دس رمضان کی دعا
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
دس
ماہ رمضان کی دعا
خدا پر
توکل،
سعادت و کامیابی پر فائز ہونے اور بارگاہ الہٰی کے مقربین میں شامل ہونے کی درخواست پر مشتمل ہے۔
[ترمیم]
اللَّهُمَّ اجْعَلْنِی فِیهِ مِنَ الْمُتَوَکِّلِینَ عَلَیْکَ وَ اجْعَلْنِی فِیهِ مِنَ الْفَائِزِینَ لَدَیْکَ وَ اجْعَلْنِی فِیهِ مِنَ الْمُقَرَّبِینَ اِلَیْکَ بِاِحْسَانِکَ یَا غَایَةَ الطَّالِبِین.
اے معبود! آج کے دن مجھے ان لوگوں میں قرار دے جو تجھ پر
توکل کرتے ہیں اور اس میں مجھے ان میں قرار دے جو تیرے حضور کامیاب ہیں اور اس میں اپنے
احسان و کرم سے مجھے اپنے مقرب بندوں میں قرار دے اے طلبگاروں کے مقصود!
[ترمیم]
اللَّهُمَّ اجْعَلْنِی فِیهِ مِنَ الْمُتَوَکِّلِینَ عَلَیْکَخدایا! مجھے
ماہ رمضان میں اہل توکل میں سے شمار فرما، میری توقعات آس پاس کے لوگوں پر موقوف نہ ہوں؛ کتنا اچھا ہے کہ
انسان توکل کا حامل ہو اور اہل
توکل ہو۔
توکل کا معنی یہ ہے کہ انسان
یقین رکھے کہ
نفع و
نقصان اور بخشش و محرومی لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہے اور ان سے امیدیں نہیں باندھنی چاہئیں۔ اگر کوئی بندہ اس
معرفت پر فائز ہو جائے کہ خداکے سوا کسی کیلئے کوئی کام انجام نہ دے اور اس کے سوا کسی پر امید نہ رکھے اور اس کے غیر سے خوفزدہ نہ ہو اور خدا کے سوا کسی سے
طمع نہ رکھے تو یہ وہی خدا پر توکل ہے۔
[ترمیم]
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ
دنیا و
آخرت کے تمام امور اور
کائنات کی ہر چیز اللہ کے امر سے کام کرتی ہے؛
اِنَّ الاَمْرَ کُلَّهُ لِلَّهِ
یعنی بتحقیق (تمام امور) اللہ کے حکم سے انجام پاتے ہیں اور غیب کی تمام کنجیاں اس کے پاس ہیں۔
وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُهَا اِلَّا هُوَ
اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ جب
اللہ تعالیٰ کے ارادے کا اقتضا ہو کہ کوئی امر وجود میں آئے تو بلافاصلہ ہو جاتا ہے۔
وَاِذَا قَضَی اَمْراً فَاِنَّمَا یَقُولُ لَهُ کُن فَیَکُونُ یعنی جب (خدا) کسی امر کا ارادہ کرے تو صرف یہ کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔
بَل لَّهُ مَا فیِ السَّمَاوَاتِ وَ الْاَرْضِ کلُ لَّهُ قَنِتُونَ
یعنی بلکہ جو کچھ آسمان و زمین میں ہے، اللہ کی ملکیت ہے اور سب اس کے فرمانبردار ہیں۔ پس ان
آیات کے پیش نظر یہ واضح ہوتا ہے کہ
انسان جو کام بھی انجام دینا چاہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ خدائے قادر و متعال جو
خالق ہے؛ پر توکل کرے کیونکہ
امیر المومنینؑ حضرت علیؑ فرماتے ہیں:
من توکل علیه کفاه و من ساله اعطاه و من اقرضه قضاه و من شکر جزاه یعنی جو اس پر توکل کرے وہ اس کیلئے کافی ہے اور جو اس سے مانگے تو وہ عطا کرتا ہے اور جو رضائے الہٰی کیلئے محتاجین کو
قرض دے تو وہ اسے ادا کرتا ہے اور جو اس کا شکر کرے وہ اس کی اچھی جزا دیتا ہے۔ اسی طرح خدائے عزوجل بھی فرماتا ہے:
فَإِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَكَّلۡ عَلَى ٱللَّهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلۡمُتَوَكِّلِينَ یعنی جب کوئی کام انجام دو تو خدا پر توکل کرو یقینا خدا توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ ہم بھی خدا تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ آج کے دن ہمیں اپنی ذات کے حقیقی توکل کنندگان میں سے قرار دے۔۔۔ ۔
حسن بن جھم نامی ایک شخص کہتا ہے: میں آٹھویں امامؑ کی خدمت میں پہنچا تو عرض کیا: میں آپ پر قربان! توکل کی حدود کیا ہے؟!
فقال لی ان لا تخاف مع الله أحدا. تو فرمایا: توکل یہ ہے کہ خدا کے بھروسے پر کسی چیز سے خوفزدہ نہ ہو۔۔۔ ۔
قرآن مجید نے متعدد موارد میں خدا پر توکل کو
مومنین کی خصوصیات میں قرار دیا ہے اور فرماتا ہے:
وَعَلَى ٱللَّهِ فَتَوَكَّلُوٓاْ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ اگر ایمان رکھتے ہو تو خدا پر توکل کرو۔
وَعَلَى ٱللَّهِ فَلۡيَتَوَكَّلِ ٱلۡمُؤۡمِنُونَ ؛ مومن بالضرور خدا پر توکل کریں۔
[ترمیم]
توکل کیا ہے؟!
پیغمبر اکرمؐ نے
جبرئیل سے توکل کی تفصیل سے متعلق سوال کیا، جبرئیل نے کہا: توکل کا معنی یہ ہے کہ
انسان یقین کرے کہ نفع و نقصان اور
بخشش و
محرومی لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہے اور ان سے قطعِ امید کرے اور اگر کوئی بندہ
معرفت کے اس درجے تک پہنچ جائے کہ خدا کے سوا کسی اور کیلئے کوئی کام انجام نہ دے اور اس کے سوا کسی پر امیدوار نہ ہو اور اس کے غیر کا خوف نہ رکھتا ہو اور خدا کے غیر سے طمع نہ رکھے تو یہ وہی توکل بر خدا ہے۔
حسن بن جھم نامی شخص کہتا ہے: میں آٹھویں امامؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: میری جان قربان! توکل کی حدود کیا ہے؟!
فقال لی ان لا تخاف مع الله احدا فرمایا: توکل یہ ہے کہ خدا پر بھروسہ رکھتے ہوئے کسی چیز کا خوف نہ کرو۔۔۔ ۔
[ترمیم]
وَ اجْعَلْنِی فِیهِ مِنَ الْفَائِزِینَ لَدَیْکَخدایا! مجھے ان افراد میں سے قرار دے جو تیرے نزدیک کامیاب ہیں۔
فائزین کون ہیں؟! فائز بمعنی سعادت مند ایسے فرد کو کہتے ہیں کہ
خدا جس کو اپنے احکامات پر عمل کے باعث اپنی رحمت میں شامل کرتا ہے اور اپنے عذاب سے دور کرتا ہے چنانچہ قرآن میں فرماتا ہے:
قُلْ اِنِّیَ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّی عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیمٍ
یعنی کہدیجئے: اگر میں اپنے
رب کی نافرمانی کروں تو بڑے دن کے
عذاب سے ڈرتا ہوں ۔ اگلی آیت میں فرماتا ہے:
مَّن یُصْرَفْ عَنْهُ یَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمَهُ وَذَلِکَ الْفَوْزُ الْمُبِینُ
یعنی جس شخص سے اس روز عذاب ٹال دیا گیا اس پر خدا نے (بڑی) مہربانی فرمائی اور یہ کھلی کامیابی ہے۔
اور جو لوگ اپنے پروردگار کی
معصیت سے اجتناب کرتے ہیں، یقینا خدا تعالیٰ ان سے راضی ہے کہ اس
رضایت کا سرچشمہ الہٰی
قضا و قدر پر مخلوق کی رضایت ہے؛ جیسا کہ خدا قرآن میں فرماتا ہے:
رَّضِیَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ خدا ان سے راضی ہے اور وہ خدا سے راضی ہیں اور یہ عظیم کامیابی ہے۔
[ترمیم]
وَ اجْعَلْنِی فِیهِ مِنَ الْمُقَرَّبِینَ اِلَیْکَخدایا! مجھے اس میں اپنی بارگاہ کے مقربین میں سے قرار دے؛ خدا نہ کرے کہ ہماری زندگی ایسی ہو کہ خدا ہمیں یہ کہے کہ تو میرا بندہ نہیں ہے اور ہمیں اپنی درگاہ ربوبی سے دور کر دے اور کہے کہ نکل جاؤ!!! بعض اوقات
باپ اپنے بد عمل بیٹے کو کہتا ہے: جاؤ، تم میرے بیٹے نہیں ہو، خدا بھی بعض اوقات اپنے معصیت میں غرق بندے کو کہتا ہے: میری درگاہ سے دور ہو جا کہ تو میرا بندہ نہیں ہے! خدا کرے کہ خدا ہمیں یہ کہے کہ تو میرا بندہ ہے۔
خدا و رسول اور
اہل بیت عصمت و
طہارت کی اطاعت کیجئے۔ عمل ایسا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے مقربین میں سے قرار پائیں۔ پس ہم بھی اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ اپنے لطف و احسان کے صدقے ہمیں مقربین بارگاہ میں سے قرار دے۔
[ترمیم]
تقویٰ اللہ تعالیٰ کے
تقرب کا موجب ہے۔
وہ افراد
خدا کے قرب کے حامل ہیں اور اس کے ہاں آبرومند ہیں جو تقویٰ اختیار کریں کیونکہ خدا تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
إِنَّ أَكۡرَمَكُمۡ عِندَ ٱللَّهِ أَتۡقَىٰكُمۡۚ یعنی تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ اگر ہم آیت:
لَّقَدۡ كَانَ لَكُمۡ فِي رَسُولِ ٱللَّهِ أُسۡوَةٌ حَسَنَة بتحقیق تمہارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے؛ میں کلمہ رسول پر توجہ کریں، تو ہم سمجھ جائیں گے کہ خدا کے نزدیک عزت و آبرو کے حصول کے خواہشمند کیلئے آیت:
یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَابْتَغُوا اِلَیْهِ الْوَسِیلَةَ ایمان والو اللہ کا
تقویٰ اختیار کرو اور اس تک پہنچے کا
وسیلہ تلاش کرو؛ کے پیش نظر ضروری ہے کہ
آیت يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَأَطِيعُواْ ٱلرَّسُولَ وَأُوْلِي ٱلۡأَمۡرِ مِنكُمۡۖ ’’یعنی ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں‘‘ پر عمل کر کے ان لوگوں میں شامل ہو جائیں جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقرب ہیں۔ پس ہم بھی خدا سے دعا کرتے ہیں کہ اپنے لطف و احسان کے واسطے ہمیں ان لوگوں میں سے قرار دے جو اس کی بارگاہ میں مقرب ہیں۔
[ترمیم]
بِاِحْسَانِکَ یَا غَایَةَ الطَّالِبِیناپنے احسان کا واسطہ! میری دعا کو قبول فرما؛ اے متلاشیان حقیقت کے آخری مقصود! انسان جب ہر طرف سے ناامید ہو جاتا ہے تو آخر کار خانہ خدا کا رخ کرتا ہے، اس وقت اس کی دعا مستجاب ہوتی ہے۔ اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کی دعا قبول ہو گی یا نہیں؟! تو اپنے دل کا جائزہ لیجئے اگر آپ یہ دیکھیں کہ اپنے گوشہ دل میں غیر خدا پر امیدوار ہیں تو جان لیں کہ تمہاری دعا مستجاب نہیں ہو گی لیکن اگر ہر ایک سے ناامید ہوں اور آپ کی چشم دل اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھ رہی ہو تو جان لیجئے کہ آپ کی دعا قبول ہو چکی ہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم! میں اس کی امید کو قطع کرتا ہوں جو میرے علاوہ کسی اور پر امید رکھتا ہے!
[ترمیم]
•
یکم رمضان کی دعا •
دو رمضان کی دعا•
تین رمضان کی دعا•
چار رمضان کی دعا•
پانچ رمضان کی دعا•
چھ رمضان کی دعا•
سات رمضان کی دعا •
آٹھ رمضان کی دعا•
نو رمضان کی دعا •
گیارہ رمضان کی دعا •
بارہ رمضان کی دعا•
تیرہ رمضان کی دعا•
چودہ رمضان کی دعا•
پندرہ رمضان کی دعا •
سولہ رمضان کی دعا•
سترہ رمضان کی دعا •
اٹھارہ رمضان کی دعا•
انیس رمضان کی دعا •
بیس رمضان کی دعا •
اکیس رمضان کی دعا•
بائیس رمضان کی دعا•
تئیس رمضان کی دعا•
چوبیس رمضان کی دعا •
پچیس رمضان کی دعا •
چھبیس رمضان کی دعا•
ستائیس رمضان کی دعا•
اٹھائیس رمضان کی دعا•
انتیس رمضان کی دعا •
تیس رمضان کی دعا •
[ترمیم]
[ترمیم]
سایت تبیان، ماخوذ از مقالہ ’’شرح دعای روز دهم ماه رمضان‘‘؛ تاریخ نظرثانی ۱۳۹۵/۱۰/۲۳۔