گیارہ رمضان کی دعا
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
گیارہ
رمضان کی دعا نیکی و
احسان کو دوست رکھنے،
فسق اور بدی کو ناپسند کرنے اور
جہنم کی آگ اور غضب سے دور رہنے جیسے معارف پر مشتمل ہے۔
[ترمیم]
اللهمّ حَبّبْ الیّ فیهِ الاحْسانَ وکَرّهْ الیّ فیهِ الفُسوقَ والعِصْیانَ وکَرّهْ الیّ فیهِ الفُسوقَ والعِصْیانَ وحَرّمْ علیّ فیهِ السّخَطَ والنّیرانَ بِعَوْنِکَ یا غیاثَ المُسْتغیثین اے معبود آج کے دن
نیکی کو میرے لیے پسندیدہ بنا دے! اس میں
گناہ و نافرمانی کو میرے لیے ناپسندیدہ بنا دے اور اس میں غیظ و غضب کو مجھ پر حرام کر دے اپنی حمایت کے ساتھ اے فریادیوں کے فریاد رس!
[ترمیم]
اللَّهُمَّ حَبِّبْ اِلَیَّ فِیهِ الْاِحْسَانَ
خدایا! ایسا کام کر کہ میں احسان کو دوست رکھوں اور بدیاں مجھے بری لگیں؛
عبادت اور ہر اچھے کام کی انجام دہی میرے لیے محبوب ہو۔ یہ دعا بہت اچھھی ہے کہ
انسان ایسا ہو کہ اچھے کام سے لطف اٹھائے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اچھا کام انجام دیں تو اسے مخفیانہ انجام دیں اور اس میں
قصد قربت رکھتے ہوں۔
اس طرح زندگی گزاریں کہ کسی کی آبرو ریزی نہ کریں، احسان میں ریاکار نہ ہوں کہ اگر اس طرح ہوئے تو
قیامت میں ہمارے لیے اجر و پاداش ہے۔
اگر انسان کوئی نیک عمل انجام دے اور اس کو انجام دینے سے اس کا ہدف
خدا کی رضایت کو جلب کرنا ہو اس وقت ہم کہیں گے کہ وہ نیک عمل اور احسان خوشنودی خدا کیلئے ہے۔
اچھی چیز
صدقہ کریں؛ اگر صاحب حیثیت ہوں تو سب سے اعلیٰ جنس صدقہ و خیرات کیلئے علیٰحدہ رکھیں۔ بہترین خوبی یہ ہے کہ انسان
فقیر رشتہ داروں کی مدد کرے، بعض لوگ رشتہ داروں کی مدد نہیں کرتے حتی مرحوم
آیت اللہ العظمیٰ بروجردیؒ احتیاط کرتے تھے اور کہتے تھے: اگر تمہارے شہر میں مستحق موجود ہو تو اشکال رکھتا ہے کہ
فطرہ دوسرے شہروں میں بھیجو۔
حدیث میں منقول ہے:
خَیرُکُم مَن اَطعَم الطَعام تم میں سے بہترین وہ ہیں کہ
اطعام طعام کرتے ہیں؛ کھانا بناتے ہیں اور دوسروں کو کھلاتے ہیں۔
[ترمیم]
جیسا کہ
آیات و
روایات میں موجود ہے، ہر نیک عمل جسے
انسان انجام دیتا ہے، اسے احسان و نیکی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس کی دو قسمیں ہیں:
(۱) رضائے الہٰی کیلئے احسان؛
(۲)
ریاکاری اور لوگوں کی توجہ جلب کرنے کیلئے احسان؛
جو
خدا کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم ہو اور نیک ہو جائے تو یہ مسلم ہے کہ اس کا اجر خدائے عظیم کے نزدیک محفوظ ہے اور اسے کوئی
خوف نہیں ہے اور
دنیا و
آخرت میں کوئی غم نہ ہو گا۔
اگر کوئی انسان نیک عمل انجام دے اور اس کی انجام دہی سے اس کا ہدف صرف خدائے قادر و متعال کی رضایت کو جلب کرنا ہو اس وقت ہم کہیں گے کہ وہ نیک عمل رضائے الہٰی کیلئے احسان ہے۔
انفاق ایک قسم کا احسان ہے: خدائے عزوجل
قرآن میں فرماتا ہے:
وَ اَنْفِقُوا فِی سَبِیلِ اللَّهِ وَ لا تُلْقُوا بِاَیْدِیکُمْ اِلَی التَّهْلُکَةِ وَ اَحْسِنُوا اِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الْمحْسِنِینَ یعنی
خدا کی راہ میں انفاق کرو اور اپنے ہاتھوں خود کو ہلاکت میں مت ڈالو اور احسان کرو بے شک اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
مرحوم آیت اللہ العظمیٰ بروجردیؒ احتیاط کرتے تھے اور کہتے تھے: اگر تمہارے شہر میں مستحق موجود ہو تو اشکال ہے کہ فطرانہ دوسرے شہروں میں بھیجے!
اس
آیت سے پتہ چلتا ہے کہ انفاق اچھا عمل ہے جو انسان کو ہلاکت سے نجات دیتا ہے اور یہ اس صورت میں یہ کہ احسان
وَمَثَلُ الَّذِینَ یُنفِقُونَ اَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّهِ» کا جزء ہو۔ اس وقت خدا قرآن میں فرماتا ہے:
بَلی مَن اسلَمَ وَجهَهُ لِلّهِ وَ هُوَ مُحسِنٌ فَلَهُ اجرُهُ عِندَ رَبِّهِ وَ لاخَوفٌ عَلَیهِم وَ لا هُم یَحزَنونَ یعنی ہاں، جو حکم خدا کے سامنے سر تسلیم خم کر دے اور نیک ہو جائے تو مسلم ہے کہ اس کا اجر خدائے عظیم کے پاس ہو گا اور وہ اسے دنیا و آخرت میں کوئی خوف اور ڈر نہیں ہو گا۔
اگر کوئی انسان ایسا نیک عمل انجام دے جو خدا کو پسند ہو اور اس کا ہدف لوگوں کی توجہ کا حصول ہو؛ اس کے درج ذیل عواقب ہیں:
اولا: عمل کی انجام دہی میں وہ خدا کیلئے شریک کا قائل ہوا ہے۔
ثانیا: اس کا عمل ریاکاری پر مبنی ہے اور اس عمل کی خدا کی طرف سے کوئی پاداش نہیں ہے؛ کیونکہ اس قسم کے افراد شیطان کے ساتھی اور قرین ہیں کہ اگر اس مورد میں بھی انفاق کو مدنظر رکھیں تو خدا قرآن میں فرماتا ہے:
وَالَّذِینَ یُنفِقُونَ اَمْوَالَهُمْ رِئَـاء النَّاسِ وَلاَ یُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الآخِرِ وَمَن یَکُنِ الشَّیْطَانُ لَهُ قَرِینًا فَسَاء قِرِینًا اور جو لوگ اپنے اموال کو لوگوں کو دکھانے کے لئے خرچ کرتے ہیں اور اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جس کا
شیطان ساتھی ہو جائے وہ بدترین ساتھی ہے۔
[ترمیم]
’’حبّب الی فیه الاحسان‘‘ سے کیا مقصود ہے؟
جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:
انَّ اللهَ یُحِبُ المُحسنین
یعنی بے شک خدا احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ اس آیت کی رو سے انسان خدا کا محبوب بننے کیلئے خدا سے چاہتا ہے کہ احسان اور نیک کام کو اس کیلئے محبوب بنا دے اور ہم بھی اس دن خدا سے دعا کرتے ہیں کہ اس کی رضا کی راہ میں احسان اور نیک کام سے محبت ہمیں نصیب فرمائے۔
[ترمیم]
وَ کَرِّهْ اِلَیَّ فِیهِ الْفُسُوقَ وَ الْعِصْیَانَ خدایا! مجھے اس طرح قرار دے کہ میں فسق و معصیت سے بیزار ہو جاؤں اور مجھے گناہ کرنا برا لگے۔
فسوق و العصیان کیا ہے؟!
جب بھی
انسان کسی عمل کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے برخلاف انجام دے، اس وقت کہا جائے گا کہ اس نے خدا کی نافرمانی کی ہے یعنی اپنے خدا کے حکم کی نافرمانی کی ہے کہ اگر انسان اپنے اس عمل یعنی خدا کی
معصیت پر اصرار کرے اور اسی طرح چلتا رہے؛ اس وقت اسے
فاسق کہا جائے گا کیونکہ وہ مسلسل اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مشغول ہے۔
خدا تعالیٰ انسان کی نگاہ میں
گناہ ، معصیت اور ہر ناپسندیدہ عمل کو منفور بنائے، اس وقت انسان حقیقی
ہدایت حاصل کرتا ہے اور اپنی سعادت کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی معصیت اور فسق سے دوری کا نتیجہ، خدا تعالیٰ
قرآن میں فرماتا ہے:
وَ کَرَّهَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَ الْفُسُوقَ وَ الْعِصْیانَ اُولئِکَ هُمُ الرَّاشِدُون
یعنی خداوند
کفر و فسوق و معصیت کو تمہاری نظروں میں منفور اور برا بنا دے، یہی لوگ در حقیقت صائب اور اہل ہدایت ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر خدا کسی انسان کی نگاہ میں گناہ و معصیت اور ہر ناپسندیدہ عمل کو برا اور منفور بنا دے اس وقت انسان حقیقی ہدایت یافتہ بنتا ہے اور سعادت کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔
[ترمیم]
وَ حَرِّمْ عَلَیَّ فِیهِ السَّخَطَ وَ النِّیرَانَخدایا! آج کے دن میرے اوپر اپنا
غضب اور
آگ کو حرام کر دے۔
خدائے عزوجل قرآن میں فرماتا ہے:
واتقوا الله و اعلموا ان الله شدید العقاب اور خدا سے ڈرو اور جان لو کہ اللہ سخت
عذاب دینے والا ہے۔
جو لوگ عذاب الہٰی سے امان میں ہیں اور ان پر آتشِ دوزخ حرام ہے، وہی ہیں جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا اور اس کے احکام کی نافرمانی سے پرہیز کیا۔
اللہ کا یہ عذاب و عقاب ان لوگوں کیلئے ہے جو اس کی معصیت و نافرمانی میں مشغول ہیں؛ اس طور کہ خدا کی نعمتوں کے شکرگزار نہیں ہیں اور خدا سن سے راضی نہیں ہے؛ چنانچہ خدائے متعال قرآن میں اپنے بندوں پر عذاب کی وجہ یہ بیان فرماتا ہے:
مَّا یَفْعَلُ اللّهُ بِعَذَابِکُمْ اِن شَکَرْتُمْ وَآمَنتُمْ وَکَانَ اللّهُ شَاکِرًا عَلِیمًا اگر تم (خدا کے شکرگزار رہو اور (اس پر) ایمان لے آؤ تو خدا تم کو عذاب دے کر کیا کرے گا اور خدا تو قدرشناس اور دانا ہے.
پس اس آیت کے پیش نظر وہ لوگ اللہ کے عذاب سے امان میں ہیں اور ان پر دوزخ حرام ہے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا اور اس کے احکام کی معصیت و نافرمانی سے پرہیز کیا۔
روایت میں وارد ہوا ہے: اگر تم اس کی طرف ایک قدم اٹھاؤ گے تو خدا تیزی سے تمہاری طرف آئے گا؛
لہٰذا ہمیں ناامید نہیں ہونا چاہئیے اور اس کی طرف ایک قدم اٹھائیں تاکہ غیبی امداد کو دیکھیں۔
بِعَوْنِکَ؛ خدایا! یہ سب دعائیں تجھ سے مانگی ہیں لیکن جب تک تو خود میری مدد نہ کرے میں ان امور کے ساتھ متخلق نہیں ہو سکتا اور تیری مدد کے بغیر یہ مسائل محقق نہیں ہوں گے۔
روایت میں وارد ہوا ہے: اگر تم اس کی طرف ایک قدم اٹھاؤ تو خدا تیری طرف لپکتا ہے۔
لہٰذا ہمیں ناامید نہیں ہونا چاہئے اور اس کی طرف ایک قدم اٹھانا چاہئے تاکہ الہٰی امداد ہمارے شامل حال ہو۔
یَا غِیَاثَ الْمُسْتَغِیثِین: اے خدا! کہ جس سے کوئی پناہ مانگے تو اس کو پناہ دیتا ہے!
[ترمیم]
•
یکم رمضان کی دعا •
دو رمضان کی دعا•
تین رمضان کی دعا•
چار رمضان کی دعا•
پانچ رمضان کی دعا•
چھ رمضان کی دعا•
سات رمضان کی دعا•
آٹھ رمضان کی دعا •
نو رمضان کی دعا•
دس رمضان کی دعا •
بارہ رمضان کی دعا•
تیرہ رمضان کی دعا•
چودہ رمضان کی دعا•
پندرہ رمضان کی دعا •
سولہ رمضان کی دعا•
سترہ رمضان کی دعا •
اٹھارہ رمضان کی دعا•
انیس رمضان کی دعا •
بیس رمضان کی دعا •
اکیس رمضان کی دعا•
بائیس رمضان کی دعا•
تئیس رمضان کی دعا•
چوبیس رمضان کی دعا •
پچیس رمضان کی دعا •
چھبیس رمضان کی دعا•
ستائیس رمضان کی دعا•
اٹھائیس رمضان کی دعا•
انتیس رمضان کی دعا •
تیس رمضان کی دعا •
[ترمیم]
[ترمیم]
سایت تبیان، ماخوذ از مقالہ «شرح دعای روز یازدهم ماه رمضان»، تاریخ نظرثانی ۱۳۹۵/۱۰/۲۶۔