فقہی اجتہادات میں اختلاف
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
اختلاف، کی اصل (خلف) بمعنی پیچھے ہے اور یہ (قدّام) بمعنی آگے کے مقابلے میں ہے۔
[ترمیم]
یہ مفہوم، (خلف) کے تمام صیغوں میں کسی نہ کسی طرح دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثال کے طور پر جب کہا جاتا ہے: اختلف القوم فی کذا، خلّف اَباه، اخلف وعده، استخلف فلاناً واختلف القوم الی فلان.
اس کے معانی بالترتیب یہ ہیں: لوگوں نے ایک دوسرے سے
اختلاف کیا (گویا ہر ایک نے دوسرے کو پیچھے چھوڑ دیا اور اس سے منہ پھیر لیا)، وہ
باپ کے پیچھے اور اس کے بعد اس کی جگہ پر بیٹھا۔ اس نے اپنا وعدہ
وفا نہیں کیا (اور اسے کان کے پیچھے ڈال دیا) اس سے چاہا کہ اس کی جگہ پر بیٹھ جائے، وہ ایک دوسرے کے پیچھے فلان کے پاس آئے۔ کلمہ اختلاف؛ وفاق اور
اتفاق کے مقابلے میں ایک ایسی چیز ہے جسے سالم ضمیر پسند نہیں کرتا؛ کیونکہ زیادہ تر ایک دوسرے سے دوری کے ہمراہ ہوتا ہے اور صلاحیتوں کے ضیاع اور پریشانی، بدامنی اور اضطراب پر منتہی ہوتا ہے۔
اس کے باوجود صلاحیتوں اور توانائیوں میں اختلاف ناگزیر ہے۔ ایسے تنوع کی جڑیں
انسان اور
جہان کی تخلیق میں ہیں اور یہ نظام تخلیق ہے کہ جس نے انسانوں کے مابین حیات کو تقسیم کیا ہے اور یوں سب اس کے مقروض ہیں۔ خدا نے انسانوں کو مختلف شکلوں اور صورتوں میں پیدا فرمایا ہے اور ہر کسی کو مختلف طبیعت سے نوازا ہے اور ہر شخص کو اس کے فہم و عمل کی مناسبت سے ذمہ داری دی ہے۔
اس طرح کے فطری و قدرتی اختلاف جب تک عدل و انصاف کی راہ پر گامزن ہوں اور
عقل و
شرع کی حدود و قیود سے خارج نہ ہوں اور ظلم و ستم، کمزوری، ذلت، بدامنی اور دست درازی سے دوچار نہ ہوں؛ تو یہ ایک ناقابل انکار حقیقت بلکہ خوش آئند ہیں اور
بشر کی مصلحت میں ہیں۔
دینی روایات اور انسانی تاریخ
فکر و عمل کے میدان میں بہت سی لڑائیوں اور تنازعات کی حکایت کرتے ہیں؛ دوسری طرف سے اختلافات اور تناؤ کو کم کرنے کے حوالے سے پیغمبروں اور مصلحین کے کردار پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے۔ پیغمبر اور اولیائے الہٰی افکار و عقائد کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ عمل و کردار کو سنوارنے کی طرف متوجہ بھی تھے۔
[ترمیم]
بہرحال ایک اہم ترین مسئلہ جس پر اصولی ’’احکامِ
اجتہاد‘‘ کے عنوان سے بحث کرتے ہیں، فقہی اجتہادات اور اختلافات کے خطا و صواب کا مسئلہ ہے۔ یہ بحث اگرچہ اپنے تئیں ایک اصولی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ فقہی استدلالات کے دونوں مقدموں(صغریٰ و کبریٰ) میں سے کسی کا حصہ قرار نہیں پاتی اور شاید اسے فلسفہ فقہ کی مباحث میں سے شمار کیا جا سکتا ہے؛ مگر آہستہ آہستہ یہ اصولی مباحث میں سما چکی ہے بلکہ اس کا دائرہ کار عقائدی اور کلامی اختلافات تک پھیل گیا ہے جیسا کہ اشارہ کیا گیا کہ تفقہ و اجتہاد میں اختلاف علم و فکر کے وسیع میدان میں اختلاف کی ایک شاخ ہے۔ تاریخی تجربات اور انسانی فطرت افکار و نظریات میں تنوع کی شاہد ہے۔ بلاشبہہ تفکر کا لازمہ، فہم میں اختلاف ہے؛ اگرچہ تفاہم اور اس کے امکان کا لازمہ یہ ہے کہ ایسے مسائل موجود ہیں جو متفقہ ہیں اور ان تک دسترس کا امکان بھی ہے۔
اگر فطری و طبیعی عوامل کے علاوہ اختلاف کے دیگر اسباب و محرکات کہ جو مرور زمان کے ساتھ دینی متون اور فقہ کی قلمرو اور اس کے علمی مقدمات و مبانی کی بنیادوں میں نفوذ کر چکے ہیں؛ پر ایک ہمہ گیر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں فقہ کے مختلف ابواب میں ہزارہا مسائل و فروع کے وجود کا احساس ہو گا جو ہمیشہ سے معرکۃ الآراء تھے اور ہیں۔ اہل نظر کی ان اختلافات اور ناسازگاریوں کی طرف توجہ آہستہ آہستہ معروف مسئلے (تخطئہ و تصویب) کو پیش کرنے کی موجب ٹھہری اور اس کے باوجود کہ ایسا مسئلہ منطقی زاویہ نگاہ سے اصول فقہ کی مباحث اور مبانی سے عقلی تعلق نہیں رکھتا تھا، ایک نظری بحث کے عنوان سے اصول فقہ کے ابواب میں وارد ہوا اور
شیعہ اور
اہل سنت کی کتب میں داخل ہو گیا۔
اس مقالے میں فقہی اختلافات کے اسباب و محرکات کا جائزہ لیا جائے گا جبکہ (تخطئہ و تصویب) کے بارے میں تحقیق آئندہ کسی اور فرصت میں پیش کی جائے گی۔
[ترمیم]
مذکورہ مطالب کے پیش نظر فقہی اختلافات کے اسباب و محرکات کو دو کلی عناوین کے تحت دیکھا جا سکتا ہے:
۱۔ ذاتی اسباب و محرکات: اس قبیل کے اسباب و محرکات سے مراد وہ اختلاف ہے جو
کتاب و
سنت کے متن میں موجود ہے یا بعض کے نزدیک ایسا ہے۔
۲۔ عرضی اسباب و محرکات: عرضی اختلاف سے مراد وہ عناصر ہیں جو متن سے خارج ہیں اور کسی نہ کسی انداز سے متن میں مؤثر ہیں اور فقیہ کو
فتویٰ کے اختلاف کی طرف کھینچ لیتے ہیں؛ جیسے:
تقیہ، جعلی
روایت، علامات کا اخفا اور اظہار، روایات کے ضبط میں کمی بیشی اور دیگر موارد کہ جن پر ابھی بات کریں گے۔
گویا
عالم اسلام کے نامور فقہا، محدثین اور دانشوروں میں سے سوائے دوسری
صدی کے عبید اللہ بن حسن عنبری اور دسویں صدی کے عبد الوہاب شعرانی کے کوئی بھی
قرآن و سنت کی نصوص اور عبارتوں میں اختلاف اور دو رنگی کا قائل نہیں ہے۔ ان دونوں کے افکار کم از کم مشرق کے
مسلمانوں کے اندر علم تفسیر یا علم تشریح (Hermeneutics) اور متون کی تفسیر پذیری کے رجحان کی بنیاد ہو سکتا ہے۔
شاید جو شخص حقیقت کی کئی صورتوں اور کئی تہوں کی بات کرتا ہے اور حقیقت کے حقیقت میں گم ہونے کو افکار و ادیان کی کثرت اور تنوع کا ناقابل تردید راز قرار دیتا ہے، اس قسم کے نظریات پیش کرتا ہے۔ اس امر سے آگے بڑھتے ہیں کہ کبھی بھی حقیقت کی اندرونی تہیں ایک دوسرے کی نفی نہیں کرتیں اور ان کا اختلاف پہلی کلاس کی پڑھائی کے دوسری کلاس کے ساتھ اور دوسری کلاس کی پڑھائی کے اوپر والی کلاسوں کی پڑھائی کے ساتھ اختلاف کی جنس سے نہیں ہے، اسی طرح حقیقت کے حقیقت میں گم ہونے کی بات بھی درست نہیں ہے کہ جو جلد بازی اور عدم تحمل کے باعث
مولانا جلال الدین رومی کے ایک درست کلام سے سمجھی گئی ہے کہ جس میں وہ کہتے ہیں:
چون حقیقت در حقیقت غرقه شد
زین سبـب هفتاد بل صـد فرقه شد
جب حقیقت، حقیقت میں غرق ہو گئی تو اس وجہ سے ستر بلکہ سو فرقے بن گئے۔
مولوی ’’در حقیقت‘‘ کی عبارت کے ساتھ حقائق، سچائیوں اور درستگیوں کے ہوا و ہوس اور نفسانی خواہشات میں غرق ہونے پر توجہ مرکوز کرتا ہے کہ جس کی طرف
نبی کریمؐ نے مسلمانوں کے تفرقے اور اختلاف کے باب میں اپنے انمول فرمودات میں اشارہ فرمایا ہے۔
ان اقوال میں واضح طور پر آیا ہے کہ مسلمان اس طوفان مصیبت اور انتشار کے دوران پہلوں کے نقش قدم پر چلیں گے کہ جنہوں نے ناجائز طور پر اپنے
دین میں تفرقہ و جدائی کی دیواریں کھڑی کی تھیں۔ یہ علامات صاف گواہ ہیں کہ ’’در حقیقت‘‘ کا لفظ صرف جملے کی تاکید کیلئے ہے نہ کہ فعل ’’غرق ہونے‘‘ کیلئے ظرف۔
بہرحال، عنبری کا خیال ہے:
قرآن کریم کی تعلیمات، مختلف، ناموزوں اور ناسازگار کلامی و فقہی آرا کا سرچشمہ ہیں اور جس علمی نظریے تک مجتہدین رسائی حاصل کرتے ہیں، اس کی بنیاد قرآن میں ہے۔ جس طرح
قدریہ اور
مفوضہ یا قرآن کے نزدیک ہیں یا اس کے ساتھ متصل ہیں، اسی طرح جبریہ بھی اس تعلق کے حامل ہیں۔
دونوں گروہوں نے بجا طور پر خدا کی حمد و تمجید کی ہے۔ اسی بنا پر اس کا گمان ہے کہ علیؑ کی طلحہ و زبیر کے ساتھ جنگ اور ان دونوں کی علیؑ کے ساتھ جنگ یہ دونوں کام خدا کی اطاعت میں تھے۔!
اس نظریے (کہ ہر مذہب اور رائے کہ جس تک مجتہدین اور مسلمان مفکرین پہنچتے ہیں اور اسے اختیار کرتے ہیں، قرآنی ہے اور اس کی جڑ قرآن میں ہے) کی بنیاد پر خود یہ نظریہ باطل ثابت ہو جاتا ہے؛ کیونکہ جس نقطہ نظر اور رائے پر علمائے مسلمین اور اسلامی مذاہب متفق ہوں، وہ بدرجہ اولیٰ حق اور قرآنی ہو گا۔ علما کا
اجماع اس امر پر ہے کہ یہ نظریہ (کہ ہر مذہب کا سرچشمہ قرآن ہے اور وہ حق ہے) فضول اور غلط ہے؛ چنانچہ اس مسئلے کی صحت کا فرض اس کے بطلان کو ثابت کرتا ہے۔ جس نظریے کا درست فرض اس کے بطلان کو لازم ہو، وہ ناقص ہے۔ لوگوں نے لکھا ہے کہ اس نے بھی بعد میں اس رائے سے رجوع کر لیا تھا اور اس امر کا قائل ہو گیا تھا کہ حق کا متلاشی رہنا باطل کا سرغنہ بننے سے بہتر ہے۔
یہ تفکر کہ تمام کلامی و فقہی مذاہب برحق ہیں، سوفسطائیوں کہ جو حق، سچ اور درست کا انکار کر دیتے تھے؛ کے خیالات سے بدتر ہے، کیونکہ اس کی بنیاد پر حق اور سچ آراء کے تابع ٹھہریں گے۔علمیات (Epistemology) کے باب میں حقیقت پسند نظریہ یہ ہے کہ اعتباریات کے برخلاف ذاتیات کسی طور پر تبدیل نہیں ہوتے؛ اور ہمیشہ اسی طرح رہتے ہیں جیسے تھے۔ مثال کے طور پر ممکن نہیں ہے کہ قرآن کریم قدیم بھی ہو اور مخلوق بھی؛ خدا کی رؤیت محال بھی ہو اور ممکن بھی، گناہ خدا کے ارادے کے تحت بھی ہوں اور اس کے ارادے سے خارج بھی۔
قرآن کریم کی متعدد محکم آیات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس کتاب، میں کسی قسم کے اختلاف اور دوگانگی کی گنجائش نہیں ہے بلکہ اختلافات، اعتراضات اور گومگو کی کیفیات ضروری ہے کہ
پیغمبرؐ کی جامع سنت کے زیر سایہ حل و فصل ہوں۔ قرآن و سنت کے محکمات اور بینات کے فہم کے بعد ہر اختلاف ناروا اور مذموم ہے۔
وحی الہٰی کے زیر سایہ پیغمبرؐ رحمت، ہمدلی اور یگانگی کا پیکر ہیں۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ پیغمبر رحمت اختلافات کا سرچشمہ ہوں۔ یہ انبیاء کے مخاطبین تھے جو بدخواہی اور ظلم و ستم کی خو کے باعث پرچم حق کے ساتھ اختلاف پر ڈٹ گئے۔
تمام اہل دین کا نظریہ یہ ہے کہ قرآن و سنت میں
ناسخ اور منسوخ موجود ہیں اور واضح ہے کہ ناسخ اور منسوخ کا اصول دو ایسی لفظی دلیلوں کے مابین ہے کہ جس کی ناسازگاری کسی طور پر قابل حل نہ ہو۔ اگر اختلاف دینی متون کا خاصہ ہوتا تو ناسخ و منسوخ کے احکام کے بارے میں بحث اور اسی طرح ناسازگاری کے دلائل جیسے
عام و خاص،
مطلق و مقید اور اس طرح کے امور پر بحث کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟! اصولی اس رائے پر متفق ہیں کہ ناسازگار دلائل کو کافی حد تک تحقیق اور برتر دلالتوں کی جستجو کے بغیر سائڈ لائن نہیں کرنا چاہئیے۔ اگر
شریعت، آرا کے اختلاف اور ناسازگاری کا مقام ہوتی تو ان علامات کے بارے میں بحث بے معنی ہوتی۔
عبد الوہاب شعرانی (۸۹۸ ـ ۹۷۳ھ) فقہ سے قبل تصوف و عرفان کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں اور انہیں
شیخ محی الدین عربی کے مکتب کے شارحین میں سے شمار کیا جا سکتا ہے۔
شاید اس قسم کے رجحان نے انہیں اجتہاد اور فقہی آرا کے باب میں سہل انگاری اور آسان گیری کی طرف راغب کیا اور وہ تصویب کے قائل ہو گئے۔ ان کا خیال ہے کہ تصویب کے قائلین میں سے پہلی بار انہوں نے معجزاتی طور پر فقہی مذاہب میں ’’اختلاف فہم‘‘ کے دشوار اور پیچیدہ مسئلے کو حل کیا ہے۔ انہوں نے اس ہدف کے تحت کتاب المیزان الکبریٰ لکھی اور اپنے خیال میں انہوں نے اس کتاب میں فقہی و اصولی مذاہب کی حقانیت اور مشروعیت کا جائزہ لینے کیلئے ایک بہت بڑا ترازو ایجاد کیا ہے۔ اس کتاب کے آغاز سے اختتام تک وہ اس قضیہ کو ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ: فقہی و اصولی مذاہب کے اختلاف کی جڑیں شریعت کے ذاتی اختلاف کے اندر ہیں۔ وہ اس کتاب کے پہلے حصے میں اپنا نظریہ استدلال کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور دوسرے حصے میں تفصیل کے ساتھ اپنے نظریے کو فقہی فروعات پر منطبق کرتے ہیں۔ ان کے دعوے اور استدلالات کا نچوڑ یہ ہے: خدائے بزرگ نے انسانوں کو جسم و
روح کے مقابلے میں طرح طرح کی صورتوں، سیرتوں اور صلاحیتوں کے ساتھ تخلیق کیا ہے اور چونکہ اس تنوع سے آگاہ ہے، اس لیے نظام
تشریع میں ہر صلاحیت و استعداد کے مطابق کوئی نہ کوئی ذمہ داری کو بھی مقدر فرمایا ہے اور اس کی شناخت کروانے کیلئے علما اور پیشوا قرار دئیے ہیں۔ ہر مجتہد شریعت کے تناور درخت کی ایک شاخ ہے اور دین کی متعدد تشریحات میں سے کسی نہ کسی تشریح کو بیان کرتے ہیں؛ وہ تشریحات جو اللہ کے ازلی علم کے تحت ایجاد ہوئیں اور انہیں ابلاغ کیا گیا۔
اس بنیاد پر
پہلی بات یہ ہے کہ: اسلامی شریعت بذات خود تمام تعلیمات، احکامات اور عملی اوامر میں دو مراحل یعنی آسانی و دشواری اور سختی و آسانی کی حامل ہے اور فقہ کا ہر محقق مذکورہ مراتب میں سے کسی نہ کسی مرتبے کا فطری نمائندہ ہے۔
دوسری بات یہ کہ: ہر مجتہد کا اجتہاد براہ راست یا بالواسطہ طور پر اور ایک یا چند واسطوں کے ساتھ شریعت کے متن، دلائل اور اصول کے ساتھ مربوط ہے۔ اس لیے مجتہدین کی جانب سے ایک دوسرے کی آرا کو خطا یا اشتباہ قرار دینے کی وجہ صرف ہر مجتہد کی شرعی دلیلوں اور نصوص سے نزدیکی یا دوری ہے ورنہ ہر اجتہاد کسی نہ کسی انداز سے
شریعت کے سرچشمے کے ساتھ متصل ہے اور اجتہاد میں خطائے مطلق کا تصور نہیں ہے۔
تیسری بات یہ کہ: کوئی بھی اصولی و فقہی مکتب شریعت کا مکمل نمائندہ اور نمونہ نہیں ہے؛ مکمل شریعت کی شناخت تمام مذاہب کی شناخت کے ساتھ ممکن ہے۔
چوتھی بات یہ کہ: ہر مذہب دین کی تشریحات میں سے ایک تشریح ہے اور ہر مجتہد ان راہوں میں سے ایک راہ کا سالک ہے جو سیدھے راستے اور
صراط مستقیم پر ہی منتہی ہوتی ہیں۔ کوئی بھی مجتہد گمراہی کے راستے پر گامزن نہیں ہوتا۔
پانچویں بات یہ کہ ہر مجتہد مصیب(صائب الرائے) ہے اور عصر رسالت سے آج تک کا ہر فقہی مذہب حق اور
حقیقت ہے۔
چھٹی بات یہ کہ: جس طرح پہلے پیغمبروں کی شریعتوں کے اندر گونا گوں اختلاف اور ناسازگاری کے باوجود ان کی حقانیت پر ایمان
واجب ہے، اسی طرح اسلامی مذاہب کے پیشواؤں کے مذاہب کی صحت اور حقانیت پر بھی ایمان ضروری ہے۔ البتہ یہ حقانیت ان مذاہب کی خصوصیت ہے کہ جن کے اندر اب تک تک تمام فقہی تحقیقات انجام پا چکی ہیں اور وہ درج ذیل ہیں:
مذہب حنفی ،
مذہب مالکی ،
مذہب شافعی ،
مذہب حنبلی ،
مذہب اوزاعی ،
مذہب داؤد ظاہری ،
مذہب لیث اور
مذہب اسحاق .
البتہ قرآن کے عجائب لا متناہی ہیں اور ہر طرح کے اجتہاد اور ابتکار کا راستہ کھلا ہے۔
ساتویں بات یہ کہ: کوئی مذہب دوسرے
مذہب پر برتری نہیں رکھتا۔ تمام فقہی مذاہب حقانیت اور صحت کے اعتبار سے مساوی ہیں۔
شعرانی کے بڑے ترازو میں ہر مذہب کی تحقیقات اور قیمتی معلومات ہیں جن سے ہر مسلمان اطمینان سے بہرہ مند ہو سکتا ہے اور ہر قسم کی غیر معقول جانبداری کو ایک طرف رکھ سکتا ہے۔ اس تجویز کے حوالے سے شعرانی کا اہم ترین انحصار اس سالکانہ کشف و شہود پر ہے جو اس کے بقول سنہ ۹۳۳ھ میں اسے حاصل ہوا تھا۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس عارفانہ شہود کی رو سے تمام مذاہب ایک سرچشمہ سے متصل نہروں اور ایک درخت کی شاخ سے نکلنے والی شاخوں کی مانند ہیں۔ اپنے نظریے کی تشریح و تائید میں انہوں نے
سید علی خواص اور
شیخ الاسلام زکریا کے اقوال سے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔
مذکورہ موارد کے علاوہ انہوں نے چند دلائل و شواہد سے بھی استفادہ کیا ہے، منجملہ:
۱. اصحابی کالنجوم بایهم اقتدیتم اهتدیتم.
ان کے نزدیک، اگرچہ اس کی
سند خدشہ دار ہے، مگر اہل کشف و شہود کے نزدیک اس کا متن درست ہے۔ ان کے نزدیک یہ نکتہ بھی روشن ہے کہ مجتہدین،
صحابہ کے زینے پر کھڑے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کسی ایک صحابی سے متصل ہے بلکہ ہر مجتہد کا اجتہاد پہلے پیغمبروں میں سے کسی نہ کسی پیغمبر کی شریعت کا آئینہ دار ہے۔
۲.
انّ شریعتی جاءت علی ثلاث مأه وستّین طریقه، ما سلک احد طریقه منها الاّنجا. شعرانی اپنے استاد زکریا کی پیروی کرتے ہوئے اس امر کا یقین رکھتا ہے کہ ہر شخص شریعت کے تمام احوال کی شناخت پر قادر نہیں ہے، اس لیے اسے حق نہیں ہے کہ کسی مذہب کو نادرست اور غلط قرار دے اور اس کی مذمت کرے؛ کیونکہ اس
حدیث کی بنیاد پر پیغمبرؐ کی شریعت تک پہنچنے کی راہیں متعدد اور مختلف ہیں اور فقہ کا ہر محقق ان میں سے کسی راہ پر گامزن ہے۔
۳۔ اہل کشف و شہود کی رائے یہ ہے کہ مجتہدین پیغمبروں کے وارث ہیں اور جس طرح پیغمبرؐ
معصوم اور ہر اشتباہ و لغزش سے دور ہیں، اسی طرح ان کے وارث خطائے مطلق اور نفس الامری سے دور ہیں۔ اگرچہ ان میں سے کچھ لوگ دوسروں کو غلطی پر قرار دیتے ہیں۔ کسی کو خطا پر قرار دینے اور کسی امر یا نظریے کو اشتباہ سمجھنے کا معنی صرف
مجتہد کی ادلہ و نصوص کے ظواہر کی نسبت خطا ہے، نہ کہ متن شریعت کی نسبت؛ کیونکہ ہر مجتہد کسی نہ کسی طور پر متن شریعت کے ساتھ مربوط اور متصل ہے۔
۴۔ فقہی مذاہب کے دلائل و نظریات کا جائزہ لینے سے روشن ہوتا ہے کہ ان کی مورد استناد متعدد روایات اور آثار صحیح و معتبر ہیں۔ ان مختلف اور بظاہر ناسازگار نظریات کا معنی یہ ہے کہ تکلیف کے ناہموار مراتب کے اعتبار سے شریعت اندر سے مختلف ہے۔
شعرانی کے پیش کردہ دلائل و شواہد کے اعتبار سے اس کے چار بنیادی اہداف ہیں:
الف۔
کتاب و
سنت میں تعدد اور اختلاف موجود ہے۔ صحت و اعتبار کی حامل ناسازگار نصوص کا وجود ایسے تعدد اور اختلاف کی حکایت کرتا ہے۔
ب۔ لفظ اور نص کے پس منظر میں شریعت کے واقعی اور نفس الامری وجود میں تعدد، تکثر اور اختلاف موجود ہے اور صرف عرفا اس تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور اس امر کا انکار شائستہ نہیں ہے۔
ج۔ ان دونوں امور کا نتیجہ یہ ہے کہ فقہ کی تحقیق میں مصروف عمل مختلف اور متعدد مجتہدین کی شناخت برحق ہے۔
د۔ فہم کا تکثر اور تعدد مشروعیت یا
مجتہد کو معذور و ماجور سمجھنے میں بھی موجود ہے۔
فہم کا ایسا تکثر، تنوع اور اختلاف کم و بیش تمام فقہا اور اصولیوں کے نزدیک متفق علیہ ہے کہ جس کی تشریح (تخطئہ و تصویب) کی بحث میں کی جائے گی۔
شعرانی نے میزان الکبریٰ میں پیش کردہ اپنے جدید نظریے کے ضمن میں درحقیقت شریعت میں فہم کے تکثر، تعدد اور اختلاف کو حصہ الف اور ب دونوں میں موضوع بحث قرار دیا ہے۔ اس نظریے کا اگرچہ عبید اللہ بن حسن عنبری کے نقطہ نظر میں سابقہ تھا، تاہم اس کلام کی تشریح، ترتیب اور تنظیم وضاحت کے ساتھ شعرانی نے اپنی کتاب کے آغاز سے اختتام تک یوں کی ہے کہ بے مثال ہے۔
بہرحال ہم نے شعرانی اور عنبری کے مشترکہ نکات پر جو تنقید کی ہے، شعرانی کا کلام اس کے علاوہ دیگر پہلوؤں سے بھی قابل تنقید ہے:
۱۔ شعرانی نے مذہب کے شریعت کے ساتھ تعلق کو دور اور نزدیک یا نزدیک تر اور دور تر کے ساتھ ترسیم کیا ہے۔ اگر یہ مذاہب آسانی و سختی کے مراتب میں روح شریعت کے ساتھ مربوط ہوں، شریعت کے نزدیک ہوں گے۔ اس بنا پر نزدیکی اور دوری یا ان کا شریعت کی نسبت نزدیک تر اور دور تر ہونا، بے معنی ہو گا۔
۲۔ وہ اس گمان پر ہے کہ مذاہب کے بڑے پیشوا،
سیر و سلوک کی راہ سے، شریعت کے نورانی شہود تک رسائی حاصل کر چکے ہیں اور جو ایسے شہود تک پہنچ چکا ہو وہ کسی صورت دیگر مذاہب کو اشتباہ اور نادرست قرار نہیں دیتا۔
ہمارا سوال یہ ہے: پس کیوں
محمد بن ادریس شافعی اجتہادی مناہج منجملہ استحسان کے منہج کو غلط سمجھتے ہیں اور اس پر تنقید کرتے ہیں اور کیوں وہ اور مذاہب کے دیگر پیشوا
جیسے داؤد اور ابن حزم ظاہری دوسروں کی اصولی و فقہی آرا کو نقد اور رد کرتے وقت یہ توجیہ نہیں کرتے کہ یہ بھی شریعت کے ارکان اور مراتب میں سے کسی نہ کسی کے ساتھ مربوط ہیں بلکہ تحقیق و اجتہاد اور استدلال و برہان کے ذریعے دیگر مذاہب کو شرعی نصوص اور واضح ارشادات کی کسوٹی پر رکھ کر ان پر تنقید کرتے ہیں اور ہرگز تمام مذاہب کے روح شریعت کے ساتھ تعلق کی بنیاد پر دوسروں کی آرا پر تنقید سے دستبردار نہیں ہوتے۔
۳۔ انہوں نے بہت سے حقوق اور اجتہادات کا یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ہر شخص کسی نہ کسی فقہی مذہب کی تقلید کر سکتا ہے۔
یہ نظریہ اس امر کہ یہ کلام ان کے ایک دوسرے کلام(یعنی مذاہب کو شریعت سے دور اور نزدیک سمجھنے) سے ناسازگار ہے؛ کے علاوہ دیگر پہلوؤں اور جہتوں سے بھی قابل اشکال ہے:
اول یہ کہ: قرآنی قاعدہ جس کا آیت
سے استفادہ ہوتا ہے؛ یہ ہے کہ آرا کے ٹکراؤ کی صورت میں خدا و رسول یعنی کلام خدا اور سنت
پیغمبرؐ کی طرف رجوع کیا جائے۔ کسی بھی
مذہب کا بلاضابطہ انتخاب اس اصل کے ساتھ ناسازگار ہے۔
لوگوں کی نسبت مجتہدین کا مقام، ادلہ کے مجتہدین کی نسبت مقام کی مانند ہے۔ جس طرح مجتہدین کی تکلیف ناسازگار اور جمع و ترجیح کی قابلیت نہ رکھنے والی ادلہ کے حوالے سے توقف یا
احتیاط ہے اسی طرح متضاد اور مخالف مذاہب کے حوالے سے عوام الناس کی تکلیف بھی یہی ہے۔
دوسرا یہ کہ: مذہب کے انتخاب میں عمل کی آزادی رفتہ رفتہ کسی شرعی دلیل کے استناد کے بغیر مذاہب کے آسان احکام کی جستجو اور پیروی پر منتہی ہو گی اور یہ کام اہل
علم کے اجماع کی رو سے فسق اور
گناہ ہے۔
تیسرا یہ کہ: ایسا اختیار تکلیف سے گریز کی طرف منتہی ہوتا ہے؛ کیونکہ اس قول کی بنا پر: مکلف ہر اختلافی مسئلے میں حق انتخاب کا حامل ہے؛ نتیجہ یہ ہو گا: مکلف، یعنی جس سے ادائے
واجب مطلوب ہے، جو کام پسند نہ کرتا ہو، اسے ترک کر سکتا ہے اور جس کام کو انجام دینا چاہتا ہو، انجام دے سکتا ہے۔ یہ وہی تکلیف کا سقوط، انجام واجب سے پہلو تہی اور خواہش پرستی ہے۔ ترجیح یا توقف کی ضرورت کے اصول پر عدم توجہ اس امر کا سبب ہے کہ بہت سے مقلد اور جانبدار فقہا خود غرضی اور خواہش پرستی کی وجہ سے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کیلئے ایسا فتویٰ دیں جو وہ دوسروں کیلئے دینے سے گریز کرتے ہوں۔
شعرانی نے اجتہاد میں تکثر اور اختلافات کا عقدہ حل کرنے کیلئے جس روش کو اختیار کیا ہے، اس کے التزام اور اسے تسلیم کرنے کا معنی اجتہاد اور
فقہی تحقیقات میں بے نظمی اور
ہرج و مرج ہے:
اس روش کے تحٹ احادیث پر نقد کا باب
جرح و تعدیل بند ہو جاتا ہے، ہر شخص کشف و شہود کے بہانے کسی بھی روایت کو بہت معتبر قرار دے سکتا ہے، توجیہ و تاویل کا سہارا لے کر کسی بھی حدیث کو سختی اور آسانی کی دو وجوہ میں سے کسی ایک پر حمل کر سکتا ہے۔
۱۔ ہر شخص سینکڑوں کذاب راویوں کی جھوٹی اور جعلی احادیث کی روشنی میں
شریعت محمدی کے نام پر کوئی نیا مذہب ایجاد کر سکتا ہے جس کا درحقیقت اس سے تھوڑا سا بھی تعلق نہ ہو۔
۲۔ ناسازگار و ناموزوں روایات اور اخبار علاجیہ کے باب میں
تعادل و تراجیح کی بحث کا معنی و مقصود فوت ہو جائے گا؛ دین کی کسی بھی تشریح اور
دین میں
بدعت ایجاد کرنے کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔
۱۔ دراصل تشریع کا ایک منبع’’اجماع‘‘ یا ’’عدم اختلاف‘‘ کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا ہے کہ (سب خطا نہیں کرتے)، نہ (یہ کہ کوئی بھی خطا نہیں کرتا)۔ اگر یہ طے ہو جائے کہ کوئی بھی اشتباہ نہیں کرتا اور ہر دین کی تحقیق کرنے والے مجتہد کا قول دین کی وجوہ میں سے ایک ہے تو اجماع کا کیا معنی ہو گا؟!
اسی طرح یہ دنیا کے سیاسی اور قانونی نظاموں میں شہرت اور خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ کیا اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ ان نظاموں میں افراد کا اشتباہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اور تمام لوگ ایسے راستے کی تلاش میں ہیں کہ حق تک پہنچنے کے دوران اس میں خطا سب سے کم ہو؟
۲۔ فقہی مذاہب کے بانی، متعدد سنی اصولی اور فقہا اور تمام
شیعہ فقہا اجتہاد، میں حق کے ایک ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ مجتہدین کو معذور اور ماجور قرار دیتے ہیں۔ کیا شعرانی کا یہ جملہ: ’’خوش بختی اس کیلئے ہے جو ہر مجتہد کو حق سمجھتا ہے اور پشیمانی اس کیلئے ہے جو صرف ایک مجتہد کو حق پر سمجھے‘‘؛ مذکورہ بالا اصولیوں اور فقہا کو خطا پر قرار دینے کے مترادف نہیں ہے؟
کیا اس نظریے (کہ سب مجتہدین حق پر ہیں) کا لازمہ خود اس نظریے کو باطل نہیں کر رہا؟ کیونکہ تصور یہی ہے کہ سب حق پر ہیں تو ان مجتہدین میں سے اکثر قائل ہیں کہ: (حق ایک ہے)، نتیجہ یہ ہوا کہ یہ نظریہ حق کے تعدد کو رد کرتا ہے اور اسے خطا قرار دیتا ہے۔ اگر ہر نظریہ
حق ہو تو یہ سخن کہ: ذی حق، ایک ہے؛ بھی حق ہو گا اور اس کی
ضد؛ یعنی یہ قول کہ ذی حق متعدد ہیں؛ باطل ہو جائے گی اور در نتیجہ، تخطئہ اور حق ایک ہونے کی بات درست ہو گی۔ اس رو سے کہا جاتا ہے: ہر نظریہ کہ جس کی صحت سے اس کا بطلان لازم آئے، درست نہیں ہو گا۔ یہ
اعتراض اجتہادات اور معرفت کے باب میں تمام اہل تصویب اور تعدد پسندوں پر وارد ہے۔
۳۔ شعرانی
محی الدین ابن عربی کو بھی اہل تصویب قرار دیتا ہے اور حق یہی ہے کہ ابن عربی کے کلام سے اجتہاد کی مشروعیت میں تصویب؛ یعنی مجتہد کی معذوریت اور ماجوریت سے زیادہ کسی چیز کا استفادہ نہیں ہوتا۔
وہ فتوحات مکیہ میں واضح طور پر کہتا ہے: اولیائے خدا، فقہا کی خطائے نفس الامری سے آگاہ ہیں۔
اس بنا پر حق میں تعدد کے نظریے کو اس کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا۔
روایت: (اصحابی کالنجوم) اپنی اسناد کی تمامیت کے فرض کی بنا پر یہ لیاقت نہیں رکھتی کہ اس سے کسی صحابی کی رائے اور
اجتہاد کو ثابت کیا جا سکے؛ کیونکہ حجیت اور اعتبار اصول فقہ کے بنیادی مسائل میں سے ہیں اور صرف قطعی دلائل کے ذریعے انہیں ثابت کیا جا سکتا ہے۔
ہم اس مخمصے کا شکار ہیں کہ ایسا استدلال کامل ہو، قول صحابی کے اعتبار کا معنی یہ نہیں ہے کہ ہر صحابی کا سخن صرف صحابیت کی بنا پر سب کیلئے حجت اور حق ہے؛ بلکہ اس کا معنی ہے کہ ہر شخص ان کے مجتہد ہونے کی حیثیت سے ان میں سے کسی کے قول پر اعتماد کرے اور اس پر عمل کرے۔ البتہ یہ بات درست نہیں ہے اور بزرگ فقہا اسے تسلیم نہیں کرتے۔
مالک بن انس سے اور قاضی اسماعیل سے منقول ہے:
صحابہ کے اختلاف کا رحمت ہونا، صرف اجتہاد کی توسیع اور باب اجتہاد کو کھولنے کی غرض سے ہے؛ کیونکہ ہر اجتہاد ناگزیر طور پر اختلاف کی طرف چلا جاتا ہے؛ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر شخص جستجو، تحقیق اور دقت کے بغیر ہر صحابی کی رائے پر عمل کرے۔
غزالی بھی واضح طور پر اس قول کو وہم اور ناقص قرار دیتا ہے بلکہ بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ صحابہ کی
تقلید کی عدم مشروعیت پر فقہا کا اتفاق ہے۔
عامۃ الناس کی فقہا سے نسبت وہی ہے جو فقہا کی صحابہ پیغمبرؐ سے ہے۔ جس طرح وہ صحابہ کے نظریات اور اقوال کو دیکھنے کے بعد اجتہاد اور ایک نظریے کی دوسرے پر برتری ثابت کیے بغیر کسی نظریے کی طرف رجحان پیدا نہیں کرتے، اسی طرح عوام بھی فقہا کی ناسازگار اور مختلف آرا اور اقوال کی اجتہاد اور تفضیل کے بغیر پیروی نہ کریں۔
حدیث :
(اختلاف امتی رحمة) کو اہل نظر و فکر کی جانب سے مختلف نوعیت کے رد عمل کا سامنا کرنا پڑا ہے:
شیخ صدوقؒ کی
امام جعفر صادقؑ سے نقل کے مطابق اس حدیث کا رسول خداؐ سے صدور مورد تائید ہے اور یہ بھی نقل ہوا ہے: کہ حدیث کا معنی وہ نہیں ہے جیسا کہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ حدیث آیت
(فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ) کے معنی میں ہے۔ یعنی خدائے عزوجل نے لوگوں سے چاہا ہے: پیغمبرؐ کے پاس جاؤ اور
علم حاصل کرو پھر لوگوں کی طرف پلٹ جاؤ اور اپنا علم و دانش نشر کرو اور انہیں نصیحت کرو۔ خدا نے چاہا ہے کہ وہ اپنے شہروں اور آبائی گھروں کو حصول علم کیلئے ترک کریں، نہ یہ کہ دین خدا میں اختلاف کریں؛ لہٰذا دین خدا ایک ہے۔
مذکورہ بالا بیان کی روشنی میں اصل نکتہ یہ ہے کہ: پیغمبرؐ کی روایت میں اختلاف حصول علم کیلئے سفر کے معنی میں ہے۔
سخاوی (متوفی ۹۰۲ھ) نقل حدیث کے بعد بیان کرتے ہیں: زیادہ تر محدثین اسے سند کے اعتبار سے مخدوش اور غیر محکم قرار دیتے ہیں اور وہ خود واضح طور پر کہتے ہیں: یہ حدیث مختلف الفاظ و عبارات سے روایت ہوئی ہے اور اس میں ارسال بھی ہے۔
ایسا کلام اوروں نے بھی نقل کیا ہے۔
سبکی اور قاضی بیضاوی کا یہ خیال ہے کہ
امت کے اختلاف سے مراد احکام کی فروعات میں اختلاف ہے جبکہ امام الحرمین اور حلیمی کہتے ہیں کہ اختلاف سے مراد معاشرتی مراتب، مناصب اور عناصر میں اختلاف ہے۔
مذکورہ حدیث کے متن اور
سند میں تشویش و اضطراب کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دینی اختلاف کی مشروعیت پر معتبر دلیل موجود نہیں ہے۔ ہم اس الجھن کا شکار ہیں کہ اس امر پر کوئی واضح، اہم اور معتبر دلیل موجود ہو۔ لہٰذا یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم ایسی نصوص اور واضح فرامین سے دستبردار ہو جائیں کہ جن میں ہر طرح کے تفرقے اور اختلاف کی مذمت کی گئی ہے۔
انّ شریعتی جاءت علی ثلاث مأه وستّین طریقة ما سلک أحد طریقه منها الاّ نجی.اول یہ کہ حافظ نور الدین ہیثمی (متوفی ۸۰۷ھ) نے کتاب مجمع الزوائد،
میں ایک روایت
پیغمبرؐ سے اس متن کے ساتھ نقل کی ہے۔
اس معنی میں چند دیگر روایات بھی نقل ہوئی ہیں جو سند کے اعتبار سے خدشہ دار اور نادرست ہیں۔
یہاں ہم ایک روایت نقل کر رہے ہیں جو مذکورہ روایت کی نظیر ہے:
انس بن مالک رسول خداؐ سے نقل کرتے ہیں کہ فرمایا:
ان للّه عزّوجلّ لوحاً من زبرجده خضراء کتب فیه:
اَنا الله لا اله الا اَنَا ارحم الراحمین خلقت تسعه عشر وثلاث مأه خُلُق من جاء بِخُلُقٍ منها مع شهاده لا اله الا اللّه دخل الجنه.خدا تعالیٰ کے ہاں ایک لوح ہے جو سبز زبرجد کی ہے جس میں لکھا ہے: میں خدا ہوں، میرے سوا کوئی خدا نہیں، میں مہربانوں میں سے مہربان ترین ہوں۔ میں نے تین سو انیس اخلاق پیدا کیے ہیں، جو شخص ’’
لا الہ الا اللہ‘‘ کی گواہی کے ساتھ ان میں سے کوئی ایک اخلاق لے آیا تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔
دیگر چند روایات میں ’’خلق‘‘ کی جگہ شریعت کا لفظ آیا ہے۔
ان روایات میں غور کرنے سے شعرانی کی نادرست نتیجہ گیری آشکار ہوتی ہے؛ کیونکہ ان احادیث میں بہت سے مناسک، آداب اور سنن کے بارے میں بات کی گئی ہے نہ کہ
شریعت کی وجوہ، مراتب اور سطوح میں تکثر و تعدد۔ بات یہ ہے کہ خدا کی بندگی کے راستے بہت سے ہیں اور جو کوئی خدا کیلئے کوئی قدم اٹھاتا ہے اسے ان راہوں کی ہدایت ملتی ہے:
وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَاۚ. شعرانی سے نقل کردہ تیسرا استدلال اور شاہد یہ تھا: اہل کشف و شہود سب کی یہ رائے اور نظریہ ہے کہ: علما و فقہا پیغمبروں کے وارث ہیں اور پیغمبروں کی طرح خطا و لغزش سے
معصوم ہیں۔ یہ نظریہ ان بعض روایات کی بنیاد پر قائم ہے جو
اہل سنت اور
شیعہ منابع میں علما کے بارے میں نقل ہوئی ہیں؛ منجملہ:
(اَلْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ اَلْأَنْبِيَاءِ).(العلماء أمناء الرسل على عباد الله ما لم يخالطوا السلطان). یہ دو
روایات ان کی سند پر تنقید سے قطع نظر، خبر واحد ہیں اور کسی طور ان کی بنیاد پر کلامی و اصولی مسئلہ طے نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ ان روایات میں ایسی علامات ہیں جو
دلالت کرتی ہیں کہ: علما کے وارث انبیا ہونے سے مراد روایات کے ذریعے پیغمبروں کے
علوم کی وراثت ہے۔ ان آثار کی حفاظت اور
دفاع میں وہ پیغمبروں اور رسولوں کے رازدار ہیں اور لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ انبیا کی طرح ان علما پر اعتماد کریں البتہ اس شرط کے ساتھ کہ جب وہ دنیا کی طرف مائل نہ ہوں۔
اس بنا پر مذکورہ روایات
مجتہد کے خطا سے مامون ہونے پر کوئی دلالت نہیں کرتیں اور ابھی تک کسی بھی فقہی مذہب کے پیشوا اور فقہا اور دیگر اسلامی مفکرین نے اس طرح کی روایات کی بنیاد پر پیغمبرانہ
عصمت کا دعویٰ نہیں کیا۔ اگرچہ بعض اوقات مقلدین کے غلو آمیز دعوے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ابن عابدین اپنے حاشیے میں لکھتے ہیں: مسیح آخر الزمان میں ابو حنیفہ کے مذہب پر فتویٰ دیں گے!
شعرانی پر تعجب ہے کہ انہوں نے
اہل بیتؑ کی عصمت کے باب میں پیغمبرؐ کی واضح روایات کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا
اور اس شخصیت کہ جن کے علم و دانش اور فضیلت پر علما کا اتفاق ہے یعنی
امام صادقؑ؛ ان کا کوئی ذکر نہیں کرتا اور ان کے عارفانہ شہود میں خاندان پیغمبرؐ کے آنحضورؐ کی شریعت کے دریا سے اتصال کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
اس سرد مہری میں انہوں نے اہل سنت کے سابق علما منجملہ
ابن خلدون کی پیروی کی ہے۔ ابن خلدون اپنی غیر معقول تحلیل میں لکھتا ہے:
اہل بیت کی فقہ، ان کی ایجاد کردہ بدعات کے مجموعہ کے سوا کچھ نہیں ہے اور اس کا کتاب و سنت سے تعلق نہیں ہے۔
تعجب اس بات پر ہے کہ وہ اس غیر معقول رائے کے بعد لکھتا ہے: ہم ان کی فقہ سے مطلع نہیں ہے!
جی ہاں، شعرانی اس حد تک آگے چلا جاتا ہے کہ
فتویٰ دیتا ہے: ان مذاہب پر اعتقاد
واجب ہے! شاید ایسے فہم اور سخن کی بنیاد وہی غیر صحیح فہم ہو جو وہ مذکورہ روایات سے اخذ کرتا ہے۔
یہ فتویٰ شاذ ہونے کے علاوہ کسی بھی معتبر دلیل کی بنیاد پر نہیں ہے۔ کتاب و سنت اور علما کی آرا میں کوئی ایسا اصول نہیں دیکھا گیا کہ (فقہی مذاہب کی حقانیت پر ایمان) مومنین کے
ایمان کو مکمل کرتا ہے۔ درحقیقت اگر ایسا ہو تو ان مذاہب کی ایجاد سے قبل ان کی شرعی تکلیف کیا ہو گی؟!
فقہ اور احکام میں فہم کے اختلاف، تنوع اور تعدد کے عرضی اسباب و محرکات سے مراد وہ عناصر ہیں جو
دین کی اصلی نصوص اور متون سے خارج ہیں اور شارع کے احکام و اہداف کے فہم اور شناخت میں مؤثر ہیں۔ جب تک یہ اسباب و محرکات موجود ہیں، اس وقت تک مجتہدین کی آرا میں بھی اختلاف رہے گا۔ قوی گمان کی رو سے کہا جا سکتا ہے کہ صدر
اسلام کے مفتیوں کا کتاب و سنت کی بجائے ذاتی رائے کی طرف جھکاؤ اور دین کے کامل ہونے کے بارے میں ان کے نادرست خیالات نیز نبی کریمؐ کی روایات کا اختلاف جو کسی حد تک علما کے ضبط، فہم اور تصدیق میں اختلاف کی بنیاد پر ہوتا ہے، اجتہادی اختلافات کے مؤثر اسباب و محرکات ہیں۔
امام علیؑ نے اپنے ایک خطبے میں اس نکتے کا بخوبی جائزہ لیا ہے۔
بہرحال دینی تحقیقات بالخصوص
فقہ میں فہم کے اختلاف، تکثر اور تعدد کے علل و اسباب کو ان آثار کے مصنفوں اور موجدوں کی تحقیقات کی بنیاد پر ذیل کے موارد میں خلاصہ اور مرتب کیا جا سکتا ہے:
۱۔ اہل نظر کی تمام دینی منابع اور نصوص سے عدم آگاہی؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ یا بعض کا خیال ہے کہ
حکم کے منبع سے متن صادر ہوا ہے اور دوسروں کو ایسے صدور کے بارے میں تردید ہے اور یا اس لیے کہ بعض لوگ صادرہ نصوص تک دسترس رکھتے ہیں اور بعض ان تک رسائی نہیں رکھتے۔ بہت سے صحابہ پیغمبرؐ اور آئمہؑ کے ساتھی اور ان کے تابعین ایسے ہیں جو شہروں میں پھیل جانے اور تھوڑی دینی تعلیم کے باعث دین کا مختصر علم حاصل کر سکے اور دین کے باقی احکام کا کچھ مدت تک یا زندگی کے آخر تک علم حاصل نہ کر سکے۔
فہم و ادراک میں اختلاف بعض اوقات ذاتی حالت و استعداد کی وجہ سے ہوتا ہے اور بعض اوقات معاشرتی عادات کے بموجب ہوتا ہے۔ اسی طرح معلومات اور دیگر علوم کی فراوانی اور کمی بھی کسی نہ کسی انداز میں معانی کے فہم و ادراک میں مؤثر ہے۔
غزالی کہتا ہے: اجتہادی آرا اور نظریات ایسے مقناطیس کی مانند ہیں جو خود سے متناسب دھاتوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور بطور نمونہ ابوبکر اور عمر بن خطاب کی آرا کے اختلاف کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
بہرحال نفسانی احوال کو بہتر انداز سے قانون کے تابع کرنے اور ان کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش اگرچہ لازم اور مفید ہے؛ تاہم سو فیصد نتائج کی حامل نہیں ہے کیونکہ خود یہ کوشش بھی کسی نہ کسی انداز میں ایسے ہی عوامل کی محکوم ہے اور ان کے دائرے میں محدود ہے۔
۳۔ بہت سی لفظی دلالتوں کا
کتاب و
سنت میں ظنی ہونا اور نیز ایسے نتائج کا حصول جو لفظی مدلولات کی بجائے الفاظ کی علامات، قرائن اور کلیات کی مدد سے حاصل ہوتے ہیں۔
علما نے کہا ہے: بہت سے احکام کی فروعات، مجتہدین کی ذہنی جستجو اور کوشش کا ماحصل ہے اور قرآن و سنت میں بہت کم ایسا جملہ ملتا ہے جو قطعی طور پر شارع کی مراد پر دلالت کرے۔
۴۔ لفظی ادلہ کی برابری و ہمتائی اور سازگاری و ناسازگاری۔
یہ عامل بذات خود چند مقدمات اور عوامل کا نتیجہ ہے:
۱۔ جان بوجھ کر یا بھول کر ایک حدیث کے متن کا کچھ حصہ حذف کر کے دوسرا حصہ چھوڑ دینا؛ اس امر کا سبب بنتا ہے کہ لفظی قرائن کا سیاق ضائع ہو جائے۔
۲۔ تصحیف، ایک
حدیث کے الفاظ و کلمات کو غلط انداز سے نقل کرنا اور انہیں اس کے مترادف کلمات سے بدل دینا، جو بعض اوقات معنی کے اعتبار سے ناسازگار اور شارع کے مقصود کے برخلاف ہوتے ہیں۔
قرآن کریم کی قرائتوں میں اختلاف بھی ایک طرح سے مقصود کے فہم میں مؤثر ہے۔ باب طہارت میں حدیث حیض کی وجہ سے فقہا کا (یطھرن) کے معنی میں ایک دوسرے سے مختلف فہم
اس نوعیت کے اختلاف کا نتیجہ ہے وعلی ھذا القیاس۔
۳۔ حدیث کی جہت اور سبب صدور میں ابہام جو شارع کی مراد کے فہم میں واضح اثر رکھتا ہے۔ شاید
امام صادقؑ کے اس جملے کہ (انتم افقه الناس اذا عرفتم معانی کلامنا) سے مراد روایات کی ناسازگاری اور آئمہ کے فتاویٰ میں اختلاف کے حوالے سے حوادث کے اثرات کی شناخت ہے۔
۴۔
حدیث کے متن میں ایک عبارت یا جملے کو مقدم یا موخر کرنا۔
۵۔ حدیث کو نقل بالمعنی کر کے روایت کرنا جس پر لامحالہ مختلف راویوں کا علم و فہم اثرانداز ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے شارع کے مقصود اور اہداف کو سمجھنے میں اختلاف ہو جاتا ہے اور فتویٰ اور عمل بھی مختلف ہو جاتا ہے۔ اکثر و بیشتر دو ایک جیسی روایات بعض راویوں کی جانب سے نقل بالمعنی کرنے اور بعض کی جانب سے نقل بالمعنی نہ کرنے کی وجہ سے بہت سی اختلافی آرا کا محور بن جاتی ہیں۔
۶۔ بعض اوقات ایک راوی شارع کے کلام کا ایک حصہ سنتا ہے اور دوسرا راوی پورا کلام سنتا ہے؛ اس صورت میں بعد کے علما اس طرح کی روایات کے بارے میں مختلف رجالی اور حدیثی آرا پیش کرتے ہیں۔
۱۔ نص کی عدم موجودگی کی صورت میں اور بعض اوقات نص کے مقابلے میں
قیاس، استحسان اور استصلاح کے غلاف میں رائے اور نظریے کو استعمال کرنا۔
واضح ہے کہ جو شخص قیاس کو یا اس سے مشروع ضرورت کی حد تک استفادے کو حرام قرار دیتا ہے؛ وہ اس شخص سے بہت زیادہ اختلاف رکھے گا جو قیاس میں افراط سے کام لیتا ہے اور اس کے علاوہ استحسان و استصلاح کو بھی مشروع سمجھتا ہے اور بے خوف ہو کر فروعات کو اصل سے اخذ کرتا ہے۔
شافعی اور داؤد اور ابن حزم ظاہری پہلے مکتب کے حامی اور نمائندے ہیں جبکہ ابوحنیفہ اور اس کے شاگرد دوسرے مکتب کے پیشوا ہیں۔
۲۔ دینی متون کے اخذ،
استنباط اور فہم میں اختلاف۔ اہل قیاس اور اہل حدیث کے مختلف استباطات کی طرف ہم اشارہ کر چکے ہیں اور اس حوالے سے دسویں
صدی ہجری کے بعد آنے والے مجتہدین اور اخباریوں کے معروف اختلاف کو دیکھا جا سکتا ہے۔
۳۔ آیات و روایات میں مترادف اور مشابہ کلمات کا وجود جو بعض اوقات حدیث کے حقیقی معنی میں اختلاف پر منتہی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کلمہ (قرء) کے بارے میں
شیعہ اور سنی فقہا کے مابین اختلاف کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے کہ آیا اس سے مراد طہر اور ایام حیض کے بعد کی پاکی ہے یا خود حیض ہے؟!
۴۔ اس امر میں تردید کہ آیا یہ نص اور خاص لفظی دلیل ناسخ ہے یا نہیں اور وہ دلیل لفظی اور نصِ خاص منسوخ ہے یا نہیں؟ حازمی ھمذانی (الاعتبار) میں اور آقائے خوئی (البیان) میں
کچھ آیات
ناسخ و منسوخ کی تحقیق و تحلیل پیش کرتے ہیں۔
۵۔ دلیل کا اطلاق و عموم یا تقیید و تخصیص کے مابین دائر ہونا، اس معنی میں کہ نصوص میں سے کوئی نص بعض اوقات مطلق و عام صورت میں یا مقید و خاص شکل میں نقل ہوتی ہے اور آخرکار شارع کے معانی، مقاصد اور مراد میں اختلاف کا سبب بنتی ہے۔
اس قبیل کے اجتہادی اختلافات کو ظاہری اور غیر واقعی اختلافات قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ سب دین شناس مجتہدین کی جانب سے شارع کی واحد مراد و ہدف اور اللہ کے صراط مستقیم کو سمجھنے کی جستجو، زحمت اور کوشش کا نتیجہ ہیں:
وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ اس طرح کا اختلاف
در حقیقت ان وسائل اور مناہج کا اختلاف ہے جو واضح اور نمایاں ہدف تک منتہی ہوتا ہے۔ کسی مجتہد کیلئے کسی طور یہ ممکن نہیں ہے کہ اپنے اجتہاد کے نتائج سے دستبردار ہو جائے؛ خواہ نظریہ تصویب اور اجتہادات کے تکثر کی حقانیت کو قبول کر لیں کیونکہ اپنے مقام پر ثابت ہو چکا ہے کہ اجتہاد کی حقانیت مطلق نہیں ہے بلکہ ہر مجتہد کا اجتہاد اس کی اپنی نسبت سے اور مقلدین کی نسبت سے حجیت و مشروعیت رکھتا ہے۔
اس لیے
شریعت پر عمل پیرا فقہ کے محققین ہمیشہ دوستی و مہربانی کے جذبے سے ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیال کرتے ہیں اور ہر طرح کے تفرقہ اور پارٹی بازی سے پرہیز کرتے ہیں؛ کیونکہ حقیقت کی تلاش کے سوا ان کا کوئی ہدف نہیں ہے، ان راسخ العقیدہ اور دیندار لوگوں کی طرح جو خدائے معبود سے قربت اور توجہ کے اصول میں منفرد اور یک زبان ہیں۔ تاہم فرائض، اوامر و نواہی اور حرام و حلال کے مراحل میں ہر کوئی کسی نہ کسی راستے سے خدا کے نزدیک ہوتا ہے: مثلا ایک راستہ انفاق اور صدقہ دینا ہے اور دوسرا راستہ نماز کی ادائیگی ہے اور تیسرا راستہ روزہ رکھنا ہے۔
اس تشریح کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی اختلاف وہ ہے جو
انسان کی انا پرستی، استبداد اور خود غرضی کی بنیاد پر ہوتا ہے جو بعض اوقات متشابہات کی نادرست تاویل کر کے اپنی آرا کو درست ظاہر کرنے اور ان کیلئے دلیل پیدا کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے اور نوبت آخرکار کینہ توزی اور دشمنی تک جا پہنچتی ہے۔ البتہ ایسے لوگوں اور خدا جو مجتہدین میں تمیز اور تفریق صرف کوشش اور دقت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
پس نتیجہ یہ نکلا کہ
اسلام کا سخن ہر مسئلہ میں ایک ہے۔
[ترمیم]
(۱) قرآن کریم۔
(۲) ابنمنظور، لسانالعرب۔
(۳) علاّمه طباطبایی، تفسیر المیزان، دفتر انتشارات اسلامی جامعهی مدرسین حوزه علمیه قم، قم، ۱۴۱۷۔
(۴) آیت الله ناصر مکارم شیرازی، تفسیر نمونه۔
(۵) شهرستانی، الملل والنحل۔
(۶) شاطبی، الاعتصام۔
(۷) غزالی، المستصفی۔
(۸) ابنحجر، تهذیب التهذیب، به نقل از اختلاف الحدیث ابنقتیبه۔
(۹) شیخ طوسی، عدة الاصول، مطبعة ستاره، قم، ۱۴۱۷۔
(۱۰) شاطبی، الموافقات۔
(۱۱) شعرانی، الیواقیت والجواهر۔
(۱۲) عبدالوهاب شعرانی، المیزان الکبری۔
(۱۳) ابنحزم، ملخص ابطال القیاس۔
(۱۴) محی الدین ابن عربی، الفتوحات المکیه۔
(۱۵) ابنعبدالبر، جامع بیان العلم وفضله۔
(۱۶) عبدالرؤوف مناوی، فیض القدیر۔
(۱۷) سخاوی، المقاصد الحسنه۔
(۱۸) شیخ حرّ عاملی، وسائل الشیعه۔
(۱۹) حافظ نورالدین، مجمع الزوائد۔
(۲۰) ابنماجه، سنن۔
(۲۱) کلینی، کافی، دار الکتب الاسلامیه، تهران، ۱۳۸۸۔
(۲۲) مجلسی، مرأت العقول۔
(۲۳) سمهودی، جواهر العقدین۔
(۲۴) محمد معین سند، دراسات اللبیب فی الاسوة الحسنة بالجیب۔
(۲۵) کتاب سلیم بن قیس۔
(۲۶) نعمانی، الغیبه۔
(۲۷) شیخ صدوق، الخصال۔
(۲۸) ابوحیان توحیدی، الامتاع والمؤانسه۔
(۲۹) وهبة الزحیلی، الفقه الاسلامیه وادلته۔
(۳۰) مقداد سیوری، کنز العرفان۔
(۳۱) فیض کاشانی، وافی۔
(۳۲) سید ابوالقاسم خویی، البیان، انوار الهدی۔
(۳۳) ابنرشد قرطبی، بدایة المجتهد و نهایة المقصد۔
(۳۴) سید محمد صدر، ماوراءالفقه۔
(۳۵) وحید بهبهانی، الفوائد الحائریه۔
(۳۶) مصطفی سعید الخنّ، اثر الاختلاف فی القواعد الاصولیة فی اختلاف الفقهاء۔
[ترمیم]
[ترمیم]
مجلہ فقہ دفتر تبلیغات اسلامی قم، ماخوذ از مقاله «اجتهاد و پژوهش فقهی»، شماره۱۴ ۔