بائیس رمضان کی دعا

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



بائیس رمضان کی دعا میں اللہ کی رحمت، برکات اور فضل کے دروازے کھلنے، اس کی رضا جلب کرنے کی توفیق اور بہشت میں سکونت جیسے مضامین شامل ہیں۔


دعا کا متن و ترجمہ

[ترمیم]

اللَّهُمَّ افْتَحْ لِی فِیهِ اَبْوَابَ فَضْلِکَ وَ اَنْزِلْ عَلَیَّ فِیهِ بَرَکَاتِکَ وَ وَفِّقْنِی فِیهِ لِمُوجِبَاتِ مَرْضَاتِکَ وَ اَسْکِنِّی فِیهِ بُحْبُوحَاتِ جَنَّاتِکَ یَا مُجِیبَ دَعْوَةِ الْمُضْطَرِّین.
اپنی دعاؤں میں خدا سے عرض کریں کہ ہمارے ساتھ اپنے فضل کے ساتھ معاملہ کرے نہ اپنے عدل کے ساتھ۔ آج کی دعا کا ترجمہ یہ ہے:
اے معبود! آج کے دن میرے لیے اپنے کرم کے دروازے کھول دے اس میں مجھ پر اپنی برکتیں نازل فرما! اس میں مجھے اپنی رضاؤں کے ذرائع اختیار کرنے کی توفیق دے اور اس میں مجھ کو مرکز بہشت میں سکونت عنایت فرما! اے بے قرار لوگوں کی دعائیں قبول فرمانے والے!


فضلِ الٰہی کے ابواب

[ترمیم]

اللَّهُمَّ افْتَحْ لِی فِیهِ اَبْوَابَ فَضْلِکَ
خدایا! اپنے فضل کے دروازے میرے اوپر کھول دے؛ اب خدا میرے ساتھ اپنے فضل سے معاملہ فرمائے اور اگر اپنے عدل کے ساتھ ہمارے ساتھ معاملہ کرے تو ہم سب کی عاقبت خراب ہے! دعا کے جملے ہیں: اَللّهم عاِملنا بِفَضلِک وَ لا تُعامِلنا بِعَدلِک»
ابواب سے مقصود کیا ہے؟!
اس دعا میں خدا سے عرض کر رہے ہیں کہ اپنے فضل و کرم کے ابواب کو ہمارے لیے کھول دے، اب ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ابواب سے کیا مقصود ہے؟! اگر اس کے ظاہر کو دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ ابواب سے مراد وہ موانع ہیں جنہیں کسی جگہ داخل ہونے کیلئے کھولنے کی ضرورت ہے اور انہیں کھولنے کیلئے چابی کی ضرورت ہے اور اس چابی کی جو موردِ نظر باب سے مخصوص ہو؛ کیونکہ ہر دروازے کو ہر چابی نہیں لگتی سوائے اس صورت کہ ہمارے پاس ماسٹر کی ہو کہ جس سے تمام دروازے کھل جاتے ہیں۔۔۔۔ ۔
خدا کا اپنے بندوں پر فضل وہی صراط مستقیم کی ہدایت ہے، وہ ہدایت جو خدا کی رحمت و بخشش کے ابواب کو بندوں پر کھولتی ہے اور ہم بھی آج کے دن خدا سے دعا کرتے ہیں کہ اپنے فضل و رحمت کے ابواب کو ہمارے اوپر کھول دے ۔۔۔ ۔
اگر اس کے باطنی معنوں پر نگاہ کریں تو ابواب سے مقصود وہی داخلی دروازے ہیں جو خدا کی خوشنوی و رضا کی بنیاد پر یا اس کے غیض و غضب کی وجہ سے کھلتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب کوئی بندہ پروردگار کی معصیت اور گناہ کرتا ہے، اس وقت یہ معصیت و گناہ سبب بنتے ہیں کہ اس کے اوپر اللہ کے غضب کا دروازہ کھل جائے اور اس دروازے کے کھلنے کی کلید اس گناہ کو انجام دینا ہے۔

فضلِ الٰہی کا معنی

[ترمیم]

فضلِ الہٰی سے کیا مقصود ہے؟!
فضلِ الہٰی کی طرف مختصر اشارے کیلئے قرآن کریم کی دو آیات پیش کریں گے؛ پہلی آیت یہ ہے:
«وَلَوْلا فَضْلُ اللَّهِ عَلَیکُمْ وَ رَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّیطَانَ اِلَّا قَلِیل؛ ‌ اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو چند اشخاص کے سوا سب شیطان کے پیرو ہوجاتے فَلَوْلا فَضْلُ اللَّهِ عَلَیکُمْ وَ رَحْمَتُهُ لَکُنْتُمْ مِنَ الْخَاسِرِین ‌ اگر اللہ کا فضل اوراس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو تم گھاٹے میں ہوتے۔
جیسا کہ ہم پہلی آیت میں مشاہدہ کر رہے ہیں کہ خدائے عزوجل فرماتا ہے: اگر خدا کا فضل و رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو تھوڑے لوگوں کے سوا سب شیطان کی پیروی کرتے اور ہم یہ جانتے ہیں کہ شیطان کی پیروی مترادف ہے ضلالت و گمراہی اور غضب الہٰی کے جبکہ اس کی بندوں کیلئے توفیق و عنایت کی وجہ سے بندوں کو ہدایت عطا ہوتی ہے۔ یَهْدی مَنْ یَشاءُ اِلی صِراطٍ مُسْتَقیمٍ؛ ‌ یعنی (خداوند) جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی طرف ہدایت کرتا ہے؛ اس طور کہ قرآن میں فرماتا ہے: وَ لا تَتَّبِعُوا خُطُواتِ الشَّیْطانِ اِنَّهُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُبینٌ ‌ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور دوسری آیت میں فرماتا ہے: اگر خدا کا اپنے بندوں پر فضل نہ ہوتا اور وہ ان کی ہدایت نہ کرتا تو وہ شیطان کی پیروی کرتے اور اللہ کا ان پر غضب ہوتا اور وہ دوزخ کے مستحق ہو جاتے یوں ان کا شمار خسارہ اٹھانے والوں میں ہوتا؛ جیسا کہ ارشاد ہے: ان الانسان لفی خسر؛ ‌ یعنی بے شک انسان خسارے میں ہے۔ پس اللہ کا اپنے بندوں پر فضل وہی صراط مستقیم کی ہدایت ہے؛ وہ ہدایت کہ جس کی وجہ سے اللہ کی رحمت و بخشش کے دروازے بندوں کیلئے کھل جاتے ہیں اور ہم بھی آج کے دن خدا سے عرض کرتے ہیں کہ اپنے فضل و رحمت کے دروازے ہمارے اوپر کھول دے۔
مادی برکات میں وہ تمام نعمتیں شامل ہیں کہ جن سے انسان اپنی زندگی کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ جیسے (پانی ، میوہ جات، سبزی جات وغیرہ) اور معنوی برکات میں وہ نعمتیں شامل ہیں کہ جن سے انسان اللہ کے قرب کیلئے استفادہ کرتا ہے۔ جیسے توبہ ، استغفار، ذکر، دعا اور ...) ہم بھی آج کے دن خدا سے دعا کرتے ہیں کہ اپنی برکات کو ہمارے لیے نازل فرمائے!

مادی و معنوی برکات

[ترمیم]

و انزل علی فیه برکاتک؛ آج کے دن مجھ پر اپنی برکات نازل فرما۔
دعا کے آغاز میں ہم خدا سے یہ عرض کر رہے ہیں کہ اپنے فضل و رحمت کے دروازے ہم پر کھول دے کیونکہ اسی صورت میں اس کی برکات و رحمات بندوں پر نازل ہوتی ہیں۔ اگر ہم ان برکات کی طرف اشارہ کرنا چاہیں تو انہیں دو گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
۱۔ مادی برکات؛
۲۔ معنوی برکات؛
مادی برکات میں تمام وہ نعمتیں شامل ہیں کہ جن سے انسان ضروریات زندگی کے عنوان سے استفادہ کرتا ہے جیسے (پانی، میوہ جات، سبزی جات وغیرہ) (آب، میوه جات، سبزیجات و...) اور معنوی برکات میں وہ نعمتیں شامل ہیں کہ جن سے انسان اللہ تعالیٰ کے قرب کیلئے استفادہ کرتا ہے جیسے (توبہ، استغفار، ذکر، دعا و ۔۔۔ ) ہم بھی آج کے دن یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی برکات کو ہمارے اوپر نازل فرمائے ۔۔۔ ۔

رضایتِ الہٰی کے اسباب

[ترمیم]

وَ وَفِّقْنِی فِیهِ لِمُوجِبَاتِ مَرْضَاتِکَ
خدایا! مجھے ان امور کی توفیق دے جن کے ذریعے تیری رضا حاصل کر سکوں، میں اہل دعا بنوں، دوسروں کے کام آؤں اور ایسے کام کروں کہ خدا مجھ سے راضی ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: ‌اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَاِنِّی قَرِیبٌ اُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ... ‌ یعنی جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کرتے ہیں تو انہیں کہو کہ میں ان کے نزدیک ہوں اور قبول کرتا ہوں ان کی دعا کو جو مجھے پکاریں اور مجھ سے درخواست کریں۔ پس ہم بھی آج کے دن خدا سے یہ دعا کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے غضب سے دور فرمائے اور بہشت برین میں داخل فرمائے!
آیات و روایات کے پیش نظر خدا کی رضایت اس میں ہے کہ بندہ مومن خدا و رسول کے احکام کی اطاعت کرے اور ان کی انجام دہی میں کوتاہی نہ کرے: وَ اَطیعوالله وَ الرَّسول لَعَلَّکُم تُرحَمون؛ ‌ یعنی خدا و رسول کے حکم کی اطاعت کرو تاکہ اللہ کا لطف و رحمت تمہارے شامل حال ہو۔ بالفاظ جامع واجبات کی انجام دہی اور محرمات کا ترک اللہ کی اپنے بندوں سے رضایت کے اسباب کو فراہم کرتا ہے؛ تاکہ وہ (رَضِيَ ٱللَّهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُواْ عَنۡهُۚ ذَٰلِكَ ٱلۡفَوۡزُ ٱلۡعَظِيمُ) ‌ ’’خدا ان سے خوش ہے اور وہ خدا سے خوش ہیں یہ بڑی کامیابی ہے‘‘ کے مقام پر فائز ہوں اور ہم بھی آج کے دن خدا سے دعا کر رہے ہیں کہ ہمیں اس رضا و خوشنودی تک رسائی کی توفیق دے۔

بہشت کے مرکز میں سکونت

[ترمیم]

وَ اَسْکِنِّی فِیهِ بُحْبُوحَاتِ جَنَّاتِکَ
خدایا! مجھے بہشت کے وسط میں سکونت دے، شاید بہشت کا وسط اولیائے الہٰی کی جائے سکونت ہے اور ہم بھی دعا کر رہے ہیں کہ ہمیں بھی وہاں جگہ ملے!
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَاِنِّی قَرِیبٌ اُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ...؛ ‌ یعنی جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کرتے ہیں تو کہہ دو کہ میں ان کے نزدیک ہوں اور ان کی دعا قبول کرتا ہوں جو مجھے پکارتے ہیں اور مجھ سے درخواست کرتے ہیں۔
پس ہم بھی آج کے دن خدا سے عرض کر رہے ہیں کہ ہمیں اپنے غیض و غضب سے دور فرمائے اور اپنی بہشتِ برین میں داخل کرے جو اس کی رضایت کا سرچشمہ ہے۔
یَا مُجِیبَ دَعْوَةِ الْمُضْطَرِّین
‌اے خدا جو مضطرین کی دعا کو قبول کرتا ہے، آج کی دعائیں میرے حق میں قبول فرما!

متعلقہ عناوین

[ترمیم]

یکم رمضان کی دعادو رمضان کی دعاتین رمضان کی دعاچار رمضان کی دعاپانچ رمضان کی دعاچھ رمضان کی دعاسات رمضان کی دعاآٹھ رمضان کی دعانو رمضان کی دعادس رمضان کی دعابارہ رمضان کی دعاتیرہ رمضان کی دعاچودہ رمضان کی دعاپندرہ رمضان کی دعاسولہ رمضان کی دعاسترہ رمضان کی دعااٹھارہ رمضان کی دعاانیس رمضان کی دعابیس رمضان کی دعااکیس رمضان کی دعابائیس رمضان کی دعاتئیس رمضان کی دعاچوبیس رمضان کی دعاپچیس رمضان کی دعاچھبیس رمضان کی دعاستائیس رمضان کی دعااٹھائیس رمضان کی دعاانتیس رمضان کی دعاتیس رمضان کی دعا

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. قمی، عباس، مفاتیح الجنان، ص۳۲۱۔    
۲. ابن طاوس، علی بن موسی، اقبال الاعمال، ص۲۰۶۔    
۳. مازندرانی، ملاصالح، شرح اصول کافی، ج۱۰، ص۲۱۵۔    
۴. نساء/سوره۴، آیه۸۳۔    
۵. بقره/سوره۲، آیه۶۴۔    
۶. یونس/سوره۱۰، آیه۲۵۔    
۷. بقره/سوره۲، آیه۱۶۸۔    
۸. عصر/سوره۱۰۳، آیه۲۔    
۹. بقره/سوره۲، آیه۱۸۶۔    
۱۰. آل عمران/سوره۳، آیه۱۳۲۔    
۱۱. مائده/سوره۵، آیه۱۱۹۔    
۱۲. بقره/سوره۲، آیه۱۸۶۔    


ماخذ

[ترمیم]

سایت تبیان، ماخوذ از مقالہ «شرح دعای روز بیست و دوم ماه رمضان»، تاریخ نظرثانی ۱۳۹۵/۱۰/۲۹۔    






جعبه ابزار