پندرہ رمضان کی دعا

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



پندرہ رمضان کی دعا میں خاشعین کی مثل فرمانبرداری کی خواہش اور مخبتین کی طرح کے شرح صدر جیسی صفات کے حصول کی تلقین ملتی ہے۔


دعا کا ترجمہ و متن

[ترمیم]

اللهمّ ارْزُقْنی فیهِ طاعَةَ الخاشِعین واشْرَحْ فیهِ صَدْری بانابَةِ المُخْبتینَ بامانِکَ یا امانَ الخائِفین
معبود! آج کے دن مجھے خشوع کرنے والوں جیسی عبادت نصیب کر اور اس میں دلدادہ لوگوں جیسی بازگشت کے لیے میرا سینہ کھول دے اپنی پناہ کے ساتھ اے خائفین کی پناہ!

دعا کے جملات کی شرح

[ترمیم]

اس دعا کے ابتدائی اقتباس میں ہے: اللهم ارزقنی فیه طاعه الخاشعین
یعنی خدایا! اس دن مجھے اپنے خاشع و خاضع بندوں کی اطاعت نصیب فرما۔
خاشعین کی پہچان کیلئے بہتر ہے کہ پہلے متکبرین کے بارے میں بات کریں؛ کیونکہ خضوع و خشوع بطور کامل تکبر و غرور سے متضاد ہے؛ اس طور کہ جو کچھ متکبرین کی صفات میں موجود ہے، اس کی ضد خاشعین میں موجود ہے۔
اس موضوع کی وضاحت کیلئے ہم حضرت علیؑ کے بے مثال کلام کی طرف اشارہ کریں گے کہ متکبرین کے بارے میں یہ فرماتے ہیں: أَلَا فـَالْحـَذَرَ الْحـَذَرَ مـِنْ طـَاعـَهِ سـَادَاتـِکُمْ وَ کُبَرَائِکُمْ الَّذِینَ تَکَبَّرُوا عَنْ حَسَبِهِمْ وَ تـَرَفَّعـُوا فـَوْقَ نـَسـَبـِهـِمْ وَ أَلْقَوُا الْهَجِینَهَ عَلَى رَبِّهِمْ وَ جَاحَدُوا اللَّهَ عَلَى مَا صَنَعَ بِهِمْ مـُکـَابـَرَهً لِقـَضـَائِهِ وَ مـُغـَالَبـَهً لِآلَائِهِ فـَإِنَّهـُمْ قـَوَاعـِدُ أَسـَاسِ الْعـَصَبِیَّهِ وَ دَعَائِمُ أَرْکَانِ الْفِتْنَهِ وَ سُیُوفُ اعْتِزَاءِ الْجَاهِلِیَّهِ.
آگاہ ہو جائو ۔اپنے ان بزرگوں (۱) اور سرداروں کی اطاعت سے محتاط رہو جنہوں نے اپنے حسب پر غرور کیا اور اپنے نسب کی بنیاد پر اونچے بن گئے۔بد نما چیزوں کو اللہ کے سر ڈال دیا اوراس کے احسانات کا صریحی انکار کردیا۔انہوںنے اس کے فیصلہ سے مقابلہ کیا ہے اور اس کی نعمتوں پرغلبہ حاصل کرنا چاہا ہے۔یہی وہ لوگ ہیں جو عصبیت کی بنیاد۔فتنہ کے ستون۔اور جاہلیت کے غرورکی تلواریں ہیں۔

اسی طرح امام علیؑ نے ایک اور اقتباس میں فرمایا: أَمْراً تَشَابَهَتِ الْقُلُوبُ فِیهِ وَ تَتَابَعَتِ الْقُرُونُ عَلَیْهِ وَ کِبْراً تَضَایَقَتِ الصُّدُورُ بِهِ یہی وہ امر ہے جس میں قلوب سب ایک جیسے ہیں اور نسلیں اسی راہ پر چلتی رہی ہیں اور یہی وہ تکبر ہے جس کی پردہ پوشی سے سینے تنگ ہیں۔
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: فَاللهَ اللهَ فی کِبْرِ الْحَمیَّهِ وَ فَخْرِ الْجاهِلیَّهِ:
خدارا خدا سے ڈرو! تکبر کے غرور اور جاہلیت کے تفاخر کے سلسلہ میں؛

خضوع و خشوع ایک ظرف کی مانند ہے کہ انسان جس کے وسیلے سے خدا کی رضا و خوشنودی کے حصول کی سعی کرتا ہے اور تکبر ایسے خالی ظرف کی مانند ہے کہ جس میں غرور و تکبر کے سوا کوئی چیز نہیں سموتی۔ یہی خضوع و خشوع انسان کو اپنے خدا سے نزدیک کرتا ہے؛ کیونکہ انسان جس قدر خود کو پروردگار عالم کے سامنے ذلیل و خوار کرے، اس کے سامنے اس کی قدر و قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

تکبر اور خضوع کے اثرات

[ترمیم]

تکبر کرنے والا انسان عام طور پر اپنی خواہشات کے حوالے سے متعصب ہوتا ہے اور بلا دلیل و منطق ان پر اصرار کرتا ہے۔ اگر اس کی مخالفت ہو تو وہ زبردستی کرتا ہے اور سعی کرتا ہے کہ زبانی نوک جھونک کر کے اپنی بات منوا لے؛ اس کے نتیجے میں وہ دوسروں کے ساتھ بد اخلاقی کرتا ہے تاکہ اس کو ملحوظ خاطر رکھا جائے اور اس بد اخلاقی کی اصلاح کیلئے اپنے ضمیر کی آواز یا دوسروں کے وعظ و نصیحت سے استفادہ نہیں کرتا کیونکہ وہ حق بات کو نہیں سنتا اور نصیحت کو قبول نہیں کرتا۔ تنقید سے منہ موڑتا ہے اور صرف سن کر ہی ناراض ہو جاتا ہے اور اسے قبول نہیں کرتا۔ یہی بات بہت سے کینیوں کا منشا قرار پاتی ہے۔
ان گزارشات کے پیش نظر ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ خضوع و خشوع ایک ظرف کی مانند ہے کہ جس کے وسیلے سے انسان اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کو جمع کرتا ہے اور تکبر ایسے ظرف کی مانند ہے جو اندر سے خالی ہے اور اس میں غرور و تکبر کے سوا کوئی چیز نہیں سماتی۔ یہی خضوع و خشوع [[ انسان کو خدا کے قریب کرتا ہے کیونکہ انسان جس قدر خود کو پروردگار عالم کے سامنے ذلیل و خوار سمجھے گا، اس کی قدر اس کی بارگاہ میں زیادہ ہوتی جائے گی۔
تحقیر، خواری، دھتکارا جانا اور آخر کار جہنم کی آگ وہ منازل ہیں کہ جن کی طرف تکبر کا راستہ منتہی ہوتا ہے۔ امیر المومنینؑ ابلیس کے بارے میں ایک مثال دیتے ہیں تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں ایک متکبر نمونہ ہونے کے عنوان سے باقی رہے اور اس کے انجام سے عبرت حاصل کی جائے۔
چنانچہ حضرت علیؑ فرماتے ہیں: «وَ اعـْتـَمـِدُوا وَضـْعَ التَّذَلُّلِ عـَلَى رُءُوسـِکـُمْ وَ إِلْقـَاءَ التَّعـَزُّزِ تَحْتَ أَقْدَامِکُمْ وَ خَلْعَ التَّکَبُّرِ مِنْ أَعْنَاقِکُمْ وَ اتَّخِذُوا التَّوَاضُعَ مَسْلَحَهً بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَ عَدُوِّکُمْ إِبْلِیسَ وَ جُنُودِهِ:
اپنے سرپر تواضع کا تاج رکھنے کا عزم کرو اور تکبر کو اپنے پیروں تلے رکھ کر کچل دو۔غرور کے طوق کو اپنی گردنوں سے اتار کرپھینک دواور اپنے اور اپنے دشمن ابلیس اور اس کے لشکروں کے درمیان تواضع و انکسار کا مورچہ قائم کرلو کہ اس نے ہر قوم میں سے اپنے لشکر ' مدد گار' پیادہ ' سوار سب کاانتظام کرلیا ہے۔ پس خدا کے سامنے خشوع و خضوع کا معنی اطاعت اور اس کی ذات کے سامنے خالصانہ بندگی ہے اور ہم بھی خدا سے یہ دعا کرتے ہیں کہ ہمیں خشوع و خضوع کے ساتھ عبادت و اطاعت نصیب فرمائے۔

متکبّر کا مستقبل

[ترمیم]

باب مدیںہ العلم نے اپنی الفاظ میں متکبر شخص کا مستقبل اس طرح بیان کیا ہے:
وَتَعَصَّبَ عَلَيْهِ لأصْلِهِ. فَعَدُوُّ اللهِ إِمَامُ الْمُتَعَصِّبِينَ، وَسَلَفُ الْمُسْتَكْبِرِينَ، الَّذِي وَضَعَ أَسَاسَ الْعَصَبِيَّةِ، وَنَازَعَ اللهَ رِدَاءَ الْجَبْرِيَّةِ، وَادَّرَعَ لِبَاسَ التَّعَزُّزِ، وَخَلَعَ قِنَاعَ التَّذَلُّلِ. أَلاَ تَرَوْنَ كَيْفَ صَغَّرَهُ اللهُ بِتَكَبُّرِهِ، وَوَضَعَهُ بِتَرَفُّعِهِ، فَجَعَلَهُ فِي الدُّنْيَا مَدْحُوراً، وَ أَعَدَّ لَهُ فِي الاْخِرَةِ سَعِيراً؟!: اور اپنی اصل کی بنا پراستکبار کا شکار ہوگیا جس کے بعد یہ دشمن خدا تمام متعصب افراد کا پیشوا اور تمام متکبر لوگوں کا مورث اعلیٰ بن گیا۔اسی نے عصبیت کی بنیاد قائم کی اور اسی نے پروردگارسے جبروت کی رداء میں مقابلہ کیا اور اپنے خیال میں عزت و جلال کا لباس زیب تن کر لیا اور تواضع کا نقاب اتار کر پھینک دیا۔
اب کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ پروردگار نے کس طرح اسے تکبر کی بنا پرچھوٹا بنادیا ہے اور بلندی کے اظہار کے بنیاد پر پست کردیا ہے۔ دنیا میں اسے ملعون قرار دے دیا ہے اور آخرت میں اس کے لئے آتش جہنم کا انتظام کردیا ہے۔.)
پس تحقیر، خواری، دھتکارا جانا اور آخر کار جہنم وہ منازل ہیں کہ جن تک تکبر کی راہ منتہی ہوتی ہے۔ امیر المومنینؑ اس حوالے سے ابلیس کی مثال پیش کرتے ہیں تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں متکبر کی مثال مجسم ہو جائے اور وہ اس کے انجام سے عبرت حاصل کریں۔
متواضع کون ہیں؟! جواب میں کہنا چاہئے کہ تواضع اور عاجزی متقی مومنین کی ایک نمایاں صفت ہے کہ جو اپنے شب و روز کو تقویٰ و پرہیزگاری کے ساتھ گزارتے ہیں۔

ابلیس سے عبرت

[ترمیم]

ابلیس سے عبرت، ’’حبطِ اعمال‘‘: امیر المومنینؑ اسی خطبے میں آگے فرماتے ہیں: اگر پروردگار یہ چاہتا کہ آدم کو ایک ایسے نورس ے خلق کرے جس کی ضیاء آنکھوں کو چکا چوند کردے اورجس کی رونق عقلوں کو مبہوت کردے یا ایسی خوشبو سے بنائے جس مہک سانسوں کو جکڑلے تو یقینا کر سکتا تھا اور اگر ایسا کر دیتا تو یقینا گردنیں ان کے سمنے جھک جاتیں اور ملائکہ کا امتحان آسان ہو جاتا۔۔۔ ۔ بہتر ہے کہ بحث کو اسوہ اخلاق و ایمان امیر المومنین علیؑ کے جملات سے اختتام پذیر کریں۔ امیر المومنینؑ الہٰی امتحان کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں: وَلكِنَّ اللهُ سُبْحانَهُ يَبْتَلِي خَلْقَهُ بِبَعْضِ مَا يَجْهَلُونَ أَصْلَهُ، تَمْيِيزاً بِالاِْخْتِبَارِلَهُمْ، وَنَفْياً لِلاِْسْتِكْبَارِ عَنْهُمْ، وَإِبْعَاداً لِلْخُيَلاَءِ مِنْهُمْ. فَاعْتَبِرُوا بِمَا كَانَ مِنْ فِعْلِ اللهِ بِإِبْلِيسَ إِذْ أَحْبَطَ عَمَلَهُ الطَّوِيلَ، وَجَهْدَهُ الْجَهِيدَ (الجميل)، وَكَانَ قَدْ عَبَدَ اللهَ سِتَّةَ آلاَفِ سَنَة، يُدْرَى مِنْ سِنِيِ الدُّنْيَا أَمْ مِنْ سِنِي الاْخِرَةِ، عَنْ كِبْرِ سَاعَة وَاحِدَة. فَمَنْ ذَا بَعْدَ إِبْلِيسَ يَسْلَمُ عَلَى اللهِ بِمِثْلِ مَعْصِيَتِهِ؟: لیکن وہ ان چیزوں سے امتحان لینا چاہتا تھا جن کی اصل معلوم نہ ہوتاکہ اسی
امتحان سے ان کا امتیاز قائم ہو سکے ۔اور ان کے استکبار کا علاج کیا جا سکے اور انہیں غرور سے ور رکھا جا سکے۔ تو اب تم سب پروردگار کے ابلیس کے ساتھ برتائو سے عبرت حاصل کرو کہ اس نے اس کے طویل عمل اور بے پناہ جدو جہد کو تباہ کردیا جب کہ وہ چھ ہزار سال عبادت کر چکا تھا۔ جس کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں ہے کہ وہ دنیا کے سال تھے یاآخرت کے مگر ایک ساعت کے تکبر نے سب کو ملیا میٹ کردیا تو اب اس کے بعد کون ایسی معصیت کرکے عذاب الٰہی سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
حضرت علیؑ نے ایک پرہیزگار کی علامات کے بارے میں فرمایا ہے کہ: ان کے پاس دین میں قوت، نرمی میں شدت، احتیاط، یقین میں ایمان، علم کے بارے میں طمع، حلم کی منزل میں علم، مالداری میں میانہ روی، عبادت میں خشوع قلب، فاقہ میں خود داری، سختیوں میں صبر، حلال کی طلب، ہدایت میں نشاط اور لالچ سے پرہیز جیسی تمام باتیں پائی جاتی ہیں۔


مخبتین کا تعارف

[ترمیم]

اس دعا کے ایک جملے میں ہم پڑھتے ہیں: واشْرَحْ فیهِ صَدْری بانابَةِ المُخْبتینَ بامانِکَ یا امانَ الخائِفین
اور اس میں مخبتین جیسی بازگشت کے ساتھ مجھے شرح صدر عطا فرما! اپنی پناہ کے ساتھ اے خائفین کی پناہ!
اب مخبتین کون ہیں؟! آج کی دعا میں جس بنیادی نکتے پر تاکید ہے وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے خضوع و خشوع ہے، یوں کہ آج کے دن خدا سے درخواست کرتے ہیں کہ مخلصین، خاشعین اور عاجز بندوں کے صفات و اعمال میں جو کچھ موجود ہے، وہ ہمیں نصیب کرے۔ تاہم یہاں ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ مخبتین کا معنی کیا ہے؟!
مخبتین کا معنی عاجزی رکھنے والے ہیں، ایسے عاجز جو صرف پروردگار عالم کے سامنے عاجزی کرتے ہیں، اب شاید یہ سوال ہو کہ عاجز و فروتن کونہیں؟! تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ فروتنی متقین کی ایک نمایاں صفت ہے جو اپنے شب و روز کو تقویٰ و پرہیزگاری کے ساتھ گزارتے ہیں۔
چنانچہ حضرت علیؑ نے متقین کی صفت کے بارے میں فرمایا: ان کے پاس دین میں قوت، نرمی میں شدت، احتیاط، یقین میں ایمان، علم کے بارے میں طمع، حلم کی منزل میں علم، مالداری میں میانہ روی، عبادت میں خشوع قلب، فاقہ میں خود داری، سختیوں میں صبر، حلال کی طلب، ہدایت میں نشاط اور لالچ سے پرہیز جیسی تمام باتیں پائی جاتی ہیں۔
اس بزرگوار کے فرمان کے پیش نظر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ’’مخبتین‘‘ وہی پرہیزگار ہیں جو اپنے شب و روز کو ذکر خدا کے ساتھ اختتام پذیر کرتے ہیں اور ہم بھی آج کے دن خدا سے دعا کرتے ہیں کہ متقین کا سا شرح صدر ہمیں بھی عطا فرمائے۔

متعلقہ عناوین

[ترمیم]

یکم رمضان کی دعادو رمضان کی دعاتین رمضان کی دعاچار رمضان کی دعاپانچ رمضان کی دعاچھ رمضان کی دعاسات رمضان کی دعاآٹھ رمضان کی دعانو رمضان کی دعادس رمضان کی دعاگیارہ رمضان کی دعابارہ رمضان کی دعاتیرہ رمضان کی دعاچودہ رمضان کی دعاسولہ رمضان کی دعاسترہ رمضان کی دعااٹھارہ رمضان کی دعاانیس رمضان کی دعابیس رمضان کی دعااکیس رمضان کی دعابائیس رمضان کی دعاتئیس رمضان کی دعاچوبیس رمضان کی دعاپچیس رمضان کی دعاچھبیس رمضان کی دعاستائیس رمضان کی دعااٹھائیس رمضان کی دعاانتیس رمضان کی دعاتیس رمضان کی دعا

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. ابن طاوس، علی بن موسی، اقبال الاعمال، ص۱۵۵۔    
۲. قمی، عباس، مفاتیح الجنان، ص۳۲۰۔    
۳. امام علی علیه‌السلام، نهج البلاغه، خطبه۱۹۲۔    
۴. امام علی علیه‌السلام، نهج البلاغه، خطبه۱۹۲۔    
۵. امام علی علیه‌السلام، نهج‌البلاغه، خطبه۱۹۲۔    
۶. امام علی علیه‌السلام، نهج‌البلاغه، خطبه۱۹۲۔    
۷. امام علی علیه‌السلام، نهج‌البلاغه، خطبه۱۹۲۔    
۸. امام علی علیه‌السلام، نهج‌البلاغه، خطبه۱۹۲۔    
۹. امام علی علیه‌السلام، نهج‌البلاغه، خطبه۱۹۳۔    
۱۰. امام علی علیه‌السلام، نهج‌البلاغه، خطبه۱۹۳۔    


ماخذ

[ترمیم]

سایت تبیان، ماخوذ از مقالہ «شرح دعای روز پانزدهم ماه رمضان»، تاریخ نظرثانی ۱۳۹۵/۱۰/۲۷۔    






جعبه ابزار