دو رمضان کی دعا

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



ماہ رمضان کے دوسرے دن کی دعا اللہ کی خوشنودی کے کسب، اللہ کے غضب اور ناراضگی سے دوری اور قرآن کریم کی قرائت جیسے مضامین پر مشتمل ہے۔


دعا کا متن اور ترجمہ

[ترمیم]

اللهمّ قَرّبْنی فیهِ الی مَرْضاتِکَ، وجَنّبْنی فیهِ من سَخَطِکَ و نَقماتِکَ، و وفّقْنی فیهِ لقرآئةِ آیاتِکَ برحْمَتِکَ یا ارْحَمَ الرّاحِمین
اے معبود ! آج کے دن مجھے اپنی رضاؤں کے قریب کر دے آج کے دن مجھے اپنی ناراضگی اور اپنی سزاؤں سے بچائے رکھ! اور آج کے دن مجھے اپنی آیات پڑھنے کی توفیق دے اپنی رحمت سے اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے!


اس دن کا پیغام

[ترمیم]

اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کیلئے اقدامات کرنا؛
قرآن کریم کی تلاوت کی اہمیت؛
رضائے الہٰی کے حصول کیلئے اقدامات ؛

مقامِ رضا کی اہمیت

[ترمیم]

اس دعا کے پہلے اقتباس میں آیا ہے: اللهمّ قَرّبْنی فیهِ الی مَرْضاتِک اے معبود ! آج کے دن مجھے اپنی رضاؤں کے قریب کر دے!
مقامِ رضا ایک بلند مقام ہے کہ جس تک خدا کے خالص بندے پہنچتے ہیں اور ہر کوئی اس مقام تک پہنچنے کی اہلیت نہیں رکھتا ہے، سورہ فجر کہ جو سورہ امام حسینؑ کے نام سے بھی معروف ہے؛ کے آخر میں مقامِ رضا کے متعلق بات کی گئی ہے، ارشاد ہوتا ہے: یا اَیتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعی اِلی رَبِّک راضِیةً مَرْضِیةً فَادْخُلی فی عِبادی وَ ادْخُلی جَنَّتی
اور میری جنت میں داخل ہو جا اے نفس مطمئنہ! اپنے رب کی طرف پلٹ آ اس عالم میں کہ تو اس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی ہے پھر میرے بندوں میں شامل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔
سید الشہداؑ کے روز عاشور حالات مقامِ رضا کی تجلی ہیں؛ حضرتؑ نے آخری لمحات میں اپنے صبر و رضا کی تجلی کو مناجات کے قالب میں واضح کیا ہے کہ جس کے درک سے ہم عاجز ہیں، وہ کلمات و عبارات ایسے حال میں صادر ہوئے ہیں کہ خون میں ڈوبے ہوئے زمین پر گرے ہوئے ہیں اور اس سے پہلے اپنے عزیز ترین افراد کو اپنی آنکھوں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے ہوتا دیکھ چکے ہیں اور آپؑ کے خاندان کی قید نزدیک ہے۔
اس دعا کے پہلے اقتباس میں خدا سے دعا کرتے ہیں کہ ہم اس راہ پر گامزن ہوں جو اس کی خوشنودی کا باعث ہے اور کوئی ایسا کام انجام نہ دیں جس سے وہ خوش نہیں ہوتا؛ کیونکہ ہمارے اعمال دو قسم کے ہیں :
اول: وہ اعمال جو ہمیں خدا کے نزدیک کرتے ہیں۔
دوم: وہ اعمال جو ہمیں خدا سے دور کرتے ہیں۔ اس اقتباس میں خدا سے دعا کر رہے ہیں کہ ہمارے اعمال اور کاموں کو پہلی قسم کے اعمال میں سے قرار دے۔
متقی روزہ دار کی خدا سے پہلی دعا یہ ہے۔ قرآن سے استفادہ ہوتا ہے کہ بہشت کی ہمیشہ کی نعمتیں مومنین کیلئے آمادہ ہیں مگر ان مومنین کیلئے بالا ترین نعمت خدا کی رضا ہے۔
وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ وَٱلۡمُؤۡمِنَٰتِ جَنَّـٰتٖ تَجۡرِي مِن تَحۡتِهَا ٱلۡأَنۡهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَا وَمَسَٰكِنَ طَيِّبَةٗ فِي جَنَّـٰتِ عَدۡنٖۚ وَرِضۡوَٰنٞ مِّنَ ٱللَّهِ أَكۡبَرُۚ ذَٰلِكَ هُوَ ٱلۡفَوۡزُ ٱلۡعَظِيمُ
خدا نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے بہشتوں کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں (وہ) ان میں ہمیشہ رہیں گے اور بہشت ہائے جاودانی میں نفیس مکانات کا (وعدہ کیا ہے) اور خدا کی رضا مندی تو سب سے بڑھ کر نعمت ہے یہی بڑی کامیابی ہے!
جی ہاں! ہر عاشق کیلئے سب سے بڑی سعادت معشوق کی رضامندی کو جلب کرنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ روزہ دار مومن اور عاشقِ خدا اس خوشنودی تک پہنچنے کی دعا کرتا ہے۔ تاہم خدا کا عاشق روزہ دار اپنے محبوب کی رضامندی تک پہنچنے سے پہلے ضروری ہے کہ مومن ہو اور مومن ہونے کے اندر یہ خصائل ہوتے ہیں:
۱۔ نماز میں خشوع؛
۲۔ بے ہودہ گوئی سے دوری؛
۳۔ عہد کو پورا کرنا؛
۴۔ نماز کی حفاظت؛
۵۔ امانت کی ادائیگی؛
سورہ احزاب کی آیت ۷۲ کے مطابق ساری مخلوقات، آسمان اور زمین نے امانت کو قبول کرنے سے انکار کیا مگر انسان نے اس امانت کو قبول کر لیا۔ یہ امانت عقل، آزادی ، اختیار اور اس کے سامنے احساس مسئولیت ہے۔ اگر آدمی امانت کو خدا کی رضایت کی راہ میں بروئے کار لائے تو وہ دیدار الہٰی کی منزل پر فائز ہو گا لیکن اگر اس نے نافرمانی کی اور شیطان کی راہ کو اختیار کیا تو وہ حیوانات سے پست تر ہو گا۔ اسی وجہ سے جو انسان امانت سے درست استفادہ نہ کرے تو اسے نادان اور ستم گر کہا جائے گا۔

رضایتِ خدا کی علامت

[ترمیم]

امیر المومنین علیؑ نے فرمایا: بندہ کی خدا سے رضایت کی علامت یہ ہے کہ بندہ اللہ کے تمام مقدرات پر راضی ہو (خواہ اس کیلئے خوش آئند ہوں یا ایسا نہ ہو)
آج کی دعا میں خدا سے ہم دعا کرتے ہیں کہ ماہ رمضان میں ایسا عمل کریں جس سے اس کی رضایت اور خوشنودی سے نزدیک ہوں؛ روایت میں منقول ہے: اگر تم یہ معلوم کرنا چاہتے ہو کہ خدا تم سے راضی ہے تو یہ دیکھو کہ تم خدا سے راضی ہو یا نہیں ؟!
کچھ لوگ خدا سے راضی نہیں ہیں اور اللہ کی بارگاہ میں گلہ کرتے ہیں کہ خدایا کیوں سب کے پاس بہت کچھ ہے لیکن میں خالی ہاتھ ہوں یا کیوں، سب صحت مند ہیں اور میں بیمار؟! ایسا نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہر حالت میں خدا سے راضی رہے۔ پس اگر یہ معلوم کرنا چاہتے ہو کہ خدا تجھ سے راضی ہے یا نہیں! تو اپنے دل کی طرف رجوع کرو اور دیکھو کہ اپنے حالاتِ زندگی میں خدا سے راضی ہو؟! اگر راضی ہو تو جان لو کہ خدا بھی تجھ سے راضی ہے اور اگر تیرے دل کے کسی گوشے میں خدا سے ناراضگی ہے تو متوجہ رہو کہ خدا بھی تجھ سے ناراض ہے۔

اللہ کی رضا اور ناراضگی کے مصادیق

[ترمیم]

اب روایات کی رو سے اللہ کی رضا اور غضب کے مصادق کے چند نمونے آپ کے سامنے پیش کریں گے:
امام باقرؑ نے فرمایا: خدا کی بلند مرتبہ خوشنودی معرفت کو کسب کرنے کے بعد امام کی اطاعت میں ہے۔
ایک اور حدیث میں بھی امیر المومنین علیؑ نے فرمایا: بندے سے خدا کی رضامندی کی نشانی یہ ہے کہ بندہ خدا کے تمام مقدرات پر رضامندی ہوتا ہے (خواہ وہ مقدرات خوش آئند ہوں یا نا خوش آئند ہوں)
[۸] تمیمی آمدی، عبدالواحد بن محمد، غررالحکم، ص۱۰۴۔

پیغمبرؐ نے فرمایا: خدا کی رضایت والدین کی رضایت میں ہے اور خدا کا غضب ان کے غضب میں ہے۔

تین گروہوں سے خدا کا تعجب

[ترمیم]

خدا تعالیٰ تین گروہوں پر تعجب کرتا ہے؛ چنانچہ ایک روایت میں منقول ہے کہ خدائے تبارک و تعالیٰ تین گروہوں پر تعجب کرتا ہے:
۱۔ جو نماز ادا کرتا ہے اور جانتا ہے کہ کس خدا کے سامنے کھڑا ہے مگر نماز میں حضور قلب نہیں رکھتا۔
ایک بزرگ کہتے تھے: ہمیں چاہئے کہ اپنی نماز پر بھی استغفار کریں۔ گنہگار گناہ سے توبہ کریں، اہل عرفان اپنی عبادت پر استغفار کریں؛ [ گلستان سعدی کی دوسری حکایت]
۲۔ جو سالہا سال سے خدا کی روزی کھا رہا ہے لیکن اگلے دن کی روزی کیلئے رنجیدہ ہے۔
۳۔ جو ہنستا ہے جبکہ اس کو معلوم نہیں کہ خدا اس سے راضی ہے یا نہیں!

اللہ کے غضب سے پرہیز

[ترمیم]

دعا کے اگلے اقتباس میں منقول ہے: وجَنّبْنی فیهِ من سَخَطِک و نَقماتِک ’’سخط‘‘، ’’رضا‘‘ کے مقابلے میں ہے اور نقمت غضب کے معنی میں ہے۔ دعا کے اس اقتباس کا معنی یہ ہے کہ خدایا! مجھے ان کاموں سے دور رکھ جو تیری ناراضگی اور غضب کے باعث ہیں؛ خدایا! میں ایسا کام نہ کروں کہ تو ماہ رمضان میں مجھ سے ناراض ہو جائے!

تلاوت قرآن کی اہمیت

[ترمیم]

دعا کے تیسرے اقتباس میں ہے: و وفّقْنی فیهِ لقرآئةِ آیاتِک برحْمَتِک یا ارْحَمَ الرّاحِمین»؛ اور آج کے دن مجھے اپنی آیات پڑھنے کی توفیق دے اپنی رحمت سے اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے!
ماہ رمضان قرآن کا مہینہ ہے اور تلاوتِ قرآن کی بہار ہے۔ حضرت امام زین العابدینؑ ماہ رمضان میں چالیس مرتبہ قرآن ختم کرتے تھے۔ یعنی روزانہ ایک مکمل ختمِ قرآن کے علاوہ کچھ اضافی مقدار۔
امام خمینیؒ بھی انقلاب کی رہبری اور دینی مرجعیت کے سنگین بار اور بڑھاپے و بیماری کے باوجود ماہ رمضان میں روزانہ دس جزء تلاوت کرتے تھے اور اپنے تمام خطابات منسوخ کر دیتے تھے۔ ماہِ رمضان، اہم ترین شب یعنی شب قدر میں نزولِ قرآن کا مہینہ ہے، ماہ مبارک رمضان میں قرآن کی تلاوت کا ایک خاص جلوہ ہے اور اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے جیسا کہ دعا کے اس اقتباس میں ہم خدا سے یہ دعا کر رہے ہیں کہ خدایا! ماہ مبارک میں قرآن کی تلاوت کی توفیق نصیب فرما۔
کفعمی نے اس دعا کے ثواب کے بارے میں نقل کیا ہے: ’’جو شخص یہ دعا پڑھے گا، خدائے تبارک و تعالیٰ ہر قدم کے بدلے اسے ایک ایسے سال کی عبادت کا ثواب عطا کرے گا کہ جس کے دنوں میں روزہ رکھا ہو اور اس کی راتوں کو عبادت میں بسر کیا ہو۔ یہ سب خدا کا فضل ہے کہ اپنے بندوں کو سیدھی راہ دکھاتا ہے اور انہیں اس راہ کو طے کرنے کی تشویق و ترغیب دیتا ہے؛ یہ تشویق انسان کو اس مہینے میں موجود خاص نعمتوں سے بہرہ مند ہونے کی راہ ہموار کرتی ہے۔

تلاوت قرآن کا ثواب اور فوائد

[ترمیم]

قرآن کریم اور اہل بیتؑ کی سیرت میں منقول روایات میں بہت سے مطالب تلاوتِ قرآن کے ثواب اور آداب کے بارے میں ملتے ہیں کہ جن میں سے کچھ نمونوں کا ذکر کریں گے:
قرآن فرماتا ہے: فَاقْرَؤُوا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ تو جس قدر ممکن ہو تلاوت کرو وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیلًا یا کچھ زیادہ کردو اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر باقاعدہ پڑھو
فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّهِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ لہذا جب آپ قرآن پڑھیں تو شیطان رجیم کے مقابلہ کے لئے اللہ سے پناہ طلب کریں

دل کے میل کو پاک کرنے کے چند راستے

[ترمیم]

ماہِ رمضان، ماہ قرآن ہے اور قرآن پڑھنا ضروری ہے: اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کے دل کا میل پاک ہو جائے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ سحر کے وقت قرآن پڑھے۔
پیغمبر اکرمؐ فرماتے ہیں: پانچ چیزیں دل کو صفا دیتی ہیں اور اس کی سختی کو برطرف کرتی ہیں۔ ۱: علما کی صحبت، یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنا، آدھی رات کو استغفار ، رات کو کم سونا اور روزہ ۔
ہمارا دل گناہ سے زنگ آلود ہو جاتا ہے اور اس کی پاکی کیلئے چند کام انجام دینے چاہئیں: ایک یہ کہ سحر کے وقت قرآن پڑھا جائے
[۱۳] دیلمی، حسن بن محمد، ارشاد القلوب، ترجمه رضایی، ج۱، ص۱۹۱۔
رسول اکرمؐ نے فرمایا: بے شک یہ دل ہی ہیں جو اسی طرح زنگ آلود ہو جاتے ہیں جس طرح لوہے کو زنگ لگتا ہے اور بے شک دلوں کی جلا قرآن پڑھنے میں ہے۔ دوم: یہ کہ ہم استغار کریں اور اس کے علاوہ یہ کہ یتیم کے سر پر ہاتھ پھیریں اور شب و روز میں کم سوئیں۔

متعلقہ عناوین

[ترمیم]
یکم رمضان کی دعاتین رمضان کی دعاچار رمضان کی دعاپانچ رمضان کی دعاچھ رمضان کی دعاسات رمضان کی دعاآٹھ رمضان کی دعانو رمضان کی دعادس رمضان کی دعاگیارہ رمضان کی دعابارہ رمضان کی دعاتیرہ رمضان کی دعاچودہ رمضان کی دعاپندرہ رمضان کی دعاسولہ رمضان کی دعاسترہ رمضان کی دعااٹھارہ رمضان کی دعاانیس رمضان کی دعابیس رمضان کی دعااکیس رمضان کی دعابائیس رمضان کی دعاتئیس رمضان کی دعاچوبیس رمضان کی دعاپچیس رمضان کی دعاچھبیس رمضان کی دعاستائیس رمضان کی دعااٹھائیس رمضان کی دعاانتیس رمضان کی دعاتیس رمضان کی دعا

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. قمی، عباس، مفاتیح الجنان، ص۳۱۹۔    
۲. ابن طاوس، علی بن موسی، اقبال الاعمال، ص۱۲۰۔    
۳. فجر/سوره۸۹، آیه۲۷-۳۰۔    
۴. توبه/سوره۹، آیه۷۲۔    
۵. اعراف/سوره۷، آیه۱۷۹۔    
۶. احزاب/سوره۳۳، آیه۷۲۔    
۷. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ‌ص۱۸۵۔    
۸. تمیمی آمدی، عبدالواحد بن محمد، غررالحکم، ص۱۰۴۔
۹. محدث نوری، میرزا حسین، مستدرک ‌الوسائل، ج۱۵، ص۱۷۶۔    
۱۰. مزمل/سوره۷۳، آیه۲۰۔    
۱۱. مزمل/سوره۷۳، آیه۴۔    
۱۲. نحل/سوره۱۶، آیه۹۸۔    
۱۳. دیلمی، حسن بن محمد، ارشاد القلوب، ترجمه رضایی، ج۱، ص۱۹۱۔


ماخذ

[ترمیم]
سایت تبیان، ماخوذ از مقالہ«شرح دعای روز دوم ماه رمضان»، تاریخ نظر ثانی ۱۳۹۵/۱۰/۱۹۔    






جعبه ابزار