یکم رمضان کی دعا

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



یکم ماہ رمضان کی دعا میں روزے کی قبولیت، شب بیداری، غافلین کی نیند سے بیداری کی استدعا اور گناہوں کی بخشش پر تاکید ملتی ہے۔


دعا کا متن اور ترجمہ

[ترمیم]

اللهمَ اجْعلْ صِیامی فـیه صِیـام الصّائِمینَ اے معبود میرا آج کا روزہ حقیقی روزے داروں جیسا قرار دے
و قیامی فیهِ قیامَ القائِمینَ میری عبادت کو پکے عبادت گزاروں جیسا قرار دے!
ونَبّهْنی فیهِ عن نَومَةِ الغافِلینَ آج مجھے غافل لوگوں جیسی نیند سے بیدار کر دے!
و هَبْ لی جُرمی فیهِ یا الهَ العالَمینَ اور آج میرے گناہ بخش دے اے جہانوں کے پالنے والے!
واعْفُ عنّی یا عافیاً عنِ المجْرمینَ اور درگزر کر مجھ سے اے گناہگاروں سے درگزر کرنے والے!

روزے کی اقسام

[ترمیم]
اللَّهُمَّ اجْعَلْ صِیَامِی فِیهِ صِیَامَ الصَّائِمِینَ
خدایا! میرے روزے کو صائمین کے روزے کی طرح قرار دے؛ صائمین کون ہیں؟!
روزے کی تین اقسام ہیں:
۱- روزہ عام ۲- روزہ خاص ۳- روزہ خاص الخاص

← روزه عام


یہ وہی روزہ ہے جو عام لوگ رکھتے ہیں؛ نہ کھاتے ہیں اور نہ پیتے ہیں لیکن افسوس نامحرم کو بھی دیکھتے ہیں؛ گناہ بھی کرتے ہیں؛ اپنے حجاب کا بھی خیال نہیں کرتے۔ اس بنا پر عام روزہ وہ ہے کہ جس میں انسان صرف ان امور سے اجتناب کرتا ہے جو فقہی طور پر روزے کو باطل کر دیتے ہیں۔

← روزه خاص


خاص روزہ یہ ہے کہ کھانے پینے کو ترک کرنے کے علاوہ روزہ دار کے اعضا و جوارح بھی روزے سے ہوں؛ اس کی آنکھ بھی معصیت نہیں کرتی؛ سحری کے وقت جب روزہ رکھتا ہے تو نیت کرتا ہے کہ خدایا! میرے تمام اعضا و جوارح کا روزہ ہے؛ میرے کان غیبت نہیں سنیں گے، میری زبان غیبت نہیں کرے گی اور ۔۔۔ یہ روزہ خاص ہے۔
حدیث : عَلِیُّ بْنُ إِبْرَاهِیمَ عَنْ أَبِیهِ عَنِ ابْنِ أَبِی عُمَیْرٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع إِذَا صُمْتَ فَلْیَصُمْ سَمْعُکَ وَ بَصَرُکَ وَ شَعْرُکَ وَ جِلْدُکَ وَ عَدَّدَ أَشْیَاءَ غَیْرَ هَذَا وَ قَالَ لَا یَکُونُ یَوْمُ صَوْمِکَ کَیَوْمِ فِطْرِکَ
جب روزہ رکھو تو ضروری ہے کہ تمہارے کان کا بھی روزہ ہو (کان سے مربوط گناہوں جیسے غیبت وغیرہ سے پرہیز کرو)، تمہاری آنکھ کا بھی روزہ ہو، تمہاری جلد کا بھی روزہ ہو؛ تمہارے سر کے بالوں کا بھی روزہ ہو؛ خواتین اپنے حجاب کا خیال رکھیں؛ اس نکتے پر توجہ ضروری ہے کہ حجاب کی حدود کو متعین کرنا مرجع تقلید کی ذمہ داری ہے نہ کہ صدر، پارلیمنٹ کے سربراہ یا کسی اور مسئول کی؛ ضروری ہے کہ خواتین اپنے حجاب کی حدود کا اپنے مرجع تقلید سے سوال کریں؛ مراجع تقلید اسلام کے ماہرین ہیں اور ہر کوئی دینی مسائل میں اپنی رائے نہیں دے سکتا۔

← روزه خاص الخاص


یہ وہ روزہ ہے کہ روزہ دار کے دل میں کوئی غیر اللہ نہ ہو:
ای یک دله صد دله ؛دل یک دله کن
مهر دگران را ز دل خود یله کن
اگر ماہ رمضان میں تمام کام خدا کیلئے ہوں تو خاص الخاص روزے کا مقام ہے؛ اس لیے دعا میں خدا سے یہ مانگتے ہیں: اللَّهُمَّ اجْعَلْ صِیَامِی فِیهِ صِیَامَ الصَّائِمِینَ یعنی خدایا! میرے روزے کو (خاص الخاص) صائمین کے روزے کی طرح قرار دے!

← اس موضوع پر روایات


پیغمبر اعظمؐ کی ایک عظیم الشان حدیث میں ہے کہ فرمایا: اذا اغتاب الصائم افطر یعنی اگر روزہ دار غیبت کرے تو اس نے روزہ افطار کیا!
ایک دوسری حدیث میں فرماتے ہیں: من اغتاب امرء مسلما بطل صومه ونقض وضوؤه یعنی جو کسی مسلمان کی غیبت کرے تو اس کا روزہ اور وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
ان دو احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ صرف بھوک پیاس کا نام نہیں ہے اور توضیح المسائل میں مذکور دیگر مبطلات صوم کے علاوہ کچھ اور عوامل جیسے غیبت بھی ایک مسلمان کے روزے کو باطل کر دیتی ہے اور اسی لیے حقیقی روزہ وہ ہے کہ جس میں انسان کے تمام اعضا و جوارح روزہ دار ہوں۔ پس روزہ دار تمام برے اعمال جیسے (غیبت، گالم گلوچ، غصہ، نامحرم پر نظر...) سے دوری کرے۔
امام صادقؑ بھی ایک حدیث میں فرماتے ہیں کہ میرے والد بزرگوار نے فرمایا: پیغمبرؐ نے ایک روزہ دار خاتون کو سنا کہ وہ اپنی کنیز کو گالی دے رہی تھی۔ پس آپؐ نے حکم دیا کہ کھانا لایا جائے اور اس عورت سے فرمایا: کھاؤ! اس نے جواب دیا: اے رسول خدا! میرا روزہ ہے، اس وقت پیغمبرؐ نے فرمایا: کیف تکونین صائمه وقد سببت جاریتک! ان الصوم لیس من الطعام و الشراب و انما جعل الله ذلک حجابا عن سواهما من الفواحش من الفعل و القول یفطر الصائم ما اقل الصوام و اکثر الجواع یعنی تو کیسی روزہ دار ہے کہ اپنی کنیز کو گالی دے رہی تھی؟! بے شک روزہ کھانے پینے کو ترک کرنے کا نام نہیں ہے؛ اللہ نے اسے تمام قولی و فعلی برائیوں سے مانع قرار دیا ہے کہ جن سے روزہ دار کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے؛ کس قدر (حقیقی) روزہ دار کم ہیں اور بھوکے زیادہ ہیں!
صحیح اور مکمل روزہ جسے اللہ نے روزہ دار پر فرض کیا ہے، قطعا بدن کے اعضا کو گناہ سے بچانے پر مشتمل ہے اور کامل تر روزہ یہ ہے کہ اس کے علاوہ دل سے غیر خدا کی یاد کو نکال دے۔

ملائکہ کے نزول کیلئے ایمان کے رن وے کی حفاظت

[ترمیم]

ضروری ہے کہ اپنے دلوں کو خدا کیلئے خالی کریں، ملائکہ لیلۃ القدر میں اترتے ہیں مگر ہمارے دلوں کے رن وے کو نہیں پاتے؛ مال، بیوی بچے اور دنیا سے تعلق کی وجہ سے ملائکہ کے اترنے کی جگہ نہیں رہتی۔ دل اگر خالی ہو اس وقت تنزل الملائکة و الروح محقق ہوتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو لیلۃ القدر میں فرشتے آپ کے دل پر نہیں اترتے؛ ماہ رمضان میں ایسا کام نہ کریں کہ جس کی وجہ سے ملائکہ دل پر نہ اتریں۔

میرزا جواد ملکی تبریزی کا کلام

[ترمیم]

روایات میں منقول ہے: غیبت، جھوٹ، نامحرم پر متواتر نگاہ، گالی اور ظلم (خواہ کم ہو یا زیادہ) روزہ باطل ہونے کا باعث ہوتا ہے اور روزہ صرف کھانے پینے سے پرہیز کا نام نہیں ہے؛ روزے کے وقت کان، آنکھ، زبان اور ۔۔۔۔ کا روزہ ہونا چاہئے۔ اپنے ہاتھ پاؤں کا خیال رکھو اور خاموشی اختیار کیے رکھو اور سوائے خیر کے کلام نہ کرو، اپنے ملازمین سے مہربانی کرو۔ اپنے ملازم کے ساتھ جدال اور ایذا رسانی سے اجتناب کرو اور روزے کے وقار کا خیال رکھو اور تمہارے روزے کی حالت کا عام حالات سے فرق ہونا چاہئے۔
رسول خداؐ نے فرمایا: آسان ترین چیز جسے خدا نے روزہ دار پر واجب کیا ہے، وہ کھانے پینے سے پرہیز ہے۔ فقہا نے ان میں سے بعض روزہ داروں کے روزے کی صحت کا فتویٰ دیا ہے۔ مذکورہ بالا روایات، رسول اکرمؐ سے منقول روایت اور فقہا کے کلام میں جمع کی صورت یہ ہے کہ مذکورہ احادیث میں صحت سے مقصود ایسا روزہ ہے جو خدا کی بارگاہ میں مقبول ہے اور فقہا کے کلام میں صحت سے مقصود وہ روزہ ہے جس کی قضا ساقط ہے۔
خلاصہ یہ کہ صحیح و مکمل روزہ جسے خدا نے روزہ دار پر فرض کیا ہے وہ قطعا اعضائے بدن کو گناہ سے بچانے کا نام ہے۔ تاہم کامل ترین روزہ یہ ہے کہ اس کے علاوہ دل کو غیر خدا کی یاد سے روکے اور غیر خدا سے مانع ایجاد کرے۔ جب انسان روزے کی حقیقت، اس کے درجات اور اس کی تشریع کے فلسفے کو سمجھ لیتا ہے تو ناچار ہر گناہ و حرام سے خودداری کرتا ہے تاکہ اس کا روزہ قبول ہو جائے؛ ورنہ وہ ذمہ دار ہے اور اعضائے بدن کا روزہ نہ رکھنے کی وجہ سے اس کو سزا ملے گی اور روزے کی قضا کے ساقط ہونے کا یہ معنی نہیں ہے کہ انسان کو قیامت کے دن سزا کا سامنا نہیں ہو گا۔
[۶] ملکی تبریزی، میرزا جواد، ترجمه‌المراقبات ، ص ۲۱۰۔


قائمین کی خصوصیت

[ترمیم]

وَ قِیَامِی فِیهِ قِیَامَ الْقَائِمِینَ
خدایا! ماہ رمضان میں میرے قیام کو ’’قائمین‘‘ جیسا قیام قرار دے؛ یعنی رات کو جب میں نماز شب پڑھتا ہوں تو میرا قیام، قائمین والا ہو۔ قائمین وہ ہیں جو نماز میں خوف خدا سے گریہ و زاری کرتے ہیں۔
ضروری ہے کہ نماز وہ ہو جو عشق کی بنیاد پر ہو؛ کیونکہ مرغ بھی نماز شب پڑھتا ہے مگر عشق نہیں رکھتا؛ اسی لیے شاعر نے کہا ہے:
ای مرغ سحر عشق ز پروانه بیاموز
کان سوخته را جان شد و آواز نیامد
[۷] گلستان سعدی۔

میرے قیام کو قائمین جیسا قرار دے؛ یعنی میری نماز کو عاشقانہ قرار دے؛ نماز شب کیلئے نیند سے بیدار ہو جاؤں نہ یہ کہ بیدار ہونے کیلئے گھڑی کا الارم سیٹ کریں ۔
دعا کے اس اقتباس سے ایک اور جہت یہ سمجھی جا سکتی ہے کہ یہاں پر قیام سے مقصود شاید نماز پڑھنا یا دوسرے لفظوں میں ہر وہ قیام ہے کہ جس میں امر خیر ہو۔ جیسے ماہ رمضان کی سحری کے اوقات میں بیدار ہونا تاکہ سحری کی جا سکے یا دعا و مناجات میں مشغول ہوں، روزے کا افطار، ضعیفوں کی مدد وغیرہ یہ سب ایک قسم کے قیام ہی ہیں۔ صرف اہم چیز یہ ہے کہ ہدف، قصد اور نیت رضائے خدا ہو یعنی جس کام کا ارادہ کریں فقط رضائے خدا کو مدنظر رکھیں۔

غفلت سے پرہیز

[ترمیم]

وَ نَبِّهْنِی فِیهِ عَنْ نَوْمَةِ الْغَافِلِینَ
ماہ رمضان کے پہلے دن مجھے خواب غفلت سے بیدار کر دے؛ یہ بھی اچھی دعا ہے، گناہ نہ کریں ہر لحظہ ممکن ہے کہ موت آن پہنچے مثلا فلان دکان دار دودھ میں پانی ڈالتا ہے، اچانک اسے ہارٹ اٹیک ہو جاتا ہے، موت کی تو کوئی خبر نہیں ہوتی۔ یہ غفلت کی مثالیں ہیں۔
امیر المومنین علیؑ نے اپنی ایک صحابی کے نام خط میں لکھا: فَتَدَارَكْ مَا بَقِيَ مِنْ عُمُرِكَ وَ لاَ تَقُلْ غَداً أَوْ بَعْدَ غَدٍ فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكَ بِإِقَامَتِهِمْ عَلَى اَلْأَمَانِيِّ وَ اَلتَّسْوِيفِ حَتَّى أَتَاهُمْ أَمْرُ اَللَّهِ بَغْتَةً وَ هُمْ غَافِلُونَ فَنُقِلُوا عَلَى أَعْوَادِهِمْ إِلَى قُبُورِهِمُ اَلْمُظْلِمَةِ اَلضَّيِّقَةِ وَ قَدْ أَسْلَمَهُمُ اَلْأَوْلاَدُ وَ اَلْأَهْلُونَ یعنی اپنی باقی ماندہ عمر سے ماضی کی تلافی کرو اور نہ کہو: کل (کروں گا) پرسوں (کروں گا) بے شک تم سے پہلے کے انسان بے جا آرزوؤں اور (آخرت کے کاموں کو) مؤخر کرنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے یہاں تک کہ اچانک اللہ کا حکم (یعنی ان کی موت) آن پہنچی جبکہ وہ غفلت میں تھے؛ پس وہ لکڑیوں (تابوتوں) پر سوار اپنی تنگ و تاریک قبور کی طرف منتقل ہو گئے اور ان کی اولاد اور گھر والوں نے انہیں قبروں کے حوالے کر دیا۔ مراجعہ فارسی
ایسا روزہ کہ جس میں کھانے پینے سے پرہیز کے علاوہ روزہ دار کے اعضا و جوارح بھی روضے سے ہوتے ہیں؛ اس کی آنکھ بھی معصیت پر بند ہوتی ہے؛ روزہ رکھتے ہوئے سحری کے وقت وہ نیت کرتا ہے کہ خدایا! میں تمام اعضا و جوارح کا روزہ رکھ رہا ہوں؛ میرے کان غیبت نہیں سنیں گے، میری زبان غیبت نہیں کرے گی اور ۔۔۔ یہ خاص روزہ ہے۔
وَ هَبْ لِی جُرْمِی فِیهِ یَا إِلَهَ الْعَالَمِینَ وَ اعْفُ عَنِّی یَا عَافِیاً عَنِ الْمُجْرِمِینَ
خدایا! اس ماہ رمضان میں مجھے بخش دے اے وہ خدا جو گنہگاروں کو معاف کرتا ہے!

متعلقہ عناوین

[ترمیم]

دو رمضان کی دعاتین رمضان کی دعاچار رمضان کی دعاپانچ رمضان کی دعاچھ رمضان کی دعاسات رمضان کی دعاآٹھ رمضان کی دعانو رمضان کی دعادس رمضان کی دعاگیارہ رمضان کی دعابارہ رمضان کی دعاتیرہ رمضان کی دعاچودہ رمضان کی دعاپندرہ رمضان کی دعاسولہ رمضان کی دعاسترہ رمضان کی دعااٹھارہ رمضان کی دعاانیس رمضان کی دعابیس رمضان کی دعااکیس رمضان کی دعابائیس رمضان کی دعاتئیس رمضان کی دعاچوبیس رمضان کی دعاپچیس رمضان کی دعاچھبیس رمضان کی دعاستائیس رمضان کی دعااٹھائیس رمضان کی دعاانتیس رمضان کی دعاتیس رمضان کی دعا

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۷، ص۴۳۶۔    
۲. ابی جمهور احسائی، محمد بن علی، عوالی اللئالی، ج۱، ص۲۶۳۔    
۳. صدوق، محمد بن علی، من لایحضره الفقیه، ج۴، ص۱۵۔    
۴. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۷،ص۴۳۷۔    
۵. قدر/سوره ۹۷، آیه ۴۔    
۶. ملکی تبریزی، میرزا جواد، ترجمه‌المراقبات ، ص ۲۱۰۔
۷. گلستان سعدی۔
۸. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۳، ص۳۵۱۔    


ماخذ

[ترمیم]

سایت تبیان، ماخوذ از مقالہ ’’شرح دعای روز ششم ماه رمضان‘‘، تاریخ بازیابی ۱۳۹۵/۱۰/۲۰۔    






جعبه ابزار