حضرت محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
حضرت محمد بن عبد الله صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم،
حضرت ابراہیمؑ کی
ذریت سے ہیں۔ آپ اللہ کے آخری
پیغمبر ہیں۔ آپ کی ولادت ۱۷
ربیع الاول عام الفیل کو
مکہ شہر میں ہوئی۔ بچپن میں ہی والدین کا انتقال ہو گیا اور آپ کی
کفالت آپ کے
دادا اور آپ کے چچا نے کی۔ آپ جوانی میں میں محمد
امین کے لقب سے مشہور ہو گئے۔ پیغمبر اکرمؐ چالیس سال میں مبعوث برسالت ہوئے اور مسلسل ۲۳ برس تک کلمہ
توحید کی سربلندی اور تبلیغ
اسلام کے بعد
علی بن ابی طالبؑ کو اپنا جانشین بنا کر ۶۳ سال کے سن مبارک میں رحلت فرما گئے۔
[ترمیم]
تاریخ کے مطابق پیغمبر اکرمؐ
بشریت کے ایک تاریک ترین دور میں تشریف لائے۔ اس زمانے کے لوگ
شرک،
بت پرستی، غلاموں اور ماتحتوں پر
ظلم و ستم کے سوا کچھ نہیں جانتے تھے اور مورخین نے اس دور کو
زمانہ جاہلیت کا نام دیا ہے۔
امام علیؑ زمانہ
جاہلیت میں عربوں کے حالات کے بارے میں فرماتے ہیں:
خدا نے پیغمبرؐ کو
رسالت پر مبعوث فرمایا تاکہ اہل دنیا کو
ڈرائیں اور اس کی آیات کے
امین ٹھہریں جبکہ اس وقت تم
قوم عرب بدترین
دین اور
آئین پر کاربند تھے اور بدترین زمینوں پر سنگلاخ پتھروں اور ناشنوا سانپوں کے درمیان رہائش پذیر تھے، (اسی لیے کسی چیز سے نہیں ڈرتے تھے!) گدلا پانی پیتے تھے اور ناگوار کھانے کھاتے تھے، ایک دوسرے کا
خون بہاتے تھے اور قطع رحمی کرتے تھے، تمہارے درمیان بت نصب تھے اور
بتوں کی
پوجا تمہارا شیوہ اور آئین تھا اور تم لوگ گناہوں سے لتھڑے ہوئے تھے۔
آنحضرت
جمعۃ المبارک کے دن بمطابق ۱۷
ربیع الاول عام الفیل یعنی جس سال ہاتھی والے
خانہ کعبہ کو گرانے اور مکہ پر قبضہ کی غرض سے
حجاز میں آئے؛ کو
طلوع فجر کے بعد
مکہ شہر میں مذکورہ اوصاف کی حامل قوم کے درمیان پیدا ہوئے اور آپ کو وہ رسالت عطا ہوئی جو تمام
الٰہی ادیان کا نچوڑ ہے اور آپ کو اللہ کے تمام انبیاء اور
رسولوں کا خاتم قرار دیا گیا۔
[ترمیم]
پیغمبر اکرمؐ،
حضرت ابراہیمؑ کی
ذریت اور موحدین کی نسل سے ہیں۔ آپؐ ۱۷
ربیع الاول بروز
جمعۃ المبارک عام الفیل بمطابق ۵۷۰ء کو مکہ میں پیدا ہوئے۔ عین اس وقت
شرک اور بت پرستی کے دنیا بھر میں موجود مظاہر لرزنے لگے اور حضرتؑ کے نور سے پورا
عالم امکان روشن و منور ہو گیا۔
پیغمبر اکرمؐ کا
نسب والد کی جانب سے کچھ اس طرح ہے:
عبدالله بن عبدالمطلب بن
هاشم بن عبدمناف بن
قصی بن کلاب بن مره بن کعب بـن لوئی بن غالب بن فهر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان اور
والدہ کی جانب سے «آمنه» بنت «وهب بـن عـبدمناف بن زهره بن کلاب» ہے۔
حضرت آمنہ، چاہ
زمزم کی کھدائی اور
عبد المطلب کی جانب سے عبد اللہ کو سو
اونٹ فدیہ دے کر قربان ہونے سے بچانے کے بعد عبد اللہ کے عقد میں آئیں۔
نبی اکرمؐ،
حضرت ابراہیمؑ کی نسل سے ہیں۔
ابن بابویہ نے
معتبر سند کیساتھ
جابر انصاری سے روایت کی ہے کہ حضرت رسول اکرمؐ نے فرمایا: میں لوگوں میں سے آدم کے سب سے زیادہ مشابہہ ہوں اور ابراہیم، شکل و شباہت اور عادات و خصائل کے اعتبار سے لوگوں میں سے میرے ساتھ سب سے زیادہ مشابہہ ہیں۔
رسول خداؐ کے حضرت ابراہیمؑ تک کے اجداد کی تعداد تقریبا تیس اور
حضرت نوحؑ تک کے اجداد کی تعداد لگ بھگ چالیس ہے اور
حضرت آدم ابو البشر تک انچاس لوگ ہیں۔
اور عدنان سے اوپر کے افراد کے اسما اور تعداد میں اختلاف ہے۔
عدنان آپؐ کے بیسویں
جد ہیں اور مورخین نے متفقہ طور پر آپ کا حضرت تک نسب اس ترتیب سے ذکر کیا ہے: محمد بن عبدالله بن عبدالمطلب بنهاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرة بن کعب بن لوی بن غالب بن فهر بن مالک بن نضر بن کنانة بن خزیمة بن مدرکة بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان.
پیغمبر اکرمؐ ایک روایت میں اپنے اجداد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اذا بلغ نسبی الی عدنان فامسکوا یعنی جب میرا نسب عدنان تک جا پہنچے تو وہاں ٹھہر جاؤ اور ان سے پہلے کے اجداد کا ذکر کرنے سے پرہیز کرو۔
لہٰذا اکثر مورخین نے پیغمبر اکرمؐ کے اجداد آپؐ کے بیسویں جد عدنان تک قلمبند کیا ہے۔
مسعودی،
التنبیہ والاشراف میں لکھتے ہیں: یہ جو ہم نے پیغمبرؐ کے نسب کو معد بن عدنان سے آگے ذکر نہیں کیا؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبرؐ نے اس کام سے
منع کیا اور فرمایا: نسب شناسوں نے جھوٹ کہا ہے۔ اسی طرح معد سے
اسماعیل بن ابراہیم تک بعض اجداد کی تعداد اور اسما میں بہت اختلاف ہے اور جو کچھ مسلم اور بلا اختلاف ہے وہ آپ کا معد بن عدنان تک کا نسب ہے۔
اس بنا پر عدنان سے اوپر حضرت آدم ابو البشر تک اجداد پیغمبرؐ کے اسماء اور تعداد میں
روایات اور تاریخوں میں اختلافات ہیں اور شاید ایک سبب یہی ہو کہ رسول خداؐ نے حکم دیا کہ باقی کے ذکر سے اجتناب کیا جائے۔ آنحضرتؐ سے منقول حدیث میں یہ ہے:
کذب النسابون نسب شناسوں نے جھوٹ کہا ہے۔
اور یوں حضرتؐ نے ماہرین انساب کی
تکذیب فرمائی۔
ام المومنین ام سلمہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہؐ سے سنا کہ فرمایا: عدنان، ادد بن زند بن یری بن اعراق الثری کے فرزند تھے۔ آگے چل کر
حدیث میں آیا ہے: زند وہی ہمیسع اور یری وہی نبت اور اعراق الثری وہی اسماعیل بن ابراہیم ہیں۔
ماں کی طرف سے پیغمبرؐ کا نسب یہ ہے:
آمنہ بنت وہب بن
عبد مناف بن زہرہ بن کلاب کہ جو
قبیلہ قریش کی شاخ
بنی زہرہ سے ہیں۔
پیغمبرؐ کا پدری اور مادری نسب آپؐ کے تیسرے جد عبد مناف اور پانچویں جد کلاب پر پہنچ کر ایک دوسرے سے جا ملتا ہے۔ حضرت آمنہ کے والد یعنی وہب بن عبد مناف بن زہرہ، بنو زہرہ کے رئیس اور سردار تھے۔
اور والدہ برہ بنت عبد العزّی بنو عبد الدار کے خاندان سے تھیں۔
آمنہ شرف اور پاکدامنی کے لحاظ سے بنی زہرہ کی خواتین کی سردار تھیں اور آپ کو سارے قریش کی سب سے بڑی
عقیلہ قرار دیا جاتا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ
عربوں کیلئے بیٹی کو باعث
شرم سمجھا جاتا تھا لیکن اس کے باوجود آمنہ کا اپنی قوم اور خاندان میں خصوصی
احترام تھا۔
آنحضرتؐ کے والد، والدہ، اجداد اور
جدات سب کے سب
مسلمان اور
مومن تھے اور آپ کا نورانی
نطفہ کسی ایسے
صلب اور
رحم میں نہیں رہا جو
کفر اور
اسلام اور
ایمان اور
شرک کے درمیان مشترک رہا ہو۔ پیغمبر اعظمؐ اسماعیل ذبیح اور ابرہیم خلیل کی نسل سے تھے۔
خداوند متعال
سورہ شعرا میں فرماتا ہے:
وَ تَوَکَّلْ عَلَی الْعَزیزِ الرَّحیمِ• الَّذی یَراکَ حینَ تَقُومُ• وَ تَقَلُّبَکَ فِی السَّاجِدینَ• اِنَّهُ هُوَ السَّمیعُ الْعَلیم اور خدائے
عزیز و
رحیم پر
توکّل کر! • وہی جو تجھے اس وقت دیکھتا ہے جب تو
عبادت کیلئے قیام کرتا ہے • اور (نیز) سجدہ کرنے والوں میں تیری
حرکت کو! • بے شک وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
بعض روایات اور تفاسیر کی بنا پر
وَ تَقَلُّبَکَ فِی السَّاجِدینَ سے مقصود یہ ہے کہ آنحضرتؐ کے اسلاف پے در پے اور پشت در پشت سجدہ گزار، عبادت گزار اور
موحّد تھے۔
جیسا کہ علامہ مجلسی
آیت کے ذیل میں شیخ طبرسی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: آیت میں ساجدین سے مراد موحدین ہیں یعنی نبی کریمؐ کا نورانی نطفہ ایک نبی سے دوسرے
نبی تک منتقل ہوتا رہا۔
آیت اللہ
مکارم شیرازی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
وَ تَقَلُّبَکَ فِی السَّاجِدینَ سے مراد یہ ہے کہ رسول خدا کا آدم سے عبد اللہ تک پیغمبروں کے
صلب میں نقل و انتقال خداوند عالم کے لطف و کرم کے تحت ہوتا رہا یعنی جب تیرا پاک نطفہ ایک موحد اور ساجد پیغمبر سے دوسرے میں منتقل ہوتا تھا تو خدا ان سب سے آگاہ تھا۔
علی ابن ابراہیم کی
تفسیر میں
امام باقرؑ سے اس آیت کی تفسیر میں وارد ہوا ہے:
فی اصلاب النبیین صلوات اللَّه علیهم پیغمبروں کے اصلاب میں جن پر خدا کی رحمت ہو۔
اور تفسیر مجمع البیان میں اسی جملے کی وضاحت میں یہ وارد ہوا ہے:
فی اصلاب النبیین نبی بعد نبی، حتی اخرجه من صلب ابیه عن نکاح غیر سفاح من لدن آدم پیغمبروں کی اصلاب میں تھا، ایک کے بعد دوسرا پیغمبر اس نور کا حامل رہا، یہاں تک کہ خدا نے آپ کو ایک پاکیزہ ازدواج کے توسط سے آپ کے والد کی صلب سے اور زمانہ آدم سے مابعد تک ہر قسم کی ناپاکی سے دور رکھتے ہوئے، دنیا میں بھیجا۔
امام علیؑ پیغمبرؐ کے اجداد کے بارے میں فرماتے ہیں:
اخْتَارَه مِنْ شَجَرَةِ الأَنْبِيَاءِ ومِشْكَاةِ الضِّيَاءِ وذُؤَابَةِ الْعَلْيَاءِ وسُرَّةِ الْبَطْحَاءِ ومَصَابِيحِ الظُّلْمَةِ ويَنَابِيعِ الْحِكْمَةِ اس نے آپ کا انتخاب انبیاء کرام کے شجرہ، روشنی کے فانوس، بلندی کی پیشانی، ارض
بطحا کی ناف زمین،
ظلمت کے چراغوں اور
حکمت کے سرچشموں کے درمیان سے کیا ہے۔
مختلف اسلامی روایات سے بھی پیغمبرؐ کے تمام اجداد کے موحد اور
مومن ہونے کا مفہوم سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ پیغمبر اکرمؐ سے منقول حدیث میں وارد ہوا ہے:
لم یزل ینقلنی اللَّه من اصلاب الطاهرین الی ارحام المطهرات حتی اخرجنی فی عالمکم هذا لم یدنسنی بدنس الجاهلیة اللہ تعالیٰ ہمیشہ مجھے طاہرین کے اصلاب سے پاکیزہ ارحام میں منتقل کرتا رہا اور ہرگز مجھے
جاہلیت کی آلودگیوں سے آلودہ نہیں کیا۔
اس روایت کو بہت سے
شیعہ اور
اہل سنت علماء جیسے مرحوم
طبرسی نے مجمع البیان میں اور نیشاپوری نے تفسیر
غرائب القرآن میں،
فخر رازی نے
تفسیر کبیر میں اور آلوسی نے تفسیر
روح المعانی میں نقل کیا ہے۔
بے شک آلودگی کا ایک نمایاں ترین مصداق
شرک اور بت پرستی ہے؛ جیسا کہ خداوند متعال قرآن کریم میں فرماتا ہے:
إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ مشرک آلودہ اور ناپاک ہیں۔
معروف
اہل سنت عالم
سیوطی کتاب
مسالک الحنفاء میں کہتے ہیں: پیغمبرؐ کے
والد،
والدہ اور
اجداد کبھی بھی مشرک نہیں رہے اور انہوں نے پیغمبرؐ سے منقول مذکورہ بالا حدیث سے
استدلال کیا ہے اور مزید کہتے ہیں کہ ہم اس حقیقت کو دو طرح کی اسلامی روایات سے ثابت کر سکتے ہیں۔ پہلی قسم کی روایات کہتی ہیں: پیغمبرؐ کے آدمؐ تک کے آبا واجداد اپنے زمانے کے بہترین افراد تھے۔ دوسری قسم کی روایات کہتی ہیں: ہر
عصر و زمان میں موحد اور
خدا پرست افراد موجود رہے ہیں چنانچہ ان دونوں قسم کی روایات کو ایک دوسرے میں ضمیمہ کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ پیغمبرؐ کے آباو اجداد منجملہ حضرت ابراہیمؐ یقینی طور پر
موحد تھے۔
شیخ طبرسی مجمع البیان میں
آزر کے بارے میں کہ جسے قرآن نے ابراہیم کے والد کے عنوان سے ذکر کیا ہے؛ کہتے ہیں: ’’آزر‘‘ ابراہیمؐ کا
نانا یا چچا تھا۔
اہل سنت عالم
طبری تفسیر
جامع البیان میں صراحت کیساتھ کہتے ہیں: آزر ابراہیم کے والد نہیں تھے۔
آلوسی اس آیت کے ذیل میں کہتے ہیں: جن لوگوں کا کہنا ہے کہ آزر کو ابراہیمؐ کا والد نہ ماننے والے صرف شیعہ ہیں، ان کی معلومات کم ہیں چونکہ بہت سے علماء قائل ہیں کہ آزر ابراہیمؐ کے چچا کا نام ہے۔
شیخ طبرسیؒ نے مجمع البیان میں
اجداد پیغمبرؐ کے
ایمان پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے اور لکھتے ہیں: یہ مطلب ثابت شدہ ہے کہ رسول خداؐ کے حضرت آدمؑ تک کے اجداد سبھی موحد تھے اور مذہب شیعہ کا اس مطلب پر
اجماع ہے۔
شیخ صدوق نے امام صادقؑ سے نقل کیا ہے کہ پیغمبرؐ نے علیؑ سے فرمایا: عبد المطلب نے کبھی
قمار بازی نہیں کی اور نہ ہی
بتوں کی پوجا کی اور کہتے تھے: میں اپنے جد ابراہیمؑ کے دین پر ہوں۔
علامہ
محمد باقر مجلسیؒ نے بھی
بحار الانوار میں فرمایا ہے:
شیعہ امامیہ کا متفقہ عقیدہ ہے کہ رسول خداؐ کے والدین اور آدم ابو البشر تک کے آپ کے اجداد بزرگوار سب مسلمان (اور خدائے یکتا پر یقین رکھنے والے) تھے بلکہ صدیقین میں سے تھے؛ یا وہ خود
پیغمبر مرسل تھے اور یا اوصیائے معصومین میں سے تھے اور شاید ان میں سے بعض نے
تقیہ یا دیگر مصلحتوں کے پیش نظر اپنے اسلام کا اظہار نہیں کیا۔
امام صادقؑ ایک روایت میں فرماتے ہیں:
جبرئیلؑ پیغمبرؐ پر نازل ہوئے اور فرمایا: اے محمد!
خدا آپ پر
سلام بھیجتا ہے اور فرماتا ہے: میں نے
آگ کو
حرام قرار دیا ہے اس صلب پر کہ جس سے تو ہے اور اس بطن پر جس نے تیرا حمل اٹھایا اور ان پر جنہوں نے تیری سرپرستی کی۔ پیغمبرؐ نے جبرئیلؑ سے عرض کیا: یہ مطلب میرے لیے واضح کرو۔ پھر جبرئیلؑ نے فرمایا: اس صلب سے مقصود عبد اللہ بن عبد المطلب ہیں کہ جس سے آپ ہیں اور اس بطن سے مقصود کہ جس نے آپؐ کا حمل اٹھایا؛ آمنہ بنت وہب ہیں اور ان سے مقصود جنہوں نے آپ کی سرپرستی کی؛
ابوطالب بن عبد المطلب اور
فاطمہ بنت اسد ہیں۔
علامہ مجلسی مزید فرماتے ہیں:
هذا الخبر یدل علی ایمان هؤلاء... یہ حدیث ان افراد کے ایمان پر دلالت کرتی ہے۔
امیر المومنین سے منقول روایت کی بنیاد پر
امام علیؑ، ابو طالب، عبدالمطلب، ہاشم اور عبد مناف دین ابراهیمؑ کے پیروکار تھے اور ہرگز بتوں کی پرستش نہیں کرتے تھے۔
مگر اس حوالے سے علمائے اہل سنت میں بہت زیادہ اختلاف ہے؛ ان میں سے کچھ جیسے سیوطی
شیعوں کی طرح یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ رسول خداؐ کے والدین اور اجداد سب کے سب موحد تھے۔
اور ان میں سے کچھ انہیں حتی آنحضرتؐ کے والد گرامی حضرت عبد اللہ کو بھی
کافر اور
مشرک قرار دیتے ہیں۔
رسول خداؐ کے اجداد سے متعلق تاریخی اور حدیثی منابع میں جو واقعات نقل ہوئے ہیں، ان میں سے ایک عبد المطلب کی
نذر اور عبد اللہ کے
ذبح کی داستان اور حدیث
انا ابن الذبیحین ہے۔ پہلے ذبیح سے مقصود
حضرت اسماعیلؑ ہیں اور دوسرے «ذبیح» سے مقصود رسول خداؐ کے والد «عبدالله» ہیں۔
حدیث انا ابن الذبیحین، شیعہ و اہل سنت محدثین اور مفسرین کی متعدد کتب میں رسول خداؐ سے منقول ہے۔
عبد اللہ کے ذبح کی داستان کو بھی بہت سے محدثین،
تاریخ نگاروں اور سیرت نویسوں نے تھوڑے بہت اختلاف کیساتھ اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔
تاریخی اور حدیثی منابع کے مطابق
حمزہ اور عباس کی ولادت کے بعد عبد المطلب کے بیٹوں کی تعداد دس تک پہنچ گئی۔ عبد المطلب نے نذر کیلئے بیٹوں میں
قرعہ ڈالا اور قرعہ عبد اللہ کے نام نکلا۔ عبد المطلب نے عبد اللہ کو قربان گاہ پر لاکھڑا کیا تاکہ انہیں راہ خدا میں قربان کر کے اپنی نذر کو پورا کریں۔ اہل مکہ، قریش اور عبد المطلب کے دوسرے بیٹے اور عبد اللہ کے ماموں سامنے آئے اور انہوں نے چاہا کہ کسی طرح عبد المطلب کو روکا جائے۔ آخرکار طولانی گفتگو کے بعد یہ طے پایا کہ عبد المطلب کے اونٹوں اور عبد اللہ کے مابین قرعہ ڈالا جائے اور اگر قرعہ اونٹوں کے ناموں پر نکل آئے تو عبد اللہ کی بجائے اونٹوں کو قربانی کر دیں اور اگر پھر بھی عبد اللہ کے نام پر نکلے تو اونٹوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور دوبارہ قرعہ اندازی کی جائے اور اسی عمل کو دہرایا جائے یہاں تک کہ قرعہ اونٹوں کے نام کا نکل آئے۔ جب اونٹوں کی تعداد سو پر پہنچی تو قرعہ اونٹوں کے نام پر نکل آیا۔ اس پر
مکہ کے
مردوں اور
عورتوں کا خوشی سے شور و غل بلند ہوا مگر عبد المطلب نے قبول نہیں کیا اور دوبارہ دو مرتبہ قرعہ ڈالا لیکن جب مسلسل دو بار قرعہ اونٹوں کے نام پر نکلا تو عبد المطلب نے
یقین کر لیا کہ خدا اس
فدیہ پر راضی ہے اور انہوں نے عبد اللہ کو چھوڑ دیا۔ پھر حکم دیا کہ اونٹوں کو قربانی کر کے ان کا گوشت اہل مکہ میں تقسیم کر دیا جائے۔
شیخ صدوقؒ نے یہ داستان
کتاب عیون اور
خصال میں امام صادقؑ سے تفصیل کیساتھ روایت کی ہے۔
اور یہ بطور مختصر کتاب
من لا یحضره الفقیہ میں امام باقرؑ سے ’’باب احکام قرعہ‘‘ میں مروی ہے۔
حضرت عبد المطلب کی نذر اور عبد اللہ یعنی پیغمبر اکرمؐ کے والد بزرگوار کی قربانی کے واقعے کی بابت اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ بعض اہل نظر اس داستان کو ایک مسلمہ واقعے کے طور پر حضرت عبد المطلب کی
عظمت اور پختہ عزم کی علامت قرار دیتے ہیں کہ یہ
مرد کس حد تک اپنے
عہد و
پیمان کا پابند تھا۔
بزرگ شیعہ
محدث مرحوم
ابن شہر آشوب نے عبد المطلب کی نذر اور عبد اللہ کے ذبح کا ماجرا اسی پہلو سے مورد بحث قرار دیا ہے اور اسے سند ذکر کیے بغیر ایک مسلمہ داستان کے عنوان سے اسے اپنی کتاب
مناقب آل ابی طالب میں نقل کیا ہے اور اسے عبد المطلب کے بارگاہ الہٰی میں تقرب اور ان کے ایمان کے
کمال کی دلیل قرار دیا ہے۔
دوسری جانب بعض کا خیال ہے کہ اہل تشیع کے اس عقیدے کے باوجود کہ رسول اللہ کے تمام اجداد مومن تھے؛ یہ ماجرا عبد المطلب کو ان مشرکین کے گروہ سے قلمداد کرتا ہے جو اپنے خداؤں کیلئے اپنی اولاد کی قربانی پیش کرتے تھے یا اس کی نذر کرتے تھے اور خدا تعالیٰ نے ان کے عمل کو
قرآن کریم میں ایک قبیح اور شیطانی عمل قرار دیا ہے اور فرماتا ہے:
وَ کَذلِکَ زَیَّنَ لِکَثیرٍ مِنَ الْمُشْرِکینَ قَتْلَ اَوْلادِهِمْ شُرَکاؤُهُمْ لِیُرْدُوهُمْ وَ لِیَلْبِسُوا عَلَیْهِمْ دینَهُمْ وَ لَوْ شاءَ اللَّهُ ما فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَ ما یَفْتَرُون اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے لئے ان کے شریکوں نے اپنی اولاد کو مار ڈالنا (ان کی نگاہ میں) خوش نما کر دکھایا ہے تاکہ وہ انہیں برباد کر ڈالیں اور ان کے (بچے کھچے) دین کو (بھی) ان پر مشتبہ کر دیں، اور اگر اﷲ (انہیں جبراً روکنا) چاہتا تو وہ ایسا نہ کر پاتے پس آپ انہیں اور جو افترا پردازی وہ کر رہے ہیں (اسے نظرانداز کرتے ہوئے) چھوڑ دیجئے۔
علی دوانی، عبد المطلب کے موحد ہونے پر اعتماد کرتے ہوئے اور یہ کہ اولاد کو قتل کرنے کی نذر
بت پرستوں کی
رسم تھی اور اسی طرح اس داستان کو نقل کرنے والے راویوں کے سلسلہ سند میں نامعلوم، مجہول اور ضعیف راوی موجود ہیں، اس داستان کو
بنو امیہ کی وضع کردہ داستان قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں بنو امیہ اس طرح
امیر المومنینؑ کے اجداد کی شان کو کم کر کے خود حضرتؑ کی منزلت کو گھٹانا چاہتے تھے۔
بہرحال
زمخشری،
فخر رازی اور نیشاپوری جیسے قدیم علمائے
عامہ اور بہت سے دیگر
اہل سنت مفسرین نے آیت
وَ کَذَلِکَ زَینَ لِکَثِیرٍ مِنَ الْمُشْرِکِینَ قَتْلَ اَوْلَادِهِمْ شُرَکَاؤُهُمْ کی تفسیر میں اس داستان کو نقل کیا ہے اور اس کا
مصداق عبد المطلب کو قرار دیا ہے تاکہ اس طرح پیغمبرؐ کے آباو اجداد کے شرک پر مبنی اپنے عقیدے کو ثابت کر سکیں اور
شیعہ امامیہ کے صحیح عقیدے کو غلط قرار دے سکیں۔
اس بنا پر حضرت عبد المطلب کی نذر کی
صحت،
سقم اور
کیفیت کے بارے میں حتمی رائے کا اظہار مشکل ہے؛ تاہم آیات، روایات اور علمائے شیعہ کے اجماع کی بنیاد پر یہ مسلم ہے کہ پیغمبرؐ کے تمام اجداد موحد اور مومن تھے اور ہرگز شرک اور بت پرستی کی آلودگی سے دوچار نہیں ہوئے تھے۔
تاریخی کتب میں حضرت عبد اللہ اور حضرت آمنہ کے رشتہ
ازدواج میں منسلک ہونے کے بارے میں مختلف تفصیلات ذکر ہوئی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق، حضرت آمنہ کے والد گرامی وہب نے عبد اللہ کی یہودیوں کیساتھ مقابلے میں
شجاعت کو دیکھنے کے بعد اور اللہ تعالٰی کے خصوصی
لطف کی بدولت، اپنی زوجہ کو عبد اللہ کا رشتہ لینے کیلئے عبد المطلب کے پاس بھیجا۔
تاہم دیگر روایات کے مطابق خود عبد المطلب اپنے چند رشتہ داروں کیساتھ وہب کے گھر تشریف لے گئے اور جناب عبد اللہ کیلئے جناب آمنہ کی
خواستگاری کی۔ اس کے بعد
خطبہ عقد جاری کیا گیا اور چار دن تک دعوت
ولیمہ کا اہتمام کیا گیا۔
چونکہ پیغمبرؐ کے والد گرامی کا پچیس برس کے سن میں انتقال ہوا تھا، اس بنا پر آمنہ کیساتھ ازدواج کے وقت آپ کی عمر چوبیس سال تھی۔
بعض تاریخی کتب میں ازدواج کا وقت ذبح عبد اللہ کی داستان کے ایک
سال بعد کا ہے اور تحریر کیا گیا ہے: ذبح عبد اللہ کی داستان پر ایک سال گزرنے کے بعد، عبد المطلب، انہیں وہب بن عبد مناف کہ جو ان دنوں اپنے
قبیلے یعنی قبیلہ بنی زہرہ کے بزرگ تھے؛ کے گھر لے گئے اور ان کی
بیٹی آمنہ جو ان دنوں
نسب اور مقام کے اعتبار سے
قریش کی عظیم ترین خاتون تھیں؛ کیساتھ عبد اللہ کو رشتہ ازدواج میں منسلک کر دیا۔
یعقوبی کہتے ہیں: عبد اللہ اور آمنہ کا نکاح چاہ
زمزم کی کھدائی کے دس سال بعد ہوا۔
حدیث اور تاریخ کی بعض کتب میں ولادت سے
زفاف تک جناب عبد اللہ کی
پیشانی میں ایک خاص نور کے وجود
کا تذکرہ ملتا ہے کہ جس کی وجہ سے بعض خواتین جیسے خثعمی،
فاطمہ بنت مرة،
فاطمہ خثعمیہ،
قتیلہ، ورقہ بن نوفل کی بہن،
یا لیلی عدویہ
کی جانب سے ان کیساتھ ازدواج کی خواہش ظاہر کی گئی تھی۔ جن افراد کو اس
نور کی طلب تھی، وہ عبد اللہ سے ازدواج کرنا چاہتے تھے۔ آمنہ کیساتھ ازدواج کے بعد، پھر یہ نور عبد اللہ کے چہرے پر نہیں دیکھا گیا اور حضرت آمنہ کے رحم میں منتقل ہو گیا۔
بعض منابع میں
یہود کی عبد اللہ کیساتھ
دشمنی اور ان کی جانب سے ان کے قتل کے عزائم کی وجہ اسی نور کے مشاہدے کو قرار دیا جاتا ہے۔
ابن شہر آشوب المناقب میں یوں نقل کرتے ہیں:
مکہ میں فاطمہ بنت مرہ نامی ایک خاتون تھی کہ جس نے بہت سی کتب کا مطالعہ کر رکھا تھا اور اس کے پاس ماضی اور مستقبل کے بارے میں معلومات تھیں، اس
خاتون نے ایک دن عبد اللہ کو دیکھا تو کہنے لگی: تم وہی لڑکے ہو جس کیلئے تمہارے باپ نے سو اونٹ فدا کیے تھے؟! عبد اللہ نے کہا: ہاں۔ فاطمہ نے کہا: کیا تم سو اونٹوں کے بدلے ایک مرتبہ میرے ساتھ مقاربت کرو گے؟ عبد اللہ نے کہا: اگر
حرام طریقے سے ایسا چاہتی ہو تو میرے لیے اس کام سے
موت زیادہ آسان ہے اور اگر
حلال راستے سے چاہتی ہو تو یہ ابھی فراہم نہیں ہوا ہے پس کس طرح یہ تقاضا کر رہی ہو؟! عبد اللہ چلے گئے اور اسی دوران ان کے والد عبد المطلب نے ان کا آمنہ کیساتھ نکاح کر دیا۔ کچھ مدت کے بعد عبد اللہ کو وہ خاتون ملی۔ انہوں نے بطور امتحان اسے کہا: کیا اب تم آمادہ ہو کہ میرے نکاح میں آ جاؤ اور جس کا تم نے کہا تھا، مجھے دے دو؟! فاطمہ نے عبد اللہ کے چہرے پر نگاہ کی اور کہا: اب نہیں، کیونکہ وہ نور جو تمہارے چہرے پر تھا، جا چکا ہے۔ پھر اس نے پوچھا: میرے ساتھ پچھلی گفتگو کے بعد تم نے کیا عمل انجام دیا ہے؟ عبد اللہ نے آمنہ کیساتھ اپنے ازدواج کی داستان سنائی، فاطمہ نے کہا: میں نے اس دن تمہارے چہرے پر نور
نبوت کا مشاہدہ کیا تھا اور میں چاہتی تھی کہ یہ نور میرے
رحم میں منتقل ہو جائے مگر خدا نے نہیں چاہا اور
ارادہ فرمایا کہ اسے ایک دوسری جگہ پر قرار دے، پھر اظہار افسوس کیلئے اس نے چند شعر کہے۔
ابن ہشام نے اپنی سیرت میں اور دیگر سیرت نویسوں نے اس داستان کی طرف اشارہ کیا ہے۔
بعض معاصرین نے مختلف دلائل و شواہد از قبیل ان روایات کے داستانی اسلوب، ان سب کے
ضعف سند، ان میں سے بعض روایات کی اسناد میں
کعب الاحبار جیسے افراد کے وجود، ان کے باہمی تناقض، مکہ میں یہودیوں کی عدم موجودگی، ان میں سے بعض روایات کا عبد اللہ کی شان اور مقام سے سازگار نہ ہونا کہ جس میں خاتون کی تجویز کی طرف مائل ہونے کی بات کی گئی ہے اور اسی طرح بعد میں کئی صدیوں تک ان روایات کی عدم شہرت اور عدم نقل؛ کے سبب انہیں نقد کیا ہے اور رد کر دیا ہے۔
آنحضرتؐ کا حمل ٹھہرنے کے بعد حضرت آمنہ کو کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی اور یہ اس زمانے کے اعتبار سے ایک غیر معمولی واقعہ تھا کیونکہ ان دنوں
حجاز اور بالخصوص شہر مکہ کی نامناسب آب و ہوا کے بموجب
حمل کا دورانیہ بڑی سختی سے گزرتا تھا۔ بعض روایات کے مطابق حضرت محمدؐ کے حمل کی مدت آمنہ کیلئے بہت آسان تھی جیسا کہ
ابن سعد نے بھی زہری سے نقل کیا ہے کہ آمنہ نے فرمایا: جب مجھے اپنے فرزند کا حمل ٹھہرا، اس وقت سے وضع حمل تک مجھے کسی قسم کی سختی اور دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
اسی طرح انہوں نے اس پوری مدت میں تکلیف،
شکم درد اور اسی طرح حاملہ خواتین والی کسی بیماری کی
شکایت نہیں کی۔ آپ نے اس قدر سبک اور اتنا بابرکت حمل کسی دوسری عورت کا نہ پایا۔
مزید برآں، ابن سعد نے آمنہ سے نقل کرتے ہوئے اس حوالے سے ایک دوسری روایت نقل کی ہے: جب مجھے پیغمبرؐ کا حمل ہوا، تو مجھے پتہ نہیں چلا کہ میں حاملہ ہو چکی ہوں اور نہ کسی قسم کا بوجھ محسوس ہوا جیسا کہ دیگر خواتین کو محسوس ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک دن میں
خواب اور بیداری کی درمیانی کیفیت میں تھی تو کوئی (فرشتہ) میرے پاس آیا اور کہا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم حاملہ ہو چکی ہو؟ گویا میں نے کہا: نہیں معلوم۔ کہنے لگا: تم اس
امت کے سرور اور پیغمبرؐ کا حمل اٹھائے ہوئے ہو۔۔۔ تو میں نے اپنے حمل کا یقین کر لیا۔ اس کے بعد وضع حمل تک وہ میرے پاس نہیں آیا اور وضع حمل کے وقت جب وہ میرے پاس آیا تو کہنے لگا: کہو میں اسے حاسدوں کے
شر سے خدائے یکتا کی پناہ میں قرار دیتی ہوں اور میں نے یہ
ذکر کہنا شروع کر دیا۔
تمام تاریخی منابع کا اتفاق ہے کہ پیغمبرؐ
مکہ شہر میں متولد ہوئے مگر تولد کے دقیق
مقام کی تعیین میں دو قول ہیں:
۱۔ مشہور مصدقہ روایت کے مطابق آمنہ ازدواج کے بعد
شعب بنی ہاشم میں واقع عبد اللہ کے گھر میں منتقل ہو گئی تھیں۔ یہی جگہ بعد میں
شعب ابی طالب یا
شعب علی کے نام سے معروف ہوئی۔
اسی مقام پر نبی کریمؐ کی ولادت ہوئی کہ جسے بعد میں مولد النبی کا نام دیا گیا۔
بعد میں رسول خداؐ نے یہ مکان
عقیل بن ابی طالب کو بخش دیا اور عقیل کی اولاد نے اسے
محمد بن یوسف ثقفی کو فروخت کر دیا اور محمد بن یوسف نے اسے اپنے گھر میں شامل کر لیا اور یہ اس کے نام پر مشہور ہو گیا۔
ہارون کے زمانے میں اس کی ماں خیزران نے وہ جگہ لے لی اور اسے محمد بن یوسف کے گھر سے جدا کر دیا اور وہاں ایک مسجد تعمیر کی جو بعد میں زیارت گاہ کی حیثیت اختیار کر گئی۔ مگر جب
وہابیوں نے حجاز پر قبضہ کیا اور مکہ پر مسلط ہو گئے اور آئمہ
دین اور بزرگان اسلام کی
قبور کو منہدم کر دیا تو اس مقام کو بھی گرا دیا اور اسے ملبے اور گندگی کا ڈھیر بنا دیا۔ مکہ کے سابق مئیر شیخ عباس قطان کے اصرار سے اور
ملک عبد العزیز کے نام اس کی درخواست کے سبب یہ طے پایا کہ وہاں ایک کتاب خانہ تعمیر کر دیا جائے کہ جو آج «مکتبة مکة المکرمه» کے نام سے معروف ہے۔
۲۔ ایک دوسرا غیر مشہور قول موجود ہے کہ جس کی رو سے آنحضرتؐ کی ولادت
کوہ صفا کے نزدیک واقع ایک گھر میں قرار دی گئی ہے۔
پیغمبر اکرمؐ کی زندگی کے بارے میں
تاریخ کے اختلافی ترین مسائل میں سے ایک آپؐ کی تاریخ ولادت سے متعلق اختلاف ہے کہ اگر کوئی اس حوالے سے سب اقوال کو جمع کرنا چاہے تو ان کی تعداد بیس سے زیادہ ہے۔
مقریزی نے اس بارے میں بہت سے اقوال کو جمع کیا ہے اور انہیں
امتاع الاسماع میں ذکر کیا ہے۔
تاہم
شیعہ محدثین کے نزدیک مشہور یہ ہے کہ آنحضرتؐ بروز جمعۃ المبارک ۱۷
ربیع الاول عام الفیل (جس سال ابرھہ نے خانہ
کعبہ کو منہدم کرنے کے قصد سے لشکرکشی کی مگر ناکام ہوا اور عذاب الہٰی سے دوچار ہوا) کو مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ البتہ اکثر علمائے اہل سنت نے پیغمبرؐ کی ولادت کی تاریخ ۱۲ ربیع الاول بروز
سوموار کو قرار دیا ہے۔
اسی طرح مشہور یہ ہے کہ آنحضرتؐ کی ولادت
جمعۃ المبارک کے دن
طلوع صبح کے وقت ہوئی ہے۔ مرحوم
ثقۃ الاسلام کلینیؒ رسول خداؐ کی تاریخ ولادت کے حوالے سے اہل سنت کے ہم خیال ہیں اور انہوں نے بھی ۱۲ ربیع الاول کا قول اختیار کیا ہے
کہ جس کے بارے میں مرحوم مجلسیؒ نے
تقیہ کا احتمال دیا ہے۔
بہرحال حضرت محمدؐ کی ولادت کا دقیق سال معلوم نہیں ہے۔
ابن ہشام اور بعض دوسرے لوگوں نے آپؐ کی ولادت کو
عام الفیل میں لکھا ہے۔ مگر مشخص نہیں ہے کہ عام الفیل حتمی طور پر کون سا سال تھا؛ چونکہ مورخین نے پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کا سال سنہ ۶۳۲ء قرار دیا ہے اور وصال کے وقت آپؐ ۶۳ برس کے تھے، اس لیے ممکنہ طور پر پیغمبرؐ کی ولادت کا سال ۵۶۹ء یا ۵۷۰ء ہے۔
دوسری طرف بعض منابع نے حمل ٹھہرنے کی تاریخ
ایام تشریق یعنی گیارہ یا بارہ یا تیرہ
ذی الحج قرار دی ہے
اس قول کی بنا پر یہ کہا جاتا ہے کہ: چونکہ حمل کی مدت طبیعی طور پر مکمل ہوئی تھی اور اس کے بارے میں کوئی معجزہ منقول نہیں ہے، اس لیے آپؐ کی ماہ
رمضان میں ولادت کا قول ربیع الاول کی نسبت صحیح تر ہے!
اس اشکال کا جواب علامہ مجلسیؒ نے ان الفاظ میں دیا ہے: یہ تاریخ
نسیء کے حساب سے ہے جو زمانہ
جاہلیت میں مرسوم تھا۔ ’’نسیء‘‘ کا معنی یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت کے
عرب اپنی مرضی سے
حرام مہینوں کہ جن میں سے ایک ماہ
ذی الحج بھی ہے؛ کو جا بجا کر دیا کرتے تھے اور اصل ماہ حرام کو ماننے کی بجائے اپنے فرض کردہ ماہ حرام کے مطابق چلتے تھے اور مناسک حج کی ادائیگی ذی الحج کی بجائے اپنی مرضی کے کسی مہینے میں کر لیتے تھے؛ قرآن کریم نے اس عمل کو
کفر میں زیادتی کا نام دیا ہے اور اس سے منع کیا ہے۔
اِنَّمَا النَّسیءُ زِیادَةٌ فِی الْکُفْرِ نسیء (جا بجا کرنا اور ماہ حرام کو مؤخر کرنا) مشرکین کے کفر میں اضافہ ہے۔ اس اعتبار سے اس سال کا حج
جمادی الثانی کے مہینے میں انجام پایا تھا اور حمل بھی اسی مہینے تھا جیسا کہ بعض روایات میں منقول ہے۔
روایات میں ہے کہ آنحضرتؐ کی
شب ولادت کو دنیا بھر میں اہم حوادث اور واقعات رونما ہوئے جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔ شاید اس بارے میں جامع ترین حدیث وہ ہے جو مرحوم
صدوقؒ نے کتاب
امالی میں اپنی سند سے
امام صادقؑ سے روایت کی ہے اور اس سے ملتی جلتی دیگر روایات بھی منابع میں موجود ہیں۔
ولادت کے وقت رونما ہونے والے حوادث کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔ سارے بت منہ کے بل گر گئے۔
۲۔ مدائن میں
کسریٰ کا
ایوان لرز اٹھا اور اس کے ۱۳ یا ۱۴ کنگرے گر گئے۔
۳۔ فارس کا آتشکدہ ہزار سال کے بعد خاموش ہو گیا۔
۴۔
ساوہ میں واقع دریاچہ خشک ہو گیا۔
۵۔ مکہ کی فضا میں ایک نور چمکا جس سے ہر طرف روشنی ہو گئی۔
۶۔
شیاطین اور
جنات کا آسمانوں سے دھتکارا جانا اور انہیں آسمانی خبروں اور
وحی کو سننے سے روکا جانا۔ شیاطین اس وقت تک عالم بالا کی طرف جا سکتے تھے اور
ملائکہ کی آوازیں سنتے تھے؛ مگر اس کے بعد انہیں ہمیشہ کیلئے دھتکار دیا گیا۔
اس حوالے سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے:
لم یرم بنجم منذ رفع عیسیٰ حتی بعث رسول الله امام صادقؑ اس بارے میں فرماتے ہیں: شیاطین پہلے آسمانوں کی طرف آمد و رفت رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ حضرت عیسیؑ کی ولادت کے بعد تین آسمانوں سے اور نبی کریمؐ کی ولادت کے بعد ساتوں آسمانوں سے راندے گئے۔
فخر رازی آیت شریفہ:
وَ اَنَّا کُنَّا نَقْعُدُ مِنْها مَقاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ یَسْتَمِعِ الْآنَ یَجِدْ لَهُ شِهاباً رَصَدا (اور یہ کہ پہلے ہم وہاں بہت سے مقامات میں (خبریں) سننے کے لئے بیٹھا کرتے تھے۔ اب کوئی سننا چاہے تو اپنے لئے انگارا تیار پائے) کی تفسیر میں
کہتے ہیں کہ یہ آسمانوں سے شیاطین کو دھتکارنے کے بارے میں ہے۔
۷۔ تمام جادوگروں کا
سحر اس موقع پر باطل ہو گیا اور کاہنوں کی
کہانت جاتی رہی۔
ابن شہر آشوب امام صادقؑ کا یہ قول نقل فرماتے ہیں: پیغمبرؐ کی ولادت کے وقت بت
زمین پر منہ کے بل گر گئے۔ کوئی ایسا بادشاہ نہیں تھا کہ جس کا تاج سرنگوں نہ ہوا ہو اور اس کی زبان اس دن گنگ نہ ہوئی ہو۔ کاہن اپنی
کہانت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس رات
حجاز کی سرزمین سے ایک نور ساطع ہوا اور مشرق تک پھیل گیا۔
ان میں سے بعض واقعات اہل سنت کے منابع میں بھی ذکر ہوئے ہیں۔
انس بن مالک سے روایت ہے کہ پیغمبرؐ نہ بہت دراز قد تھے اور نہ ہی کوتاہ قامت، نہ بہت ہی سفید تھے اور نہ سیاہی مائل گندم گوں.
آپ کے گیسوئے مبارک نہ بہت زیادہ گھنگھریالے تھے اور نہ ہی بالکل سیدھے اور ہموار
براء بن عاذب نے بھی کہا ہے: آپؐ کے گیسوئے مبارک کاندھے تک ہوتے تھے۔ آپؐ کے شانے کشادہ تھے، آپؐ میانہ قد تھے۔
امیر المومنینؑ سے روایت ہے کہ پیغمبرؐ کے ہاتھ پاؤں پرگوشت اور ضخیم تھے۔ جب آپؐ چلتے تھے تو بدن کا جھکاؤ آگے کی طرف ہوتا تھا، گویا نشیب میں چل رہے ہوں۔
امیر المومنینؑ مزید فرماتے ہیں: پیغمبر اکرمؐ فربہ اور پرگوشت نہ تھے، آپؐ کا چہرہ مبارک کچھ حد تو گول تھا۔ چہرہ مبارک سرخی مائل، آنکھیں مکمل سیاہ اور پلکیں لمبی اور کشیدہ تھیں۔
حضرت
امام رضاؑ نے اپنے آبا و اجداد سے نقل فرمایا ہے: پیغمبرؐ کا چہرہ مبارک سرخی مائل سفید تھا۔ آپ کی آنکھیں مکمل سیاہ اور گیسو سیدھے اور ہموار تھے۔ آپ کی ریش گھنی تھی اور بال کانوں کی لو کو چھو رہے ہوتے تھے۔ آپ کی گردن چاندی جیسی پتلی تھی اور ہنسلی کی ہڈی سونے کی طرح چمکتی تھی۔ ہاتھ اور پاؤں ضخیم تھے اور ٹخنوں کی ہڈی ابھری ہوئی تھی۔
پیغمبر اکرمؐ کا ایک وصف جس کی طرف تاریخی و حدیثی منابع میں اشارہ کیا گیا ہے،
مہر نبوت ہے۔ حضرت علیؑ جو آپؐ کے سب سے زیادہ نزدیکی تھے، فرماتے ہیں: آنحضرتؐ کے شانوں کے مابین مہر نبوت موجود تھی۔
[ترمیم]
نبی کریمؐ کے سر سے بچپن میں ہی ماں باپ کا سایہ اٹھ گیا تھا۔ جب آپؐ یتیم تھے تو اللہ تعالیٰ نے پناہ دی اور عبد المطلب نے آپؐ کی سرپرستی کا ذمہ لے لیا کہ جنہیں آپؐ سے بہت محبت تھی۔ خداوند متعال نے آپؐ کو شرح صدر عطا فرمائی جس کی بدولت آپؐ کے اندر حقائق کے ادراک کی آمادگی و استعداد پیدا ہو گئی۔
آپؐ کے بچپن کا قابل توجہ پہلو کہ جس پر
قرآن کریم زور دیتا ہے، وہ آپؐ کا یتیم ہونا ہے۔ جب آپؐ کی والدہ گرامی
آمنہ بنت وھب حاملہ تھیں، تو آپؐ کے والد گرامی
عبد اللہ بن عبد المطلب انتقال فرما گئے اور ۵ یا ۶ برس کے سن میں آپؐ کی والدہ گرامی بھی
مدینہ کے نزدیک مقام
ابواء پر انتقال فرما گئیں اور یوں آپؐ والد اور والدہ دونوں طرف سے
یتیم ہو گئے۔ قرآن کریم کی دو آیات میں آپ کے بچپن اور یتیم ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیماً فَآوَی بھلا اس نے تمہیں یتیم پا کر جگہ نہیں دی؟ (بےشک دی) ؟!
وَوَجَدَکَ ضَالاًّ فَهَدَی اور رستے سے ناواقف دیکھا تو رستہ دکھایا۔
آیت میں پہلے پیغمبرؐ کی یتیمی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب آنحضرتؐ
شکم مادر میں تھے تو آپؐ کے والد گرامی جناب عبد اللہ دنیا سے رخصت ہو گئے اور جب ۶ سال کے تھے تو آپؐ کی والدہ گرامی بھی انتقال فرما گئیں تو خدا نے آپؐ کے دادا جناب عبد المطلب کو آپؐ کی پناہ گاہ قرار دیا؛ جب ۸ سال کے تھے تو آپؐ کے دادا بھی دنیا سے چلے گئے تو پھر چچا حضرت ابوطالب کی پناہ میں دے دیا کہ جو آپؐ کو اپنی
جان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے اور آپؐ کی حفاظت کرتے تھے۔ دوسری آیت میں فرماتا ہے: آپ کو گم شدہ پایا تو ہدایت دی۔ مفسرین اور تاریخ نویسوں نے کہا ہے: جب حضرت محمدؐ
حلیمہ سعدیہ کے ساتھ عبد المطلب کے پاس آ رہے تھے تو راستے میں گم ہو گئے۔ بعض نے کہا ہے: آپ
شام کے راستے میں تھے اور بعض نے کہا ہے کہ آپؐ
مکہ کے دروں میں راستہ گم کر بیٹھے اور خدا نے آپؐ کو ہدایت کی اور راستے کی طرف پلٹا دیا۔ مرحوم طبرسی نے یہ اقوال مجمع البیان میں نقل کیے ہیں
لیکن
علامہ طباطبائی نے یہاں پر جغرافیائی راستہ گم کرنے سے بالاتر معنی مراد لیا ہے اور فرمایا ہے: یہاں پر
ضلال سے مراد گمراہی نہیں ہے بلکہ مراد عدم
ہدایت ہے اور آنحضرتؐ کے ہدایت نہ رکھنے سے مقصود آنجنابؐ کا ہدایت الٰہی سے قطع نظر اپنا حال ہے، فرمانا یہ چاہتا ہے کہ اگر خدا کی ہدایت نہ ہو تو آپؐ اور کوئی بھی انسان اپنی طرف سے ہدایت نہیں رکھتے ہو سوائے خدائے سبحان کی ہدایت کے؛ پس رسول اکرمؐ خدا کی ہدایت کے علاوہ ضال و بے راہ تھے۔
سرزمین مکہ کے ’’لم یزرع‘‘ ہونے کی وجہ سے قریش کا اصل پیشہ
تجارت تھا اور عبد اللہ کے دادا یعنی ہاشم بن عبد مناف وہ پہلی شخصیت تھے جنہوں نے تجارت کیلئے گرمیوں اور سردیوں کے تجارتی سفروں کی بنیاد رکھی تھی۔
جناب عبد اللہ تجارت کی غرض سے قریش کے کاروان کے ہمراہ شام کی طرف گئے جبکہ آپ کی زوجہ آمنہ حاملہ تھیں۔ آپ شام کے تجارتی
سفر سے واپسی کے دوران راستے میں بیمار ہوئے اور اپنے ننہیال ’’بنی عدی بن نجار‘‘ کے پاس ٹھہر گئے لیکن ان کی بیماری طول پکڑ گئی اور ایک ماہ کے بعد بچیس برس کے سن میں وہیں پر انتقال فرما گئے۔
عبد اللہ بن عبد المطلب کی وفات کے بارے میں دو قول منقول ہیں:
۱۔ ایک قول یہ ہے کہ عبد اللہ بن عبد المطلب اپنے فرزند حضرت محمدؐ کی ولادت سے پہلے ہی
یثرب میں انتقال فرما گئے تھے
اور وہیں پر آپ کو دفن کیا گیا۔ ابن اثیر نے کتاب ’’اسد الغابۃ‘‘ میں اس قول کو زیادہ ٹھوس اور مستحکم قرار دیا ہے۔.
۲۔ ایک دوسری روایت کے مطابق عبد اللہ کی وفات حضرت محمدؐ کی پیدائش کے بعد ہوئی۔.
یعقوبی اور چند دوسرے افراد کا خیال ہے کہ پیغمبرؐ کی ولادت عبد اللہ کی وفات کے بعد ہوئی اور یہ مسئلہ اجماعی ہے.
اور جناب عبد المطلب کے ابوطالب کے نام اشعار کہ جن میں رسول خداؐ کا خیال رکھنے کی تلقین ہے؛ بھی اسی قول کی تائید کرتے ہیں۔.
عبد اللہ بن عبد المطلب کی اپنے عزیز فرزند حضرت محمدؐ کی ولادت کے بعد وفات کی درست تاریخ طے کرنے کے حوالے سے تاریخ کے صفحات میں مختلف اقوال نقل ہوئے ہیں۔ بعض منابع کے مطابق عبد اللہ کی وفات آپؐ کی ولادت کے دو ماہ بعد ہوئی؛
یہ قول ایک روایت میں امام صادقؑ سے نقل ہوا ہے اور مرحوم کلینی نے بھی اسے اختیار کیا ہے۔
بعض دیگر افراد نے عبد اللہ کی وفات کو ولادت کے سات ماہ بعد نقل کیا ہے
اور بعض نے ولادت کے ایک سال بعد عبد اللہ کی وفات کی خبر دی ہے۔
مگر اس امر پر اتفاق ہے کہ پیغمبرؐ کے والد گرامی کی رحلت مدینہ میں ہوئی اور آپ کو ’’دار النابغہ‘‘ نامی جگہ میں سپرد خاک کیا گیا
بلکہ طبری نے اپنی تاریخ میں واقدی سے روایت کی ہے کہ اس امر کہ عبد اللہ کی وفات مدینہ میں ہوئی اور وہیں پر آپ کو سپرد خاک کیا گیا تھا؛ کے بارے میں ہمارے لوگوں میں اختلاف نہیں ہے۔
جناب عبد اللہ کی قبر مدینہ میں باب السلام کے روبرو، سوق اللیل کی جانب کہ جس کا پرانا نام’’دار النابغۃ‘‘ تھا؛ واقع ہے۔ عثمانی دور
حکومت میں اس پر گنبد اور پرشکوہ عمارت موجود تھی؛ مگر اس وقت وہ تمام آثار منہدم ہو چکے ہیں اور قبر کو غربی ضلع کی مسجد کی توسیع کے وقت مسجد میں شامل کر لیا گیا تھا لیکن نشان قبر کو مٹا دیا گیا ہے۔
مورخین نے لکھا ہے کہ نبی کریمؐ کی والدہ گرامی ولادت کے پہلے دن سے ہی اپنے شوہر کی موت کے غم کی وجہ سے اپنے لخت جگر کو پیٹ بھر کر دودھ پلانے سے قاصر تھیں۔ آمنہ نے صرف سات دن تک اپنے نومولود کو دودھ پلایا اور پھر انہیں سیر کرنے سے عاجز ہو گئیں۔
اسی وجہ سے عبد المطلب کی تجویز پر اور اس زمانے کی رسم کے تحت آپؐ کو دایہ کے سپرد کر دیا گیا۔
حضرت محمدؐ کو دودھ پلانے کا اعزاز سب سے پہلے ابولہب بن عبد المطلب کی کنیز ثوبیہ کو حاصل ہوا۔
ثوبیہ ابولہب کی کنیز تھی اور انہی دنوں اس کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی تھی؛
اس بچے کا نام
مسروح تھا کہ جس کے دودھ میں اس نے آںحضرتؐ کو شریک کیا تھا۔
حضرت محمدؐ نے صرف چند دنوں تک ثوبیہ کا دودھ پیا تھا۔
ایک روایت میں اس کی مدت نو دن ذکر ہوئی ہے۔
سیرت نگارون نے لکھا ہے کہ ثوبیہ نے رسول خداؐ سے پہلے آپؐ کے چچا
حمزہ کو بھی دودھ پلایا تھا اور حضرت محمدؐ کے بعد آپؐ کے پھوپھی زاد
ابو سلمہ مخزومی،
عبد اللہ بن جحش اور
جعفر بن ابیطالب کو بھی دودھ پلایا۔ اسی وجہ سے یہ چاروں افراد پیغمبرؐ کے
رضاعی بھائی شمار ہوتے تھے۔
اسی لیے جب حمزہ کی بیٹی نے پیغمبرؐ سے ازدواج کی تجویز دی تو آپؐ نے اس کو اپنے لیے
حلال قرار نہیں دیا۔
بعض سیرت نگاروں نے روایات میں
تناقض کے باعث اس واقعے کی تشکیک کی ہے؛ جیسے جعفر مرتضیٰ عاملی؛
جبکہ بعض مورخین اسے ثابت کرنے پر مصر ہیں۔
اس کے بعد حضرت محمدؐ کی رضاعت کی مدت ختم ہونے تک ایک صحرا نشین خاتون حلیمہ سعدیہ نے آپؐ کی دودھ پلائی کا ذمہ لیا اور یہ سعادت انہیں نصیب ہوئی۔
چونکہ اہل مکہ اپنے بچوں کو
فصاحت سکھانے کی غرض سے صحرائی قبائل کے سپرد کرتے تھے اور پیغمبرؐ نے بھی شیرخوارگی اور بچپن کا زمانہ مکمل طور پر بنی سعد میں گزارا تھا، اس لیے خود کو عربوں میں سے فصیح ترین مرد کہتے تھے اور فرماتے ہیں: انا اعربکم، انا قرشی و استرضعت فی بنی سعد؛ میں تم سب سے زیادہ فصیح ہوں کیونکہ میں قرشی بھی ہوں اور میں نے
قبیلہ بنی سعد میں شیرخوارگی کا زمانہ گزارا ہے۔
بعض اہل سنت سیرت نگاروں نے حضرت محمدؐ کی دیکھ بھال کا فریضہ حلیمہ کو سونپے جانے کے بارے میں لکھا ہے کہ کوئی دایہ آپ کی دودھ پلائی پر راضی نہیں ہو رہی تھی، کیونکہ یہ کہا جا رہا تھا کہ یہ
یتیم ہے؛ لہٰذا دائیوں کو یہ خدشہ تھا کہ کہیں انہیں مناسب اجرت نہ مل پائے۔ اس صورتحال میں حلیمہ نے مجبور ہو کر حضرتؐ کو قبول کر لیا۔
مگر معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ محمدؐ کی سرپرستی اس وقت عبد المطلب کے ذمے تھی۔ پیغمبرؐ کے دادا کی دولت اس قدر زیادہ تھی کہ انہی تاریخی کتب کے بقول وہ پیغمبرؐ کے والد جناب عبد اللہ کے بدلے سو اونٹ کی قربانی پیش کرنے پر آمادہ ہو گئے تھے۔ دوسری جانب کتاب
بحار الانوار کی ایک روایت میں منقول ہے کہ مجاہد، پیغمبرؐ کے چچا
عباس سے پوچھتا ہے: کیا دائیوں میں محمدؐ کی دودھ پلائی کا ذمہ لینے کے حوالے سے باہمی چپقلش اور جھگڑا ہوا تھا؟! عباس کہتے ہیں: ہاں، خدا کی قسم! ایسا ہی ہوا تھا۔ عربی عبارت یہ ہے: «قد تنازعت الظئر فی رضاع محمد؟! قال: ای و اللّه»
اس معاملے میں شیعہ سیرت نگاروں جیسے ابن شہر آشوب کا مناقب میں موقف اہل سنت سیرت نگاروں سے متضاد ہے۔
حلیمہ نے پیغمبرؐ کی دودھ پلائی کی ذمہ داری اٹھانے کے بعد اپنی زندگی میں
خیر و
برکت کے آثار کا مشاہدہ کیا۔
دودھ پلائی کی دو سالہ مدت پوری ہونے کے بعد حلیمہ آنحضرتؐ کو مکہ میں ان کی والدہ کے پاس لے آئیں؛ مگر مکہ میں
وبا کے پھیلنے، آمنہ کے خوف کہ کہیں محمدؐ وبا کا شکار نہ ہو جائیں اور حلیمہ کے اصرار کہ وہ بچے کی برکات کی وجہ سے اسے زیادہ عرصہ تک دیکھ بھال کرنا چاہتی ہیں؛ کے پیش نظر ایک مرتبہ پھر شیرخوار بچے کو حلیمہ کے سپرد کر دیا گیا۔
ارجعی بابنی فانی اخاف علیه وباء مکه...؛ میرے بچے کو واپس لے جاؤ کیونکہ مجھے اس کے وبا میں مبتلا ہونے کا خوف ہے۔
تاریخی شواہد کی رو سے پیغمبر اکرمؐ کی زندگی معجز نما کرامات و حوادث سے عبارت تھی جن سے آنحضرتؐ کی عظمت اور شخصیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان فضائل کے باوجود بعض مورخین نے ایسے حوادث و واقعات کو پیغمبرؐ سے منسوب کیا ہے کہ جن سے آنحضورؐ کی توہین کا پہلو نکلتا ہے اور آپؐ کی
عصمت اور عظمت پر اعتراضات پیدا ہوتے ہیں۔ ان واقعات میں سے ایک ’’شق الصدر‘‘ کی داستان ہے۔ اہل سنت کے بعض سیرت نگاروں اور محدثین نے اس واقعے کو نقل کرتے ہوئے کچھ افسانوی مطالب کو پیغمبرؐ کی طرف نسبت دی ہے کہ جو نبی اعظمؐ کی شخصیت و عصمت کے ساتھ
متعارض ہیں۔ یہاں تک کہ بعض کتابوں میں پیغمبرؐ کی زندگی میں اس واقعے کے تکرار کا ذکر بھی ملتا ہے جیسا کہ
حلبی نے اپنی سیرت میں نقل کیا ہے۔
اہل سنت کے بعض تاریخی و حدیثی منابع کی رو سے رسول خداؐ ۴ یا ۵ سال کے تھے کہ آپؐ کے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا، جو شق صدر کے نام سے معروف ہے۔ ان منابع نے حلیمہ سعدیہ سے نقل کیا ہے کہ جب میں دوسری مرتبہ حضرت محمدؐ کو اپنے قبیلے میں لے گئی تو ایک دن آپؐ دوسرے بچوں کے ساتھ خیموں کے پیچھے چلے گئے، اچانک ان کا
رضاعی بھائی حیران و پریشان ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا: ہمارے قریشی بھائی کی مدد کرو کیونکہ دو سفید پوش مردوں نے اسے پکڑ کر لٹایا پھر اس کے سینے کو چیر کر اس میں سے ایک چیز نکال لی ہے۔ حلیمہ کہتی ہیں: میں اپنے شوہر کے ہمراہ چل پڑی، بچے کو صحرا میں ایک جگہ پر اس حالت میں پایا کہ اس کا رنگ اڑا ہوا تھا اور وہ مضطرب و خوفزدہ تھا۔ بے اختیار اسے آغوش میں لیا اور اس سے پوچھا: بیٹا! تجھے کیا ہوا ہے؟! اس نے کہا: دو سفید پوش مرد میرے پاس آئے تھے اور انہوں نے مجھے لٹا کر میرا سینہ چیرا پھر میرے دل کو نکالا اور اس میں سے ایک سیاہ غدود کو کھینچ دیا، پھر اسے سنہری طشت میں دھو کر دوبارہ اپنی جگہ پر لگا دیا۔
اہل سنت کے حدیثی و تاریخی منابع میں اس داستان کو مختلف بیانات کے ساتھ نقل کیا گیا ہے اور اسے پیغمبرؐ کے فضائل و کرامات میں سے شمار کیا ہے۔
حلیمہ اس واقعے سے سخت پریشان ہوئیں اور سیرت نگاروں کے بقول وہ آنحضورؐ کو آپؐ کی والدہ اور دادا کے پاس واپس چھوڑ آئیں۔
بعض اہل سنت مفسرین نے اس واقعے کی تائید میں
سورہ انشراح کی آیات سے تمسک کیا ہے؛ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: اَ لَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَک • وَ وَضَعْنا عَنْکَ وِزْرَک؛
کیا ہم نے آپ کا سینہ کشادہ نہیں کیا اور کیا ہم نے آپ کا بوجھ نہیں اتارا۔ اہل سنت مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں مختلف روایات ذکر کی ہیں اور یہ توہم کیا ہے کہ شرح صدر سے مراد وہی پیغمبرؐ کے شکم کو چاق کرنا ہے۔
اس داستان کی جڑوں کا سراغ حدیثی کتب صحیح بخاری و مسلم یا اہل سنت کی دیگر تفسیری کتابوں میں لگایا جا سکتا ہے۔
۱۔ بخاری نے صحیح میں
ابو ھریرہ سے نقل کیا ہے کہ: آدم کی اولاد کا کوئی بچہ پیدا نہیں ہوتا مگر یہ کہ شیطان ولادت کے وقت اسے مس کرتا ہے سوائے مریم اور ان کے فرزند کے۔
۲۔
صحیح مسلم میں ہے: اولاد آدم میں سے کوئی بچہ پیدا نہیں ہوتا مگر یہ کہ
شیطان کے ڈنک مارنے سے گریہ کرتا ہے۔
۳۔ اہل سنت کی تفاسیر میں آیت ’’اِنِّی اُعیذُها بِکَ وَ ذُرِّیَّتَها مِنَ الشَّیْطانِ‘‘
کے ذیل میں عیسیؑ کے سوا باقی اولاد آدم کو
مس کرنے کے بارے میں کچھ مطالب نقل ہوئے ہیں۔
’’شق الصدر‘‘ کی داستان سے مسلمانوں کے ایک اہم عقائدی اصول یعنی عصمت پیغمبرؐ پر سوال اٹھتا ہے! اس کے علاوہ سندی، متنی، عقلی اور اعتقادی سوالات بھی سامنے آتے ہیں کہ جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جائے گا۔
البتہ
علمائے امامیہ کی جانب سے اس داستان کی عدم صحت کے اثبات کے بعد شیعہ کی قدیم تاریخی کتب جیسے
شیخ مفیدؒ کی
الارشاد،
شیخ طبرسیؒ کی
اعلام الوریٰ باعلام الھدیٰ اور
علی بن عیسیٰ اربلی کی
کشف الغمہ کہ جن میں پیغمبرؐ اور معصومینؑ کی زندگی کے تاریخی حوادث پر روشنی ڈالی گئی ہے؛ میں اس واقعے کی طرف معمولی سا بھی اشارہ نہیں کیا گیا۔ اسی طرح زیر نظر روایت کی سند اہل سنت کے منابع کی رو سے بھی مخدوش ہے۔ اہل سنت کی رجالی کتب کی طرف رجوع سے معلوم ہوتا ہے کہ
ثور بن یزید شامی اس روایت کا ایک ناقل ہے اور طبری نے یہ داستان اس سے نقل کی ہے جبکہ اس راوی پر
قدریہ جماعت میں سے ہونے کا بھی الزام ہے اور علما نے اس کی توثیق نہیں کی ہے۔
ابن حجر کہتا ہے: اس کا
دادا صفین میں معاویہ کے لشکر میں شامل تھا اور اس لڑائی میں مارا گیا تھا۔ وہ جب بھی علیؑ کا نام سنتا تو کہتا تھا کہ جس شخص نے میرے دادا کو قتل کیا ہے مجھے وہ پسند نہیں ہے اور جب بھی اس کے سامنے علیؑ کی شان میں جسارت کی جاتی تو یہ سکوت اختیار کر لیتا تھا۔ اس کے علاوہ اس کا تعلق ’’قدریہ‘‘ سے تھا۔
لہٰذا اس پر تہمت ہے کہ اس نے اپنے
مذہب کے اصولوں کے مطابق اس جعلی داستان کو بیان کیا ہے۔
ابن ہشام دو طریقوں سے اس داستان کو نقل کرتا ہے:
الف) (حدثنی جهم بن ابی جهم مولی الحارث بن حاطب الجهمی عن عبد اللّه بن جـعفر بن ابیطالب عن حلیمه سعدیه) حالانکہ طبری نے ’’جھم‘‘ کو ’’مولی عبد اللہ بن جعفر‘‘ذکر کیا ہے۔
ب) ابن ھشام دوسری روایت کو بعض اہل علم سے نقل کرتا ہے، اس طرح سے نقلِ روایت ایک اور سندی ضعف شمار ہوتا ہے؛ کیونکہ معلوم نہیں ہے کہ یہ بعض اہل علم کون لوگ ہیں، نتیجہ یہ کہ یہ خبر مجہول اور ضعیف ٹھہرے گی۔
اس داستان کے متن کا اضطراب اس کی صحت میں تشکیک کا سبب ہو سکتا ہے۔
الف) بعض منابع میں ثور بن یزید سے منقول ابن اسحاق کی روایت میں فرشتوں کی تعداد دو ذکر ہوئی ہے اور پیغمبرؐ سے منقول ہے: اذا اتانی رجلان علیها ثیاب بیض
جبکہ طبری اسی راوی کی زبانی فرشتوں کی تعداد تین تک نقل کرتے ہیں: «اذا اتـانا رهـط ثلاثه معهم بطست.»
ب) ابن اسحاق نے اس وقت پیغمبر کے ساتھ موجود افراد کی تعداد ایک ذکر کی ہے: فبینا انا مع اخ لی»
جبکہ طبری کہتے ہیں کہ پیغمبرؐ اپنے چند ہم جولیوں کے ساتھ تھے۔مع اتراب لی من الصبیان»
ج) جس مقام پر یہ واقعہ پیش آیا، اس کے بارے میں بھی مختلف روایتوں میں اختلاف ہے؛ ابن اسحاق کی روایت میں اس واقعے کی جگہ خیموں اور گھروں کی پچھلی سائڈ بیان کی گئی ہے۔مع اخ لی خلف بیوتنا»
جبکہ طبری کی روایت کے مطابق یہ واقعہ لوگوں کی نظروں سے دور اور صحرا کے وسط میں پیش آیا۔منتبذ من اهل فی بطن واد»
د) اہل سنت کے منابع میں پیغمبرؐ کو اپنی والدہ کے پاس واپس لانے کی وجہ ان کے سینے کا چیرا جانا ذکر کی گئی ہے؛ کیونکہ حلیمہ اور ان کے شوہر ڈر گئے کہ کہیں جنات پیغمبرؐ کو نقصان نہ پہنچا دیں۔ لہٰذا انہوں نے پیغمبرؐ کو ان کی والدہ کے حوالے کر دیا
جبکہ شق الصدر کا واقعہ پیغمبرؐ کے دو یا تین سال کے سن میں نقل کیا گیا ہے حالانکہ سب کا اتفاق ہے کہ پیغمبرؐ کو پانچ سال کی عمر میں ان کی والدہ کے حوالے کیا گیا۔
خلاصہ یہ کہ ’’شق الصدر‘‘ کی روایات کے متن میں اضطراب اور اسناد و رواۃ کا مجہول ہونا بذات خود اس کے تحریف شدہ اور
موضوع ہونے کی دلیل ہے۔
اس مضمون کی روایات قرآنی آیات کے محکمات سے ٹکراتی ہیں۔ قرآنی آیات کے اصول و محکمات میں سے ایک یہ ہے کہ
شیطان کا خدا کے مخلص بندوں پر کوئی زور نہیں ہے۔ مگر اہل سنت کے حدیثی و تفسیری منابع میں ایسی روایات موجود ہیں کہ
شیطان تمام اولاد آدم کو مس کرتا ہے اور شیطان کا ان سب میں حصہ ہے۔ وہ غدود یا خون کا لوتھڑا جو ان روایات کی بنیاد پر پیغمبرؐ کے قلب میں تھا؛ درحقیقت شیطان کے مس کا اثر تھا اور پیغمبرؐ کے قلب میں بھی شیطان کا حصہ تھا۔
اہل سنت کے محدثین اور سیرت نگار اس قبیل کی ضعیف روایات پر یقین رکھتے ہیں حالانکہ یہ قرآن کریم کی متعدد آیات سے ٹکراتی ہیں کہ جن میں پیغمبروں اور اولیائے الٰہی کے قلوب پر شیطان کے ہر طرح کے تسلط اور نفوذ کی نفی کی گئی ہے۔جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: «ان عبادی لیس لک علیهم سلطان»
ایک دوسری آیت میں فرماتا ہے: انه لیس له سلطان علی الذین آمنوا و علی ربهم یتوکلون»
اور آیت و لاغوینهم اجمعین الا عبادک منهم المخلصین»
معاصر اہل سنت عالم ابوریہ کتاب ’’اضواء عـلی السـنه المـحمودیه‘‘ میں لمس شیطان اور شق صدر کی روایات کے قرآنی آیات کے ساتھ تناقض کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’یہ لوگ کس طرح کتاب خدا کو سنت ظنیہ کہ جو مفیدِ ظن ہے؛ کی وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں۔
پیغمبر اکرمؐ کے بارے میں اہل سنت کی کتب میں منقول ’’شق الصّدر‘‘ کا واقعہ تسلیم کر لینا، پیغمبرؐ کی عصمت سے متصادم ہے؛ کیونکہ آیت تطھیر اور دیگر آیات سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ پیغمبرؐ زندگی کے تمام لمحات حتی بچپن میں بھی عصمت کے مقام پر فائز تھے۔ جیسا کہ آیت تطہیر (اِنَّما یُریدُ اللَّهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهیراً) میں ’’یرید‘‘ سے مراد »
ارادہ تکوینی ہے نہ
ارادہ تشریعی؛
ارادہ تشریعی اور
ارادہ تکوینی کسی ایک زمانے سے مخصوص نہیں ہے۔
امامیہ اس امر کے قائل ہیں کہ نبی کریمؐ کی زندگی کے آغاز سے وصال تک آپ کی عصمت کا عقیدہ رکھنا واجب ہے۔
علامہ حلیؒ اس حوالے سے کہتے ہیں: ان السفير الالهی معصوم في جميع احواله قبل البعثة او بعدها.»
علامہ طباطبائی اس بارے میں فرماتے ہیں: و المعنی: ان اللّه سبحانه تستمر ارادته ان یـخصکم بموهبه العصمه باذهاب الاعتقاد الباطل و اثر عمل السییء عنکم اهل البیت و ایراد ما یزیل اثر ذلک علیکم و هی العصمه (معنی یہ ہے کہ اللہ سبحانہ کا مسلسل ارادہ یہ ہے کہ اے اہل بیتؑ تم سے باطل عقائد اور برے عمل کے اثرات کو زائل کر کے عصمت کی عطا کو تم سے مخصوص کر دے؛ یہ ہے عصمت) .»
دوسری طرف سے ’’شق الصدر‘‘ کی داستان کو قبول کرنے کا معنی یہ ہے کہ حضرتؐ کی گناہ سے پاکی جبری اور بلا اختیار تھی؛ اسے آپ پر نافذ کیا گیا تھا۔ اس بنا پر اسے حضرتؐ کی ایک فضیلت کے عنوان سے ذکر نہیں کیا جا سکتا جبکہ دوسری طرف سے پیغمبرؐ کی عصمت پر سوال اٹھتا ہے۔
بہت سے شیعہ قدما نے ان روایات کو غیر حقیقی قرار دیتے ہوئے اس ماجرے کا بالکل ذکر نہیں کیا؛ جیسے شیخ مفیدؒ، شیخ صدوقؒ، کلینیؒ اور ۔۔۔؛ دوسری جانب بعض علما نے اس واقعے کو رد کیا ہے؛ جیسے مرحوم طبرسی نے مجمع البیان میں واقعہ
معراج کے ضمن میں فرمایا ہے: یہ روایت کہ آنحضرتؐ کا سینہ چیرا گیا اور قلب کو دھویا گیا؛ اس کا ظاہر درست نہیں ہے اور یہ قابل تاویل بھی نہیں ہے مگر بڑی مشقت کے ساتھ؛ کیونکہ آنحضرتؐ ہر بدی اور عیب سے پاک و پاکیزہ تھے تو پھر کس طرح آپؐ کے دلی عقائد کو پانی کے ساتھ غسل دیا گیا؟!
معاصر مفکر
علامہ جعفر مرتضیٰ نے بھی اس واقعے کو بے بنیاد قرار دیا ہے اور اس کی بنیاد
کتاب الاغانی میں منقول زمانہ جاہلیت کی ایک داستان کو قرار دیا ہے۔
ابوالفرج اصفہانی نے زہری سے نقل کیا ہے: دخل یـوما امـیه بـن ابـی الصـلت علی اخته ... فادرکـه النـوم ... و اذا بطائرین قد وقع احدهما علی صدره و وقف الاخر مکانه فشق الواقع صدره فاخرج قلبه فشقه...»
علامہ مجلسیؒ نے بحار کی پندرہویں جلد میں اس داستان کو اہل سنت کے طریق سے نقل کیا ہے اور اس پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں: هذا الخـبر ان لم یـعتمد علیه کثیر لکونه من طریق المخالفین انـّما اوردتـه لمـا فـیه مـن الغـرائب التی لا تابی عنها العقول و لذکره فی مؤلفات اصحابنا؛
شق الصدر کی روایات مخالفین کے طریق سے نقل ہوئی ہیں اور علمائے شیعہ کی اکثریت ان پر اعتماد نہیں کرتی مگر میں نے دو نکتوں کی وجہ سے انہیں ذکر کیا ہے:
الف) اگرچہ شق الصدر کی روایات پیغمبرؐ کی شخصیت کے بارے میں عجیب و غریب حوادث کو بیان کرتی ہیں مگر عقل ان کا انکار نہیں کرتی ہے۔
ب) بعض شیعہ مؤلفین نے اس روایت کو ذکر کیا ہے۔
بطور مثال اس داستان کو مرحوم ابن شہر آشوب نے مختلف انداز سے نقل کیا ہے کہ جس کی وجہ سے متعدد اعتراضات ختم ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے مناقب میں لکھا ہے: فرشتے محمدؐ کو پکڑ کر ایک پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے اور انہیں دھو دھلا کر صاف ستھرا کر دیا۔
علامہ طباطبائی نے تفسیر المیزان میں عامہ کے طریق سے ’’شق الصدر‘‘ کا واقعہ نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: پیغمبرؐ کے سینے کو کھولنے کا مسئلہ ایک مثالی حالت کا بیان ہے کہ جسے آنجناب نے مشاہدہ کیا نہ یہ کہ واقعا سونے کا ایک مادی طشت استعمال ہوا اور پیغمبرؐ کے دل کو اس میں دھویا گیا ہو جیسا کہ بعض نے یہ سمجھا ہے۔
جب حضرت محمدؐ پانچ برس کے تھے
تو حلیمہ رسول خداؐ کو مکہ واپس لے آئیں اور آپؐ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہؑ کے سپرد کر دیا۔ آمنہ نے اپنے رشتہ داروں سے ملاقات اور اپنے شوہر عبد اللہ کی قبر کی
زیارت کے قصد سے مکہ کو ترک کر دیا اور حضرت محمدؐ کے ہمراہ مدینہ روانہ ہو گئیں۔
اس سفر میں ام ایمن حضرت آمنہ کے ہمراہ تھیں۔ ام ایمن، رسول خداؐ کے والد گرامی جناب عبد اللہ کی
کنیز تھیں اور عبد اللہ کی وفات کے بعد وراثت میں آنحضرتؐ کی ملکیت ٹھہریں ۔
رسول خداؐ ام ایمن کی محبتوں اور خدمات کو ہمیشہ یاد کیا کرتے تھے یہاں تک کہ فرماتے تھے: ام ایمن، امی بعد امی؛ ام ایمن ماں کے بعد میری ماں ہے۔
حضرت محمدؐ نے یثرب میں اپنے والد کی جائے دفن کے پاس اپنی ایک ماہ کی اقامت کے دوران اپنی دائیوں کے پاس وقت گزارا.
کہا جاتا ہے کہ پیغمبرؐ کی نگاہ جب ہجرت مدینہ کے دوران محلہ بنی النجار پر پڑی تو فرمایا: میری والدہ مجھے اپنے ساتھ اسی جگہ پر لائیں تھیں اور میرے والد کی قبر اسی مقام پر ہے۔
اس سفر سے واپسی پر جب آمنہ کی عمر ۳۰ برس تھی
تو
ابواء کے مقام پر »
جو مدینہ کا ایک گاؤں تھا؛ بیماری کی وجہ سے حضرت آمنہ انتقال فرما گئیں اور مشہور نقل کے مطابق آپ کو اسی جگہ پر دفن کر دیا گیا تھا؛ اس وقت حضرت محمدؐ کا سن چھ سال اور تین ماہ تھا۔
اہل تاریخ اور محدثین کے مابین مشہور یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ کی وفات مدینہ میں ہوئی اور وہیں پر آپ کو دفن کیا گیا اور آپ کی قبر وہیں پر ہے
اور نبی کریمؐ کی والدہ حضرت آمنہؑ کی وفات ابواء کے مقام پر ہوئی اور وہیں پر آپ کو دفن کیا گیا۔
تاہم بعض روایات کے مطابق شیعہ و اہل سنت کتب میں منقول ہے کہ عبد اللہ و آمنہ دونوں کی قبریں مکہ میں ہیں جبکہ بعض کتب میں یہ ہے کہ صرف حضرت آمنہ کی قبر مکہ میں ہے۔
بعض منابع کے مطابق حضرت محمدؐ کی والدہ ماجدہ کی قبر مکہ کے مقبرہ حجون
یا
شعب ابی ذر میں ہے۔ پہلے قول کے شواہد میں سے یہ ہے کہ مشرکین مکہ نے جنگ احد کیلئے مدینہ پر حملے کے دوران ابواء سے گزرتے ہوئے حضرت آمنہؑ کی قبر کھولنے کا ارادہ کر لیا تھا مگر
ابو سفیان نے انہیں کہا کہ مسلمان بھی ہماری قبروں کے ساتھ یہ سلوک کر سکتے ہیں؛ لہٰذا وہ رک گئے۔
اسی طرح ہجرت کے چھٹے سال پیغمبرؐ اور آپ کی سپاہ نے
عمرے کی ادائیگی کیلئے رخت سفر باندھا تو راستے میں ابواء کے مقام پر ٹھہر گئے اور فرمایا: خدا نے مجھے اجازت دی ہے کہ اپنی والدہ کے مزار کی زیارت کروں۔ پھر اپنی والدہ کی قبر کے پاس گئے اور ان کی مہربانیوں کو یاد کرتے ہوئے اشکبار ہو گئے۔
اہل سنت کے منابع میں موجود یہ احادیث ان لوگوں کیلئے بہترین جواب ہے کہ جو مردوں کیلئے آہ وبکا اور قبور کی زیارت کو جائز نہیں سمجھتے۔ عثمانی دور حکومت تک حجون کے قبرستان میں ابواء کے مقام پر آپ کی قبر پر ایک مقبرہ موجود تھا مگر ان دونوں کو وہابیوں کے حجاز پر قبضے کے بعد منہدم کر دیا گیا۔
حضرت آمنہؑ کے
دین و ایمان کے بارے میں شیعوں کا ہمیشہ سے عقیدہ یہ ہے کہ آپؐ توحید پر ایمان رکھتی تھیں اور دینِ ابراہیمؑ پر کاربند تھیں اور قیامت کے دن مومنین کی صفوں میں محشور ہوں گی۔
علمائے شیعہ نے متعدد آیات و روایات سے اس مطلب کو ثابت کیا ہے؛ منجملہ
سورہ شعرا کی آیت ۲۱۹: «وَتَقَلُّبَکَ فِی السَّاجِدِینَ»
نیز پیغمبرؐ اور اہل بیتؑ سے منقول متعدد روایات میں ہے کہ خدا تعالیٰ نے پیغمبرؐ کا حمل بہترین
رحم میں قرار دیا ہے
اور انہیں
جہنم کی آگ سے دور رکھا ہے۔
اہل سنت کے بعض علما بھی اس نقطہ نظر کی تائید کرتے ہیں؛ جیسے
عبدالرحمن سیوطی (متوفی۹۱۱ھ) کہ جنہوں نے ایمان آمنہ کے اثبات میں ’’الفوائد الکامنة فی ایمان السیدة آمنه‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے اور فخر رازی جیسی بہت سی بزرگ شخصیات
کو اس رائے سے متفق قرار دیا ہے۔
حضرت آمنہؑ کے عدم ایمان پر اہل سنت کی واحد دلیل وہ حدیث ہے جو عطیہ سے سورہ توبہ کی آیت ۱۱۳ کے شان نزول میں منقول ہے
اس حدیث میں مشہور کے برخلاف آمنہ کی قبر کو مکہ میں واقع قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے: جب پیغمبرؐ مکہ پہنچے تو اپنی والدہ ماجدہ کی قبر پر کھڑے ہو گئے، اس امید سے کہ خدا انہیں یہ
اذن دے کہ آپؐ ان کیلئے بخشش طلب کریں؛ مگر خدا نے اجازت نہیں دی۔ ابن اسعد جیسے مورخین نے بالکل اس کے برعکس نقل کیا ہے۔
اور اس روایت کی عدم صحت کو واضح انداز سے بیان کیا ہے
اور ابن کثیر جیسے بعض علما نے اسے ’’حدیث غریب‘‘
قرار دیا ہے؛ اہل سنت کے بعض علما نے اس قسم کی روایات کی سند اور متن پر سوالات اٹھائے ہیں اور انہیں ضعیف شمار کیا ہے۔
ان قرائن کے پیش نظر بعض تاریخ نویسوں کا یہ خیال ہے آمنہ کے مومنہ نہ ہونے کے بیان پر مشتمل روایات امویوں کی وضع کردہ ہیں کہ جو خود پاک و پاکیزہ اور نیک نام اسلاف سے محروم تھے۔
والدہ کی وفات کے بعد رسول خداؐ اپنے جد عبد المطلب کے زیرسرپرستی آ گئے۔ حضرت عبد المطلب کو آپ سے بہت محبت و الفت تھی۔ یہ چیز ان کی جانب سے حضرت محمدؐ کی سرپرستی سنبھالنے کے بعد مختصر عرصے میں بخوبی روشن ہو گئی تھی۔ عبد المطلب نے اپنی اولاد سے کہا: خدا کی قسم! اس بچے کا مقام بہت بلند ہے۔ میں اس وقت کو دیکھ رہا ہوں کہ جب یہ تم سب کا سید و سالار ہو گا پھر آپؐ کو آغوش میں لے کر اپنے پاس بٹھاتے اور فرط محبت سے آپؐ کو چومتے۔
عبد المطلب کھانے سے پہلے کسی کو بھیج کر حضرت محمدؐ کو بلاتے تھے پھر کھانا کھاتے تھے۔
موت کے وقت جو انسانی زندگی کے سخت ترین لمحات میں سے ہے؛ عبد المطلب کی تنہا تشویش حضرت محمدؐ کے حوالے سے تھی؛ انہوں نے حضرت ابو طالب کو آپؐ کی سرپرستی اور حفاظت کا ذمہ لینے کی وصیت کی۔ پھر کہا: الله، الله فی حبیبه. (حبیب خداؐ کے بارے میں اللہ سے ڈرو) اور سوال کیا: اے ابو طالب! کیا میری وصیت کو قبول کرتے ہو؟! جناب ابو طالب نے جواب دیا: ہاں، خدا کی قسم!
محدثین و مورخین کے مشہور قول کے مطابق جب رسول خداؐ ۸ برس کے تھے تو حضرت عبد المطلب نابینا ہو گئے
اور انتقال کر گئے۔ وفات کے وقت حضرت عبد المطلب کی عمر کے بارے میں اختلاف ہے؛ بعض نے وفات کے وقت آپ کی عمر ۸۲ سال اور بعض نے ۱۴۰ سال قرار دی ہے۔
[ترمیم]
پیغمبر اکرمؐ کی جوانی کا زمانہ آپ کے پیارے چچا حضرت ابو طالبؑ کی زیرنگرانی بسر ہوا۔ کائنات کے عظیم ترین انسان کی زندگی کے اس مرحلے کے واقعات میں شکوک و شبہات موجود ہیں بلکہ تاریخ کی افسانہ نگاری اور سطحی نگاہ نے پیغمبرؐ کی الٰہی شخصیت پر ابہام و تردید کو سایہ فگن کر دیا ہے۔
رسول خداؐ کے والد گرامی حضرت عبد اللہ اور حضرت ابو طالب مادری اور پدری بھائی تھے۔ آپ دیگر چچاؤں کی نسبت آپؐ کے ساتھ زیادہ مہربان اور شفیق تھے۔ شاید اسی وجہ سے جناب عبد المطلب نے حضرت ابو طالب کو نبی کریمؐ کے حوالے سے وصیت کی تھی اور آنحضرتؐ کی کفالت کا ذمہ اپنی موت کے بعد ان کے سپرد کیا تھا۔ اس طرح جناب ابو طالب اپنے والد گرامی حضرت عبد المطلب کی وفات کے بعد آٹھ سالہ حضرت محمدؐ کے کفیل بن گئے۔
بعض نے کہا ہے: حضرت عبد المطلب نے آنحضورؐ کی سرپرستی اپنے بڑے بیٹے زبیر کے سپرد کی تھی اور ان کی وفات کے بعد جناب ابو طالب نے یہ ذمہ سنبھالا تھا۔
مگر زبیر تو حلف الفضول میں موجود تھے جبکہ حضرت محمدؐ اس وقت ۲۰ برس کے ہو چکے تھے۔ لہٰذا اس اعتبار سے رسول خداؐ کی نوجوانی کے دوران زبیر کی وفات کا واقعہ درست معلوم نہیں ہوتا۔
ابن شہر آشوب نے مناقب میں یہ روایت بیان کی ہے کہ جناب عبد المطلب نے ابو لہب اور عباس کو حضرت محمدؐ کا سرپرست بنانے کی مخالفت کی تھی جبکہ حضرت ابو طالبؑ کو سرپرستی بنانے سے اتفاق کیا تھا۔
اس رو سے روایات اس امر کی تائید کرتی ہیں کہ شروع سے ہی حضرت عبد المطلب نے حضرت محمدؐ کی سرپرستی کی ذمہ داری حضرت ابو طالب کے حوالے کی تھی۔
حضرت ابو طالبؑ نے رسول خداؐ کو ۸ برس کے سن میں اپنے گھر منتقل کیا اور ۵۰ برس تک رسول خداؐ کی نصرت اور حمایت سے دستبردار نہیں ہوئے اور انہیں ہمیشہ اپنی ذات اور اولاد پر مقدم رکھا! ابو طالبؑ پیغمبرؐ سے شدید محبت رکھتے تھے جبکہ اپنے بیٹوں میں سے کسی کے ساتھ اس حد تک محبت نہیں کرتے تھے اور خوراک و پوشاک کے معاملے میں آپؐ کو پورے خاندان پر مقدم رکھتے تھے۔.
پیغمبرؐ کو اپنے پاس سلاتے تھے اور جب بھی باہر جاتے تھے، آپؐ کو بھی اپنے ہمراہ لے جاتے تھے؛ پیغمبرؐ کے ساتھ ایسی والہانہ وابستگی رکھتے تھے جو کسی دوسرے کی نسبت نہ رکھتے تھے؛ آنحضرتؐ کیلئے ہمیشہ اچھا کھانا رکھتے تھے۔
علامہ مجلسیؒ نقل کرتے ہیں: جب رسول خداؐ اپنے بستر پر سو جاتے تھے تو حضرت ابو طالبؑ سب کے سو جانے کے بعد آرام سے انہیں بیدار فرماتے اور نبی کریمؐ کے بستر پر حضرت علیؑ کو اور حضرت علیؑ کے بستر پر نبی کریمؐ کو سلا دیتے تھے۔ خود کو اور اپنے بھائیوں کو آپؐ کی حفاظت پر مامور رکھتے تھے۔
یعقوبی لکھتے ہیں: رسول خداؐ سے مروی ہے کہ
فاطمہ بنت اسد کی وفات کے بعد فرمایا: الیوم ماتت امی؛ آج میری ماں وفات پا گئی ہیں۔ جب آپؐ سے پوچھا گیا کہ فاطمہ بنت اسد کیلئے کیوں بے تاب ہوئے ہیں؟! فرمایا: وہ واقعا میری ماں تھیں؛ کیونکہ اپنے بچوں کو بھوکا رکھتی تھیں جبکہ مجھے سیر کرتی تھیں۔ انہیں گرد آلود رہنے دیتیں لیکن مجھے صاف ستھرا اور آراستہ رکھتیں، واقعا وہ میری ماں تھیں۔
حضرت ابو طالب کی مرموز شخصیت اور قریش کے رؤسا کے سامنے ایمان کا عدم اظہار؛ اس امر کا باعث بنا کہ کچھ لوگوں نے آپ پر
شرک کی تہمت لگا دی۔ یہ متعصب اور بغض کا شکار گروہ نہ صرف یہ کہ حضرت ابو طالبؑ کو بے ایمان سمجھتا ہے بلکہ کہتا ہے کہ رسول خداؐ کے ماں باپ بھی دنیا سے ایمان کے بغیر گئے ہیں اور نعوذ باللہ
دوزخ میں جل رہے ہیں۔!
حضرت ابو طالب کے ایمان کی بحث چھیڑنے کے پیچھے سیاسی اغراض و مقاصد ہیں؛ ورنہ جتنے دلائل و شواہد حضرت ابو طالبؑ کے اسلام و ایمان پر پیش کیے گئے ہیں؛ اگر سیاسی اغراض و مقاصد کے بغیر کسی دوسرے فرد کے بارے میں اس کا دسواں حصہ بھی بیان کیا جاتا تو تمام اسلامی فرقے بشمول شیعہ و سنی ان کے ایمان کی تصدیق کرتے؛ البتہ پیغمبر اکرمؐ کے حامی کو مشرک کہنے کا ہدف صرف یہ ہے کہ جناب ابو طالبؑ کی اولاد بالخصوص امیر المومنینؑ کی توہین کی جائے اور غاصبان خلافت کی جھوٹی فضیلتیں گھڑی جائیں۔
استاد شہید
مرتضیٰ مطہری اس حوالے سے فرماتے ہیں:
امویوں سے
عباسیوں کو خلافت کی منتقلی کے دوران بنی الحسن یعنی
امام حسنؑ کی اولاد نے
بنو عباس کے ساتھ تعاون کیا؛ مگر بنی الحسین یعنی
امام حسینؑ کی اولاد کہ جن میں سرفہرست امام صادقؑ تھے؛ نے بنو عباس کے ساتھ تعاون سے اجتناب کیا۔ بنو عباس شروع میں خود کو بنی الحسن کے تابعدار ظاہر کرتے رہے اور انہیں خلافت کیلئے اپنی نسبت شائستہ تر سمجھتے تھے، مگر آخر میں ان کے ساتھ
خیانت کے مرتکب ہوئے اور ان کی اکثریت کو
قتل کر دیا یا
زندان میں ڈال دیا۔ بنو عباس نے اپنی
سیاست کو آگے بڑھانے کی غرض سے بنی الحسن کے خلاف پراپیگنڈا شروع کر دیا۔ ان کا ایک پراپیگنڈہ یہ تھا کہ بنی حسن کے جد اعلیٰ اور پیغمبر کے چچا مسلمان نہیں تھے اور کفر کی حالت میں دنیا سے گئے مگر عباس جو پیغمبرؐ کے دوسرے چچا ہیں اور ہمارے جد اعلیٰ ہیں؛ مسلمان ہو گئے تھے اور ان کی وفات حالت اسلام میں ہوئی۔ پس ہم پیغمبرؐ کے مسلمان چچا کی اولاد سے ہیں جبکہ بنی حسن پیغمبرؐ کے کافر چچا کی اولاد سے ہیں؛ لہٰذا ہم خلافت کے زیادہ حقدار ہیں۔ اس ہدف کو پورا کرنے کیلئے انہوں نے پیسہ بھی خرچ کیا اور قصے بھی گھڑے۔
حضرت ابو طالبؑ کے ایمان کے بارے میں مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں اور شیعہ و سنی بزرگ علما نے اس موضوع پر خصوصی توجہ دی ہے؛ جیسے شیخ مفیدؒ،
صاحب الغدیر
اور ابن ابی الحدید.
البتہ کچھ بغض و کینے کا شکار افراد حضرت ابو طالب
اور رسول خدا و آئمہ اطہارؑ کی جناب ابو طالب کے ایمان کی تصدیق پر مبنی سینکڑوں احادیث کو کافی نہیں سمجھتے! جبکہ اس کے مقابلے میں صرف ایک
ضعیف حدیث جس کا راوی ان کے
اعتراف کے مطابق
مغیرہ بن شعبہ ہے جو ایک
فاسق شخص تھا اور
اہل بیتؑ بالخصوص امام علیؑ سے بغض رکھتا تھا؛ سے تمسک کرتے ہوئے جناب ابو طالب کو نعوذ باللہ اہل دوزخ سمجھتے ہیں!
اختصار کی رعایت کرتے ہوئے جناب ابو طالبؑ کے ایمان و اسلام کے بارے میں چند روایات پر اکتفا کریں گے:
۱۔ بعض نے عباس بن عبد المطلب اور بعض نے
ابوبکر بن ابی قحافہ سے نقل کیا ہے کہ ابو طالب اس وقت تک دنیا سے نہیں گئے جب تک انہوں نے کلمہ شہادتین ’’لااله الا الله، محمد رسول الله‘‘کا اقرار نہیں کر لیا۔».
۲۔ بعثت کے ۲۳ برس گزرنے کے بعد ہجرت کے آٹھویں سال جب ابوبکر کے والد نے اسلام قبول کیا
تو وہ خوشی خوشی کہنے لگے: اے رسول خداؐ! اس خدا کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا، میں اپنے والد کے اسلام سے زیادہ آپؐ کے چچا ابو طالب کے اسلام و ایمان پر خوش ہوا تھا۔
۳۔ ایک حدیث میں منقول ہے کہ پیغمبر اکرمؐ،
حضرت خدیجہؑ اور امیر المومنین کے ہمراہ
مستحب نماز کی ادائیگی میں مشغول تھے، ابو طالب اور ان کا بیٹا جعفر ان کی نماز کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ اس وقت ابو طالب نے جعفر سے کہا: صل جناح ابن عمک؛ جاؤ! رسول خداؐ کے دائیں طرف کھڑے ہو کر نماز ادا کرو۔ پھر علیؑ کو تلقین کی: اما انه لا یدعو الا الی خیر فالزمه؛ آگاہ ہو جاؤ! یہ آپؐ صرف نیک راہ کی دعوت دیں گے؛ لہٰذا ہمیشہ ان کے ساتھ رہو۔
۳۔ حضرت علیؑ فرماتے ہیں: جب میں نے اپنے والد گرامی ابو طالبؑ کی وفات کی خبر رسول خداؐ کے گوش گزار کی تو آنحضرتؐ نے سخت گریہ فرمایا۔ پھر حکم دیا: جاؤ، انہں
غسل اور
کفن دو۔ خدا ان کی بخشش کرے اور ان پر رحم فرمائے۔
پھر آنحضرتؐ خود حضرت ابو طالبؑ کے بدن کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اے عموئے بزرگوار! آپ نے یتیمی میں میری کفالت کی، بچپن میں میری تربیت کی اور بڑے ہونے کے بعد میری مدد کی؛ خدا آپ کو جزائے خیر دے۔
۴۔
ابن ابی الحدید معتزلی لکھتے ہیں کہ رسول خداؐ نے فرمایا: اما والله لا استغفرن لک ولاشفعن فیک شفاعه یعجب لها الثقلان؛ میں آپ کیلئے خدا سے ایسی مغفرت و
شفاعت طلب کروں گا کہ جس کی عظمت سے جن و انس تعجب کریں گے۔
۵۔ ایک روایت میں منقول ہے کہ
جبرائیل پیغمبرؐ کی بارگاہ میں شرفیاب ہوئے اور خطاب کیا: خدا نے آپ کی چھ لوگوں کے حق میں شفاعت کو قبول کر لیا ہے: آپؐ کی والدہ جن کے بطن سے آپؐ کی ولادت ہوئی؛ آپؐ کے والد کہ جن کے
صلب سے آپؐ کی ولادت ہوئی؛ ابو طالب جیسے مرد بزرگوار کہ جنہوں نے آپ کی حمایت کی؛ آپ کے پدری جد عبد المطلب کہ جنہوں نے آپ کی سرپرستی کی؛ حلیمہ بنت ابی ذویب کہ جنہوں نے آپ کی دائیگی کا ذمہ لیا؛ آپ کے زمانہ جاہلیت کے دوست جو ایک سخی شخصیت تھے اور محرومین کی پناہ گاہ تھے۔
۶۔ امام صادقؑ سے ایک روایت میں منقول ہے: ابو طالب کی مثال
اصحاب کہف جیسی ہے کہ جنہوں نے اپنا ایمان چھپایا اور خدا نے انہیں دوگنا اجر عطا فرمایا۔
۷۔
امام باقرؑ سے ایمان ابو طالب کے بارے میں سوال ہوا تو حضرتؑ نے فرمایا: اگر ابوطالب کا ایمان ترازو کے ایک پلڑے میں اور مخلوق کے ایمان کو دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو ان کا ایمان برتر ہو گا۔
۸۔ امام حسینؑ سے ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ آپؑ کے والد علیؑ نقل کرتے ہیں: ایک دن امام علیؑ اپنے گھر کے نزدیک ایک جماعت کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک ایک نادان مرد نے سوال کیا: یا امیر المومنین! آپؑ کا مقام اتنا بلند ہے مگر آپ کے والد آگ میں ہیں! حضرتؑ نے فرمایا: خاموش ہو جا؛ خدا تیرا منہ توڑے، یہ کیسی بات ہے؟! اس ذات کی قسم جس نے پیغمبرؐ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا، اگر میرے والد روئے زمین کے تمام گناہگاروں کی شفاعت کریں تو خدا قبول فرما لے گا۔ کیا میرے والد جہنم میں ہوں گے جبکہ اہل
بہشت اور جہنمیوں کی سرنوشت ان کے بیٹے کے اختیار میں رکھی گئی ہے؟!
۹۔ امام علیؑ فرماتے ہیں: خدا کی
قسم! نہ میرے والدین اور نہ ہی میرے اجداد عبد المطلب، ہاشم اور عبد مناف ہرگز
بت پرست نہیں تھے؛ بلکہ انہوں نے
کعبہ کی طرف منہ کر کے
نماز ادا کی اور اسلام سے پہلے حضرت ابراہیمؑ کے
دین پر عمل پیرا تھے۔
شیعہ اور اہل سنت محدثین و مورخین نے تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ حضرت محمدؐ کے اپنے چچا جناب ابو طالبؑ کے ہمراہ سفرِ شام کی داستان اور آنحضرتؐ کی
بحیرا کے ساتھ ملاقات کا ماجرا نقل کیا ہے، تاہم بعض معاصر اہل قلم نے اس واقعے کی صحت میں شک و تردید کا اظہار کیا ہے۔
مشہور نقل کے مطابق رسول خداؐ کی عمر پربرکت کے ۹ سال
اور ایک قول کے مطابق ۱۲سال
گزر چکے تھے کہ حضرت ابو طالبؑ نے
سفرِ شام کا قصد کیا۔ حضرت محمدؐ کے سرپرست ہونے کے ناطے حضرت ابو طالبؑ کو رسول خداؐ کے ساتھ شدید لگاؤ اور والہانہ محبت تھی۔
اسی وجہ سے انہوں نے شام کی جانب سفر کے وقت آنحضرتؐ کی ہمراہی کی۔
اس سفر کی منزل شام کا شہر بصری تھا۔ بصری شہر کے نزدیک ایک گرجا گھر تھا جس میں بحیرا نامی ایک متقی اور زاہد شخص
رہتا تھا۔ کاروان گرجا گھر کے پاس رکا۔ بحیرا نے بعض غیر معمولی علامات جیسے پیغمبرؐ کے سامنے پتھروں کی تعظیم، پیغمبرؐ کے ساتھ ساتھ چلنے والا بادل جو آپؐ پر سایہ فگن تھا اور وہ درخت جو پیغمبرؐ کے بیٹھنے کے بعد اپنی شاخوں کو آپؐ پر جھکا رہا تھا؛ کو دیکھ کر
اس نے حضرتؐ کو پہچان لیا اور کاروان والوں کو کھانے کی دعوت دی۔ سب لوگ پہنچ گئے مگر پیغمبرؐ کو نوجوانی کے سبب قافلے کے سامان کی نگرانی کیلئے وہیں درخت کے نیچے چھوڑ آئے؛ بحیرا کے اصرار پر آپؐ کو بھی بلایا جاتا ہے اور بحیرا بچے کے ساتھ گفتگو کا خواہاں ہوتا ہے۔
بعض سیرت نگاروں نے ایک مختصر روایت ذکر کی ہے کہ بحیرا نے اس دوران کہا: یہ اہل جہان کے سید و سردار ہیں؛ اور یوں پیغمبرؐ کی نبوت کی پیشگوئی کر دی۔
بعض نے زیادہ تفصیلات ذکر کی ہیں، منجملہ یہ کہ بحیرا پیغمبرؐ کے خوابوں سے متعلق پوچھتا ہے؛ مگر جب آپؐ کو
لات و
عزّی کی قسم دیتا ہے تو پیغمبرؐ ان سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں؛
پھر آنحضرتؐ کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت کا مشاہدہ کرتا ہے۔
اور اس ملاقات کے آخر میں ابوطالب کو بچے کے مستقبل سے آگاہ کرتا ہے اور نصیحت کرتا ہے کہ انہیں
یہود یا مسعودی کے بقول اہل کتاب
بالخصوص یہود
سے محفوظ رکھے۔
آگے چل کر داستان کے بارے میں دو روایات ہیں: بعض نے ابو طالب کے ترکِ سفر اور مکہ واپسی کی خبر دی ہے
اور بعض نے ابوطالب کی جانب سے سفر کو جاری رکھنے اور رسول اکرمؐ کو ابوبکر اور
بلال کے ہمراہ مکہ واپس بھیجنے کی روایت نقل کی ہے۔
پیغمبرؐ کے بحیرا کے ساتھ ملاقات کی روایات بالخصوص رسول اکرمؐ کی ابوبکر اور بلال کے ساتھ واپسی سے متعلق سنجیدہ ابہامات موجود ہیں کہ جن کی طرف آگے چل کر اشارہ کیا جائے گا۔
بحیرا اور حضرت محمدؐ کی ملاقات کی داستان کے بارے میں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ بحیرا کی پیغمبرؐ کے ساتھ ملاقات کی روایات فریقین کے منابع کی رو سے ضعیف الاسناد ہیں؛
کیونکہ یہ تمام روایات
قُراد ابونوح تک پہنچتی ہیں اور اس نے بھی بالواسطہ
ابو موسیٰ اشعری سے روایت کی ہے۔
چونکہ ابو موسیٰ کے سوا کسی صحابی نے ایسے واقعے کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے، اس لیے اس کا اعتبار مخدوش ہو جاتا ہے۔
سیرت ابن ہشام، تاریخ طبری، طبقات الکبریٰ اور دیگر اہل سنت کتب میں اس واقعے کے ایک راوی
ابو موسیٰ اشعری بھی ہیں حالانکہ وہ رسول خداؐ کے سفر اور بحیرا سے ملاقات کے وقت ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے؛ نیز انہوں نے اس حوالے سے اپنی سند کو نقل نہیں کیا ہے کہ اس کے صحت و سقم کے بارے میں تحقیق کی جا سکے۔ لہٰذا اس نوع کی احادیث
خبرِ واحد اور
مرسل روایات کہلاتی ہیں۔ ذہبی نے بھی اسے موضوعات میں سے قرار دیا ہے اور کہا ہے: اظنه موضوعا بعضه باطل؛ میں اسے موضوع سمجھتا ہوں اور اس کا کچھ حصہ
جھوٹ پر مبنی ہے۔
تاہم شیعہ کتب جیسے مناقب ابن شہر آشوب اور شیخ صدوقؒ کی کمال الدین میں منقول ہے کہ اس داستان کے حوالے سے رسول خداؐ اور کسی بھی امامؑ سے کوئی روایت نقل نہیں ہوئی ہے؛ جبکہ ابن شہر آشوب نے پہلے اس واقعے کو مفسرین سے بلا سند نقل کیا اور پھر آگے چل کر اسے طبری سے روایت کیا تاہم وہ اس کی درستگی کی ضمانت دینے سے دستبردار ہو گئے۔
مرحوم صدوقؒ نے بھی اسے دو طریق سے روایت کیا ہے؛ جن میں سے پہلا طریق سند کے اعتبار سے ضعیف ہے کیونکہ بعض راوی مجہول ہیں اور بعض پر
کذب کی تہمت ہے
اور دوسری روایت بھی
مرفوعہ ہے۔ اس کے علاوہ پہلی روایت ایسے امور غریبہ پر مشتمل ہے جو حقیقی داستان کی نسبت ایک افسانے سے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں۔
بعض روایات میں ہے کہ جناب ابوطالب نے پیغمبرؐ کو ابوبکر اور بلال کے ہمراہ شام پہنچنے سے قبل بصری سے ہی واپس بھیج دیا تھا؛ مگر یہ بات چند پہلوؤں سے مخدوش بلکہ ناقابل قبول ہے:
اول: ابوبکر رسول خداؐ سے کم از کم تین سال یا اس سے زائد چھوٹے تھے اور بلال ابوبکر سے چند سال چھوٹے تھے
اور پیغمبرؐ اس وقت ۹ سال یا ۱۲ سال کے تھے؛ اس صورت میں ابوبکر کی عمر ۶ یا زیادہ سے زیادہ ۹ سال ہو گی
جبکہ بلال زیادہ سے زیادہ ۲ سال کے ہوں گے؛
یوں ابوبکر اور بلال کی اس سن و سال میں کاروانِ شام میں شمولیت بہت بعید معلوم ہوتی ہے۔
دوم: بلال حبشی کا اس دور میں ابوبکر کے ساتھ کیا تعلق تھا! چونکہ بلال آغاز بعثت میں
امیۃ بن خلف کے گھر غلامانہ زندگی گزار رہے تھے اور عرصہ دراز کے بعد ایک قول کے مطابق ابوبکر کے توسط سے
آزاد ہوئے تھے۔
سوم: پیغمبرؐ کے ساتھ شدید وابستگی کے باوجود ابوطالبؑ کا پیغمبرؐ کو ۶ سالہ اور ۲ سالہ بچوں کے حوالے کر دینا اور ان کا اتنا طولانی فاصلہ طے کر کے شام سے مکہ واپس پہنچ جانا؛ ایک قابل قبول امر نہیں ہے۔ اس وجہ سے بعض سیرت نگاروں نے اس حصے کو جعلی اور پوری روایت کے موضوع ہونے پر شاہد قرار دیا ہے۔ بعض نے یہ
احتمال بھی دیا ہے کہ یہ روایت بعد میں ابوبکر کی پیغمبرؐ کے ساتھ قربت اور ان کی دیگر
صحابہ پر
فضیلت کے اثبات کی غرض سے گھڑی گئی ہے اور اسے روایت کے ساتھ ملحق کیا گیا ہے؛
چنانچہ
ابو سعید خرگوشی نے ابوبکر اور بحیرا کی
ملاقات کو ایک اور طرح سے نقل کیا ہے اور اسے بعثت سے قبل ابوبکر کی
خلافت کی حقانیت پر شاہد قرار دیا ہے۔
بحیرا کے ماجرے کے دیگر مبہم نکات میں سے ایک یہ ہے کہ تاریخی منابع میں بحیرا نامی شخص کا وجود مشکوک ہے۔ کیا اس کا اصل نام وجرجیس یا سرجس یا جرجس تھا! یا یہ کہ وہ علما و احبار یہود میں سے تھا اور اس کا نام تیماء تھا! جیسا کہ بعض نے کہا ہے یا پھر عیسائی تھا اور اس کا تعلق قبیلہ عبد القیس سے تھا چنانچہ بعض دوسرے مورخین اس کے قائل ہیں؛
یہ تردید و ابہام اس سے منسوب روایات کے ضعف کا موجب ہے۔ نبی کریمؐ اور بحیرا کے مابین گفتگو کے مضمون اور مقام میں مشابہت کے باوجود ابن سعد
اور سیوطی
راھب کا نام نسطور ذکر کرتے ہیں نہ بحیرا؛ .
استاد شہید مرتضیٰ مطہری کتاب ’’پیامبر امی‘‘ میں فرماتے ہیں: معروف مستشرق اور اسلامیات کے ماہر پروفیسر میسگنن کتاب ’’سلمان پاک‘‘ میں بحیرا نامی شخص کے وجود میں شک اظہار کرتے ہیں تو پھر اس کی پیغمبرؐ کے ساتھ ملاقات کے قصے کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے اور اسے ایک افسانوی شخصیت قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: بحیرا، سرجیوس ، تمیم داری اور دیگر افراد جنہیں راویوں نے پیغمبرؐ کے گرد جمع کر رکھا ہے؛ مشکوک اور ناپید سائے ہیں۔
اس واقعے کے دیگر نکات میں سے یہ ہے کہ یہ بعض
مسیحی کتب میں ان دشمنوں کیلئے ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے جنہوں نے پیغمبرؐ کی
رسالت میں
شک کا اظہار کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو ان اخبار و عقائد کا مجموعہ قرار دیا ہے جنہیں پیغمبرؐ نے مسلسل سفر کر کے یہود اور مسیحی راہبوں سے سنا تھا۔
بعض مستشرقین اور پادریوں نے رسول خداؐ کی نبوت اور
وحی کو زیر سوال لے جانے کی غرض سے اس داستان کو ایک سند قرار دیا ہے اور کہا ہے: پیغمبرؐ نے اس سفر میں بحیرا سے کچھ تعلیمات کو اخذ کیا اور انہیں اپنے قوی حافظے میں محفوظ کر لیا اور ۳۰ سال گزرنے کے بعد انہی تعلیمات کو اپنے
دین کی بنیاد قرار دیا اور انہیں
وحی اور
قرآن کے نام پر اپنے پیروکاروں تک پہنچا دیا؛ اس کے جواب میں کہنا چاہئیے: اس داستان کے اسناد و دلالت کے اعتبار سے صحیح ہونے کے فرض کی بنا پر آنحضرتؐ کی بحیرا کے پاس ٹھہرنے کی مدت کس قدر طولانی تھی کہ ان تمام اعلیٰ معارف کا سرچشمہ بن سکے اور اس انقلابی اور عالمی دین کی بنیاد بن سکے!
آخر میں یہ کہنا چاہئیے: اس سفر میں ابوبکر اور بلال کا وجود اور پیغمبرؐ کو ان کے حوالے کیا جانا اور پیغمبر کی ’’بصری‘ سے ان کے ساتھ واپسی؛ کے قصے کسی قاعدے ضابطے پر پورا نہیں اترتے۔
البتہ یہود و نصاریٰ کے پیغمبر اکرمؐ کو پہچاننے کے امر پر قرآن مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ قرآن کہتا ہے: اہل کتاب پیغمبر کو اسی طرح پہچانتے ہیں، جیسے اپنے بچوں کو پہچانتے ہیں؛ الَّذینَ آتَیْناهُمُ الْکِتابَ یَعْرِفُونَهُ کَما یَعْرِفُونَ اَبْناءَهُم»
کیونکہ ان لوگوں نے آپؐ کی تمام خصوصیات کو اپنی کتابوں میں دیکھ رکھا تھا مگر اس کے باوجود ان میں سے ایک جماعت جان بوجھ کر اپنی معلومات کو چھپاتی رہی۔
«الَّذینَ آتَیْناهُمُ الْکِتابَ یَعْرِفُونَهُ کَما یَعْرِفُونَ اَبْناءَهُمْ وَ اِنَّ فَریقاً مِنْهُمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَ هُمْ یَعْلَمُون»
جیسا کہ اسلام قبول کر لینے والے یہودی عالم
عبد اللہ بن سلام کا یہ قول ہے: انا اعلم به منی یا بنی؛ میں پیغمبرؐ کو اپنی ذات یا اپنے بیٹے سے بہتر جانتا ہوں!
لہٰذا اس قسم کی روایات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جانا چاہئیے۔ پہلا حصہ بحیرا کا ماجرا اور اس کی پیغمبر اکرمؐ کے بارے میں پیشگوئیاں؛ یہ حصہ ضعفِ روایات کے علاوہ کوئی استبعاد نہیں رکھتا اور قرآن بھی ایک طرح سے اس کی تائید کرتا ہے۔ مگر روایات کا دوسرا حصہ یعنی پیغمبرؐ کو ابوبکر و بلال کے ساتھ واپس بھیجنا کہ جو بعض اہل سنت روایات میں وارد ہوا ہے؛ کسی بھی معیار کے تحت قابل قبول نہیں ہے یہاں تک کہ ذہبی نے بھی اسے موضوعات میں سے قرار دیا ہے۔
اس کے علاوہ
ترمذی کی اس کے بارے میں تعبیر بھی قابل تامل ہے۔
علامہ جعفر مرتضیٰ عاملی کے نزدیک اس قسم کے مطالب کو گھڑنے کا ہدف قبل از بعثت ابوبکر کے پیغمبرؐ کی نبوت پر ایمان کو ثابت کرنا ہے تاکہ اس طرح ابوبکر کو ’’اسبق الناس اسلاما‘‘ کے عنوان سے متعارف کیا جا سکے۔
زمانہ جاہلیت کے عرب سارا سال جنگ اور ایک دوسرے کے خلاف لوٹ مار میں مشغول رہتے تھے حالانکہ اس طرح کی زندگی ان پر بھی بھاری تھی۔ لہٰذا انہوں نے جنگوں اور تنازعات کے سد باب کیلئے چار مہینوں
رجب،
ذیقعد ذی الحج اور
محرم میں جنگ کو
حرام قرار دیا؛ تاکہ اس دوران وہ اپنے تجارتی بازاروں کو کھول کر کام کاج میں مشغول ہو سکیں۔ تاہم بعض اوقات حرام مہینوں کی حرمت کو توڑ دیتے تھے اور حرام مہینوں میں بھی ایک دوسرے کے خلاف جنگ چھیڑ دیتے تھے۔ ان جنگوں کو
فجار کہا جاتا ہے۔ فجار کی لڑائیاں چار جنگوں پر مشتمل ہیں کہ جن میں سے آخری ’’فجار براض‘‘ ہے اور بعض روایات کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے بعثت سے قبل اس میں شرکت کی تھی۔
اہل سنت مورخین اور سیرت نگاروں کا یہ خیال ہے کہ آنحضرتؐ نے فجار کی بعض لڑائیوں میں اپنے چچا کے ہمراہ شرکت کی تھی۔
۱۔ ابن ہشام نے سیرت نبویہ میں لکھا ہے: رسول خداؐ کچھ دن جنگ میں حاضر ہوتے رہے اور آنحضرتؐ کے چچا آپؐ کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔
۲۔ بعض منابع نبی کریمؐ سے روایت کرتے ہیں: میں فجار کی لڑائی میں اپنے چچاؤں کیلئے تیر جمع کرتا تھا۔
۳۔ ایک دوسری روایت میں رسول خداؐ نے فرمایا: شهدت الفجار مع عمی ابیطالب و انا غلام؛ میں فجار کی لڑائی میں اپنے چچا ابوطالب کے ساتھ شرکت کرتا تھا جبکہ اس وقت ابھی لڑکا ہی تھا۔
۴۔ بعض اہل سنت کے منابع نے پیغمبرؐ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: میں اپنے چچاؤں کے ساتھ اس جنگ میں حاضر ہوا اور تیراندازی بھی کرتا رہا۔قَدْ حَضَرْتُهُ مَعَ عُمُومَتِی وَرَمَیْتُ فِیهِ بَاْسَهُمٍ»
حربِ فجار میں آنحضورؐ کی شرکت کے حوالے سے ابہام اور تردید ہے۔ اس میں تردید کی پہلی بات جنگ میں شرکت کے وقت رسول کریمؐ کا سن مبارک ہے کہ بعض منابع میں ۱۴ سال، دیگر منابع میں ۱۵ سال اور ایک روایت میں ۱۷ سال
جبکہ کچھ کتب میں ۲۰ سال ذکر کیا گیا ہے۔
ایک اور مقام پر ’’غلام‘‘ کی تعبیر بھی استعمال ہوئی ہے کہ جس کا اطلاق عام طور پر ۷ سے ۱۴ سال کے سن پر ہوتا ہے۔ شهدت الفجار مع عمی ابیطالب و انا غلام.
دوسری بات اس جنگ کے سالِ وقوع میں تردید ہے جو بعض منابع میں عام الفیل سے ۲۰ سال قبل اور بعض میں ۱۴ سال قبل قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ داستان بہت سے قدیم تاریخی اور حدیثی منابع میں ذکر نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی وہاں اس کے متعلق بحث کی گئی ہے جیسے تاریخ طبری، کامل ابن اثیر اور شیعہ کتب۔
تاہم اس واقعے کی تحلیل میں اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ اختلافِ اقوال جو بذات خود تاریخی روایات کی تضعیف کا عامل ہے؛ سے قطع نظر آنحضورؐ کی ایسی جنگوں میں شرکت بعید معلوم ہوتی ہے کیونکہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ اپنی تمام زندگی کے دوران
معصوم تھے اور محال ہے کہ ایسی جنگوں میں شرکت کریں جو سراسر
ظلم ، عصیان اور عدوان سے عبارت تھیں۔ چنانچہ تاریخ کی شہادت کی بنا پر جناب ابوطالبؑ نے ان جنگوں کو ظلم و عدوان قرار دیتے ہوئے
بنو ہاشم کے کسی فرد کو بھی ان میں شرکت کی اجازت نہیں دی اور اس کی وجہ ان الفاظ میں بیان فرمائی: هذا ظلم و عدوان و قطیعة و استحلال للشهر الحرام و لا احضره و لا احد من اهلی فاخرج الزبیر بن عبد المطلب مستکرها؛ یہ ظلم و زیادتی ہے، قطع رحمی ہے اور ماہ حرام کی حرمت شکنی ہے؛ نہ میں اور نہ ہی میرے خاندان کا کوئی فرد اس میں حاضر نہیں ہوں گے۔
تاہم آخر میں بنو ہاشم میں سے صرف زبیر بن عبد المطلب نے اس جنگ میں شرکت کی اور وہ بھی مجبور ہو کر؛
اس کے علاوہ پیغمبر اکرمؐ اپنے چچا کی سخت حفاظت اور نگرانی کے تحت تھے؛ لہٰذا آپؐ کی اس جنگ میں شرکت کا دعویٰ درست نہیں ہے۔
[ترمیم]
پیغمبر اعظمؐ کی جوانی کے اہم ترین واقعات میں سے حلف الفضول میں شرکت، بھیڑ بکریوں کی نگرانی، کاروانِ تجارت میں شرکت، حضرت خدیجہؑ کے ساتھ ازدواج، امیر المومنینؑ کی ولادت اور
حجر الاسود کو نصب کرنے کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔
حلف الفضول زمانہ جاہلیت میں عربوں کا بہت شاندار
معاہدہ تھا جو
بعثت سے قبل اور
حرب فجار کے کچھ عرصے کے بعد سامنے آیا۔ سب سے پہلے اس کی تجویز پیغمبر اکرمؐ کے چچا
زبیر بن عبد المطلب نے دی۔
یہ معاہدہ
عبد اللہ بن جدعان نامی شخص کے گھر پر انجام پایا؛ یہ عمر رسیدہ شخص
اشرافِ مکہ میں سے تھا اور بالکل
شراب نوشی نہیں کرتا تھا۔
نبی کریمؐ نے بیس سال کے تھے
کہ جب اس پیمان میں شریک ہوئے۔
اس معاہدے میں یہ عزم ظاہر کیا گیا تھا کہ ہمیشہ
حق کا دفاع کریں گے،
مظلوم کا ساتھ دیں گے اور
زندگی کے معاملات میں اس کی مدد کریں گے۔
رسول خداؐ سے روایت ہے کہ ہجرتِ
مدینہ کے بعد فرمایا: لقد شهدت خلفا فی دار عبدالله بن جدعان لو دعیت الی مثله لاجبت و ما زاده الاسلام الا تشدیدا؛ میں نے عبد اللہ بن جدعان کے گھر میں ایک ایسے عہد و پیمان میں شرکت کی کہ اگر
اسلام میں بھی ایسے معاہدے کی دعوت دی جاتی تو اسے قبول کر لیتا اور اسلام نے اسے مستحکم کرنے کے سوا اس میں کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا۔
پیغمبر اعظمؐ اس
پیمان کا تذکرہ مسرت کے ساتھ فرماتے تھے: ما سرّنی بحلف شهدته فی دار عـبد اللّه بـن جدعان حمر النعم؛ عبد اللہ بن جدعان کے گھر میں ہونے والے پیمان میں شرکت سے مجھے جو خوشی ملی وہ سرخ اونٹوں سے بھی نہ ہوئی۔
ایک اور روایت میں فرماتے ہیں: شهدته و ما احبّ انّ لی به حمر النـعم؛ میں اس پیمان میں شریک تھا اور اس کے بدلے سرخ اونٹ لینا بھی مجھے پسند نہیں ہے۔
حلف الفضول
بنو امیہ اور
عمرو عاص کے والد
عاص بن وائل سہمی کے خلاف تھا لہٰذا
ابوسفیان اور بنو امیہ کے دیگر افراد شریک نہیں تھے۔
اہل سنت کے اکثر حدیثی و تاریخی منابع میں اس امر پر مبنی روایات منقول ہیں کہ رسول خداؐ اپنی جوانی کے دوران کچھ عرصے تک گلہ بانی کرتے رہے۔ مثلا
بخاری نے اپنی صحیح میں
ابو ہریرہ سے
روایت نقل کی ہے کہ رسول خداؐ نے فرمایا: ما بعث الله نبیا الا راعی الغنم، قال له اصحابه و انت یا رسول الله؟ قال: نعم، و انا رعیتها لاهل مکه علی قراریط؛ خدا نے کوئی پیغمبرؐ نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس نے گلہ بانی کی۔ اصحاب نے عرض کیا: کیا آپؐ نے بھی یہ کام کیا تھا؟! فرمایا: جی ہاں! میں بھی اہل مکہ کیلئے چند
قیراط کے بدلے بھیڑ بکریاں چراتا رہا۔
اس روایت کی نظیر
حدیث و
سیرت کی دیگر کتب میں بھی نقل ہوئی ہے؛ چونکہ یہ روایات بہت سے اہل سنت کے نزدیک مقبول ہیں اور وہ ان کی سند یا متن میں کوئی تردید پیدا نہیں کر سکے تو انہوں نے اصل بات کو قبول کر لیا مگر اس کی عارفانہ اور فلسفیانہ تاویلات پیش کرنا شروع کر دیں۔ شیعہ منابع میں بھی اس سے ملتی جلتی روایات موجود ہیں، تاہم ان کی سند اور متن پر معمولی نوعیت کی تنقید بھی ملتی ہے۔
ایک جھوٹی روایت جو ’’مکیان‘‘ کیلئے پیغمبرؐ کی گلہ بانی پر دلالت کرتی ہے؛ یہ تاریخ طبری میں منقول توہین آمیز داستان ہے جو
عصمت پیغمبرؐ سے
متصادم ہے اور اسے گھڑنے کا مقصد دراصل پیغمبرؐ کی شخصیت کو داغدار کرنا ہے۔ اس جعلی روایت میں پیغمبرؐ کہتے ہیں: میں نے زمانہ جاہلیت کے کاموں میں سے کسی کام کو انجام دینے کا ارادہ نہیں کیا مگر دو بار اور پھر اس کے بعد کسی برے کام کا ارادہ نہیں کیا؛ یہاں تک کہ خدائے عزوجل نے مجھے
رسالت کا افتخار نصیب فرمایا۔ یہ داستان یوں ہے کہ ایک رات میں نے قریش کے ایک لڑکے کو کہ جو مکہ کے بالائی حصے میں میرے ساتھ
بکریاں چرا رہا تھا؛ کہا: کتنا اچھا ہو اگر تو میری بکریوں کی نگرانی کرے اور میں مکہ جاؤں اور مکہ کے جوانوں کی طرح ایک رات
شب بیداری اور قصہ گوئی میں گزاروں! ۔۔۔۔ اس رات میں نے
دف اور
بانسری کی آواز سنی اور انہیں دیکھنے بیٹھ گیا مگر خدا نے میرے کان کو بند کر دیا اور مجھے نیند آ گئی۔ خدا کی قسم! سورج کی گرمائش کے سوا مجھے کسی چیز نے بیدار نہیں کیا۔
پیغمبرؐ کا معاذ اللہ ساز کو سننا اور
رقص اور گانے بجانے کو دیکھنا، صحیح بخاری کی مختلف احادیث میں حتی بعثت کے بعد بھی منقول ہے؛ جیسے
عائشہ کی روایت
اور حبشیوں کی پیغمبرؐ کے سامنے رقص کی روایت
حالانکہ
قرآن کریم اور متعدد روایات میں
لہو و لعب اور گانے بجانے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اس قسم کی احادیث کا من گھڑت اور جعلی ہونا، شیعہ کے نزدیک واضح اور مسلم ہے۔
حضرت خدیجہ بنت
خویلد بن اسد بن عبد العزی بن
قصی بن کلاب عام الفیل سے ۱۵ سال پہلے پیدا ہوئیں۔
لہٰذا حضرت خدیجہؑ کی جزیرۃ العرب میں ولادت پیغمبرؐ کی ولادت سے ۱۵ سال پہلے ہوئی۔.
بچپن اور نوجوانی سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے تک اور حتی اس کے بعد بھی آپؑ کے بارے میں کم معلومات دستیاب ہیں؛ نیز آپؑ کے حالات پر مبنی تاریخی روایات میں تحریف اور قصہ گو راویوں کی دخل اندازی بھی دکھائی دیتی ہے اور ان میں اسرائیلیات کی آمیزش ہے۔
حضرت خدیجہؑ اپنے سرمائے کے ساتھ
تجارت میں حصہ لیتی تھی۔ تجارت کیلئے آپؑ خود سفر نہیں کرتی تھیں بلکہ کچھ لوگوں کو اجرت پر مقرر کرتی تھیں تاکہ اس زمانے کی بڑی منڈیوں میں جا کر تجارتی سامان کی خرید و فروخت کریں ۔ رسول خداؐ نے بھی جناب خدیجہؑ کی درخواست پر اس کام کیلئے رخت سفر باندھا۔ یوں پیغمبر اکرمؐ کی حضرت خدیجہؑ سے آشنائی کا پہلا عامل تجارتی معاملات تھے۔ بعض کے نزدیک حضرت ابو طالبؑ کی تلقین پر آنحضورؐ اور حضرت خدیجہؑ کے مابین تجارتی شراکت داری قائم ہوئی تھی۔
تاہم ابن اسحاق سے منقول ایک روایت میں
ہے کہ جناب خدیجہؑ نے حضرت محمدؐ کی
امانتداری اور دیانت داری کے بارے میں سن رکھا تھا، اس لیے انہوں نے یہ عزم کیا کہ بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کریں جس کیلئے انہوں نے آنحضورؐ سے درخواست کی کہ ان کے کاروان کے ساتھ ملحق ہو جائیں اور دوسروں سے زیادہ اجرت حاصل کریں۔
ان معاہدوں میں پیغمبر اکرمؐ کی اجرت دوسروں کی نسبت دوگنا زیادہ مقرر ہوئی؛ انا اعطیک ضعف ما اعطی قومک
یا دو مادہ اونٹ (قد استاجرته خدیجة علی ان تـعطیه بـکرین
یا جُرَش کے علاقے میں ہر بار سفر کے بدلے ایک جوان اونٹ کا معاوضہ طے پایا ۔استاجرت خدیجة رسـول اللّه (صـلی الله علیه وآله) سفرتین الی جرش، کلّ سفرة بقلوص.
پیغمبر اکرمؐ کے تجارتی سفروں کے حالات سے متعلق تاریخی و روائی منابع میں ان علاقوں کا نام ذکر کیا گیا ہے کہ جہاں پیغمبرؐ حضرت خدیجہؑ کے مال کیساتھ تجارت اور لین دین کی غرض سے تشریف لے گئے تھے۔ حضرت محمدؐ نے جناب خدیجہؑ کیلئے زیادہ سے زیادہ پانچ تجارتی سفر؛ چار یمن کی طرف اور ایک شام کی طرف انجام دئیے۔
یہ علاقے درج ذیل ہیں:
تاریخی منابع کی رو سے آنحضرتؐ کی سربراہی میں حضرت خدیجہؑ کے پہلے تجارتی قافلے کے
تھامہ کی جانب سفر کی پہلی منزل
یمن کا
بازارِ حباشہ تھی۔
حُباشہ زمانہ جاہلیت میں عربوں کا ایک بازار تھا۔
استاجرته خدیجة بنت خویلد الی سوق حباشه و هو سوق بـتهامه؛ خدیجہ بنت خویلد نے رسول خداؐ کی خدمات حاصل کیں تاکہ تھامہ کے علاقے میں واقع بازار حباشہ کی طرف روانہ ہوں۔
نبی کریمؐ اپنے تجارتی
شریک سائب بن ابی سائب، صیفی بن عابد
اور حضرت خدیجہؑ کے غلام
میسرہ کے ہمراہ حباشہ کے بازار کی طرف روانہ ہوئے اور کامیابی سے واپس آئے۔
ایک روایت میں نبی کریمؐ فرماتے ہیں: لمّا رجعنا من سوق حباشة قلت لصاحبی: انطق بـنا نـتحدّث عـند خدیجه؛
رسول خداؐ نے فرمایا: جب ہم حباشہ کے بازار سے واپس آئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ آؤ، خدیجہ کے پاس جائیں اور اس کے ساتھ تبادلہ خیال کریں۔
پیغمبر اکرمؐ کا جناب خدیجہؑ کیلئے اہم ترین تجارتی سفر شام کا تھا جس کے بعد آپؐ ان کے ساتھ رشتہ تزویج میں منسلک ہو گئے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر اکثر منابع نے صرف اس سفر کے ذکر پر اکتفا کیا ہے اور اسے آنحضرتؐ کے جناب خدیجہؑ کے ساتھ تعاون کی ابتدا قرار دیا۔ بظاہر آنحضرتؐ کا پہلا سفر تھامہ کے بازارِ حُباشہ میں تھا
اور شام کا سفر دوسرا یا تیسرا تھا؛ چونکہ حضرتؐ نے یمن کے علاقے جُوَش کا سفر بھی کیا تھا۔
ابن شہر آشوب مناقب میں لکھتے ہیں: و کان النبی قد استاجرته خدیجة علی ان تعطیه بکرین و یسیر مع غـلامها میسرة الی الشام؛ جناب خدیجہؑ نے رسول خداؐ کی خدمات حاصل کیں تاکہ ان کے خادم میسرہ کے ساتھ
تجارت کی غرض سے
شام کا سفر کریں اور اس کے بدلے دو اونٹ
اجرت کے طور پر حاصل کیے
اور ایک دوسرے مقام پر کہتے ہیں: و خرج الی الشام فی تجارته لخدیجة و له خمس و عشرون سـنة؛ رسول خداؐ پچیس سال کے سن میں خدیجہ کے مال کیساتھ شام کے سفر پر تشریف لے گئے۔
دیگر منابع میں آیا ہے: بعثت الیه فعوضت علیه ان یخـرج فی مالها تاجراً الی الشام؛ جناب خدیجہؑ نے رسول خداؐ کے پاس کسی کو بھیجا اور ان سے درخواست کی کہ ان کے سرمائے کیساتھ تجارت کیلئے شام کا سفر کریں۔
اس سفر کے بعد جناب خدیجہؑ آنحضورؐ کی معترف ہو گئیں۔
بعض منابع میں پیغمبرؐ کے تجارتی قافلے کی منزل
بصری شام کے نزدیک واقع ایک مقام بتایا گیا ہے۔ فخرج مع غلامها میسرة و جعل عمومته یوصون به اهل العیر حتی قد مـا بـصری من الشام؛ پیغمبرؐ جناب خدیجہؑ کے خادم میسرہ کے ہمراہ شام پہنچ گئے۔ روانگی سے قبل آپ کے چچاؤں نے اہل کاروان کو آپؐ کا خیال رکھنے کی تلقین کی تھی۔
ابن سعد طبقات الکبریٰ میں لکھتے ہیں: وخرج الی سوق بصری فباع سـلعته التـی اخرج و اشتری غیرها؛ پیغمبرؐ بصری کے بازار میں تشریف لے گئے اور اپنا سامان تجارت فروخت کر دیا اور نیا سامان خرید لیا۔
جرش یمن میں واقع شہر کا نام ہے جو مکہ کی طرف سے یمن کی آبادی کا حصہ شمار ہوتا تھا۔
ایک دوسری روایت میں منقول ہے کہ خدیجہؑ نے رسول خداؐ کی خدمات دو مرتبہ حاصل کیں کہ وہ جُرَش کی طرف سفر کریں اور ہر سفر کے بدلے آپؐ کو ایک جوان اونٹ بطور معاوضہ دیا۔استاجرت خدیجة رسول اللّه سـفرتین الی جـرش، کل سـفرة بقلوص؛ خدیجہؑ نے دو مرتبہ رسول خداؐ کی خدمات حاصل کیں تاکہ جرش کے علاقے کی طرف سفر کریں اور ہر سفر کے بدلے ایک جوان اونٹ اجرت کے طور پر دیا۔
پیغمبرؐ نے جناب خدیجہؑ کے سرمائے سے جو تجارتی سفر انجام دئیے، اس کے دوران کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جنہیں تاریخ و سیرت کی کتابوں میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
ابن شہر آشوب نے ایک
مرسل خبر میں بیان کیا ہے: خدیجہ، نے پیغمبرؐ کی اس شرط پر خدمات حاصل کیں کہ وہ ان کے خادم میسرہ کے ساتھ شام کے سفر پر جائیں اور اس کے معاوضے میں وہ دو جوان اونٹ دیں گی۔
جب وہ سفر پر روانہ ہوئے تو رسول خداؐ ایک درخت تلے تشریف فرما ہوئے اور
نسطور نامی راھب آپؐ کے استقبال کیلئے آیا اور آپ کے ہاتھ پاؤں چومنے لگا اور کہا: اشهد ان لا اله الاّ اللّه و اشهد انّ محمّداً رسول اللّه... پھر اس نے میسرہ کو دیکھ کر کہا: ان کے اوامر و
نواہی کی
پیروی کرو کیونکہ وہ پیغمبرؐ ہیں ۔۔۔ اور
عیسیؑ نے انہی کی
بشارت دی ہے ۔۔۔۔ میسرہ خدیجہ کے پاس آئے اور انہیں پیغمبرؐ کے حالات سے باخبر کیا اور کہا: جب میں اور وہ کھانا کھاتے تھے تو سیر ہو جاتے تھے مگر
کھانا اسی طرح باقی رہتا! اسی طرح میں نے دیکھا کہ نصف النھار میں دو
فرشتے ان پر سایہ کیے ہوئے تھے۔
دیگر منابع میں بھی یہ داستان معمولی فرق کے ساتھ مذکور ہے۔
قطب راوندی نے تجارتی سفر میں پیش آنے والے واقعات بیان کرتے ہوئے راھب کا نام ’’بحیرا‘‘ لکھا ہے۔
شیخ صدوقؒ سے منقول ایک دوسری روایت میں پیغمبر اکرمؐ کے بصری کی طرف سفر کا ماجرا بیان کیا گیا ہے۔ اس روایت کے مطابق ابو المویھب نامی راہب نے آنحضرتؐ کے ساتھ کاروان میں آنے والے اشخاص عبد مناۃ اور نوفل سے آپؐ کے بارے میں دریافت کیا۔ انہوں نے جواب میں کہا: ہم نے پیغمبرؐ کو بصری کے بازار میں چھوڑا تھا، اتنے میں رسول خداؐ واپس آ گئے اور ابو المویھب نے کہا: یہ وہی ہیں اور کچھ دیر تک آنحضرتؐ کے ساتھ علیٰحدگی میں ملاقات اور گفتگو کی۔
شام کے تجارتی سفر میں نبی کریمؐ کی امانت و
صداقت، حضرت خدیجہؑ کے غلام میسرہ کی زبانی سفر کے حالات اور مکہ میں محمد امینؐ کے نام سے آپؐ کی شہرت نے حضرت خدیجہؑ کی توجہ کو جلب کیا اور انہوں نے پیغمبرؐ سے عقد کیلئے پیغام بھیج دیا۔
زیادہ تر منابع کے مطابق جناب خدیجہؑ نے حضرت محمدؐ کے ساتھ عقد سے پہلے بھی دو مرتبہ ازدواج کیا تھا؛
بعض مورخین نے کچھ شواہد پیش کر کے حضرت خدیجہؑ کے پیغمبرؐ سے پہلے کسی اور سے ازدواج کی خبروں کو مسترد کیا ہے۔
ابن شہر آشوب کہتے ہیں:
احمد بلاذری اور
ابو القاسم کوفی نے اپنی کتابوں میں اور بزرگ شیعہ عالم
سید مرتضیٰ نے کتاب ’’الشافی‘‘ میں اور
شیخ طوسیؒ نے تلخیص الشافی میں یہ روایت نقل کی ہے کہ جب پیغمبرؐ نے حضرت خدیجہؑ کے ساتھ ازدواج کیا تو آپؑ کنواری تھیں؛ اسی لیے حضرت خدیجہؑ کا شادی کے وقت سن ۲۵، ۲۸ اور ۳۰ سال بیان کیا ہے۔... و روی احمد البلاذری و ابو القاسم الکوفی فی کتابیهما و المرتضی فی الشافی، و ابو جعفر فی التلخیص: ان النبی (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) تزوج بها و کانت عذراء...
حضرت خدیجہؑ نے میسرہ
یا اپنی سہیلی نفیسہ بنت مُنیہ کے ذریعے
یا بذات خود
ازدواج کی درخواست پیغمبرؐ کے گوش گزار کی جبکہ اس سے پہلے آپؑ
قریش کے بڑے بڑے سرداروں کی جانب سے خواستگاری کے جواب میں انکار کر چکی تھیں حالانکہ وہ بھاری حق مہر ادا کرنے پر تیار تھے۔
جب پیغمبرؐ نے اپنے چچاؤں کے سامنے خواستگاری کا مسئلہ رکھا تو پہلے پیغمبر اکرمؐ کی پھوپھی جناب
صفّیہ تحقیق کی غرض سے حضرت خدیجہؑ کے گھر تشریف لے گئیں
اور حقیقت حال معلوم ہونے کے بعد آنحضرتؐ کے چچا جناب خدیجہؑ کے گھر گئے اور ان کے چچا عمرو بن اسد سے حضرت خدیجہؑ کیلئے خواستگاری کی۔
زیادہ تر منابع نے پیغمبرؐ کا نمائندہ اور عقد خوان حضرت ابوطالبؑ کو اور بعض نے حمزہ کو
قرار دیا ہے۔.
تاہم حضرت خدیجہؑ کے اس تقریب میں وکیل کے بارے میں منابع میں اختلاف ہے؛ ابن ہشام
نے حضرت خدیجہؑ کے والد خویلد بن اسد کو اور ابن اسحاق
اور ابن کلبی
نے آپؑ کے چچا عمرو بن اسد کو آپؑ کا وکیل لکھا ہے۔ بعض کے بقول خویلد بن اسد حرب فجار میں اور ایک قول کے مطابق اس سے پہلے مارے گئے تھے؛
لہٰذا یہ قول کہ حضرت خدیجہؑ نے اپنے والد کو اس ازدواج پر راضی کرنے کیلئے انہیں
مست کر دیا تھا؛
بے سرو پا ہے۔.
اکثر منابع میں عقد کے وقت پیغمبرؐ کا سن ۲۵ سال اور حضرت خدیجہؑ کا سن ۴۰ سال قرار دیا گیا ہے۔ بعض نے حضرت خدیجہؑ کے سن کے حوالے سے دیگر اقوال بھی نقل کیے ہیں جنہیں ذکر کیا جا چکا ہے۔
بہرحال یوں محسوس ہوتا ہے کہ اندازا آپؑ کا سن ۴۰ سال تھا اور اس عدد کو انتخاب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ۴۰ سال کا اشارہ عقلی رشد و کمال کی طرف ہوتا ہے۔
حضرت خدیجہؑ کی پیغمبرؐ سے اولاد کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض منابع میں ہے کہ آپؑ کی چار بیٹیاں تھیں۔ بعض نے کہا ہے کہ پیغمبرؐ اور حضرت خدیجہؑ کے ۳ یا ۴ بیٹے تھے۔
بعض نے کہا ہے کہ حضرت خدیجہؑ کے قاسم اور عبد اللہ نامی دو بیٹے اور رقیہ، زینب، ام کلثوم اور فاطمہؑ چار بیٹیاں تھیں۔
جن منابع میں ۳ یا ۴ بیٹوں کا ذکر ہے بظاہر انہوں نے عبد اللہ کے القاب یعنی طیب و طاہر کو علیٰحدہ اسم فرض کیا ہے۔
تاریخی کتب کے مطابق بیٹیوں کی تعداد ایک یا چار تھی اور بیٹوں کی تعداد دو ہونے کا احتمال زیادہ قوی ہے۔ اہل سنت کے نزدیک زینب کی ولادت کے وقت پیغمبر اکرمؐ کا سن مبارک ۳۰ برس تھا
لہٰذا ان کے نزدیک سب سے بڑی بیٹی زینب تھیں؛ اسی طرح رقیہ و ام کلثوم جو
ابو لہب کے بیٹوں سے علیٰحدگی کے بعد یکے بعد دیگرے
عثمان کے
عقد میں آئیں؛
بظاہر حضرت فاطمہؑ کہ جو بعثت کے دوسرے یا پانچویں سال پیدا ہوئیں؛
سے بڑی ہیں۔حسن امین
تاریخی اسناد میں اختلاف و اضطراب کی وجہ سے حضرت فاطمہؑ کے سوا پیغمبرؐ کی حضرت خدیجہؑ سے کسی اور بیٹی کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس نقطہ نظر کو
جعفر مرتضیٰ عاملی نے کتاب
ربائب الرسول میں زیادہ تفصیل سے لکھا ہے۔
جب پیغمبر اکرمؐ تیس برس کے ہوئے
تو مکہ شہر میں ایک بڑا واقعہ رونما ہوا۔ یہ واقعہ
علیؑ کی خانہ
کعبہ میں ولادت تھی۔ امام علیؑ ۱۳
رجب بروز
جمعہ بمطابق ۳۰ عام الفیل کو بعثت سے ۱۰ سال پہلے کعبہ کے اندر پیدا ہوئے۔ امامؑ کے مقام ولادت کے بارے میں
شیخ مفیدؒ کے الفاظ یہ ہیں: ولد بمکة فی البیت الحرام؛ مکہ میں بیت الحرام کے اندر پیدا ہوئے۔
مسعودی متوفی ۳۴۶ھ امامؑ کے مقام ولادت کے بارے میں لکھتا ہے: وکان مولده فی الکعبة؛ امامؑ کعبہ میں پیدا ہوئے۔
آپ کی کعبہ میں ولادت کی روایت کو
علمائے شیعہ اور بہت سے اہل سنت علما جیسے حاکم نیشاپوری مستدرک میں، حافظ گنجی شافعی، ابن جوزی حنفی،
ابن صباغ مالکی الفصول المھمۃ میں اور اس کے علاوہ دیگر منابع جیسے
استیعاب، طبقات ابن سعد،
سیرت ابن ہشام،
البدایۃ و النھایۃ ۔۔۔ متواتر قرار دیتے ہیں
اور علما و محدثین میں بھی مشہور قول یہی ہے۔
جب امام علیؑ ۶ برس کے ہوئے تو مکہ میں
قحط پڑ گیا۔ ابوطالب کثیر العیال تھے اور قحط کے دوران ایک بڑے کنبے کو سنبھالنا مشکل تھا۔ اس لیے حضرت محمدؐ نے اپنے چچا عباس کو تجویز دی کہ جناب ابو طالبؑ کی مدد کریں۔ اس وجہ سے عباس نے جعفر کو اور حضرت محمدؐ نے علیؑ کو اپنے زیر کفالت لے لیا۔
امام علیؑ اس زمانے کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں: انہوں نے بچپنے سے مجھے اپنی گود میں اس طرح جگہ دی ہے کہ مجھے اپنے سینے سے لگائے رکھتے تھے۔اپنے بستر پر جگہ دیتے تھے ۔اپنے کلیجے سے لگا کر رکھتے تھے اور مجھے مسلسل اپنی خوشبو سے سرفراز فرمایا کرتے تھے اورغذا کو اپنے دانتوں سے چبا کر مجھے کھلاتے تھے۔نہ انہوں نے میرے کسی بیان میں جھوٹ پایا اور نہ میرے کسی عمل میں غلطی دیکھی۔
امام علیؑ پہلی شخصیت تھے جو پیغمبرؐ پر
ایمان لائے اور تمام مسلمانوں سے ۷ برس قبل خدا کی عبادت کرتے رہے، آپؑ پیغمبرؐ کے ہمراہ خدا کی عبادت کرتے تھے۔
بزرگ اہل سنت عالم
ابن ابی الحدید کہتے ہیں: زیادہ تر علمائے حدیث اس امر پر یقین رکھتے ہیں کہ آپؑ پہلی شخصیت تھے جو پیغمبرؐ پر ایمان لائے اور ان کی پیروی کرتے رہے۔ امامؑ بذات خود فرماتے ہیں: میں صدیق اکبر ہوں، میں فاروق اعظم ہوں، میں لوگوں کے اسلام قبول کرنے سے پہلے اسلام پر تھا، اور لوگوں کے نماز پڑھنے سے پہلے نماز پڑھتا تھا۔
مشہور نقل کی بنا پر آپؐ ۳۵ برس
کے تھے جب
سیلاب یا آگ لگنے سے
خانہ کعبہ شدید متاثر ہوا اور مکہ معظمہ میں کعبہ کی از سر نو تعمیر کا فیصلہ کیا گیا، رسول خداؐ نے بھی اس میں حصہ لیا، اس دوران
قریش کی مختلف شاخوں میں
حجر الاسود کو نصب کرنے کے معاملے پر باہمی اختلاف شعلہ ور ہو گیا اور وہ ایک دوسرے کا خون بہانے پر تیار ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے وجود کی برکت سے اس اختلاف اور خون ریزی کا قلع قمع کیا۔
اس مشہور قول کے مقابلے میں بعض نے اس واقعے کے وقت پیغمبرؐ کا سن ۲۴ سال ذکر کیا ہے کہ ابھی خدیجہؑ کے ساتھ عقد نہیں ہوا تھا جبکہ بعض نے اس سے بھی کم ذکر کیا ہے؛ جیسا کہ عبارت لما بلغ رسول الله الحلم؛ سے استفادہ ہوتا ہے کہ اس وقت رسول خداؐ ۱۵ برس کے تھے۔
جس زمانے میں قریش نے کعبہ کی تعمیر نو کا فیصلہ کیا، اس وقت خانہ کعبہ کی چھت نہیں تھی اور اس کی اونچائی بھی انسانی قامت سے زیادہ نہیں تھی۔
جب قریش نے حضرت ابراہیمؑ کے ہاتھوں تعمیر کردہ کعبہ کے اطراف کی دیواروں کو اکھاڑا تو نیچے سے ایک سبز رنگ کا پتھر برآمد ہوا مگر جب انہوں نے اسے اکھاڑنا چاہا تو مکہ شہر لرزنے لگا؛ لہٰذا مجبور ہو کر اسے اکھاڑنے کا ارادہ ترک کر دیا اور اسی پتھر کو تعمیر نو کی بنیاد قرار دے کر تعمیراتی کام شروع کر دیا۔ رسول خداؐ نے بھی اس کام میں ان کی مدد کی۔
جب انہوں نے چاہا کہ حجر الاسود کو پہلے والی جگہ پر نصب کریں تو قبائل کے سربراہوں میں اختلاف ہو گیا؛ کیونکہ ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ یہ افتخار اس کے حصے میں آئے۔ قریش کے بزرگ کسی راہ حل کی تلاش میں تھے تاکہ جنگ اور خون ریزی کے بغیر یہ معاملہ طے ہو جائے۔
ابو امیہ بن مغیرہ جو قریش کے مسن ترین فرد تھے، انہوں نے تجویز دی کہ پہلا شخص جو اس دروازے سے داخل ہو، وہ اس کا فیصلہ کرے اور جو وہ کہے اسے سب قبول کر لیں۔ قریش نے یہ رائے مان لی کہ اچانک محمدؐ اسی دروازے سے داخل ہوئے؛ سب نے پرجوش ہو کر کہا: یہ امین ہیں جو آ رہے ہیں، یہ محمد ہیں! ہم سب اس کے فیصلے پر راضی ہیں۔ رسول خداؐ کے حکم پر انہوں نے حجر اسود کو ایک چادر کے بیچ میں رکھا اور قبائل کے رؤسا میں سے ہر ایک نے چادر کا ایک کنارہ پکڑا اور یوں سب نے مل کر اسے اوپر اٹھایا؛ جب پتھر اپنی اصل جگہ کے سامنے پہنچ گیا تو خود حضرتؐ نے آگے بڑھ کر حجر اسود کو چادر کے درمیان سے اٹھایا اور اسے نصب کر دیا۔
کعبہ کی تعمیر نو کے حوالے سے اہل سنت منابع میں کچھ ناقابل قبول روایات بھی منقول ہیں کہ پیغمبرؐ نے کعبہ کی تعمیر کیلئے جب پتھر کو اٹھایا تو اپنے چچا
عباس کے کہنے پر اپنی کمر سے چادر کھول کر کندھے پر رکھی تاکہ پتھر اٹھانے سے تکلیف نہ ہو؛ یوں آپ (معاذ اللہ) برہنہ ہو گئے اور اچانک غش کھا کر زمین پر گر گئے۔ البتہ اس کے بعد حضرت کو کسی نے برہنہ نہیں دیکھا۔
شیعہ نقطہ نظر سے یہ روایات
جھوٹی ہیں کہ جنہیں پیغمبرؐ کی شان اور
عصمت سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے کے غرض سے
جعل کیا گیا ہے۔
[ترمیم]
زمانہ جاہلیت کے مشرک عرب اور ان کے حامی نبی کریمؐ کی شخصیت کشی کیلئے طرح طرح کی گھناؤنی چالیں چلتے تھے تاکہ اس طرح آنحضرتؐ کی دعوت
توحید کا راستہ روکا جا سکے؛ چنانچہ قرآن کریم کی تصریح کے مطابق وہ آنحضرتؐ کو
ساحر مجنون،
کذاب،
سفیہ کہتے تھے۔
رسول اعظمؐ کی زندگی کے اہم ترین اور قابل توجہ نکات میں سے ایک یہ ہے کہ پیغمبرؐ کی سوانح حیات بالخصوص بعثت سے پہلے کی زندگی کے حوالے سے تاریخی منابع متضاد اور
ضعیف روایات پر مشتمل ہیں۔
سیرت نگاروں نے مختلف اوقات زندگی میں پیغمبر اکرمؐ کی جانب سے
محنت مزدوری انجام دینے کا تذکرہ کیا ہے۔ ان کے مطابق
جوانی اور
نوجوانی کے دوران اور
بعثت سے پہلے آںحضرتؐ محنت مزدوری کیا کرتے تھے اور اس کے بارے میں انہوں نے مختلف واقعات ذکر کیے ہیں جبکہ آپؐ کی بعثت کے بعد کی زندگی میں ایسی کوئی روایت نہیں ملتی؛ جس سے یہ احتمال تقویت پکڑتا ہے کہ آنحضرتؐ کے حالات زندگی میں تحریف اور جعل سازی کی گئی ہے۔
اکثر تاریخی منابع میں نبی کریمؐ کے اجیر ہونے کا موضوع دو حوالوں سے ذکر ہوا ہے۔
اول: نبی کریمؐ کا قریش کیلئے گلہ بانی کرنا۔
دوم: نبی کریمؐ کا جناب خدیجہؑ کے کاروان کیلئے اجیر ہونا۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ پیغمبرؐ کا مکہ کے اشراف کیلئے بہت کم اجرت پر گلہ بانی کرنے کا ماجرا اور جناب خدیجہؑ کے تجارتی کاروان میں اجیر ہونے کی داستان؛ دشمنوں کی جانب سے آپؐ کی شخصیت کشی اور کسر شانی کی غرض سے گھڑی گئی ہے۔
ایک بنیادی سوال جو
ذہن میں پیدا ہوتا ہے؛ یہ ہے کہ پیغمبرؐ کا اجیر ہونا، آپؐ کی شخصیت اور مقام کے ساتھ کیونکر متضاد ہے؟! موضوع کے صحیح ادراک، آپؐ کے معاشرتی مقام کی شناخت اور اس قبیل کی روایات کی تصدیق یا تکذیب کیلئے ضروری ہے کہ اس زمانے کے زمانی و مکانی حالات کو سمجھا جائے۔
ایک غلط نسبت جو
وضع و
جعل میں مشہور افراد نے رسول اکرمؐ کی طرف دی ہے، وہ آپؐ کا مشرکین مکہ کیلئے گلہ بانی کرنا ہے۔ محدثین اور تاریخ نویسوں نے ان روایات کو تسلیم کر کے یہ قاعدہ کلیہ ہی فرض کر لیا کہ جس کی بنا پر تمام پیغمبر اور رسول اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے میں گلہ بانی کریں تاکہ ان میں
رسالت کی بھاری ذمہ داری قبول کرنے کی اہلیت پیدا ہو سکے!
پیغمبر اکرمؐ کی محنت مزدوری اور گلہ بانی کی داستان اہل سنت کی حدیثی و تاریخی کتب کی متعدد
روایات میں نقل ہوئی ہیں اور یہ کچھ حد تک
شیعہ کتب میں بھی موجود ہیں۔
۱۔ بخاری نے
ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول خداؐ نے فرمایا: ما بعث الله عزوجل نبیا الا راعی غنم... ؛ خدائے عزوجل نے کسی کو پیغمبر نہیں بنایا مگر یہ کہ وہ چرواہا تھا!
۲۔ ایک اور حدیث میں ہے: ما من نبی الا قد رعاها؛ کوئی پیغمبر نہیں تھا مگر یہ کہ چرواہا!
۳۔ ایک اور
حدیث میں آیا ہے: بعث موسیٰ و هو راعی غنم و... بعثت و انا ارعی غنم اهلی باجیاد؛ موسیٰ مبعوث ہوئے اس حال میں کہ بھیڑ بکریاں چراتے تھے اور میں اس حال میں مبعوث ہوا کہ اجیاد میں اپنے خاندان کی بکریاں چراتا تھا۔
۴۔
شیخ صدوقؒ کی کتاب
علل الشرائع میں منقول ہے کہ
امام صادقؑ نے فرمایا: ما بعث الله نبیا قط حتی یسترعیه الغنم یعلمه بذلک رعیه الناس؛ خدا نے کبھی کوئی پیغمبرؐ نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہ بھیڑ بکریاں چراتا تھا تاکہ اس کے ذریعے انہیں لوگوں کی دیکھ بھال کا طریقہ سکھائے۔
ادیان اور
انبیائے الٰہی بالخصوص
اسلام کی تعلیمات کے مطابق اور تاریخ میں آئمہ معصومینؑ کی
سیرت کے پیش نظر ہم اس حقیقت تک پہنچتے ہیں کہ بشر کے ہادی،
ہدایت کے عظیم فریضے کے علاوہ کوئی نہ کوئی کام بھی کرتے تھے تاکہ اپنے
خاندان اور
معاشرے کے معاشی امور کو چلا سکیں۔
حضرت علیؑ اور آپ کی پاکیزہ اولاد کی زندگی ایسی مثالوں سے مملو و پر ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے کام اور محنت کی بہت اہمیت اور احترام ہے کہ اسے افضل ترین عبادت کہا گیا ہے؛ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: العبادة سبعون جزاً افضلها طلب الحلال»
اور اس کا ثواب
جہاد اور
دشمن سے مقابلے کے برابر؛ الکاد لعیاله کالمجاهد فی سبیلالله»
قرار دیا گیا ہے؛ چنانچہ امام صادقؑ محنت اور کام کو عزت و بزرگی کا موجب (اعذ الی عزک)
قرار دیتے ہیں۔
تاہم طرح طرح کی
اخلاقی گراوٹوں کے شکار عصر جاہلیت کے عرب زیادہ تر تجارت پیشہ تھے یا پھر
فقیر و
تنگ دست۔
مکہ شہر میں مقیم بیشتر تاجر
رباخواری میں گرفتار تھے اور اس طرح کسی مشقت کے بغیر مال و
دولت حاصل کر لیتے تھے اور کام کرنے کو اپنی شان کے منافی سمجھتے تھے۔ مگر محتاج لوگ کہ جن میں زیادہ تر صحرائی تھے؛
چوری اور کاروانوں کی لوٹ مار کر کے اپنا گزر بسر کرتے تھے؛ یا پھر اجرت کے بدلے انفرادی تجارتی کاروانوں کی حفاظت کا ذمہ لیتے تھے۔ لہٰذا وہ احترام اور اہمیت جو ہم اسلام میں
محنت اور
مزدور کیلئے دیکھتے ہیں؛ وہ
جاہلی عرب کے ذہن میں نہیں تھا۔
اہل سنت کے روائی اور تاریخی منابع کے مطابق گویا اللہ تعالیٰ کے سب پیغمبروں اور رسولوں کو اپنی زندگی کا کچھ حصہ گلہ بانی میں گزارنا ہوتا ہے تاکہ رسالت کے امر خطیر کی شائستگی پیدا کر سکیں! یعنی گلہ بانی کا پیشہ، انبیاء کی رسالت کا ایک مقدمہ قرار دیا گیا ہے۔ جیسے: ما من نبی الا قد رعاها»
اور ما بعث الله عزوجل نبیا الا راعی غنم
لہٰذا پیغمبر اکرمؐ کے حوالے سے بھی اس روائی ضابطے کے تحت آنحضرتؐ کو قریش کا گلہ بان قرار دیا گیا۔ پیغمبر اکرمؐ کی گلہ بانی کی حکایت کرنے والی روایات ضعیف ہیں۔ اس کے علاوہ قابل توجہ بات یہ ہے کہ گلہ بانی ہرگز
نبوت و
رسالت اور اعلیٰ اخلاقی درجات تک پہنچنے کا مقدمہ نہیں ہے۔ اگرچہ بعض شیعہ و سنی تاریخ نگاروں نے گلہ بانی کو کسی نہ کسی طرح انسانوں کی تربیت اور
تہذیب نفس کے ساتھ مربوط کیا ہے،
تاہم اس نکتے سے غفلت نہیں برتنی چاہئیے کہ اگر
انبیاء اور بالخصوص نبی کریمؐ خلق عظیم،
صبر اور
استقامت کے مالک تھے تو یہ سب کمالات
وحی اور آسمانی
تعلیم و
تربیت کے زیر سایہ تھے اور ہرگز ان میں سے کوئی بھی کمال گلہ بانی سے مربوط نہیں تھا۔ جیسا کہ قرآنی آیات میں نبوی کمالات کا سرچشمہ
رحمت الٰہی کو قرار دیا گیا ہے نہ کہ گلہ بانی کو۔ فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُم...؛
رحمت الٰہی کی برکت سے لوگوں کیلئے نرم خو اور مہربان ہو ۔۔۔ ۔
امیر المومنینؑ نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں: اور اللہ نے دودھ بڑھائی کے دور ہی سے ان کے ساتھ ایک عظیم ترین ملک(فرشتے) کو کردیا تھا جو ان کے ساتھ بزرگیوں کے راستوں اور بہترین اخلاق کے طور طریق پر چلتا رہتا تھا اورشب و روز یہی سلسلہ رہا کرتا تھا۔
خلاصہ یہ کہ اس طرح کی روایات کو قرآن کریم اور نہج البلاغہ کے سامنے پیش کر کے یہ قطعی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کی تعلیم و تربیت اور خلق عظیم پر فائز ہونے کی بازگشت اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم اور آسمانی فرشتے کی طرف تھی نہ کہ گلہ بانی اور بھیڑ بکریوں کے ماحول کی طرف۔ دراصل اسلامی تعلیمات میں گلہ بانی کی حیثیت ایک پیشے سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور یہ کسی بھی پیغمبر کی نبوت و رسالت کے ضروری مقدمات میں سے نہیں ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]