تئیس رمضان کی دعا
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
تئیس رمضان کی دعا میں
گناہوں اور عیوب سے پاکی اور متقین کے درجات کا سوال کرنے کی تلقین ملتی ہے۔
[ترمیم]
اَللّـهُمَّ اغْسِلْنی فیهِ مِنَ الذُّنُوبِ وَطَهِّرْنی فیهِ مِنَ الْعُیُوبِ وَ امْتَحِنْ قَلْبی فیهِ بِتَقْوَی الْقُلُوبِ یا مُقیلَ عَثَراتِ الْمُذْنِبینَاے معبود آج کے دن میرے گناہوں کو دھو ڈال! میرے عیوب و نقائص مجھ سے دور فرما دے! اور اس میں میرے دل کو آزما کر اہل تقویٰ کا درجہ دے! اے گناہگار کی لغزشیں معاف کرنے والے!
[ترمیم]
اللهم اغسلنی فیه من الذنوب خدایا! اس دن میرے گناہوں کو دھو دے!
جیسا کہ قرآن کریم کی
آیات اور
روایات میں وارد ہوا ہے کہ
خدا اپنے بندوں کے تمام گناہ معاف کر دیتا ہے اور ان سے صرف نظر کرتا ہے:
ان الله یغفر الذنوب جمیعا یعنی اللہ تمام گناہوں کو معاف کر دیتا ہے؛ مگر اللہ صرف ایک گناہ کو معاف نہیں کرے گا اور وہ اس کی ذات کے ساتھ
شرک ہے:
ان الله لایغفر ان یشرک به... یعنی خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔۔۔ ۔
اب ہم یہ جاننا چاہتےہیں کہ اس دعا میں (اللهم اغسلنی، خدایا! مجھے دھو ڈال) کا کیا مطلب ہے؟!
جواب میں اس نکتے کی طرف اشارہ کریں گے کہ
پانی تمام کثافتوں اور پلیدیوں کو پاک کرتا ہے، اس طور کہ پانی ہر کثافت و پلیدی کو جہاں بھی ہو؛ زائل کر دیتا ہے اور پاکیزگی و نظافت اس طرح سے کرتا ہے کہ کثافت کا نام و نشان نہیں رہتا، پھر ہم کہتے ہیں کہ فلان مکان پاک ہو گیا ہے۔
اللهم اغسلنی فیه من الذنوب کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے بعد
جسم و
روح میں گناہ کا اثر نہ رہے تاکہ کثافتیں اور گناہ کی پلیدیاں قرب الی اللہ تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالیں، پس غسل سے مقصود وہی گناہوں کی پلیدیوں سے پاک و طاہر ہونا ہے۔ آج کے دن ہم بھی پروردگار عالم سے یہ عرض کرتے ہیں کہ ہمیں گناہوں سے پاک و پاکیزہ کر دے تاکہ اعلیٰ معنوی درجات پر فائز ہو سکیں ۔۔۔ ۔
اگر کوئی شخص اپنے عیوب کی اصلاح کرے تو جو لوگ اس کی پیروی کریں گے اور انہیں نمونہ بنائیں گے وہ بھی اس پسندیدہ عمل میں اس کی پیروی کریں گے اور ثانیا: انسان انسان اپنے
مسلمان بھائی میں کسی عیب کو دیکھنے کی صورت میں مخفیانہ اور نامحسوس طور پر اس شخص کو عیب سے مطلع کر سکتے ہیں تاکہ وہ اپنی
اصلاح کرے۔ یہ بھی مدنظر رہے کہ خدا تعالیٰ ستار العیوب ہے، عیوب کو چھپاتا ہے اور خدا جو عیوب کو چھپانے میں معروف ہے، ہرگز نہیں چاہتا ہے کہ کوئی بندہ دوسرے بندے کے عیوب فاش کرے۔
[ترمیم]
وطهرنی فیه من العیوب اور مجھے اس دن عیوب سے پاک کر دے!
انسان اپنی پوری زندگی دانستہ یا نادانستہ فاحش خطائیں انجام دیتا ہے، ان خطاؤں کو عیب سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ بفرض مثال کوئی شخص جو بہت جھوٹ بولتا ہے، جھوٹ اس کا بڑا عیب سمجھا جاتا ہے اور وہ عیب
دنیا و
آخرت میں اس کے گریبان گیر ہوتا ہے؛ کیونکہ ایک عیب سے ہزاروں دیگر عیب پیدا ہوتے ہیں جن سے ممکن ہے کہ معاشرہ نابود ہو جائے؛ چنانچہ روایات و
احادیث میں موجود ہے کہ
اسلام لوگوں بالخصوص
مسلمانوں کے عیوب چھپانے کا حکم دیتا ہے؛ کیونکہ اگر کسی قابل احترام اور عزت دار شخص کا عیب فاش ہو جائے تو اس صورت میں دو اہم چیزیں رونما ہوتی ہیں:
اول: یہ کہ وہ شخص بے آبرو ہو جاتا ہے اور اس کی شخصیت سب کے سامنے ختم ہو جاتی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ عمل اس شخص کو خطرناک کاموں پر وادار کر دے۔
دوم: یہ کہ ممکن ہے کہ بہت سے افراد اس کی پیروی کریں، اس پر
اعتماد کے باعث اس کے عیب کو اچھا سمجھیں اور لوگوں میں عیب پھیلائیں کہ دونوں حالتیں ایک معاشرے کیلئے بہت خطرناک ہیں۔ اب شاید یہ سوال ہو کہ ایسے کاموں سے نمٹنے کیلئے کیا کریں؟! جواب یہ ہے کہ اولا، ہر انسان کافی حد تک عیب دار ہوتا ہے کہ اگر وہ اپنے عیوب پر نظر کرے تو
عمر کے آخر تک ان کی اصلاح کی کوشش کرے گا؛ کیونکہ جو انسان خود مریض ہے وہ پہلے ضروری ہے کہ اپنی بیماری کا درمان کرے، پھر دوسروں کی بیماری کا؛ اس عمل سے جامعہ اور اس کے افراد کی بھی اصلاح ہو جائے گی؛ اس طور کہ اگر کوئی شخص اپنے عیوب کی اصلاح کرے تو جو لوگ اس کی تبعیت کرتے ہیں اور اسے نمونہ عمل بناتے ہیں، وہ بھی اس کے اصلاح شدہ عمل کی پیروی کریں گے۔
اسی طرح انسان اپنے مسلمان اور دینی بھائی میں کوئی عیب دیکھنے کی صورت میں خود مخفیانہ اور نامحسوس انداز میں اس کو مطلع کر کے اس کی اصلاح کر سکتا ہے اور خدا ستار العیوب ہے، عیوب کو چھپاتا ہے؛ خدا جو عیوب کو چھپانے میں معروف ہے، ہرگز نہیں چاہتا کہ کوئی بندہ دوسرے بندے کے عیب فاش کرے، ہم بھی اس دن خدا سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے وجود کو ان عیوب سے پاک کر دے جو ہمارے اندر راسخ ہو چکے ہیں۔
[ترمیم]
وامتحن قلبی فیه بتقوی لقلوب یا مقیل عثرات المذنبیناور اس میں میرے دل کو آزما کر اہل تقویٰ کا درجہ دے! اے گناہگار کی لغزشیں معاف کرنے والے!
جو متقین ہیں، وہ
قیامت کے دن خاص مقام کے حامل ہیں؛ کیونکہ جو اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کرتے ہیں اور اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں تو ان کے حوالے سے ارشاد ہے:
والذین اتقوا فوقهم یوم القیامه...
یعنی متقین کا مقام
قیامت کے دن
کافرین سے برتر اور اوپر ہے، ان کا اپنے پروردگار کی بارگاہ میں بلند رتبہ و عظیم مقام ہے جس کا خدا نے ان سے وعدہ فرمایا ہے کہ:
للذین اتقوا عند ربهم جنات تجری من تحتها الانهار خالدین فیها و ازواج مطهره و رضوان من الله و الله بصیر بالعباد
یعنی جو لوگ پرہیزگار ہیں ان کے لیے خدا کے ہاں باغات (بہشت) ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور پاکیزہ عورتیں ہیں اور (سب سے بڑھ کر) خدا کی خوشنودی اور اللہ بندوں پر خوب نگاہ رکھنے والا ہے۔
ہم بھی آج کے دن بہت زیادہ
گناہ اور لغزشیں رکھنے کے باوجود
اللہ تعالیٰ سے یہ عرض کر رہے ہیں کہ ہمارے گناہوں اور لغزشوں کو معاف کر دے اور اہل تقویٰ کا رتبہ جو اس کی بارگاہ میں بلند درجے کے حامل ہیں، ہمیں عطا فرما دے۔
[ترمیم]
•
یکم رمضان کی دعا •
دو رمضان کی دعا•
تین رمضان کی دعا•
چار رمضان کی دعا•
پانچ رمضان کی دعا•
چھ رمضان کی دعا•
سات رمضان کی دعا•
آٹھ رمضان کی دعا •
نو رمضان کی دعا•
دس رمضان کی دعا•
گیارہ رمضان کی دعا •
بارہ رمضان کی دعا•
تیرہ رمضان کی دعا•
چودہ رمضان کی دعا•
پندرہ رمضان کی دعا •
سولہ رمضان کی دعا•
سترہ رمضان کی دعا •
اٹھارہ رمضان کی دعا•
انیس رمضان کی دعا •
بیس رمضان کی دعا •
اکیس رمضان کی دعا•
بائیس رمضان کی دعا•
چوبیس رمضان کی دعا •
پچیس رمضان کی دعا •
چھبیس رمضان کی دعا•
ستائیس رمضان کی دعا•
اٹھائیس رمضان کی دعا•
انتیس رمضان کی دعا •
تیس رمضان کی دعا •
[ترمیم]
[ترمیم]
سایت تبیان، ماخوذ از مقالہ «شرح دعای روز بیست و سوم ماه رمضان»، تاریخ نظرثانی ۱۳۹۵/۱۰/۲۹۔