چوبیس رمضان کی دعا

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



چوبیس رمضان کی دعا میں رضائے الہٰی کے حصول کی امید میں اعمال بجا لانے، خدا کے نزدیک ناپسندہ افعال سے اجتناب، اوامر الہٰی پر عمل درآمد اور معصیت سے دوری کی التجا کی گئی ہے۔


دعا کا متن و ترجمہ

[ترمیم]

اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِيْهِ ما يُرْضِيكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِمّا يُؤْذِيكَ، وَأَسْأَلُكَ التَّوْفِيقَ فِيْهِ لاَنْ اُطِيعَكَ وَلا أَعْصِيكَ، يا جَوادَ السَّائِلِينَ.
اے معبود! آج کے دن میں وہ چیز مانگتا ہوں جو تجھے پسند ہے اور اس چیز سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو تجھے ناپسند ہے اور اس (دن) میں تجھ سے توفیق مانگتا ہوں کہ تیری فرمانبرداری کروں اور نافرمانی نہ کروں؛ اے سوالیوں کو بہت عطا کرنے والے!

دعا کے اقتباسات کی تشریح

[ترمیم]

اللهم انی اسئلک فیه ما یرضیک؛ میں ’’ما یرضیک‘‘ کا کیا معنی و مفہوم ہے؟!
اس دعا میں ہم اللہ تعالیٰ سے یہ التجا کرتے ہیں کہ ہمیں توفیق دے کہ جس کام میں اس کی رضایت ہے، اسے انجام دیں، اب ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئیے کہ خدا کی رضامندی کس چیز میں ہے؟! اور کون سی چیزیں پروردگار عالم کی رضایت کا باعث ہیں؟! جس کے جواب میں یہ کہنا چاہئیے کہ ہر وہ عمل جس کا اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو انجام دینے کا امر فرمایا ہے؛ وہ خدا کی بندوں سے رضایت کا موجب ہے اور اگر کوئی بندہ ان احکامات پر عمل کرے تو وہ اپنی ذات پر خدا کی خوشنودی کو واجب قرار دیتا ہے اور اگر ان احکامات کی نافرمانی کرے تو اس پر خدا کا غضب حلال ہو جاتا ہے۔
اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ آپ سے راضی ہے یا نہیں، تو اپنے دل کی گہرائیوں سے دیکھیں کہ آیا آپ اپنے خدا سے راضی ہے یا نہیں؟! اگر آپ اس کی قضا و قدر پر راضی ہیں تو خدا بھی آپ سے راضی ہے۔
ایک حدیث ہے کہ آپ ایک بیمار کی طرح ہیں اور خدا طبیب ہے۔ جیسے طبیب کی ہدایات کو بیمار بلا چون و چرا قبول کرتا ہے، اسی طرح ہمیں خدا کی تقسیم پر ہمیشہ راضی رہنا چاہئیے۔
اگر مصیبتوں اور محرومیوں میں خدا سے شکوہ و شکایت نہ کریں اور اس کے احکام پر سر تسلیم خم کر دیں تو یہ ہماری اس کی تقسیم پر رضایت کی علامت ہے۔
مثال کے طور پر انفاق، نماز اور زکات کی پابندی جیسے اعمال؛ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے باعث ہیں اور جھوٹ ، تہمت اور غیبت اللہ تعالیٰ کے خشم و غضب کے موجب ہیں۔ پس ہم آج کے دن اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ ہمیں ان لوگوں میں سے قرار دے جو اس کی رضامندی کے طالب ہیں نہ غیض و غضب کے۔ بے شک اللہ تعالیٰ سخت عذاب کرنے والا ہے۔

خدا کے نزدیک ناپسندیدہ اعمال

[ترمیم]

و اعوذبک مما یوذیک
’’مما یوذیک‘‘ سے کیا مراد ہے؟
یہاں ’’مما یؤذیک‘‘ سے مقصود یہ ہے کہ جو کچھ تجھے ناپسند ہے، یعنی وہ اعمال کہ جنہیں انجام دینے سے اللہ نے انسان کو منع فرمایا ہے۔ جیسے: جھوٹ، غیبت، تہمت، گالی گلوچ۔ جب انسان ان افعال میں سے کوئی فعل انجام دے تو اس سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر امام موسیٰ بن جعفرؑ نے ایک حدیث میں فرمایا: ان الله حرم الجنه علی کل بذی قلیل العیاء لایبالی ما قال و ما قیل فیه؛ یعنی اللہ نے بہشت کو ان لوگوں پر حرام قرار دیا ہے جو گالم گلوچ کرتے ہیں اور ان کی حیا کم ہے اور انہیں یہ پروا نہ ہو کہ وہ کیا کہیں اور یہ بھی پروا نہ ہو کہ ان کے بارے میں کیا کہا جاتا ہے۔ یہ ان اعمال کا ایک نمونہ ہے جو خدا کی بارگاہ میں قبیح اور ناپسند ہیں اور ان کا ارتکاب اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہے۔ ہم آج کے دن خدا سے پناہ مانگتے ہیں اور توفیق کی التجا کرتے ہیں تاکہ ہم ان تمام اعمال سے دور رہیں جو اس کے غضب کا باعث ہوں۔

توفیق کی درخواست

[ترمیم]

و اسئلک التوفیق فیه الان اطیعک و لا اعصیک یا جواد السائلین
خدایا! میں تجھ سے یہ توفیق مانگتا ہوں کہ ماہ رمضان میں تیری اطاعت کروں اور گناہ انجام نہ دوں! روایت میں ہے کہ نویں امامؑ نے فرمایا: ضروری ہے کہ مومن کے اندر تین خصلتیں ہوں: پہلی یہ کہ توفیق سے مالا مال ہو؛ دوم یہ کہ اپنے آپ کو وعظ و ںصیحت کرے اور سوم یہ کہ دوسروں کی نصیحت کو قبول کرے۔

ورثہ کیلئے مال کی جمع آوری

[ترمیم]

اپنے ورثا کو خدا کے حوالے کرو نہ پیسے کے۔ حدیث ہے کہ اگر وارث اچھے ہوں تو خدا خود ان کا نگہبان ہے اور بد اور دشمنِ خدا ہوں تو کیوں، دشمنان خدا کیلئے مشقت کر رہے ہو؟!
دعا کے آخر میں استجابت دعا کیلئے کہتے ہیں: اے وہ خدا جو ہر سوالی پر جود و کرم کرتا ہے اور اس کی مغفرت فرماتا ہے ہماری دعا کو بھی قبول فرما! ہم بعض اوقات سوالیوں کو رد کر دیتے ہیں مگر خدا تمام سائلین کی دعائیں قبول فرماتا ہے اور رد نہیں کرتا؛ مگر بعض اوقات جو چیز ہماری مصلحت میں نہیں ہوتی، ہم اس کی دعا کرتے ہیں تو وہ ہمیں عطا نہیں ہوتی۔ البتہ اس دعا کا صلہ قیامت کے روز ملے گا؛ قیامت کے دن بندے سوال کریں گے؛ خدایا! یہ جو ہمیں عطا فرما رہا ہے، کیا ہے؟ خطاب ہو گا کہ تم نے دنیا میں مانگا مگر تیری مصلحت میں نہیں تھا اور اب تمہیں عطا کر رہا ہوں۔

خدا کی اطاعت کا صلہ اور نافرمانی کا انجام

[ترمیم]

ہدایت اور رستگاری تک رسائی کیلئے ضروری ہے کہ ہر بندہ خدا و رسول کی اطاعت کرے، چونکہ رسول، اللہ کے نمائندے ہیں اور لوگوں کیلئے احکام الہٰی کو بیان کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص رسول خدا کی اطاعت نہ کرے تو یقینا اس نے خدا کی اطاعت نہیں کی ہے اور جو خدا کی اطاعت نہ کرے وہ شیطان کا پیروکار اور کافر ہے۔ چنانچہ خدائے عزوجل قرآن کریم میں فرماتا ہے: قُلۡ أَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَٱلرَّسُولَۖ فَإِن تَوَلَّوۡاْ فَإِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلۡكَٰفِرِينَ کہدیجیے: اللہ اور رسول کی اطاعت کرو، پس اگر وہ لوگ روگردانی کریں تو اللہ کافروں سے محبت نہیں کرتا۔
پس جو لوگ خدا و رسول کی نافرمانی کریں تو وہ کفار میں سے ہیں اور اللہ کی رحمت سے دور ہیں اور خدا انہیں ہدایت نہیں کرتا؛ چنانچہ قرآن میں فرماتا ہے: اِنَّ اللهَ لاَیَهْدِی القَوْمَ الکَافِرینَ یعنی خداوند کافر قوم کو ہدایت نہیں کرتا۔ پس ہم آج کے دن اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے احکامات پر عمل کی توفیق دے تاکہ ہم اس کے احکامات کی پیروی کریں اور کبھی اس کی نافرمانی کے مرتکب نہ ہوں۔

متعلقہ عناوین

[ترمیم]

یکم رمضان کی دعادو رمضان کی دعاتین رمضان کی دعاچار رمضان کی دعاپانچ رمضان کی دعاچھ رمضان کی دعاسات رمضان کی دعاآٹھ رمضان کی دعانو رمضان کی دعادس رمضان کی دعاگیارہ رمضان کی دعابارہ رمضان کی دعاتیرہ رمضان کی دعاچودہ رمضان کی دعاپندرہ رمضان کی دعاسولہ رمضان کی دعاسترہ رمضان کی دعا••اٹھارہ رمضان کی دعاانیس رمضان کی دعابیس رمضان کی دعااکیس رمضان کی دعابائیس رمضان کی دعاتئیس رمضان کی دعاپچیس رمضان کی دعاچھبیس رمضان کی دعاستائیس رمضان کی دعااٹھائیس رمضان کی دعاانتیس رمضان کی دعاتیس رمضان کی دعا

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. ابن طاوس، علی بن موسی، اقبال الاعمال، ص۲۲۰۔    
۲. قمی، عباس، مفاتیح الجنان، ص۳۲۱۔    
۳. مائده/سوره۵، آیه۹۸۔    
۴. آل عمران/سوره۳، آیه۳۲۔    
۵. مائده/سوره۵، آیه۶۷۔    


ماخذ

[ترمیم]

سایت تبیان، ماخوذ از مقالہ ’’شرح دعای روز بیست و چهارم ماه رمضان‘‘؛ تاریخِ نظر ثانی ۱۳۹۵/۱۰/۲۹۔    






جعبه ابزار