَّطَيُّبِ، وَهُوَ عِيدُ الْمُسْلِمِينَ، وَهُوَ أَفْضَلُ مِنَ الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى، وَيَوْمُ الْغَدِيرِ أَفْضَلُ الْأَعْيَادِ، وَهُوَ ثَامِنَ عَشَرَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، وَكَانَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَيَخْرُجُ قَائِمُنَا أَهْلَ الْبَيْتِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَيَقُومُ الْقِيَامَةُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَمَا مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَفْضَلُ مِنَ الصَّلَاةِ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ؛ ہفتہ کا دن ہمارے ساتھ مختص ہے اور اتوار کا دن ہمارے شیعوں کے ساتھ، پیر کا دن ہمارے دشمنوں کا ہے اور
منگل کا دن بنی امیہ کا،
بدھ کا دن دواء پینے کا دن ہے اور جمعرات کے دن حوائج اور
ضرورت پوری کی جاتی ہے۔
جمعہ کا دن صفائی ستھرائی اور پاک صاف خوشبودار ہونے کا ہے اور جمعہ کا دن عید فطر اور
عید قربان سے افضل ہے۔ روزِ غدیر افضل ترین عید ہے جوکہ ۱۸ ذی الحجۃ کا دن ہے۔ روزِ جمعہ ہمارے قائم اہل بیتؑ خروج کریں گے اور
قیامت بھی روز جمعہ قائم ہو گی۔ روز جمعہ محمد و آل محمدؑ پر درود سے بڑھ کر کوئی عمل افضل نہیں ہے۔
محمد بن یعقوب کلینی نے
الکافی میں
حسن بن راشد سے ایک روایت امام جعفر صادقؑ سے نقل کی ہے:
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِيهِ ( إِبْرَاهِيمُ بْنُ هَاشِم ) ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ يَحْيَى ، عَنْ جَدِّهِ الْحَسَنِ بْنِ رَاشِدٍ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ، لِلْمُسْلِمِينَ عِيدٌ غَيْرَ الْعِيدَيْنِ؟ قَالَ: نَعَمْ يَا حَسَنُ! أَعْظَمُهُمَا وَأَشْرَفُهُمَا، قُلْتُ: وَأَيُّ يَوْمٍ هُوَ؟ قَالَ: هُوَ يَوْمٌ نُصِبَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ صَلَوَاتُ اللَّهِ وَسَلَامُهُ عَلَيْهِ فِيهِ عَلَماً لِلنَّاسِ، قُلْتُ: جُعِلْتُ فِدَاكَ وَمَا يَنْبَغِي لَنَا أَنْ نَصْنَع فِيهِ، قَالَ: تَصُومُهُ يَا حَسَنُ، وَتُكْثِرُ الصَّلَاةَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ، وَتَبَرَّأُ إِلَى اللَّهِ مِمَّنْ ظَلَمَهُمْ، فَإِنَّ الْأَنْبِيَاءَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ كَانَتْ تَأْمُرُ الْأَوْصِيَاءَ بِالْيَوْمِ الَّذِي كَانَ يُقَامُ فِيهِ الْوَصِيُّ أَنْ يُتَّخَذَ عِيداً، قَالَ قُلْتُ: فَمَا لِمَنْ صَامَهُ، قَالَ: صِيَامُ سِتِّينَ شَهْراً وَلَا تَدَعْ صِيَامَ يَوْمِ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ مِنْ رَجَبٍ، فَإِنَّهُ هُوَ الْيَوْمُ الَّذِي نَزَلَتْ فِيهِ النُّبُوَّةُ عَلَى مُحَمَّدٍ ’ وَثَوَابُهُ مِثْلُ سِتِّينَ شَهْراً لَكُمْ؛ حسن بن راشد مولی بنی العباس کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادقؑ کی خدمت میں عرض کی، میں آپ کا
فدیہ قرار پاؤں، کیا ان دو عیدوں (عید فطر و عید اضحی) کے علاوہ بھی مسلمانوں کی کوئی عید ہے؟ امام ؑنے فرمایا:اے حسن بالکل ہے، وہ عید ان دونوں عیدوں سے عظیم تر اور افضل تر ہے، میں نے کہا: وہ عید کب ہے؟ امامؑ نے فرمایا: یہ عید اس دن ہے جس دن
امیر المؤمنین صلوات اللہ وسلامہ علیہ کو لوگوں کے لیے نشانِ ہدایت قرار دیتے ہوئے (اسلامی حاکمیت و خلافت پر) نصب کیا گیا تھا، میں نے پوچھا: میں آپ کی قربانی قرار پاؤں ! اس دن ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ امامؑ نے فرمایا: اے حسن! اس دن محمد وآل محمدؑ پر کثرت سے
دُرود بھیجو اور جس نے آل محمدؑ پر ظلم کیا ہے اس سے اللہ کی بارگاہ میں
براءت و نفرت کا اظہار کرو، کیونکہ تم م
انبیاء صلوات اللہ علیہم اپنے اوصیاء کو یہ حکم دیا کرتے تھے کہ وہ ودن جس میں وصی اس کے مقام وصایت پر قائم کیا جاتا ہےاس دن کو بطور عید منائیں ۔ راوی کہتا ہے : میں نے عرض کی: اس کے لیے کیا اجر ہے جو اس دن روزہ رکھے؟ امامؑ نے فرمایا: اسے ساٹھ (۶۰) مہینوں کے روزوں کا اجر ملے گا، ۲۷
رجب کا
روزہ بھی ترک نہ کرو کیونکہ یہ وہ دن ہے جس میں محمد ﷺ پر
نبوت نازل اور تم لوگوں کے لیے اس کا ثواب بھی ساٹھ (۶۰) مہینوں کے برابر ہے۔
[ترمیم]
علم رجال و حدیث کے مطابق
راوی پر
جرح و تعدیل یا خصوصِ ثقہ کی بنیاد پر کی جاتی ہے یا
موثوق بہ کے مبنی کے تحت کی جاتی ہے۔ ہم یہاں ہر دو مبنیِ رجالی کے تحت ان راویوں کی تعدیل و تضعیف کی تحقیق پیش کرتے ہیں:
کلینی نے جو حدیث نقل کی ہے اس کی سند میں درج ذیل راوی موجود ہیں:
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِيهِ ( إِبْرَاهِيمُ بْنُ هَاشِم ) ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ يَحْيَى ، عَنْ جَدِّهِ الْحَسَنِ بْنِ رَاشِدٍ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ...۔
آپ کا شمار شیخ کلینی کے عظیم مشایخ میں ہوتا ہے جن سے کلینی نے الکافی میں کثیر احادیث نقل کی ہیں۔ تمام علماء آپ کی
وثاقت پر متفق ہیں۔
نجاشی نے آپ کو ثقہ،
حدیث میں قابل اعتماد اور
صحیح المذہب قرار دیا ہے۔
آپ
علی بن ابراہیم کے والد گرامی اور عظیم و بلند پایہ محدث ہیں۔ نجاشی اور
شیخ طوسی نے تحریر کیا ہے آپ پہلے
محدث ہیں جنہوں نے کوفی محدثین کی احادیث
قم میں نشر کیں۔ اس تصریح کو متعدد محققین نے
وثاقت پر دلیل قرار دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کثیر احادیث نقل کرنے کی بناء پر اور اپنی شہرت و عظمت کی وجہ سے توثیقِ خاص و عام ہر دو سے بے نیاز ہیں ۔ بعض محققین نے
تفسیر قمی کی اسانید میں وارد ہونے کی بناء پر آپ کی توثیق کی ہے۔ پس
ابراہیم بن ہاشم کی توثیق اور بلند شخصیت کا بیان کئی جہات سے معلوم ہوتا ہے جس میں سرفہرست قم جیسی حساس جگہ پر کوفی محدثین کی احادیث کا نشر ہونا اور قدماء و متأخرین کا کثرت سے آپ سے روایات کا نقل کرنا ہے۔
آپ کا نام قاسم بن یحیی بن حسن بن راشد ہے ۔
شیخ صدوق نے
من لا یحضرہ الفقیہ میں ایک زیارت کے ذیل میں عام کی توثیق عام کی ہے۔ شیخ صدوق نے تحریر کیا ہے : میں نے كتابِ زیارات اور کتابِ مقتل حسین میں کئی انواع کی زیارات ذکر کی ہیں، البتہ اس کتاب میں اس
زیارت کو میں نے اس لیے ذکر کیا ہے کیونکہ میرے نزدیک روایات کے مختلف طرق میں سے یہ سب سے صحیح ترین زیارت ہے اور زیارات میں کفایت کرتی ہے ۔
نیز آپ امام رضاؑ کے ہمعصر تھے اور امام رضاؑ کے بعد والے آئمہ اطہارؑ کا زمانہ بھی پایا۔ ابن الغضائری کی اساس پر علامہ حلی نے ظنِ اجتہادی کی بناء پر آپ کی تضعیف کی ہے جوکہ علماء جرح و تعدیل کی نظر میں قابل قبول نہیں ہے کیونکہ
ابن الغضائری کی اوّلاً کتاب معتبر طرق سے نہیں پہنچی ، ثانیاً ابن الغضائری تضعیف میں متشدد ہیں جس کی بناء پر ان کی تضعیف کا اعتبار نہیں اور علامہ حلی کا حدس کی بناء پر حکم قابل قبول نہیں ہے۔ پس تضعیف کے باب میں کوئی معتبر دلیل اور نص ہمارے پاس موجود نہیں ہے جبکہ اس کے مقابلے میں
قاسم بن یحیی کی وثاقت و
عدالت پر شیخ صدوق کے کلمات صریح اور واضح ہیں جس کی بناء پر علماء جرح و تعدیل جیسے مامقانی، خوئی ، محسنی ، سیفی مازندرانی اور دیگر محققین ان کی وثاقت کے معتقد ہیں۔
آپ امام جعفرصادقؑ اور
امام موسی کاظمؑ کے صحابی ہیں۔ اس نام کے تین راوی موجود ہیں۔ ان تینوں میں ہمارے پیش نظر وہ
حسن بن راشد ہیں جن سے قاسم بن یحیی احادیث نقل کرتے ہیں اور وہ امام صادقؑ اور امام کاظمؑ کے صحابی ہیں۔ جبکہ بقیہ دو حسن بن راشد میں سے ایک
امام تقیؑ کے صحابی ہیں جن کی کنیت ابو علی ہے اور
ثقہ ہیں اور دوسرے حسن بن راشد
امام رضاؑ کے صحابی ہیں اور علماء جرح و تعدیل نے ان کی تضعیف کی ہے۔ شیخ صدوق نے ایک زیارت کے ذیل میں حسن بن راشد اور ان کے پوتے قاسم بن یحیی کی توثیق کی ہے اور اس توثیق کو
محقق خوئی اور شیخ محسنی نے بھی قبول کیا ہے۔
پس ان بیانات سے روشن ہوا کہ حسن بن راشد بھی اسی طرح ثقہ ہیں جیساکہ قاسم بن یحیی کی توثیق علماء جرح و تعدیل نے کی ہے۔
شیخ محمد بن یعقوب کلینی کی یہ حدیث تحقیق کی بناء پر صحیح السند اور معتبر شمار ہو گی جیساکہ اس حدیث کی صحت کی تصریح شیخ آصف محسنی نے اپنی کتاب
معجم الاحادیث المعتبرۃ میں کی ہے۔
نیز یہ روایت
امام خمینی، آیت اللہ خوئی ،
محقق سیفی مازندرانی اور دیگر فقہاء کرام کے مبانی کے مطابق بھی صحیح السند اور معتبر ہے۔ اگر ہم ان بزرگان کی تحکیم سے صرفِ نظر کریں تو بھی اس معنی پر مشتمل دیگر اسانید سے وارد ہونے والی احادیث سے مضمونِ حدیث ثابت ہو جاتا ہے۔
شیخ صدوق نے خصال میں جو روایت نقل کی ہے اس کی سند درج ذیل ہے:
حَدَّثَنَا أَبِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ( علي بن الحسين بابويه ) ، قَالَ حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّه ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ يَزِيد ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عُمَيْرٍ ، عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: السَّبْتُ لَنَا وَالْأَحَدُ لِشِيعَتِنَا...۔
اس حدیث کی
سند میں وارد ہونے والی راویوں کے حالات کو مختصر طور پر ملاحظہ کیا جاتا ہے:
آپ شیخ صدوق کے والد گرامی اور
غیبت صغری میں اکابر فقہاء و علماء میں سے ہیں۔ نجاشی آپ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ آپ اپنے زمانے میں اہل قم کے شیخ و رئیس، ان میں سرفہرست،
فقیہ اور ثقہ ہیں۔ علی بن حسین
عراق تشریف لائے اور تیسرے نائبِ خاص
ابو القاسم حسین بن روح نوبختی سے ملاقات کی اور ان سے مختلف مسائل دریافت کیے ۔ اس کے بعد علی بن حسین بابویہ نے ایک مکتوب تحریر کیا اور
علی بن جعفر بن اسود کے ہاتھوں حسین بن رَوح نوبختی کو بھیجوایا تاکہ وہ اس رقعہ میں تحریر سوالات امام زمانہؑ تک پہنچائیں اور اس میں انہوں نے
امام زمانہؑ سے اولاد کے ہونے کی دعا کا تقاضا کیا تھا۔ امام زمانہؑ کی طرف سے علی بن حسین بابویہ کو یہ جواب ملا: ہم نے
اللہ سے تمہارے لیے اولاد کی دعا کی ہے ، عنقریب تمہیں دو بیٹے عطا ہوں گے جو خیر و برکت ہوں گے۔ چنانچہ علی بن حسین بابویہ کو ام ولد (کنیز) سے دو بیٹے عطا ہوئے : ۱۔ ابو جعفر محمد بن علی ، شیخ صدوق، ۲۔ ابو عبد اللہ ۔ معروف محدث
حسین بن عبید اللہ غضائری کہتے ہیں کہ میں نے شیخ صدوق سے سنا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے : میں
صاحب الامرؑ کی دعا سے پیدا ہوا ہوں اور وہ اس پر فخر کیا کرتے تھے۔
پس علماء جرح و تعدیل کے بیان سے ثابت ہوا کہ علی بن حسین بابویہ فقیہ بزرگوار ، ثقہ و قابل اعتماد ہیں۔
آپ کا نام
سعد بن عبد اللہ بن ابی خلف، کنیت ابو القاسم اور اشعری قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ نے قم میں سکونت اختیار کی ۔ آپ کی وثاقت اور جلیل القدر و فقاہت کی تصریح نجاشی اور طوسی ہر دو نے کی ہے۔ علماء رجال آپ کی وثاقت پر متفق ہیں۔ نجاشی نے تحریر کیا ہے کہ سعد بن عبد اللہ نے
اہل سنت علماء سے کثیر احادیث کو سماعت کیا ہے اور حدیث کی خاطر بہت سے سفر کیے ہیں۔ اہل سنت کی بڑی شخصیات میں سے
حسن بن عرفہ جوکہ
سنن ترمذی،
سنن نسائی اور
سنن ابن ماجہ کے راوی ہیں اور
ابو حاتم رازی متوفی ۲۷۵ یا ۲۸۳ ھ صاحب کتاب الجرح و التعدیل کے مصنف سے ملاقات کی۔
آپ کا نام
یعقوب بن یزید بن حماد انباری ہے اور کنیت ابو یوسف ہے۔ نجاشی نے تحریر کیا ہے کہ آپ امام تقیؑ سے روایات نقل کرتے ہیں اور
بغداد منتقل ہو گئے اور ثقہ و صدوق ہیں۔
پس یعقوب بن یزید ثقہ اور حدیث کے بیان میں صادق اور سچے ہیں۔ آیت اللہ خوئی نے اپنی معجم میں تحریر کیا ہے آپ قمی کے عنوان سے شہرت رکھتے تھے اور رجال طوسی کے مطابق
امام رضاؑ اور امام نقیؑ کے بھی صحابی ہیں۔
محمد بن ابی عمیر
امام کاظمؑ اور امام رضاؑ کے معروف صحابی ہیں ۔ نجاشی نے تحریر کیا ہے کہ آپ کا نام
محمد بن ابی عمیر زیاد بن عیسی ہے اور کنیت ابو احمد ہے۔ ازدی قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اصل میں بغداد کے رہنے والے ہیں۔ امام کاظمؑ سے ملاقات کی اور ان سے احادیث نقل کی ہیں۔ امام رضاؑ سے بھی احادیث کو نقل کیا ہے۔ اہل تشیع اور اہل تسنن ہر دو کے نزدیک بلند منزلت اور جلیل القدر شمار ہوتے ہیں۔
پس محمد بن ابی عمیر بھی جلیل القدر اور عظیم منزلت کے حامل صحابی ہیں اور یہ سلسلہِ سند متصل اور ثقہ راویوں پر مشتمل ہے۔
محمد بن ابی عمیر براہ راست امام جعفر صادقؑ سے احادیث نقل نہیں کرتے کیونکہ آپ امام موسی کاظمؑ کے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لیے محمد بن ابی عمیر متعدد قابل اعتماد اور ثقہ اصحابِ امام صادقؑ سے اس حدیث کو نقل کر رہے ہیں۔ محمد بن ابی عمیر نے اس حدیث کو جن قابل اعتماد اور ثقہ اصحاب امام صادقؑ سے نقل کیا ہے وہ ایک سے زائد ہیں اس لیے غیر واحد کی تعبیر استعمال کی گئی ہے۔ محمد بن ابی عمیر کی
مراسیل قبول ہیں اوراس حدیث کی متعدد اسانید کی وجہ سے جبرانِ ارسال بھی ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ روایت
صحیح السند ، معتبر اور اجلاء و عظیم مرتبت اصحاب و فقہاء سے ہم تک پہنچ ہے۔
مکتب تشیع میں قدماء قائل رہے ہیں کہ محمد بن ابی عمیر،
صفوان بن یحیی اور
احمد بن محمد بن ابی نصر بزنطی ہمیشہ ثقہ سے روایت کرتے ہیں اس لیے ان کی مراسیل قبول ہیں۔ قدماء کے اس نظریہ کو اکثریت محققین و علماء رجال نے قبول کیا ہے۔ شیخ طوسی اپنی کتاب العدۃ میں تحریر کرتے ہیں:
لا يروون ولا يرسلون الا عمّن يوثق به؛ یہ تینوں ثقہ کے علاوہ نہ روایت کرتے ہیں اور نہ ارسال کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بزرگانِ مکتب تشیع نے ان کی مراسیل پر عمل کیا ہے۔
اس طرف توجہ رہے کہ حجیتِ مراسیل کا ضابطہ اہل سنت کے اکابرین کے درمیان بھی پایا جاتا ہے۔ اہل سنت کی قواعدِ حدیث کی کتب میں مراسیل کی قبولیت کے ضابطے پر تفصیلی بحث کی گئی ہے اور ان بزرگان کے نظریات درج کیے گئے ہیں جو مختلف تابعین ، تبع تابعین یا محدثین کی مراسیل کو حجت اور واجب العمل سمجھتے تھے، مثلاً
سعید بن مسیب،
شعبی ،
حسن بصری،
سفیان بن عیینہ وغیرہ کی مراسیل کے قدماءِ اہل تسنن میں صحت کے درجہ پر قبول کی جاتی ہیں۔ ابن حجر عسقلانی مرسل حدیث کا حکم بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: اگر تابعی کی عادت معلوم ہو کہ وہ ثقہ کے علاوہ کسی سے ارسال نہیں کرتا تو اس بارے میں جمہور محدثین توقف کرتے ہیں کیونکہ احتمال باقی رہتا ہے،
احمد بن حنبل کے دو اقوال میں سے ایک یہ ہے ، دوسرا موقف حدیثِ مرسل کے بارے میں مطلق قبولیت کا ہے جیساکہ
امام مالک کے پیرو اور اہل کوفہ کا نظریہ تھا، تیسرا موقف امام شافعی کا ہے کہ وہ قائل ہیں اگر کسی اور طریق سے کوئی مؤید آ گیا جو پہلے طریق سے مختلف ہو ، فرق نہیں پڑتا وہ مؤید حدیث مسند ہو یا مرسل تو مرسل حدیث کو ترجیح دی جائے گی۔
علماء
جرح و تعدیل کے بیانات کی روشنی میں یہ حدیث صحیح السند اور معتبر قرار پاتی ہے۔ محقق نقاد شیخ محمد آصف محسنی نے اس حدیث کی صحت کو قبول کرتے ہوئے اپنی کتاب معجم الاحادیث المعتبرۃ میں درج کیا ہے اور اس کو صحیح السند قرار دیا ہے۔
[ترمیم]
یہاں ایک
شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ غیر واحد کہہ کر جن اصحاب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان کا واضح طور پر تذکرہ نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ روایت مرسل شمار ہو گی اور مرسل روایت ضعیف اور غیر قابل قبول ہوتی ہے؟!
اس کے جواب میں محققین نے ذکر کیا ہے کہ اوّلاً محمد بن ابی عمیر کے مراسیل متفقہ طور پر مقبول ہیں ، ثانیاً اس معنی پر مشتمل دیگر مختلف اسانید کی حامل احادیث سے کا جبران ہو جاتا ہے۔ محمد بن ابی عمیر کی مراسیل کے بارے میں شیخ طوسی نے تحریر کیا ہے کہ ابن ابن عمیر کا شمار ان اصحاب میں ہوتا ہے جو ثقہ کے علاوہ کسی سے حدیث نقل نہیں کرتے ۔ لہٰذا اگر ابن ابی عمیر روایت نقل کرتے تو یہ اس بات کی
دلیل ہے کہ وہ جس سے روایت نقل کر رہے ہیں وہ ثقہ ہے اور محمد بن ابی عمیر کے لیے معلوم شخصیت ہے۔ یہ بات بالاتفاق محققین و فقہاء و اعلام نے قبول کی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ محقق بصیر شیخ آصف محسنی نے اپنے معجموعہِ احادیث معتبرہ میں اس کو
صحیح حدیث میں شمار کیا ہے۔
نیز الکافی کی معتبر حدیث کی متابعت کی بناء پر بھی اس حدیث کی سند کو تقویت حاصل ہو جاتی ہے اور مضمونِ خبر سندی طور پر صحت کے معیار پر اترتا ہے۔
اہل سنت محدثین و محققین کے نزدیک مختلف اکابر محدثین و تابعین و تبع تابعین کی
تدلیس و ارسال حجت ہے۔ اگرچے اس مسئلہ میں علماء میں اختلاف وارد ہوا ہے۔
ابن عبد البر کہتے ہیں کہ امام مالک کے مذہب کے مطابق
ثقہ راوی کی مرسل روایت قبول ہے اور اس کا حجت واجب ہے اور اس پر عمل کرنا لازم ہے جیساکہ حدیث مسند اسی طرح سے واجب ہے۔
عجلی قائل ہیں کہ شعبی کی مراسیل صحیح کا درجہ رکھتی ہیں۔
ابن تیمیہ نے تحریر کیا ہے:
وَالْمُرْسَلُ إِذَا عَمِلَ بِهِ الصَّحَابَةُ حُجَّةٌ وِفَاقًا، وَهَذَا مَجْمَعٌ عَلَيْهِ؛ اور
مرسل حدیث جس پر صحابہ نے عمل کیا ہو بالاتفاق حجت ہے اور اس پر اجماع ہے۔
اسی طرح
امام ابو حنیفہ کی طرف مطلق طور پر ثقہ رایوں کی مراسیل قبول کرنے کی نسبت دی گئی ہے اور امام شافعی سعید بن مسیب کی مراسیل مؤید کی موجودگی میں قبول کرتے تھے۔
امام حاکم بیان کرتے ہیں کہ اہل مدینہ ابن مسیب کی مراسیل کو نقل کرتے تھے ، اہل مکہ
عطاء بن ابی رباح کی مراسیل ، اہل بصرہ حسن بصری کی مراسیل، اہل کوفہ ابراہیم نخعی کی مراسیل ، اہل مصر سعید بن ابی ہلال کی مراسیل اور اہل شام مکحول کی مراسیل کو اختیار کرتے ہوئے نقل کرتے تھے۔
پس معلوم ہوا کہ علم جرح و تعدیل کی روشنی میں مراسیل کی حجیت پر علماء کی آراء مختلف ہیں اور انہی مبانی کی روشنی میں یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر مرسلہ حدیث مکتبِ تشیع اور اہل تسنن کی نظر میں قابل ردّ نہیں ہے بلکہ شرائط کو مدنظر رکھتے ہوئے مراسیل قبولیت اور صحت کے درجے پر اتر سکتی ہے۔
اہل سنت کتب میں
صحابہ کرام سے وارد ہونے والی احادیث میں کوئی صحیح السند حدیث موجود نہیں ہے جوکہ روزِ غدیر کو عید کا عنوان دے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اہل سنت کتب میں
عید غدیر کے باب میں کسی قسم کا مواد نقل نہیں ہے۔ اگر کتبِ احادیث کا بغور جائزہ لیا جائے تو ہمیں ایسے مؤیدات میسر آ جاتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کی تکمیل اور اتمام جس دن ہوا ہو اور جس واقعہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسلام کو بطور دین قبول فرمایا اس کو عید کا دن ہونا چاہیے۔ بخاری و مسلم اور دیگر کتب تفاسیر و حدیث میں وارد ہوا :
حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ، سَمِعَ جَعْفَرَ بْنَ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا أَبُو العُمَيْسِ، أَخْبَرَنَا قَيْسُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ، أَنَّ رَجُلًا، مِنَ اليَهُودِ قَالَ لَهُ: يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، آيَةٌ فِي كِتَابِكُمْ تَقْرَءُونَهَا، لَوْ عَلَيْنَا مَعْشَرَ اليَهُودِ نَزَلَتْ، لاَتَّخَذْنَا ذَلِكَ اليَوْمَ عِيدًا. قَالَ: أَيُّ آيَةٍ؟ قَالَ: {اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا} ۳ قَالَ عُمَرُ: قَدْ عَرَفْنَا ذَلِكَ اليَوْمَ، وَالمَكَانَ الَّذِي نَزَلَتْ فِيهِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ قَائِمٌ بِعَرَفَةَ يَوْمَ جُمُعَةٍ؛ عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ یہودیوں میں سے ایک شخص آیا اور اس نے کہا: اے امیر المؤمنین ! تمہاری کتاب میں ایک آیت ہے جسے تم لوگ پڑھتے ہو ، اگر وہ ہم گروہِ یہود پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس دن کو بطور
عید اختیار کرتے ، حضرت عمر نے پوچھا: وہ کونسی آیت ہے؟ اس نے کہا:
اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا؛ آج کے دن میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تمہارے اوپر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیےدین کے طور اسلام پر راضی ہوں}، حضرت عمر نے کہا: اس وجہ سے ہم نے اس دن کی اہمیت کو جان گئے اور اس جگہ کو جہاں نبی ﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی جبکہ آپ ﷺ روزِ جمعہ
عرفہ کے مقام پر کھڑے تھے۔
مکتب تشیع کی نظر میں یہ آیت کریمہ
غدیر خم کے موقع پر اعلانِ
من کنت مولاہ سے پہلے نازل ہوئی ۔ مکتب تشیع کے اس اعتقاد کی وجہ کوئی تعصب نہیں ہے بلکہ آئمہ اہل بیتؑ سے وارد ہونے والی صحیح السند احادیث ہیں جن پر عمل کرنا ضروری ہے۔ آئمہ اہل بیتؑ کے طریق سے صحیح السند وارد ہونے والی احادیث میں وارد ہوا ہے کہ
سورہ مائدہ آیت ۳ غدیر خم کے موقع پر نازل ہوئی۔ کتاب الکافی میں روایت اس طرح سے درج ہے:
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ أُذَيْنَةَ عَنْ زُرَارَةَ وَ الْفُضَيْلِ بْنِ يَسَارٍ وَ بُكَيْرِ بْنِ أَعْيَنَ وَ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ وَ بُرَيْدِ بْنِ مُعَاوِيَةَ وَ أَبِي الْجَارُودِ جَمِيعاً عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ رَسُولَهُ بِوَلَايَةِ عَلِيٍّ وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ: { إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ }، وَفَرَضَ وَلَايَةَ أُولِي الْأَمْرِ فَلَمْ يَدْرُوا مَا هِيَ ؟ فَأَمَرَ اللَّهُ مُحَمَّداً ’ أَنْ يُفَسِّرَ لَهُمُ الْوَلَايَةَ كَمَا فَسَّرَ لَهُمُ الصَّلَاةَ وَ الزَّكَاةَ وَ الصَّوْمَ وَ الْحَجَّ ، فَلَمَّا أَتَاهُ ذَلِكَ مِنَ اللَّهِ ضَاقَ بِذَلِكَ صَدْرُ رَسُولِ اللَّهِ ’ وَ تَخَوَّفَ أَنْ يَرْتَدُّوا عَنْ دِينِهِمْ وَ أَنْ يُكَذِّبُوهُ ، فَضَاقَ صَدْرُهُ وَ رَاجَعَ رَبَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ ، فَأَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ إِلَيْهِ: {يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ } ، فَصَدَعَ بِأَمْرِ اللَّهِ تَعَالَى ذِكْرُهُ فَقَامَ بِوَلَايَةِ عَلِيٍّ × يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍ فَنَادَى الصَّلَاةَ جَامِعَةً وَ أَمَرَ النَّاسَ أَنْ يُبَلِّغَ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، قَالَ عُمَرُ بْنُ أُذَيْنَةَ قَالُوا جَمِيعاً غَيْرَ أَبِي الْجَارُودِ : وَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع وَكَانَتِ الْفَرِيضَةُ تَنْزِلُ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ الْأُخْرَى وَكَانَتِ الْوَلَايَةُ آخِرَ الْفَرَائِضِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَ: { الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي }، قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ × يَقُولُ: اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَا أُنْزِلُ عَلَيْكُمْ بَعْدَ هَذِهِ فَرِيضَةً قَدْ أَكْمَلْتُ لَكُمُ الْفَرَائِضَ؛
امام باقرؑ فرماتے ہیں : اللہ عز و جل نے اپنے رسول ﷺ کو امام علیؑ کی
ولایت کا حکم دیا اور آنحضرتﷺ پر یہ آیت نازل کی: تم لوگوں کا ولی فقط اللہ اور اس کا رسول اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے جنہوں نے نماز قائم کی اور زکات ادا کی، اور اللہ نے صاحبانِ امر کی ولایت
فرض کر دی ، لوگ نہیں جانتے تھے کہ ولایت کیا ہے؟ ، لہٰذا اللہ نے محمد ﷺ کو
حکم دیا کہ وہ ان لوگوں کے لیے ولایت کی تفسیر و تشریح بیان کریں ، جیساکہ آنحضرتﷺ نے لوگوں کو نماز ،
زکات، روزہ اور
حج کی تشریح بیان کی ہے، جب اللہ کی جانب سے یہ حکم آیا تو
رسول اللہ ﷺ کا سینہ اس کی وجہ سے تنگ ہو گیا اور انہیں خدشہ لاحق ہوا کہ لوگ اپنے
دین سے منہ نہ موڑ لیں اور آپﷺ کی تکذیب نہ کرنے لگیں، پھر آنحضرتﷺ نے اپنے ربّ عز و جل کی طرف مراجعہ کیا جس پر اللہ عز و جل نے آنحضرتﷺ پر یہ
وحی نازل فرمائی : اے رسول آپ کے ربّ کی طرف سے جو آپ پر نازل ہوا ہے وہ پہنچا دیں اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اپنی رسالت کو نہیں پہنچایا اور اللہ لوگوں سے آپ کو محفوظ رکھے گا، آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالی ذکرہ کے امر کو پہنچانے کا عزم کر لیا اور غدیر خم کے دن ولایت علیؑ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو جمع کرنے کے لیے الصلاۃ کی نداء بلند کی اور لوگوں کو حکم دیا کہ جو یہاں حاضر ہوتے ہوئے شاہد ہے وہ اس اعلان کی خبر غائب کو دے دے۔ راوی
عمر بن اذینہ کہتے ہی ابو جارود کے علاوہ سب نے بیان کیا ہے کہ امام باقرؑ نے فرمایا: ایک فرض کے بعد دوسرا فرض نازل ہوتا رہا ، فرائض میں سے آخری فرض ولایت ہے،
اللہ عز و جل نے نے یہ آیت نازل فرمائی: آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تمہارے اوپر تمام کر دی ہے، امام باقرؑ فرماتے ہیں: اللہ عز و جل نے یہ فرمایا ہے کہ اس فرض (ولایت) کے بعد تمہارے اوپر میں کچھ نہیں نازل کروں گا ، تمہارے لیے تمام فرائض میں نے کامل کر دیئے ہیں۔
اس
حدیث کو شیخ آصف محسنی نے معتبرا ور صحیح السند قرار دیا ہے اور علامہ مجلسی نے شرح الکافی میں حسن درجہ کی حدیث قرار دیا ہے۔
پس یہاں سے ثابت ہوا کہ مکتب تشیع صحیح السند اور معتبر احادیث کی بناء پر معتقد ہے کہ عید غدیر اسلام کی سب سے بڑی عید ہے اور اس دن اللہ تعالیٰ نے
رسول اللہ ﷺ کے توسط سے امتِ اسلامیہ اور ریاست اسلامی کی حکمرانی اور رہبری
امام علیؑ کے سپرد کی اور جب یہ عمل انجام پا گیا تو یہ سب سے آخری فرض تھا جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسلام کو کامل اور تمام کر دیا۔
[ترمیم]
[ترمیم]
یہ تحریر مقالہ حدیث غدیر معتبر احادیث کی روشنی میں سے مأخوذ ہے۔