تیرہ رمضان کی دعا

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



تیرا رمضان کی دعا میں پلیدی و کثافتوں سے پاکی، خیر و شر کے حالات میں صبر و تحمل اور پرہیزگاری و تقویٰ جیسے معارف کے حصول کی تقلین ملتی ہے۔


دعا کا متن و ترجمہ

[ترمیم]

اللَّهُمَّ طَهِّرْنِی فِیهِ مِنَ الدَّنَسِ وَالْاَقْذَارِ وَ صَبِّرْنِی فِیهِ عَلَی کَائِنَاتِ الْاَقْدَار وَوَفِّقْنِی فِیهِ لِلتُّقَی وَصُحْبَةِ الْاَبْرَار بِعَوْنِکَ یا قُرَّةَ عَینِ الْمَسَاکِین
اے معبود آج کے دن مجھ کو میل کچیل سے پاک صاف رکھ اس میں مجھ کو مقدر شدہ مشکلات (یعنی خیر و شر اور قضا و قدر کے حوادث) پر صبر عطا فرما! اور آج اپنی مدد کے ساتھ مجھ کو پرہیزگاری اور نیکوکاروں کے ساتھ رہنے کی توفیق دے اے بے چاروں کی خنکی چشم!

کمال تک رسائی

[ترمیم]

«دعا» کمال تک رسائی کیلئے ہے۔
ماہ مبارک کی ۱۳، ۱۴ اور ۱۵ کو دعائے مجیر کی تلاوت کی سفارش کی گئی ہے۔ اس نکتے کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ دعا صرف ثواب تک دستیابی کیلئے نہیں ہے بلکہ دعا کو کمال تک رسائی کیلئے پڑھا جاتا ہے۔
روایات میں ہے کہ ہر گناہ کو انجام دینے سے انسان کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پیدا ہو جاتا ہے، وہ سیاہ نقطہ وقت گزرنے اور زیادہ گناہ کرنے سے بڑھتا رہتا ہے اور انسان کے دل کی سیاہی کا باعث ہوتا ہے، اس طور کہ پھر وہ الہٰی حقائق کو نہیں سن سکتا اور ان کی مخالفت کرتا ہے۔ حلال غذا کا دعا کی استجابت میں اثر ہوتا ہے۔

گناہ و معصیت سے پاکی

[ترمیم]


اللَّهُمَّ طَهِّرْنِی فِیهِ مِنَ الدَّنَسِ وَالْاَقْذَارِ
اس دعا میں ہم خدا سے عرض کرتے ہیں کہ ہمیں کثافتوں سے پاک کرے۔ ’’کثافتوں‘‘ سے مقصود گناہ و معصیت کا میل ہے۔ انسان اگر اہل معصیت ہو تو اس کے اندر بدبو پیدا ہو جاتی ہے، اگر مومن ہو تو اس میں خوشبو پیدا ہوتی ہے۔ اویس قرنی جب پیغمبرؐ کے ساتھ ملاقات کیلئے آئے تھے تو رسول خداؐ کے گھر کو معطر کر گئے تھے اور اگلے دن جب پیغمبرؐ اپنے گھر واپس آئے تو فرمایا: اِنِّی لَاَجِدُ نَفَسَ الرَّحْمَنِ مِنْ جَانِبِ الْیمَن یعنی پیغمبرؐ نے اویس کی خوشبو کو استشمام کر لیا تھا۔
جب انسان خدا کی معصیت کرتا ہے تو وہ گناہ و معصیت انسان کے ظاہر و باطن پر بد اثر ڈالتا ہے، اس طور کہ روایات میں ہے کہ ہر گناہ کو انجام دینے سے انسان کے دل پر سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے اور وہ نقطہ وقت گزرنے اور گناہوں میں اضافہ ہونے کے ساتھ بڑھتا رہتا ہے اور انسان کے دل کے سیاہ ہونے کا باعث ہو جاتا ہے۔ اس طور کہ پھر وہ الہٰی حقائق کو نہیں سنتا اور ان کی مخالفت کرنے لگ جاتا ہے۔ پس گناہوں کی آلودگی سے پاکی کیلئے ضروری ہے کہ انسان پروردگار عالم سے مدد کی دعا کرے اور اس کے سامنے عارض ہو کہ اس کے گناہ معاف کر دے تاکہ ان آلودگیوں سے بھی چھٹکارا مل جائے؛ کیونکہ صرف اللہ تعالیٰ کی بخشش و مغفرت کے سائے میں انسان پلیدی اور گناہ کی زشتی سے پاک ہوتا ہے اور خداوند متعال بھی قرآن میں اپنے بندوں کو اس طرح بشارت دیتا ہے: قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ اَسْرَفُوا عَلَی اَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ اِنَّ اللَّهَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا اِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو) کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ خدا تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ (اور) وہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔
پس ہم بھی آج کے دن خدا سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں حقیقی توبہ کرنے والوں کے زمرے میں قرار دے تاکہ گناہ کی پلیدی اور زشتی سے پاک ہوں کہ جس نے ہمیں اس کی بارگاہ میں روسیاہ کر دیا ہے۔
روایت میں آیا ہے کہ انسان کا قلب زنگ آلود ہو جاتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے لوہے کو زنگ لگتا ہے، پس اپنے دل کو استغفار و تلاوتِ قرآن کے ساتھ جلا دو۔ اسی طرح یتیموں کی دستگیری سے بھی دل کا زنگ برطرف ہو جاتا ہے۔

روح کی متعفن بو کو برطرف کرنا

[ترمیم]

اس وقت زمانہ کچھ اس طرح ہے کہ طہارت واقعی کا فقدان ہے اور ہر چیز شبہہ ناک ہے۔ پورے سال میں طرح طرح کی حرام اور شبہہ ناک غذائیں ہم کھاتے ہیں اور ماہ رمضان فرصت ہے تاکہ باطنی صفائی ستھرائی کی جا سکے۔ حلال غذائیں تناول کرنا دعا کی قبولیت میں مؤثر ہے۔
«کَائِنَاتِ الْاَقْدَارِ»، سے مراد اللہ تعالیٰ کی حتمی قضا و قدر ہے۔ جو بھی لوح محفوظ میں قضا و قدر رکھتا ہے، وہ نہیں جانتا کہ اس کی صلاح اس امر میں ہے۔
سحری کے وقت تلاوتِ قرآن سے دل کا زنگ زائل ہو جاتا ہے۔
الدَّنَسِ وَالْاَقْذَارِ
اس عبارت سے مقصود گناہ کی پلیدی اور کثافات ہیں، گناہ آدمی کو کثیف کرتا ہے اور دل کو زنگ آلود کر دیتا ہے۔ دل کے زنگ کو برطرف کرنے کیلئے ضروری ہے کہ سحر کے اوقات میں قرآن پڑھا جائے۔ روایت میں آیا ہے کہ انسان کا قلب زنگ آلود ہو جاتا ہے، جس طرح لوہے کو زنگ لگتا ہے، پس اپنے قلب کو استغفار اور تلاوتِ قرآن کے ساتھ اجلا رکھو۔ اسی طرح یتیموں کی مدد اور دستگیری سے بھھی دل کا زنگ اتر جاتا ہے۔

وَصَبِّرْنِی فِیهِ عَلَی کَائِنَاتِ الْاَقْدَارِ
دعا کے اس حصے میں خدا کے حضور عرض گزار ہیں کہ ہمیں اپنی قضا و قدر پر راضی کر دے۔ اس بنا پر خدا سے درخواست کرتے ہیں کہ خدایا! مجھے اپنی تقدیر پر صابر قرار دے! کَائِنَاتِ الْاَقْدَارِ سے مقصود اللہ تعالیٰ کی حتمی قضا و قدر ہے۔ جو شخص بھی لوح محفوظ میں قضا و قدر رکھتا ہے وہ نہیں جانتا ہے کہ اس کی صلاح اس امر میں ہے۔
انسان کا زندگی کے تمام مراحل میں اپنے اعمال و افعال کے رشد و ترقی کا جائزہ لینے کے حوالے سے امتحان ہوتا ہے اور جو لوگ اس امتحان میں قبول ہو جاتے ہیں وہ اللہ کی تقدیرات پر راضی ہوتے ہیں اور مشکلات و مصائب پر صبر کرتے ہیں۔

امتحانِ الہٰی کے مقابلے میں صبر

[ترمیم]

اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: وَلَنَبۡلُوَنَّكُم بِشَيۡءٖ مِّنَ ٱلۡخَوۡفِ وَٱلۡجُوعِ وَنَقۡصٖ مِّنَ ٱلۡأَمۡوَٰلِ وَٱلۡأَنفُسِ وَٱلثَّمَرَٰتِۗ وَبَشِّرِ ٱلصَّـٰبِرِينَ ‌یعنی ہم اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور میوؤں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کریں گے توصبر کرنے والوں کو (خدا کی خوشنودی کی) بشارت سنا دو۔
یہ آیت اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ انسان زندگی کے تمام مراحل میں اپنے افعال و کردار میں رشد و ترقی کی جانچ کیلئے امتحان میں مبتلا ہوتا ہے اور جو اس امتحان میں کامیاب ہو جائیں،اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہو جائیں، مشکلات و مصائب پر صبر کریں اور مصیبت آنے پر کلمہ استرجاع یعنی
انا لله وانا الیه راجعون یعنی ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں؛ خدا تعالیٰ ان کے صبر اور ایمان کے بدلے قرآن میں فرماتا ہے: اُولَئِکَ عَلَیْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَاُولَئِکَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ یہی لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی مہربانی اور رحمت ہے اور یہی سیدھے رستے پر ہیں۔

دل بی‌غم در این عالم نباشد
اگر باشد بنی‌آدم نباشد
یعنی اس دنیا میں کوئی دل بے غم نہیں ہے؛ اگر ایسا ہو تو وہ کسی آدم زاد کا دل نہیں ہے۔
اس دنیا میں ہر شخص کو اپنی حد تک غم و مشکلات کا سامنا ہے۔ میرے استاد (مرحوم شیخ علی اکبر برھان) کہتے تھے: اگر کسی دن تو نے یہ کہا کہ مجھے کوئی درد و تکلیف نہیں ہے تو جان لو کہ تمہاری موت نزدیک ہے! سید بن طاؤس اپنے بیٹے سے کہتے ہیں: میرے بیٹے اگر کوئی گھر بناتے ہو تو اس کا ایک گوشہ ویران رہنے دو تاکہ تشویش و اضطراب کے بغیر نہ رہو۔
تقویٰ اور نیک لوگوں کی مصاحبت کے بیچ گہرا تعلق ہے کیونکہ متقی انسان کبھی بدکرداروں اور معصیت کاروں اور بدکرداروں کے ساتھ مصاحبت و معاشرت نہیں کرتا۔

تقویٰ و پرہیزگاری

[ترمیم]

روزے کا ایک فلسفہ تقویٰ ہے۔

وَوَفِّقْنِی فِیهِ لِلتُّقَی
دعا کے اس حصے میں خدا سے عرض کرتے ہیں کہ ہمیں تقویٰ اختیار کرنے کی توفیق دے۔ تقویٰ کا معنی یہ ہے کہ اگر کوئی ہمارے اعمال سے باخبر ہو تو ہماری زندگی اس طرح ہو کہ ہمیں کوئی تکلیف نہ ہو۔ ماہ رمضان تقویٰ کی تمرین کی ایک فرصت ہے۔
ان اکرمکم عندالله اتقکم ‌ یعنی خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔
پس خدا کے نزدیک قرب و اجرب کے حصول کیلئے تقویٰ اختیار کرنا ضروری ہے۔ تقویٰ کا معنی یہ ہے کہ انسان واجبات کو انجام دے اور محرمات کو ترک کر دے کہ جس سے انسان دنیوی و اخروی اعلیٰ مقامات پر فائز ہوتا ہے۔ ان مقامات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان تقویٰ اختیار کرے اور آیت کے مطابق پرہیزگار خدا کے نزدیک قابل احترام ہے۔ پس تمام دنیوی و اخروری امور میں خدا اس کیلئے کافی ہے۔

نیک لوگوں کی مصاحبت اور تقویٰ میں رابطہ

[ترمیم]

وَصُحْبَةِ الْاَبْرَارِ
دعا کے اس حصے میں خدا سے یہ عرض کرتے ہیں کہ خدایا! ہمیں اچھے لوگوں اور ابرار کا ہم نشین قرار دے۔ اس نکتے پر توجہ ضروری ہے کہ ہم کس کے ساتھ ہم نشین ہو رہے ہیں جیسا کہ ایک شعر میں ہے:
«با بدان کم نشین که صحبت بد/ گر چه پاکی تو را پلید کند».
تقویٰ اور نیک لوگوں کی مصاحبت میں گہرا تعلق ہے کیونکہ متقی انسان ہرگز بدکاروں اور اہل معصیت کے ساتھ مصاحبت و معاشرت نہیں کرتا؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: قل لایستوی الخبیث والطیب کہہ دو کہ ناپاک چیزیں اور پاک چیزیں برابر نہیں ہوتیں!

بعَوْنِکَ یا قُرَّةَ عَینِ الْمَسَاکِین
خدایا! اپنی مدد کے ساتھ میری یہ چار دعائی مستجاب فرما! اے وہ ذات جو فقرا کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے!

متعلقہ عناوین

[ترمیم]

یکم رمضان کی دعادو رمضان کی دعاتین رمضان کی دعاچار رمضان کی دعاپانچ رمضان کی دعاچھ رمضان کی دعاسات رمضان کی دعاآٹھ رمضان کی دعانو رمضان کی دعادس رمضان کی دعابارہ رمضان کی دعاتیرہ رمضان کی دعاچودہ رمضان کی دعاپندرہ رمضان کی دعاسولہ رمضان کی دعاسترہ رمضان کی دعااٹھارہ رمضان کی دعاانیس رمضان کی دعابیس رمضان کی دعااکیس رمضان کی دعابائیس رمضان کی دعاتئیس رمضان کی دعاچوبیس رمضان کی دعاپچیس رمضان کی دعاچھبیس رمضان کی دعاستائیس رمضان کی دعااٹھائیس رمضان کی دعاانتیس رمضان کی دعاتیس رمضان کی دعا

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. ابن طاوس، علی بن موسی، اقبال الاعمال، ص۱۴۷۔    
۲. قمی، عباس، مفاتیح الجنان، ص۳۲۰۔    
۳. زمر/سوره۳۹، آیه۵۳۔    
۴. بقره/سوره۲، آیه۱۵۵۔    
۵. بقره/سوره۲، آیه۱۵۵۔    
۶. بقره/سوره۲، آیه۱۵۷۔    
۷. حجرات/سوره۴۹، آیه۱۳۔    
۸. مائده/سوره۵، آیه۱۰۰۔    


ماخذ

[ترمیم]

سایت تبیان، ماخوذ از مقالہ «شرح دعای روز سیزدهم ماه رمضان»، تاریخ نظرثانی ۱۳۹۵/۱۰/۲۵۔    






جعبه ابزار